آئینی طور سے جمہوری بھارت کو جس طرح مختلف طریقوں سے تانا شاہی اور برہمن وادی ہندو عزائم کے سہارے، غیر اعلانیہ طریقے سے ہندو راشٹر کی طرف لے جانے کی کوششیں اور سرگرمیاں زوروں پر ہیں وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہیں، آئین ہند کو سر ماتھے سے لگاتے ہوئے اس کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اس کا نام بھی اپنے فائدے کے حساب سے خوب استعمال کیا جا رہا ہے، لیکن عملی طور پر سنودھان سے زیادہ سینگول(راج دنڈ )کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
آزاد بھارت میں جمہوری نظام حکومت میں شہریوں کی آزادی کے تحفظ و بقا کے بجائے ان کو پابہ زنجیر کرنے پر از حد توجہ دی جاتی ہے۔ اس کے پیش نظر مختلف قسم کے قوانین کی توضیع کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ یہ
آرایس ایس اور اس کی پروردہ اور تشکیل کردہ پارٹیوں اور ذیلی معاون تنظیموں کے لیے موافق و مفید ہے۔سنگھی آئیڈیا لوجی سے وابستہ اور خاص ذہن کے حامل لوک سبھا کے چیرمین اور راجیہ سبھا کے اسپیکر کو ہندوتو وادی نظریے پر مبنی باتوں اور ایوان میں جے ہندو راشٹر کے نعرے سے کوئی زیادہ دقت اور پریشانی لاحق نہیں ہوتی ہے، لیکن وہ جے سنودھان کے نعرے سے دقت محسوس کرتے ہیں۔ حکمراں طبقے اور اپوزیشن کی طرف دیکھتے ہوئے ان کے چہرے کے رنگ سے بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور دل و دماغ کس طرف ہے۔ برلا اور دھنکڑ کی آر ایس ایس سے وابستگی کوئی راز نہیں ہے، اس کو نظرانداز
کرکے اپوزیشن پارٹیوں کے لیے ملک و قوم کے متعلق پالیسیوں پر کوئی بھی رائے قائم کرنا کبھی بھی نتیجہ خیز نہیں ہو گا، ہم نے اوم برلا کو آر ایس ایس کے مخصوص لباس میں بھی دیکھا ہے، لیکن فرقہ پرستی اور آئین ہند سے متعلق تاریخی و روایتی نظریہ و نقطۂ نظر پر پردہ ڈالنے کے مقصد سے ان کے تعارف نامہ سے آر ایس ایس سے رشتے اور رام مندر تحریک سے وابستگی کے نتیجے میں جیل جانے کی باتوں کو کچھ دنوں پہلے ہٹا دیا گیا ،ان امور کے پیش نظر اوم برلا کے لوک سبھا اسپیکر بنائے جانے کے پس پشت کار فرما مقاصد میں سے ایک اہم مقصد، سیکولر جمہوری بھارت کو ہندو راشٹر میں ،نظریاتی و عملی طور سے بدلنا بھی ہے، اس لیے غیر آئینی جے ہندو راشٹر کے نعرے پر ان کی طرف سے کوئی خاص ردعمل بھی سامنے نہیں آیا۔
حیرت کی بات ہے کہ گانگریس سمیت دیگر سیکولر پارٹیاں، اوم برلا کے منظر پس منظر کو نظرانداز کر کے غیر ضروری خوش فہمیوں میں مبتلا ہو کر پتا نہیں کہاں پہنچنا چاہتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ راہل گاندھی، تجسوی یادو، چندر شیکھر آزاد وغیرہم جیسے لیڈر آر ایس ایس کے متعلق بالکل واضح موقف رکھتے ہیں لیکن اپوزیشن پارٹیوں کے دیگر بہت سے لیڈر ہندوتو اور آر ایس ایس کے سلسلے میں تذبذب کا شکار ہیں، اس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
ملک کے سیکولر اور جمہوری کردار اور آئین کی بالادستی اور اس کے مدنظر وضع کردہ پالیسیوں پر عمل درآمد اور ان پر بحث و گفتگو کے دوران میں لوک سبھا، راجیہ سبھا کے اسپیکر اور نریندر مودی کے نصب العین کو سامنے رکھتے ہوئے ہی اصل حقائق تک رسائی ہو سکتی ہے۔ اوم برلا کے سابقہ اور اصل لوک سبھا کے پروفائل سے آر ایس ایس اور رام مندر تحریک سے وابستگی اور تعلقات پر پردہ ڈالنے کا مقصد بہت گہرا اور کئی اہم باتوں کی طرف اشارے کرتا ہے۔ ان اشاروں کی ان دیکھی کوئی دانش مندی اور سمجھ داری نہیں ہے۔ اتر پردیش کے گوری گنج حلقہ انتخاب سے منتخب سماج وادی پارٹی کے آر کے چودھری نے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کو مکتوب لکھ کر ان کے پیچھے، دائیں طرف لگے سینگول(راج دنڈ )کو ہٹا کر اس کی جگہ آئین کی بڑے سائز کی کتاب لگانے کی وکالت و مطالبہ کیا ہے۔ اسپیکر کی نظریاتی وفاداری اور وابستگی کو دیکھتے ہوئے مطالبے پر توجہ کی امید معشوق کی موہوم کمر والی بات لگتی ہے، لیکن اتمام حجت کے لیے یہ مطالبہ بروقت معلوم ہوتا ہے۔ جو لوگ آر ایس ایس کی تاریخ اور نظریات و روایات سے تھوڑی بھی واقفیت رکھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کے نزدیک راج شاہی اور ہندو پدپادشاہی، جمہوریت اور عوامی جمہوری نظام حکومت پر حاوی و غالب ہے۔ یہی معاملہ، گاندھی جی کی جگہ پر لائے جانے والے ونائک دامودر ساورکر کا بھی ہے۔ مودی جی نے پارلیمنٹ کے اپنے حالیہ خطاب میں بھی راہل گاندھی پر تنقید کرتے ہوئے ساورکر کا ذکر بہ طور عظیم شخصیت کے کیا ہے۔ کڑی سے کڑی ملانے پر کئی چیزیں سامنے آتی ہیں۔ راج شاہی، ہندو راشٹر اور ہندو پد پادشاہی کے سلسلے میں ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس کا موقف و نظریہ یکساں ہے۔ ساورکر، سنگھ کے بانی ڈاکٹر ہیڈ گیوار، مادھو سدا شیو گرو گولوالکر اور ان سب کے گرو ڈاکٹر بی کے(بال کرشن ) مونجے، شیوا جی کی طرف منسوب کر کے ہندو پدپادشاہی کے قیام کو اپنی تحریک کا مقصد اور نصب العین قرار دیتے رہے ہیں۔ اسی تناظر میں سینگول کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ موجودہ شکل کا سینگول جنوبی ہند کے ہندو چول راجاؤں کے انتقال اقتدار اور راج دنڈ کی علامت و روایت کا حصہ ہے، نہ کہ کسی جمہوری اور لوک شاہی نظام حکومت کی علامت و شناخت۔ آر کے چودھری نے سینگول بنام سنودھان کے تناظر میں بہت اہم سوالات اٹھائے ہیں،لیکن بہت سے دلت، آدی واسی اور او بی سی لیڈر بھی اپنے سیاسی فائدے اور بی جے پی کے بیانیے کا متبادل پیش کرنے کی صلاحیت و جرآت کے فقدان اور نظریاتی بحران کی وجہ سے جمہوریت، سیکولرازم، اور آئین کی معنویت و اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے وہ سینگول بنام سنودھان کے معاملے کو سماج وادی پارٹی اور دیگر انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیوں کا معاملہ سمجھتے ہوئے آر ایس ایس اور بی جے پی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر ،اپنا سیاسی وزن بنائے رکھنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی کے دیگر لیڈر سینگول کو جنوبی ہند کے وقار و عظمت اور شناخت اور ہندستانی تہذیب سے جوڑ کر پیش کرنے کی کوششیں کرتے ہوئے زیر بحث مسئلے کو ایک الگ رنگ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں سنگھ، بی جے پی اور دیگر ہندوتو وادی عناصر کے نقطۂ نظر کے پس پشت کار فرما مقاصد کو سمجھنا بہت زیادہ مشکل نہیں ہے۔ لیکن دلت، آدی واسی، او بی سی لیڈروں کی، سینگول کی حمایت اور انڈیا اتحاد میں شامل سماج وادی پارٹی کے لیڈر کے موقف کے بر عکس باتیں بالکل ناقابل فہم اور نظریاتی لحاظ سے حد درجہ موقع پرستی پر مبنی نظر آتی ہی۔بہوجن سماج پارٹی کی سپریمو نے لگتا ہے کہ سیاسی فوائد کے لیے اصول و نظریہ کو تقریبا تیاگ دیا ہے۔ گزرتے دنوں کے ساتھ ان کے نزدیک سماجی انصاف و مساوات اور برہمن واد سے مزاحمت کے اصول کا کوئی زیادہ معنی و مطلب نہیں رہ گیا ہے۔ دلت لیڈر،چندر شیکھر آزاد جو کہ اب ممبر آف پارلیمنٹ ہیں اور وہ اپنی پارٹی کے حوالے سے اصول و نظریہ سے سمجھوتا نہ کرتے ہوئے جد وجہد کرنے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں لیکن حتمی طور سے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ دلتوں اور اقلیتوں کی امیدوں پر کھرا اترتے ہوئے اپنی جد وجہد کو کس حد تک موثر کامیابی تک لے جا سکیں گے؟
دلت تحریکات میں بھٹکاؤ کا راستہ، ان کے لیڈروں میں باہمی تفوق کی بے پناہ خواہشات اور سیاسی امنگوں کا جنون ایک مسئلہ ہے ورنہ اصولی طور سے سماجی انصاف و مساوات اور سیاسی طور سے آبادی کے مطابق حصہ داری وغیرہ کو لے کر کوئی زیادہ اختلافات نظر نہیں آتے ہیں۔ سینگول بنام سنودھان کے معاملے میں بھی دونوں جہت سے اصولی باتوں کو بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ این ڈی اے سرکار میں شامل زیادہ تر دلت، آدی واسی اور او بی سی لیڈروں کی طرف سے ہی سینگول سے متعلق آر کے چودھری کے موقف کی تردید و تخفیف ہو رہی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ جیسے مبینہ سورن(اشراف ) تو چند ہی ہیں، دونوں طرف کی تائید و تنقید سے متعلق بیانات و تبصروں و تجزیوں سے جو حقائق سامنے آتے ہیں وہ بڑے دل چسپ اور قابل توجہ ہیں، وہ سیاست اور نظریاتی وابستگی کے حوالے سے کئی باتوں پر سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ راج شاہی اور ملوکیت پسند ہندوتو وادی عناصر، سینگول کی حمایت و تائید میں جو باتیں، سناتن، بھارتیہ سنسکرتی اور جنوبی ہند اور تمل تہذیب سے نتھی کر کے کہہ رہے ہیں وہ بذات خود ایک مخصوص طبقے کی راج شاہی، طرز حکومت اور ایک علاقے کی ایک حکمراں جماعت کی شناخت و علامت سے تعلق رکھتی ہیں، نہ کہ ملک کی عوامی جمہوری اور کسی مشترکہ علامت و نمائندگی سے۔ برہمن وادی تہذیب و روایت کو ہندستانی تہذیب و روایت قرار دے کر اس کے تحت ملک کے مختلف مذاہب و روایات والے باشندوں کو لانے کی کوشش، ایک مغالطہ انگیز، دیانت داری و ایمانداری سے عاری عمل ہے۔ برہمن وادی ہندو سنسکرتی اور ہندستانی سنسکرتی میں فرق کرنا ضروری ہے۔ ہندستانی تہذیب، ملک کے تمام باشندوں کی متفقہ و مشترکہ تہذیب و روایت ہی قرار پا سکتی ہے۔ البتہ ملک کے تمام مذاہب و روایات کو بھارت کی مختلف تہذیبی علامتوں کو اس کا حصہ قرار دیا جائے گا، لیکن کسی ایک مذہب، کمیونٹی کی تہذیب و روایت کو ملک کی واحد تہذیب قرار دے کر اسے بھارت کے شہریوں پر مسلط نہیں کیا جا سکتا ہے۔
بھارت میں کسی ایک واحد سنسکرتی ہونے کی بات قطعی غلط ،مفروضہ اور بے بنیاد ہے۔ نریندر مودی، سیکولر، جمہوری آئین کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اس کا حلف ضرور اٹھاتے ہیں لیکن ان کا طرز حکمرانی بالکل ایک تانا شاہ راجا کا ہے۔ وہ سنودھان سے زیادہ سینگول کے موافق ہیں۔ نئے پارلیمنٹ میں اس کی تنصیب، برہمن وادی ریتی رواج کے مطابق کی گئی ہے، اسے تمام اپوزیشن پارٹیوں کو درکنار کرتے ہوئے ایک مخصوص سوچ والی پارٹی اور شخصیت کی من مانی کے تحت نصب کیا گیا تھا، یہ ہندستانی کہاوت، نہ کھاتہ نہ بہی، جو راجا کہہ دے وہی سہی، کا اظہار ہے اور مودی جیسے حکمرانوں سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔
سینگول قدیم بھارت کی راج شاہی سے ہوتے ہوئے جنوبی ہند کے ہندو چول راجاؤں تک پہنچا اور وہاں سے اٹھا کر ایک مخصوص سوچ کے تحت ملک کی آزادی کے وقت 1947 میں انگریز وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کے ذریعے، وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو انتقال اقتدار کی علامت کے طور پر دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کا آئینی و جمہوری نظام حکومت کی علامت و شناخت سے کوئی خاص لینا دینا نہیں ہے۔ آئین ہند کے نفاذ کے ساتھ انتقال اقتدار کا سینگول سے کوئی تعلق نہیں رہ جاتا ہے۔ رامائن، مہا بھارت کی کہانی نگار، گاندھی جی کے سمدھی، جنوبی ہند کے سی راج گوپال اچاری نے انتقال اقتدار کی علامت کے طور پر ماؤنٹ بیٹن اور نہرو کو سینگول دینے لینے کا مشورہ دیا تھا، اس کے پیش نظر، ماؤنٹ بیٹن نے ہندو راجاؤں کے راج دنڈ سینگول ،نہرو کو دیا تھا۔ پنڈت نہرو نے سینگول، ماؤنٹ بیٹن کے ہاتھوں سے لے تو لیا تھا لیکن اسے پارلیمنٹ میں نہیں رکھا بلکہ اسے الہ آباد کے میوزیم میں رکھوا دیا تھا۔ ایسی حالت میں نئی پارلیمنٹ میں سینگول کو نصب کرنے کی تائید میں پنڈت جواہر لعل نہرو وغیرہ کا نام و حوالہ قطعی بے معنی اور بے میل ہے۔ نہرو نے سینگول کو تاریخ و روایت کا حصہ ہونے کے ناتے، یادگار کے طور پر میوزیم میں رکھوا دیا، سینگول کو تاریخ کا حصہ ہونے کے تناظر میں بنیادی طور پر غلط بھی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے لیکن یہ مخصوص ہندو راج دنڈ کی علامت اور طرز حکمرانی کا حصہ ہونے کے سبب اسے مشترکہ و متفقہ جمہوری نظام حکومت کی علامت، پارلیمنٹ میں تنصیب کرنے کا کوئی زیادہ مطلب نہیں ہے۔ پنڈت نہرو نے اسے بالکل صحیح جگہ میوزیم میں رکھوا کر ایک معقول کام کیا تھا، وہاں سے لا کر برہمن پروہتوں کے ذریعے، مخصوص ریتی رواج سے پارلیمنٹ میں نصب کرنے کے پس پشت کیا مقاصد و عزائم ہیں، ان کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ جہاں پنڈت نہرو کو جواب دیتے ہوئے ان کو ایک طرح سے غلط ٹھہرانے کی کوشش اور خود کو صحیح باور کرانے کا عمل ہے تو وہیں ایک جمہوری نظام حکومت پر راج شاہی اور ہندو پدپادشاہی کو حاوی و غالب کرنے کی کوشش بھی ہے۔ مودی کے قریبی اور آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کی آئیڈیا لوجی سے وابستہ اوم برلا کو لوک سبھا اسپیکر بنانے اور ان کی نگرانی و نظام کار میں یہ سب منصوبہ بند طریقے پر شروع ہو کرانجام پا رہا ہے۔ تاہم اب بدلے ہوئے حالات میں، اپوزیشن پارٹیوں کی پہلے سے بہتر و مضبوط پوزیشن میں ہونے کے سبب، ہندوتو کی توسیع کی راہ میں کچھ رکاوٹیں بھی کھڑی ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ اسی کے ذیل میں سینگول کو پارلیمنٹ سے ہٹا کر اس کی جگہ متفقہ و مشترکہ آئین کی بڑی کتاب رکھنے کا مطالبہ بھی ہے۔
سینگول کے اوپر کے حصے میں شیو کے خادم و محافظ نندی بیل کی تصویر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک مخصوص مذہبی طبقے کی علامت اور جذبہ بندگی کا حصہ ہے۔ اسے ملک کے تمام باشندوں کی تہذیب اور نظریہ بندگی کا حصہ و نمائندہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے دلتوں کو 22/ پرتگیہ ( عہد )کے تحت عہد لیتے ہوئے تری مورتی، برہما، وشنو، مہیش کو تیاگ دینے کے لیے کہا تھا، جب مہیش(شیو ) کو تیاگ دینے کا عہد کیا گیا تو اس کے خادم و محافظ نندی بیل کو ملک کے تمام باشندوں کی نمائندگی کی جگہ، پارلیمنٹ کی نمایاں جگہ پر اس کی تصویر والے سینگول کو رکھنے کی بات زیادہ بامعنی نہیں رہ جاتی ہے۔ سیکولر، جمہوری ملک بھارت کی پارلیمنٹ میں اس طرح کی تصویر والے، راج دنڈ سینگول کو رکھنے کا معاملہ بالکل ناقابل فہم ہے۔ پارلیمنٹ کے گائیڈ بک میں یہ وضاحت ہے کہ پارلیمنٹ میں کسی تصویر، مجسمہ، مذہبی پرتیک(علامت ) کی نمائش نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس کے پیش نظر سینگول کی حمایت و تائید کی دلیل میں زیادہ دم نظر نہیں آتا ہے۔ ایک طرف یوگی آدتیہ ناتھ، کھاگین مرمو، مہیش جیٹھ ملانی، جینت چودھری، جیتن رام مانجھی، چراغ پاسوان، روی کشن، انو پریا پٹیل وغیرہ اپنے اپنے طریقے اور باتوں سے اپوزیشن، خاص طور سے سماج وادی پارٹی اور اس کے رکن ایوان آر کے چودھری کے موقف کو کمزور بتا کر اپنی طرف متوجہ کرنے اور سیاسی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری طرف رینکا چودھری(کانگریس )میسا بھارتی، (راشٹریہ جنتا دل )الان گوون(ڈی ایم، کے ) وغیرہ نے سماج وادی پارٹی اور اس کے لیڈر آر کے چودھری کے موقف کی حمایت و تائید کی ہے۔ این ڈی اے سرکار میں شامل دلت، آدی واسی، او بی سی کے لیڈروں نے جہاں سینگول کو پارلیمنٹ سے ہٹانے کے مطالبہ کو غیر ضروری قرار دیا ہے تو وہیں بی جے پی کے لیڈروں نے مطالبہ کو بھارتیہ سنسکرتی، تمل تہذیب کی توہین و تخفیف اور قومی شناخت کا انکار قرار دے کر معاملے کو ہندو اکثریتی سماج کے ایک مخصوص طبقے میں اپوزیشن پارٹیوں کو مبغوض و مردود بنانے کی کوشش بھی کی ہے۔ جب کہ اپوزیشن پارٹیوں کے مذکورہ لیڈر آر کے چودھری کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے سینگول کو جمہوریت کے برخلاف راج دنڈ، غیر جمہوری نظام حکومت کی علامت قرار دے کر اسے پارلیمنٹ کے بجائے، میوزیم میں رکھوا دینے کی بات کر رہے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کی دلیل میں دم نظر آتا ہے جب کہ بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کے لیڈروں کی ساری باتیں مغالطہ انگیز اور غلط بیانی پر مبنی ہیں، مثلا انو پریا پٹیل کی یہ بات کہ جب سینگول پارلیمنٹ میں نصب کیا جا رہا تھا تو سماج وادی پارٹی کہاں تھی ؟ یہ سوال زیادہ وزن دار نہیں ہے، کیوں کہ سینگول کی تنصیب سے سماج وادی پارٹی نے اتفاق نہیں کیا تھا۔ مزید یہ کہ سینگول کی تنصیب، تمام اپوزیشن پارٹیوں کو نظرانداز کر کے مودی، بی جے پی لیڈروں کی من مانی سے کی تھی۔ یہی معاملہ ڈی ایم کے پارٹی کا ہے، اس نے بھی سینگول کو راج دنڈ اور راج شاہی کی علامت، جمہوریت کے مخالف قرار دے کر اسے نصب کئے جانے کی مخالفت کی تھی۔ اب جب کہ پھر بی جے پی نے ڈی ایم کے کو گھیرنے اور جنوبی ہند ،تمل ناڈو وغیرہ میں پارٹی کی توسیع اور جگہ بنانے کے لیے یہ سوال اٹھایا کہ کیا ڈی ایم کے پارلیمنٹ میں سینگول کی تنصیب کے خلاف ہے۔ یہ سوال کانگریس، سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل اور شیو سینا وغیرہ کے موقف کے ساتھ ہے۔ آیا یہ مطالبہ ٹھیک ہے کہ یہ تمل تہذیب کی توہین ہے۔ چونکہ سینگول تمل ناڈو سے ہی لایا گیا تھا، اس لئے بی جے پی کو یقین تھا کہ وہ انڈیا اتحاد اور اس میں شامل ڈی ایم کے کو بآسانی گھیر لے گی لیکن اسے اپنی تیار حکمت عملی کے مطابق جاری کوشش میں پوری طرح ناکامی ہوئی، پہلے کی طرح اب بھی بی جے پی کو ڈی ایم کے کا ساتھ نہیں ملا، اس نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ سینگول کو پارلیمنٹ سے ہٹا دینا چاہیے ،اس کے لیڈر ٹی کے، ایس الان گوون نے سماج وادی پارٹی کے لیڈر آر کے چودھری کی تائید کرتے ہوئے کہہ دیا کہ جیسا چودھری نے کہا ہے کہ سینگول راج شاہی کی علامت ہے، اسے راجا لوک استعمال کرتے تھے۔ ایک جمہوری ملک میں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ برٹش حکمراں کے ذریعے جواہر لعل نہرو کو تحفے کے طور پر دیا گیا تھا، اس کی صحیح جگہ میوزیم میں ہی ہے۔
ڈی ایم کے کے اس واضح جواب نے بی جے پی کا بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا ہے۔ ساتھ ہی این ڈی اے میں شامل دلت، آدی واسی اور او بی سی لیڈروں کی نظریاتی وابستگی کو بھی اچھی طرح اجاگر کر دیا ہے۔ حالات کے تناظر میں اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ تذبذب سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہندوتو سے متاثر افراد کا ووٹ پانے کی کوشش بے فائدہ ہے، سینگول سے کئی طرح کے جو سگنل مل رہے ہیں ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے، قدرت کی طرف سے ملے وقت نے متنازع سینگول کی جگہ، متفقہ و مشترکہ سنودھان کو موثر طریقے سے رکھنے کا ایک بہتر موقع فراہم کیا ہے، اس سے ملک و قوم کے حق میں استعمال کرنا ہی دانش مندی کا تقاضا ہے۔
•••
عبدالحمید نعمانی