ریختہ کی کاوشیں

فروغِ اردو میں معاون یا زوالِ اردو کا سبب؟

سہیل انجم
جون 2024

کہا جاتا ہے کہ جو لوگ خود کوئی کام نہیں کرتے وہ ایک کام خوب کرتے ہیں۔ یعنی وہ دوسروں کے کاموں پر جی جان سے تنقید کرتے اور ان میں کیڑے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کام کرنے والے ان تنقیدوں اور عیب جوئیوں کی پروا نہیں کرتے، وہ اپنے مشن میں مصروف رہتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال غیر مسلم ملکیت والے اردو کے ایک ادارے ’’ریختہ فاؤنڈیشن‘‘ کے ساتھ بھی ہے۔ اس نے گذشتہ سال دسمبر میں دہلی کے میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں جشن اردو کا اہتمام کیا تھا،جس میں ٹکٹ کے باوجود لاکھوں افراد نے شرکت کی،جن میں اکثریت نوجوانوں اور غیر اردو داں طبقے کی رہی۔ ادھر گذشتہ کچھ برسوں سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کچھ لوگ اس کے جشن میں اردو بینروں کی غیر موجودگی کا معاملہ زور شور سے اٹھاتے اور اس حوالے سے ریختہ پر الزامات کی بارش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ تو اس میں اردو کے خلاف سازش کا پہلو بھی ڈھونڈ لیتے اور ریختہ کے بانی سنجیو صراف کو اردو دشمن تک بتا دیتے ہیں۔ حالاں کہ ان میں سے کچھ لوگ اس کا بالواسطہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ریختہ نے ہزاروں اردو کتابوں کو دیو ناگری میں منتقل کرکے اردو شاعری اور ادب کو غیر اردو داں حلقوں تک پہنچا یا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے خیال میں اس سے اردو کے بجائے ہندی کا فروغ ہو رہا ہے۔ حالاں کہ ریختہ کی ویب سائٹ پر اردو سکھانے کا پروگرام ’’آموزش‘‘ بھی متوازی طور پر چل رہا ہے، جہاں لاکھوں افراد اردو سیکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی ویب سائٹ پر ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جو اردو کے فروغ کا ذریعہ ہیں اور مخالفین سمیت نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کے اہل اردو ان سے استفادہ کر رہے ہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ ریختہ کی جانب سے کیا کیا پروگرام چلائے جا رہے ہیں اور جو چلائے جا رہے ہیں وہ فروغ اردو کا ذریعہ بن رہے ہیں یا اردو اور بالخصوص اس کے ر سم الحظ کو نقصان پہنچانے کا۔ ریختہ فاونڈیشن کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق اس کا افتتاح جنوری 2013 میں انڈیا ہیبی ٹیٹ سینٹر، نئی دہلی میں ہوا تھا جس میں دہلی کی مؤقر ادبی و سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔ اجرا کے وقت ریختہ نے تقریباً ساڑھے تین سو شاعروں کی غزلوں اور 11 کتابوں کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ مگر اب تقریباً 5ہزار شاعروں کی 50ہزارغزلیں اور10ہزارنظمیں دستیاب ہیں۔اس کے علاوہ دوسری اصناف پر مشتمل شاعری بھی فراہم کی گئی ہے۔ نثری میدان معروف ادیبوں کی تقریباً 3ہزار کہانیوں اور دیگر مصنفین کے مضامین کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ ریختہ پر معیار کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور شعری متن اور کتابوں کو شامل کرنے کے لیے انتخاب کے سخت مرحلے سے گزارا جاتا ہے۔ جن کتابوں کی ادبی اہمیت مسلم ہے اور جو اردو ادب کے طلبہ کے لیے مفید اور کارآمد ہوسکتی ہے انھیں ضرور شامل کیا جاتا ہے۔

اس کا ایک شعبہ ’’ای۔ کتاب‘‘ کا ہے۔اس حصے میں ان کتابوں کو ترجیح دی جاتی ہے جو کاپی رائٹ ضابطوں کے دائرے سے باہر ہیں۔ جن مصنفین کی کتابیں اس انتخاب میں آتی ہیں ان کی تحریری اجازت حاصل کرکے کتابیں اپلوڈ کی جاتی ہیں۔ریختہ کو اپنے معیار کے ہی سبب اردو کے صف اول کے لکھنے والوں کا تعاون حاصل ہواہے جن میں انتظار حسین،ساقی فاروقی، ظفر اقبال،احمد مشتاق، فہمیدہ ریاض، کشورناہید،گوپی چند نارنگ،شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی وغیرہ شامل ہیں۔ویب سائٹ پر کتابوں کو پڑھنے کے لیے آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ریختہ نے ہر کتاب کے مشمولات کی فہرست الگ سے فراہم کردی ہے جن میں سے کسی بھی عنوان پر کلک کرکے براہ راست متعلقہ صفحے تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اس نے ہزاروں اردو رسالوں اور کتابوں کی فہرست کو یونیکوڈ میں تبدیل کیا ہے تاکہ جو مضمون مطلوب ہو، اس کی رسائی اردو طلبہ تک آسانی سے ہو جائے۔

ریختہ نے غزلوں اور نظموں کو اردو کے ساتھ رومن اور دیوناگری رسم الخط میں فراہم کرنے کے علاوہ شعرا کے کلام کو اردو شاعری کے شائقین تک پہنچانے کے لیے ان کی آڈیو ریکارڈنگ بھی پیش کی ہے تاکہ اردو رسم الخط اور زبان و آہنگ سے ناواقف لوگ تلفظ اور لہجے سے بھی واقف ہوسکیں۔ (دراصل معترضین کو اسی پر اعتراض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ریختہ اردو رسم الخط کو ختم کر رہا ہے اور دیو ناگری رسم الخط کو فروغ دے رہا ہے۔ لیکن ایک بڑا طبقہ اس اعتراض کے بے بنیاد مانتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اردو کے ادبی سرمائے کو دوسرے رسم الخط میں متعارف کرانے سے اردو کا ہی بھلا ہوگا۔ کیوں کہ دوسری زبانوں کے جاننے والے اردو کے ادبی سرمایے سے واقف ہو سکیں گے)۔

ریختہ پر شاعری سے دل چسپی رکھنے والے دو بڑے حلقوں کو نظر میں رکھتے ہوئے منتخب اور مقبول شاعری کے گوشے ترتیب دئیے گئے ہیں۔ایک گوشہ منتخب شاعری کا ہے جس میں قاری اعلیٰ معیاری سطح کی شاعری پڑھ سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے کہ اردو کی روایت کس طرح پروان چڑھی اور اب تک اس نے فن اور تخلیق کے کیا کیا مرحلے طے کیے ہیں۔ تین سوسالہ تہذیبی تاریخ کے دوران اردو زبان کا یہ معیاری سفر اس گوشے کی مدد سے بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے اور اس پر تبادلۂ خیال بھی کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح مقبول شاعری کے گوشے میں ان لوگوں کے لیے مواد اکٹھا کردیا گیا ہے جو ہلکی پھلکی اور آسان شاعری پڑھنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے حسرت موہانی، فیض احمد فیض، جون ایلیا، احمد فراز اور پروین شاکروغیرہ شعرا کاایسا کلام پیش کیا جاتا جو نسبتاً آسان ہو اور جسے پڑھ کر زیادہ تہہ دار اور پیچیدہ شاعری کی طرف قدم بڑھائے جا سکیں۔یہ کلام پڑھنے کے بعد قاری اردو زبان اور ادب دونوں کی تلاش میں رسم الخط کی جانب بھی مائل ہو سکتا ہے۔ ریختہ نے سعادت حسن منٹو کی تمام تر تحریریں بھی آن لائن کردی ہیں۔ پریم چند، قرۃ العین حیدر، خواجہ احمد عباس، غلام عباس، احمد ندیم قاسمی، عصمت چغتائی، انتطار حسین، بیدی، کرشن چندر، بلراج مینرا، اور اسی طرح مختلف کہانی کاروں کی 2500 کہانیوں کو یونی کوڈ میں پیش کر دیا گیا ہے۔ اور اس سمت میں برابر کام جاری ہے۔ اسی طرح مضامین کے شعبہ میں روز افزوں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ریختہ کا ارادہ ہے کہ اردو ادب کے تعلق سے ایک ہزارمعروف و مشہور مضامین کو یونی کوڈ میں پیش کیا جائے تاکہ صارفین کو تلاش کرنے میں آسانی ہو۔

ریختہ کا یہ دعویٰ بالکل درست ہے کہ اردو میں ابھی تک کوئی ایسی ویب سائٹ موجود نہیں تھی جسے کمپیوٹر اسکرین کے ساتھ ساتھ آن لائن موبائل ایپلی کیشن کی طرح موبائل پر بھی بہ آسانی دیکھا جاسکے۔ریختہ نے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے اس مشکل کو آسان بنادیا ہے۔ اب ریختہ ویب سائٹ پر موجود کسی متن کو بہ آسانی موبائل پرکسی مشکل کے بغیر پڑھا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مشاعروں کے ویڈیو،ریختہ اسٹوڈیو میں کیے گئے اور یوٹیوب پر موجود ادیبوں، شاعروں کے انٹرویواور ویڈیو بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کے علاوہ ریختہ نے بہت سے شاعروں کی آوازوں کو یکجا کردیا ہے جنھیں اس ویب سائٹ پر ایک کلک کے ذریعے اورموبائل پر بھی آسانی سے سنا جاسکتا ہے۔

ریختہ نے ہندوستان اور پاکستان کے تقریباً 8ہزار اہم رسالوں کے 25ہزار شماروں کو آن لائن کردیا ہے جن میں پرانے اور نئے دونوں قسم کے جریدے شامل ہیں۔ نقوش، فنون، افکار، کے علاوہ ’سوغات‘بنگلور، ’شب خون‘ الہ آباد، ’شعور‘دہلی، ‘آج‘کراچی، ’عالمی اردو ادب‘دہلی اورممبئی سے شائع ہونے والا اشعر نجمی کا’اثبات‘ شامل ہیں۔

ریختہ نے اردوکتابوں کی الیکٹرانک شکل میں بھی پیش کیا ہے۔ ریختہ پرموجود ای-کتاب گوشہ اردو کتابوں کی ایک محدود تعداد کے ساتھ اس طرح شروع کیا گیا تھا کہ اردو کتابوں کا ایک چھوٹا موٹا آن لائن کتب خانہ تشکیل دے دیا جائے۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک زبردست مہم اور مشن کی صورت اختیار کرلی۔ اب ریختہ ویب سائٹ عالمی سطح پراردو ڈیجٹ کاری مشن میں مصروف ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بڑی پیش رفت انجمن ترقی اردو ہند کے ذمے داروں کی مدد سے ہوئی جنھوں نے اپنے مؤقر کتب خانے کے دروازے ریختہ پر کھول دیے۔ جس کے تحت اب تک اس کتب خانے کی تقریباً آٹھ ہزار کتابیں سائٹ پر اپ لوڈ کی جاچکی ہیں۔ اس کے علاوہ رضا لائبریری رام پور کی اردو کتابیں بھی ریختہ کو فراہم ہو چکی ہیں۔ خدا بخش لائبریری، دارالمصنفین اعظم گڑھ کے علاوہ ہندوستان کی 25 لائبریریوں اور ذاتی کلیکشن تک رسائی ہو چکی ہے۔ ممتاز نقاد شمس الرحمان فاروقی کے ذاتی کتب کا ادبی سرمایہ بھی ریختہ کو دستیاب ہوچکا ہے جس میں داستان امیر حمزہ کی46 جلدیں بھی شامل ہیں جو پہلی بار ریختہ پر آن لائن کی گئی ہیں۔ ممتاز نقاد مرحوم خلیل الرحمان اعظمی کے ذاتی کتب خانے تک بھی ریختہ کی رسائی ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بڑی پیش رفت راجہ محمودآباد کے قدیم اور مؤقر کتب خانے تک ریختہ کی رسائی ہے جہاں اردو ادب کے بہت سے جواہر پارے ڈیجٹ کاری کے ذریعے محفوظ کیے جا رہے ہیں۔

ریختہ کے مطابق اس کی نئی ریختہ ایپ عاشقان اردو کے لیے ایک اور تحفہ ہے۔ یہ ایپ ریختہ ویب سائٹ کی طرح اردو، دیوناگری اور رومن تینوں رسم الخط میں مواد فراہم کرتی ہے۔ مزید یہ کہ قرأت کی آسانی کے لیے تمام متون کے ساتھ لغت کے ذریعے کوئی بھی قاری کسی بھی لفظ کے معنی لفظ پر کلک کرے قرأت کے دوران ہی جان سکتا ہے۔ انبلٹ لغت کے علاوہ ’’ریختہ لغت‘‘ ریختہ ویب سائٹ اور ریختہ ایپ کا ایک اہم فیچر ہے۔ ریختہ کی کوشش رہی ہے کہ ایک ایسی لغت تیار کی جائے جو اردو الفاظ کے معنی اردو کے ساتھ ہندی اور انگلش تینوں زبانوں میں فراہم کرے۔

بہرحال کچھ لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ ریختہ اردو کو فروغ دینے کے بجائے ہندی کو فروغ دے رہا ہے۔ وہ اس کی جانب سے ہندی میں شعرا کے کلام کی اشاعت کو اس کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اردو میں مجموعے شائع نہیں کرتا۔ لگے ہاتھوں یہ شکایت بھی کی جاتی ہے کہ اس سے اردو رسم الخط کو نقصان پہنچ رہا اور یہ کہ پرائمری سطح پر اردو کی تدریس کا سلسلہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اردو تدریس کے انتظام یا اردو رسم الحظ کو بچانے کا ٹھیکہ ریختہ نے نہیں لیا ہے۔ اس کا جو کام ہے وہ اسے بخوبی کر رہا ہے۔ کیا یہ بات چھوٹی ہے کہ اس کے پلیٹ فارم سے اردو زبان ان لاکھوں لوگوں تک پہنچ رہی ہے جو اردو نہیں جانتے۔ وہ اسی بہانے اردو تہذیب کے قریب آرہے ہیں۔ جشن ریختہ میلہ ہی سہی ظاہر ہے لوگ کچھ نہ کچھ تو سنتے اور سیکھتے ہی ہوں گے۔ اردو کی ان اصناف کو بھی زندہ کیا جا رہا ہے جو تقریباً مر چکی تھیں۔

یاد رہے کہ لسانی ربط ضبط اور لین دین کا معاملہ ہمیشہ رہا ہے اور زندہ زبانیں دوسری زبانوں کے ادبی سرمائے کو اپنے اندر سمونے کا کام کرتی رہی ہیں۔ ادبی لین دین سے ایک دوسرے کے ادب کو پڑھنے اور دوسری زبانوں کے ادبی رویے کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ اگر ریختہ اردو ادب کو دیوناگری میں منتقل کر رہا ہے تو کوئی ایسا ادارہ کیوں نہیں قائم ہوتا جو ہندی اور انگریزی ادب کو اردو میں منتقل کرے۔ یہ اردو ادب کے مالامال اور مقبول ہونے کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے کہ آج لاکھوں کروڑوں افراد اسے پڑھنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک غیر اردو داں حلقوں میں اردو شاعری کی مقبولیت کی بات ہے تو یہ سلسلہ پہلے بھی چلتا رہا ہے۔ دہلی کے کئی ادارے پاکٹ بکس شائع کرتے رہے ہیں۔ جہاں سے اردو کے کلاسیکی شعرا کے شعری مجموعے ہندی میں شائع کرکے لاکھوں کی تعداد میں فروخت کیے جاتے تھے۔

کچھ دنوں قبل ہارورڈ کی اسکالر پورنما سوامی کو ہندوستان میں اردو سے انگریزی ترجموں کے لیے سالانہ دیے جانے والے ایوارڈ ’’جواد میموریل پرائز‘‘کا پہلا انعام دیا گیا ہے۔ یہ انعام پاکستان کی شاعرہ فہمیدہ ریاض کی نظم ’’فلسطین‘‘ کا انگریزی ترجمہ کرنے پر دیا گیا۔ دوسرے انعام کے لیے احمد ندیم قاسمی کی نظم ’’پابندی‘‘ کا ترجمہ کرنے پر محمد عاقب کو دیا گیا۔ پورنما سوامی ہندوستان کی ایک صحافی ہیں اور اس وقت ہارورڈ یونیورسٹی میں جنوب ایشیائی علوم کے شعبے میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ اس سے قبل پروفیسر خالد جاوید کو ان کے ناول ’’نعمت خانہ‘‘ کے انگریزی ترجمے پر جے سی بی ایورڈ دیا گیا تھا۔ مترجم باراں فاروقی کو بھی ایوارڈ دیا گیا۔

کچھ لوگوں کو شکایت ہے کہ ہندی والے اردو کے الفاظ کو اختیار کرکے ان کو اپنا کہنے لگتے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ ہمارا مال اچھا ہے لہٰذا لوگوں کو اسے اپنا کہنے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ ایسی شکایت کرنے والے دوسری زبانوں کے الفاظ کو کیوں نہیں اپناتے اور انھیں اپنا کیوں نہیں کہتے۔ جہاں تک اردو لکھنے پڑھنے کا معاملہ ہے تو کیا اہل اردو اس معاملے میں سنجیدہ ہیں؟ وہ اپنے گھروں میں اردو کا ماحول رائج کیے ہوئے ہیں؟ وہ اپنے بچوں کو اردو پڑھاتے ہیں؟ اردو کے اخبار اور رسائل و جرائد خریدتے ہیں؟ اسکول جانے والے اپنے بچوں کو اشیاء کے نام اردو میں بتاتے ہیں؟ یا پھر انھیں ہینڈ واش، فنش، شوز اور ڈاگی ہی سکھاتے ہیں۔

جہاں تک اردو کلام کو ہندی میں شائع کرنے کی بات ہے تو ہندی میں اردو شعرا کا کلام بڑی تعداد میں فروخت ہوتا ہے۔ جب کہ وہی کلام اردو میں شائع کیا جائے تو کوئی پوچھتا تک نہیں۔ صرف اردو پڑھنے والے طلبہ ہی کورس کی کتابیں خریدتے ہیں وہ بھی بہت کم۔ بیشتر لائبریریوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ جب کہ ہندی والے اردو شعرا کے کلام کو ہندی میں بڑی تعداد میں خریدتے ہیں۔ لہٰذا یہ ایک تجارتی معاملہ بھی ہے۔ یعنی ریختہ اگر ایک جانب ہندی میں اردو کلام فروخت کرکے منافع حاصل کر رہا ہے تو اسی بہانے وہ اردو شعرا کو غیر اردو داں حلقوں تک پہنچا بھی رہا ہے۔ جہاں تک اردو کی تدریس کا معاملہ ہے تو اس کا انتظام ہمیں خود کرنا چاہیے کیوں کہ ہماری زبان ہی نہیں تہذیب بھی اردو ہے۔ ہمارا بیشتر مذہبی سرمایہ بھی اردو میں منتقل ہو چکا ہے۔ اگر اس سرمائے کو تباہ ہونے سے بچانا ہے تو ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو اردو پڑھانے کا بند و بست کرنا چاہیے۔ لیکن ہم دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ بہرحال کام کرنے کے بجائے شکایت کرنے والوں کا رویہ دیکھ کر احمد فراز کا یہ شعر یاد آجاتا ہے:

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے