2024 کے لوک سبھا انتخابات کا مینڈیٹ بہت صاف اور واضح ہے۔ بی جے پی اپنے بل بوتے پر تنہا حکومت نہیں بنا سکے گی بلکہ اسے بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑے گا۔ یہ پارٹیاں اپنی شرطوں پر ہی حکومت کا حصہ بنیں گی۔ لہذا پالیسی سازی اوراہم فیصلوں میں انھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا۔ اب حکومت من مانے طریقے پر اپنے مخالفین اور ناقدین کے خلاف ایجنسیوں اور آئینی اداروں کا استعمال نہیں کرسکے گی۔
پارلیمنٹ میں ایک مضبوط اپوزیشن ہوگی اور تمام اہم بل اور فیصلے بغیر سیر حاصل بحث و تمحیص کے اور اپوزیشن کو نظر انداز کرکے نہیں کیے جاسکیں گے۔ ان انتخابی نتائج نے اپوزیشن پارٹیوں کی آواز کو قوت، حوصلوں کو جلا، عزائم کو تازگی اور عوام کی بھرپور تائید بھی عطا کی ہے۔
ان نتائج کا ایک واضح اشارہ یہ بھی ہے کہ ہندتوا، ہندو راشٹر، مسلم دشمنی اور رام مندر کے نام پر زیادہ دنوں تک ملک کی عوام کو بے وقوف نہیں بنایا جاسکے گا۔ راجستھان کے بانسواڑہ کی الیکشن ریلی میں وزیر اعظم نے مسلمانوں کو گھس پیٹھیا اور زیادہ بچے پیدا کرنے والا تک کہہ دیا تھا لیکن وہان سے بی جے پی کا امیدوار بری طرح ہارگیا۔ ایودھیا( فیض آباد )جہان 22 جنوری کو وزیر اعظم نے اپنے ہاتھوں سے مورتی کی پران پرتشٹھا کی تھی، جسے ہندوؤں کا اہم تیرتھ استھان بنانے کے لیے یوگی حکومت نے پانی کی طرح پیسہ بہا دیا وہیں سے ان کی اپنی پارٹی کا نمائندہ ہارگیا۔ اتر پردیش جہاں یوگی حکومت نے مسلمانوں کے لیے عرصہٴ حیات تنگ کردیا تھا، جہاں ان کے نوجوانوں کو بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتارکیا گیا، ان کے مکانوں و دکانوں کو بل ڈوز کیا گیااور ان کے دبنگ سیاستدانوں کو راستہ سے ہٹایا گیا، اسی ریاست سے بی جے پی 29 سیٹیں ہارگئی اور اس کے کئی اہم لیڈر لڑھک گئے۔
اس الیکشن میں شاید پہلی بار ملک کے دستور و آئین کے تحفظ کا مسئلہ اتنی شدت سے عوام الناس میں ابھرا جس کی مثال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ آئین کی اہمیت و افادیت کا شعور ملک کے باشعور اور پڑھے لوگوں میں تو پہلے ہی سے تھا لیکن اس بار عامتہ الناس میں بھی یہ احساس شدت سے پیدا ہوا کہ ملک کے دستور نے جو بنیادی حقوق تمام شہریوں کو عطا کیے ہیں، ملک کے تمام باشندوں کو چاہے وہ دلت ہوں یا پس ماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے، چاہے ان کا تعلق کسی مذہب، کسی ذات یا کسی بھی علاقہ سے ہو وہ برابر کے شہری ہیں اور عزت و سربلندی سب کو یکساں حاصل ہے۔ جب بی جے پی نے علی الاعلان اپنے اس عزم کا اعلان کیا کہ وہ دستور میں بنیادی ترمیمات کرے گی تو ملک کے دلتوں، ادیباسیوں، پس ماندہ طبقات اور اقلیتوں میں تشویش پیدا ہوگئی اور دستور بچانے کا احساس جاگا۔ لہذا سوائے اندھ بھکتوں کے سب بی جے پی کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ تلنگانہ، کرناٹک، بہار اور اڑیسہ کے نتائج کے خلاف توقع آنے میں ای وی ایم اور الیکشن کمیشن کے رول کو پوری طرح مسترد نہیں کیا جاسکتا۔
گذشتہ دس برسوں میں جس طرح اکثریت کے زعم میں بڑے بڑے فیصلے اور پارلیمنٹ سے اہم بلوں کا بغیر کسی بحث و مباحثہ کے پاس کیا جانا بالخصوص تین زرعی قانون، مزدوروں سے متعلق کئی قوانین، شہریت ترمیمی قانون وغیرہ اور اپوزیشن پارٹیوں کے خلاف ای ڈی، سی بی آئی اور محکمہ انکم ٹیکس کی ری ڈ کے بے جا استعمال نے بھی عوام میں یہ احساس پیدا کیا کہ کسی بھی پارٹی کوغیرمعمولی اکثریت جمہوریت اور جمہوری حقوق کے لیے سم قاتل ہے۔ جب انتخابی جلسوں میں مودی نے خود کو بھگوان کا اوتار اور خاص مقصد کے لیے دنیا میں بھیجے جانے کا اعلان کیا تو لوگوں کا ماتھا ٹھنکا کہ اب رعونت و تکبر اپنی چرم سیما پر پہنچ گیا ہے لہذا اس کا علاج ہونا چاہیے۔
اس الیکشن میں مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی جس ہوش مندی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا اس کی مثال آزادی کے بعد سے ابھی تک دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔ ان پر الزامات لگائے گئے، پھبتیاں کسی گئیں، انھیں ہندوؤں کا دشمن اور ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والا قرار دیا گیا، شریعت اور مسلم پرسنل لا کو ختم کرکے پورے ملک میں یونیفارم سول کو ڈ کے نفاذ کی دھمکی دی گئی لیکن مسلمانوں نے انتہائی صبر اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سیکولر جماعتوں نے مسلمانوں کو بہت کم ٹکٹ دیے لیکن اسے بھی اشو نہیں بنایا، یہان تک کہ جہاں پر کسی مسلم پارٹی کے نمائندے کی جیت کا امکان نظر نہیں آیا وہان مسلمانوں نے مضبوط سیکولر پارٹی کے نمائندے کو ترجیح دی۔ جب مایاوتی نے بڑی تعداد میں مسلمانوں کو ٹکٹ دے کر انڈیا الائنس کے خلاف کھڑا کیا تو اس سازش کو انھوں نے بروقت محسوس کرلیا اور انڈیا الائنس کی جانب سے مسلمانوں کو کم ٹکٹ دیے جانے کے باوجود اسے اشو نہیں بنایا۔ اگر یہ کہا جائے تو اس میں ذرہ برابر بھی مبالغہ نہیں ہوگا کہ یوپی میں سماج وادی پارٹی اور کانگریس کی کام یابی دراصل مسلمانوں، دلتوں اور پس ماندہ طبقات کی غیر معمولی فراست اور ذہانت کا ہی نتیجہ ہے۔
یہ پہلا مرحلہ تھا جس میں جزوی کام یابی ملی ہے۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ اژدھا صرف زخمی ہوا ہے مرا نہیں اور زخمی اژدھا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ آئندہ جہاں اپوزیشن پارٹیوں کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر باہم مشورے سے اپنی حکمت عملی طے کرنی چاہیے وہیں مسلم دلت، ادیباسی، پس ماندہ طبقات اور ملک کے انصاف پسند لوگوں کو بھی اب آرام کی نیند نہیں سو جانا چاہیے بلکہ حالت سے باخبر رہتے ہوئے حالات پر اثر انداز ہونے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے افہام و تفہیم سے ایک ایک قدم اٹھانا چاہیے۔