مزاحمتی شاعری کی روایت اور حالیہ بحران

ڈاکٹر تفسیر حسین
ستمبر 2024

اردو شاعری میں ہمیشہ سے ہر طرح کی شاعری ہوتی آئی ہے۔ مثنوی اور قصیدے اردو شاعری کے شروع میں ایک غالب صنف سخن کے طور پر رائج رہے ہیں۔ یہ دونوں اصناف شروع سے اخلاقی تربیت ، شجاعت وسخاوت اور پامردی وجواں مردی کے پہلوؤں کو ابھارنے کا کام کرتی رہی ہیں۔ قصیدہ کی تاریخ ہی تشجیع اورحوصلہ افزائی کی تاریخ رہی ہے۔ قصیدے میں موجود موضوعات اور مواد کی وسعتیں اور فن وشعر کی ہیبتیں ایسی رہیں کہ اسے ام الاصناف کا نام دیا گیا۔‌ ان پہلوؤں کے ساتھ ساتھ فن کی پرورش کا مہتم بالشان کام کبھی فراموش نہیں ہوا سوائے اس زمانے کے جب اجتماعی سائیکی نے ہزیمت کو تن ومن سے قبول کرکے اصلاح اور نئے سرے سے اٹھ کھڑے ہونے کی ذمہ داری قبول کی۔

آزادی کی تحریک جس وقت برپا ہوئی ، اس وقت قوم پرست اور مزاحمتی شاعری کے کم ازکم دو رویے کارفرما تھے جن کی نمائندگی دو الگ الگ طبقوں نے کی۔ایک طبقہ وہ تھا جس کی پرورش میں روایت اور جدیدیت کا خون اور خوان شامل تھا۔ وہ بیک وقت اپنی روایت سے اور اپنے عہد کی غالب فکری فضا سے لیس ہوکر مسائل کا حل چاہتا تھا۔ اور دوسرا طبقہ وہ تھا جس نے اپنے سے پہلے کے لوگوں کی نئی روشنی سے اپنے ذہن و دل کو روشن کیا تھا اور روایت کو ظلمت خیال کرکے ہر چیز کو جاگیردارانہ نظام کی باقیات خیال کرتا تھا۔ اس نےمزید روشنی کی نئی کمک نئے راستوں سے حاصل کرنا شروع کردی تھی۔ انھیں دو قبیل کے لوگوں نے مزاحمتی ادب پیدا کیا۔ اول الذکر کی قومی ومزاحمتی شاعری خلوص سے پر تھی اگرچہ اس میں اپنے عہد کی حاوی نفسیات کارفرما تھیں لیکن یہ گروہ اپنی نیت اور اپنے تخلیقی عمل میں سچا تھا۔ یہ پروپیگنڈہ باز نہیں تھا۔ اس گروہ میں اگر دقیانوس ، قدامت پرست یا روایت کے پاسدار کہے جانے والے لوگ تھے تو وہ اپنی وابستگی کو پردے میں نہ رکھتے تھے۔ نہ ہی محض ہنگامی طلب پر ادب ترتیب دیتے تھے۔ ان کے یہاں سچی پکی حب الوطنی تھی۔جاگیردارانہ نظام کی مخالفت اوراصرافیت کی گماشتہ تفریحی صنعت کی پشت پناہی نہ تھی۔ وہ اپنے قول وعمل میں سچے، اپنے جذبے میں صادق، اپنی بات میں کھرے اور اپنے محاذ پر کھڑے لوگ تھے۔ اگرچہ محض ان باتوں سے شعر وشاعری کا کوئی بھلا نہیں ہوتا ، ہاں ماحول کو سازگار بنانے اور آواز کو مقبول عام کرکے اقتدار پر دباؤ بنانے میں  ضرور مدد ملتی ہے۔

آزادی کی تحریک جس دور میں برپا ہوئی، اگر اسے بغور دیکھا جائے تو وہ مشرق ومغرب کے درمیان کشمکش کا فیصلہ کن دور تھا۔ جاپان،ہندستان اور ترکی دنیا کے نقشے میں مغربی قوتوں کے لیے ایک بڑے مسئلے اور مشکل کی صورت میں موجود تھے اور انھیں زیر کرنا مغرب کی سب سے بڑی فتح اور کامیابی کا ہم معنی تھا۔ اردو میں ہونے والی مزاحمتی شاعری بوجوہ ترکی کی حمایت میں ہمہ وقت سینہ سپررہی اور اس نوع کی شاعری اس کثرت سے ہوئی کہ باقاعدہ اس کی ایک روایت بن گئی۔ وقتی باتوں اور ہم عصر مسائل کو شاعری میں بیان کرنے کے عادی شاعروں نے اس موضوع پر بہت لکھا جس کی شہادت ڈاکٹر آصف زہری کی کتاب “اردو نظم میں ذکر ترکی” سے ملتی ہے۔‌

اکبر الہ آبادی، ظفر علی خاں، اقبال، پنڈت برج نرائن چکبست، سرور جہاں آبادی ، افق لکھنوی وغیرہ کی شاعری نے مزاحمت کی شاعری کو کئی پہلوؤں سے متمول کیا۔ انگریزی نظام اقدار  اور دیسی لوگوں کی طرف سے کی جانے والی اندھی تقلید کی تنقید ، وطن کی محبت اور اس کے سورماؤں سے عقیدت کا اظہار ان شاعروں کی مزاحمتی شاعری کا اہم وصف رہا۔

ترقی پسند تحریک سے وابستہ شاعروں میں مخدوم محی الدین ، علی سردار جعفری ، سلام مچھلی شہری ، فیض احمد‌فیض، ساحر لدھیانوی اور دوسرے بہت سے شاعروں نے مزاحمتی شاعری کی اور ان ذاتی آزمائشوں سے پرانی لفظیات کو نیا سیاق و سباق عطا‌کیا گیا۔

جدیدیت کے زیر اثر ہونے والی شاعری میں صورت حال سے بیزاری اور بے اطمینانی کا اظہار علامتی انداز میں ہوا۔ اس پورے عہد کی شاعری نے بیسویں صدی کو مطلوب مزاحمتی ادب کا خلا پر کیا اور بہت سے مزاحمت کے شاعر اس پوری صدی میں سرگرم رہے اور ادبی ماحول کی رونق بڑھاتے رہے لیکن اکیسویں صدی میں مزاحمت کی شاعری میں کمی آئی اور اس کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں کہ ہندستان میں مجموعی طور ادب کی صورت حال متاثر ہوئی۔ بول چال کی زبان کے استعمال کا دائرہ تو باقی رہا لیکن اس کے استحقاق کے دائرے محدود سے محدود تر ہوتے گئے۔ چوں کہ اس صدی میں رسم الخط کی قید کو ہٹا کر زبان کو مقبول عام باور کرانے کی روش عام ہوئی اور اس طرح اردو زبان وشاعری کے منطقے میں فیشن زدہ مشاعرے بازی کی فضاپروان چڑھی اور مقبول عام شعر زدگی کی ہوا بندھی اور شعر وادب کی طرف سے ہونے والی مزاحمت مصلحت اندیشی کا شکار ہوگئی۔ سودا کے قصیدہ در ہجو اسپ جیسی معیاری انتقادی شاعری سے لے کر نعرے ، ادعا، مبارزت طلبی کی مقبول عام شاعری تک کے سفر میں کسی نہ کسی شکل میں مزاحمت کی شاعری زندہ رہی۔ دھیرے دھیرے اسے زندہ رکھنے والے ہی مصالحت پر آمادہ ہونے لگے تو ادب پرور ، زبان پرور اور کلچر نواز انجمنوں ، سوسائٹیوں اور اداروں کا پیشہ ورانہ سلسلہ شروع ہوا ، جس میں ایک حدتک فرقہ وارانہ فسادات  وغیرہ پر اظہار خیال ہوا ۔لیکن اکیسویں صدی میں مشاعری بازی کا یہ سلسلہ اپنی اصل پر لوٹ آیا اور اس کی پیشہ ورانہ بنیادیں ، مقاصد اور اہداف زیادہ منہ زور ہوکر سامنے آئے۔ موجودہ صورت حال مصالحت ، کاسہ لیسی ، موقع پرستی اور خودنمائی کے ایسے عیوب سے متصف ہے کہ اس سے مزاحمت کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی۔ موجودہ شعری فضا برقی عہد کے تبرکات سے ایسی گراں بار اور سوشل میڈیائی ترغیبات سے ایسی بوجھل ہے کہ وہ مزاحمتی شاعری کا خطرہ ہی مول نہیں لے سکتی۔ وہ بہت ہی ہلکے اور عوامی ذوق کو مطلوب چٹپٹی شاعری فراہم کرنے میں ایسا منہمک ہے وہاں مزاحمتی شاعری کی گنجائش کم سے کم تر ہوگئی ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اس نوع کی شاعری آج بھی مطلوب ہے اور اس کے پذیرائی کے امکان بھی خوب ہیں۔‌ہندی کے بہت سے طنز نگار مزاحیہ انداز میں مزاحمت کا رنگ باقی رکھنے میں مصروف ہیں اور وہ خاصے مقبول بھی ہیں۔ اردو کے اسٹیج پر جن لوگوں نے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی ہے انھیں بے پناہ مقبولیت بھی ملی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گر اس سمت میں نئے شاعر پیش رفت کریں تو یقینا انھیں کامیابی ملے گی۔

 یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ شاعری میں چاہے جیسی فکر اور سماجی وسیاسی صفات یا فلسفیانہ خیالات  رکھ دیے جائیں ، شاعری کا شاعری  کی شرط پر شاعری ہونا ہمیشہ سے مطلوب رہا ہے۔ مزاحمتی شاعری بھی وہیں بارآور اور دیر پا ثابت ہوگی جس میں شعر کے فنی اوصاف ہوں گے، ورنہ ہنگامی شاعری کا مقدر سب کو معلوم ہے۔ فیض کی شاعری کی خوبی اور مقبولیت صرف اس لیے نہیں ہے کہ اس میں انقلاب ومزاحمت کے اوصاف ہیں بلکہ وہ خوب اس لیے ہے کہ وہ اپنے روایتی سرچشموں سے سیراب ہوئی ہے اور شاعرکے شخصی حوالوں نے اس کی شاعری کو ایک الگ اور مختلف سیاق عطا کردیاہے۔

 فی زمانہ جمہوریت ، قانون ، عوام ، انہدام ، جمہور ، حق اور ان جیسے بہت سے پرانے الفاظ ہیں جن کا تعلق زنداں سے ، مزاحمت سے، کرسی سے ہے جو مزاحمت کی شاعری کے لیے بہت بامعنی ہوسکتے ہیں۔