فلسطین ، اسرائیل اورہندوستان

تہمینہ ظفر فلاحی
جولائی 2024

ہندوستان ابتداء سے ہی اُن چند ممالک میں شامل رہا ہے جو ایک خود مختار فلسطینی ریاست کی حمایت کرتے رہے ہیں۔احمد آباد گجرات سے شائع ہونے والے ہفت روزہ انگریزی اخبار ’ ہریجن‘ کی 26 ؍نومبر 1938ء کی اشاعت میں گاندھی جی نے اپنے مضمون The Jews in Palestine میں لکھا تھا :
’’مجھ سے اکثر عرب یہودی مسئلے پر رائے پوچھی جاتی ہے ،یہود بیشک اس وقت اپناکوئی ملک نہیں رکھتے مگر انہیں زور زبر دستی سے فلسطین پر قبضہ نہیں کرناچاہیے ۔ یہ بات انصاف کے اصولوں پر پوری نہیں اترتی ۔ اسی لیے فلسطین میں عربوں کو بے دخل کرکے وہاں یہودی ریاست قائم کرنے کاخیال مجھے نہیں بھاتا ۔فلسطین بالکل اسی طرح عربوں کا ہے جیسے انگلستان انگریزوں کا ہے اور فرانس فرانسیسیوں کا ہے ‘‘۔
1948ء میں ہندوستان نے اسرائیل کے قیام کی مخالفت اور فلسطینی مہاجرین کے حقوق کی حمایت کی تھی مگر 1950ء میں حکومت ہند نے اس کے وجود کو تسلیم کرلیا تھا۔جون 1967ء میں ہونے والی 6 روزہ عرب اسرائیل جنگ کے موقع پر بھی بھارت نے اہل فلسطین کے جائزحق کی حمایت کی تھی ۔فلسطین کی جدو جہد آزادی کی حمایت ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ رہی ہے ۔ اندرا گاندھی ، راجیو گاندھی ، اندر کمار گجرال ،اور اٹل بہاری واجپائی تک سبھی وزرائے اعظم فلسطینی قیادت اور بطور خاص یاسر عرفات سے قریبی تعلقات رکھتے تھے ۔1977ء میں وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی نے دہلی کے ایک بڑے جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا :
’’ ہمارا یہ موقف ہے کہ عربوں کی جس زمین پر اسرائیل قبضہ کرکے بیٹھا ہے وہ زمین اس کو خالی کرنی ہوگی ۔ جو عربوں کی زمین ہے اسے خالی ہونا چاہیے ۔ جو فلسطینی ہیں ان کے اپنے جائز حقوق ملنے چاہئیں۔‘‘
اگست 1977ء میں اسرائیل کے وزیر خارجہ جنرل موشے دایان بھیس بدل کر خفیہ دورے پر ہندوستان آئے تھے اور وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی اور وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپئی سے ملاقات کی تھی ۔جنرل موشے دایان نے اس خفیہ دورے کی دلچسپ روداد اپنی کتاب The Break Through میں تفصیل سے بیان کی ہے ۔موشے دایان کے مطابق ہندوستانی وزیر اعظم نے گفتگو کے دوران اُن سے کہا :
’’ وہ عرب خطے میں امن دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسرائیلیوں نے نازیوں کے مظالم اور یورپی ممالک کے جبر کی تکالیف جھیلی ہیں لیکن ان مظالم کی قیمت فلسطینی کیوں ادا کریں ؟پناہ گزینوں کو واپس بسانا ہوگا اور ہمیں مقبوضہ علاقے خالی کرنے ہوں گے جس کے بعد اسے فلسطینی ریاست کا درجہ دیا جائے گا ۔ ‘‘
دایان کے مطابق ہندوستانی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ جب تک اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان معاہدہ نہیں ہوجاتا تب تک انڈیا اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات نہیں قائم کرسکتا ۔میں نے صرف امن کے لیے اس ملاقات کا خطرہ مول لیا ہے ، اگر اس کی خبر افشاء ہوجائے تو مجھے اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے ۔ ‘‘
جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی میں سینٹر فار ویسٹ ایشین اسٹڈیز کے پروفیسر اے کے رام کرشنن نے عرب نیوز کو بتایا :’’1975ء میں ہندوستان آزادی فلسطین کی تحریک ’ پی ایل او‘کوتسلیم کرنے والا پہلا غیر عرب ملک تھا ۔ اس نے ’پی ایل او‘ کودہلی میں دفتر کھولنے کی اجازت دی اور پانچ سال بعدمارچ 1980ء میں اندرا گاندھی کی حکومت نے تنظیم آزادی فلسطین کے چیرمین یاسر عرفات کو سربراہ مملکت ، ہندوستان میں مقیم ’پی ایل او‘ کے نمائندے کو سفیراورنئی دہلی میں واقع ان کے دفتر کو باقاعدہ سفارت خانے کے طور پر تسلیم کر لیا ۔چنانچہ مارچ 1980ء میں جب یاسر عرفات حکومت ہند کی دعوت پر ہندوستان تشریف لائے تو نہرو کی بیٹی اور ہندوستان کی تیسری وزیر اعظم اندرا گاندھی نے دہلی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر سرخ قالین بچھاکر ان کا استقبال کیا تھا ۔
ہندوستان کے سابق سفارت کار اور اقوام متحدہ کے نائب سکریٹری جنرل چنمے گریخان کو یاسر عرفات سے سینکڑوں بار ملاقات کاموقع ملا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
’ ’یاسرعرفات اندرا گاندھی کے بہت قریب تھے ۔ جب بھی ہندوستا ن آتے وزیر اعظم اندراگاندھی ہمیشہ ان کا استقبال کرنے ہوائی اڈے جاتیں۔ عرفات ہمیشہ اندرا گاندھی کو ’مائی سسٹر‘ کہہ کر پکارتے تھے ۔سابق ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی سے بھی عرفات کے بہت گہرے تعلقات تھے ۔ چنمے گریخان کے مطابق ایک بار انہوں نے راجیو کے لیے انتخابی مہم چلانے کی پیش کش بھی کی تھی ‘‘۔
مگرپنڈت نہرو ، اندراگاندھی اور راجیو گاندھی کے بعد جب انڈین نیشنل کانگریس میں شامل آر ایس ایس کے ایجنٹوں کا غلبہ ہوا تو انہوں نے ناجائز یہودی مملکت اسرائیل کے تئیں دیرینہ ہندوستانی موقف کو تبدیل کیا۔
1991ء میں جب فلسطین اور اسرائیل کے مابین’ میڈرڈ امن معاہدہ‘ ہوا توہندوستانی حکومت نے بھی اس موقع کا فا ئدہ اٹھایا کہ اب دنیا ئے عرب اور پی ایل او اسرائیل سے مفاہمت چاہتے ہیں ۔ 1992ء میں جب نر سمہا راؤ وزیر اعظم تھے، ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے بعدعام ممالک کی طرح تجارت ، سائنس اور دفاع کے میدان میں متعدد معاہدات کر لیے ۔1997ء میں اسرائیلی صدر ایزر ویز مان نے ہندوستان کا دورہ کیا تو فوج کے دباؤ میں سیکولر وزیر اعظم دیوی گوڑا نے اسرائیل کے ساتھ میزائل خریدنے کا معاہدہ کیا ۔ قربت ‘ دوستی اور معاہدات کے نتیجے میں2012ء میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھ کر ساڑھے چار ارب ڈالر تک پہنچ گئی ۔
سینئر تجزیہ کار نیلانجن مکھوپا دھیائے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا :
’’بھارت فلسطین کا روایتی حامی رہا ہے ۔لیکن 1990ء کے بعد سے اس کے موقف میں تبدیلی آنا شروع ہوئی ۔ پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا گیا ، پھر تجارتی تعلقات شروع ہوئے ،اور پھر دفاع سمیت متعدد شعبوں میں تعاون اور دوستی کو فروغ دے کر رشتوں کو مضبوط بنا یا گیا ۔‘‘
ہندوستان اسرائیل اسٹریٹجک تعلقات کا آغاز پہلی بار 1962ء میں بھارت چین جنگ کے دوران ہو ا تھاجب ہندوستان نے اسرائیل سے ہتھیار خریدے تھے ۔وزیر اعظم پنڈت نہرو نے اسرائیلی وزیر اعظم بین گورین کو پیغام بھیجا کہ جس بحری جہاز سے ہتھیار روانہ کیے جارہے ہیں اس پر اسرائیل کاجھنڈا نہ لگایا جائے، تاکہ مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک سے بھارت کے تعلقات پر کوئی منفی اثر نہ پڑے ۔
1971ء کی پاکستان بھارت جنگ میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات اندرون خانہ مزید مستحکم ہوئے ۔معروف ہندوستانی تھنک ٹینک اور سینٹر فار پالیسی ریسرچ سے وابستہ محقق سری ناتھ راگھون نے مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش پراپنی کتاب A Global History of The Creation of Bangladesh : 1971. میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کے مشیراور سکریٹری پرمیشور نارائن ہکسار کے حوالے سے لکھا ہے کہ بھارت کی درخواست پر اسرائیلی وزیر اعظم گولڈامایر نے ایران کو بھیجے گئے ہتھیاروں سے لدے جہاز کو بھارت کی جانب موڑ دیا تھا ۔ 1971ء کی جنگ میں اسرائیل نے جاسوسی کے شعبے میں بھی بھارت کو تعاون دیا تھا ۔
سینئر ہندی صحافی بھوپیندر کمار سینی نے ہندی روز نامہ راشٹریہ سہارا کی 18؍ دسمبر 1995ء کی اشاعت میں اسرائیل ہندوستان تعلقات کا بے لاگ جائزہ لیتے ہوئے لکھا تھا کہ ہندوستانی خفیہ ایجنسیاں دہشت گردی پر فتح پانے کے لیے کس طرح اسرائیل سے تعاون حاصل کررہی ہیں ۔انہوں نے نیشنل سکیورٹی گارڈ س( این ایس جی)کے سربراہ اشوک ٹنڈن کے اسرائیل کے خفیہ دورے کی تفصیلات بھی فراہم کیں جس میں انہوں نے وہاں کمانڈو تربیت اور سکیورٹی کے نئے آلات کا جائزہ لیا تھا ۔ سینی کے مطابق انہی دنوں تل ابیب نے نئی دہلی کے سامنے یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ اگر وہ چاہے تو اسرائیل کشمیر کی سرحد کو سیل کرنے میں معاون ہوسکتا ہے۔ سال 2007 میں پاکستان کی جانب سے مبینہ دراندازی کو روکنے میں ہندوستانی اہلکاروں کی مدد کے لیے اسرائیل کے ایک فوجی وفد نے جموں و کشمیرمیں واقع فوجی ہیڈ کوارٹر کادورہ بھی کیا ۔
2000ء میں وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی اور وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اسرائیل کا سرکاری دورہ کیاتھا ۔ اس کے بعد 2000ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے ہندوستان کا سرکاری دورہ کیا جس کے اختتام پر دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی شعبوں میں متعدد معاہدے کیے گئے ۔چنانچہ اس کے بعد اسرائیل ہندوستان کو ہتھیار فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا ۔ 2007ء میں ہندوستان اسرائیل نے مشترکہ طور پر ہتھیار بنانے کا فیصلہ کیا ۔ چنانچہ اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹری اورہندوستانی ’ڈی ،آر، ڈی، او‘بارک8 نامی میزائل بنا رہی ہیں ۔
فلسطین سے متعلق موجودہ حکومت کی پالیسی
ایک زمانہ تھا جب ہندوستان فلسطین دوستی کی مثال دی جاتی تھی ۔لیکن اب پوری دنیاکی طرح ہندوستان میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں ۔ آر ایس ایس کی سرپرستی میں موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسیاں یکسر مختلف ہیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی دس سالہ حکومت کے دوران وزیر اعظم مودی نے اسرائیل کے ساتھ اپنی دوستی کو بلندیوں پر پہنچایا ہے اورفلسطینی ریاست کے لیے ہندوستان کی حمایت میں خاصی کمی آئی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اب پورا منظر نامہ یکسر تبدیل ہوگیا ہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی نے4- 6 جولائی 2017ء کو اسرائیل کا 3 روزہ دورہ کیا مگر روایت کے برخلاف وہ فلسطینی اتھارٹی کے ذمہ داران سے ملاقات کے لیے رام اللہ نہیں گئے ۔
سفارتی امور کے ماہرین اورسیاست داں مشرق وسطی کے حوالے سے بھارت کی دیرینہ پالیسی میں یکسر تبدیلی کے اس فیصلے پر حیرت اور تشویش کا اظہار کر چکے ہیں ۔ اسی موقع پرایک شام وہ اپنے اسرائیلی ہم منصب بنجامن نیتن یاہو کے ساتھ بحر مردار کے ساحل پر ننگے پاؤں چہل قدمی کرتے ہوئے بھی نظر آئے تھے ۔حالاں کہ اس سے قبل اکتوبر 2015ء میں جب ہندوستانی صد ر جمہوریہ پرنب مکھر جی اسرائیل کے دورے پر گئے تھے تووہ روایت کے مطابق پہلے فلسطین گئے ، پھر بعد میں تل ابیب پہنچے تھے ۔وزیر اعظم مودی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں نیتن یاہو نے کہا کہ’’ دونوں ملک اسلامی دہشت گردی سے متاثر ہیں ۔اور ہم نے اس سے نمٹنے کے لیے تبادلہ خیال کیا ہے ۔جو کمزور ہے وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔زندہ رہنے کے لیے مضبوط ہوناپڑے گا ۔ دونوں جمہوریتوں کے مابین اتحاد سے ہم انتہا پسند اسلام سے نمٹنے میں کامیاب ہو سکیں گے ۔‘‘
اس کے علاوہ آر ایس ایس کے بانی دامودر ساورکر،ڈاکٹر مونجے ،ڈاکٹر کیشو ہیڈگوار‘ ایم ایس گول والکروغیرہ صہیونیت کی بنیاد رکھنے والے یہودی رہنماؤں موسی ہیس، یہودا الکالی ،تھیوڈور ہرزل،ولادیمیر جابو تینسکی وغیرہ سے متاثر تھے ۔
بیسویں صدی کے آغاز میں تشدد کی تحریک چلانے والے ساورکر نے اپنی کتاب’ ہندتوا ‘میں لکھا ہے :
’’ اسلام کی آمد سے قبل فلسطین کے سارے علاقے پر یہود بستے تھے ، وہ ان کا قومی وطن تھا ۔اس لیے اب فلسطین میں یہودیوں کی قومی ریاست بننی چاہیے۔ جب بھی ایسا ہوا تو مجھے یہود کی مانند از حد خوشی ہوگی ۔ ‘‘
آر ایس ایس دراصل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی زائنسٹ پارٹی کے صہیونی نظریات سے کافی مماثلت رکھتی ہے ۔ چنانچہ متعدد دانشوروں کاخیال ہے کہ ہندوستان میں’ بلڈوزر کلچر‘ دراصل اسرائیل سے برآمد کیا گیا ہے ۔
7؍اکتوبر 2023ء کو شروع ہونے والی حالیہ حماس اسرائیل جنگ کے آغاز میں وزیر اعظم مودی نے کہا :’’ انہیں اس دہشت گردانہ حملے سے صدمہ ہوا ہے اور انڈیا یکجہتی میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ ‘‘
جب اپوزیشن،سیکولر دانشوروں اور اقلیتی تنظیموں نے آواز اٹھائی تو دو روزکے بعد ہندوستانی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا : ’’ ہندوستان نے ہمیشہ فلسطین کی خود مختار، آزاد اور قابل عمل ریاست کے قیام کے لیے مذاکرات کی وکالت کی ہے ۔ ‘‘
کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیاں فلسطینیوں پہ غزہ میں اسرائیل کی موجودہ وحشیانہ کاروائیوں کے خلاف پارلیمنٹ میں قرار داد لاناچاہتی تھیں مگر اسپیکر نے اس کی اجازت نہیں دی ۔ گذشتہ 63 برسوں میں یہ پہلاموقع ہے کہ ہندوستان کا حکمراں طبقہ مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی نہیں کر سکا ۔اقوام متحدہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی قرار داد پر بھی ہندوستان کا نمائندہ غیر حاضر رہا ۔انتہاء تو اس وقت ہوئی جب حکمراں طبقے کی شہ پر کلکتہ میں ہندو انتہاء پسندوں نے اسرائیل کی حمایت میں جلوس نکالا ۔ ہندوستان کا موجودہ اسرائیل پریم صرف اقتصادی اور دفاعی مفادات تک محدود نہیں ‘ بلکہ دنیا کی سب سے ظالم اور جابر حکومت کے ساتھ گہری دوستی کی وجہ یہ ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت ہندوستان میں مذہبی قوم پرستی کی تحریک کو فروغ دینے کے لیے اسرائیلی ماڈل کو اختیار کر چکی ہے اورانتہا پسند جنونی طبقہ صہیونیت کو اپنا روحانی گروسمجھتا ہے ۔
2017ء کے بعد اسرائیل بھارت کو اسلحہ سپلائی کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہو گیا ہے ۔ بھارت نے میزائل ڈفنس سسٹم‘ کے علاوہ پیگاسس جاسوسی سافٹ ویئر بھی اسرائیل سے خریدے ہیں ۔اِس وقت اسرائیل روس کے بعد ہندوستان کو دفاعی آلات فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے ۔
ہندوستانی صدر جمہوریہ پرنب مکھر جی نے 2015ء میں اردن اور فلسطین کے دورے میں ہریجن اخبار میں چھپے گاندھی جی کے اس بیان کو عرب لیڈروں کے ساتھ بات چیت اور اپنی تقریروں میں خوب استعمال کیا تھا ۔ مگر حال ہی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر پی آر کمار سوامی کی تحقیق کے مطابق ’’ گاندھی جی نے جنگ عظیم دوم کے بعد اسرائیل اور صہیونیت کے تئیں اپنانظریہ تبدیل کرلیا تھا ۔ پروفیسر سوامی 1937ء کی ایک میٹنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنوبی افریقہ میں گاندھی کے دوست رہے ایک یہودی ہر مین کالی نباچ 23 سال بعد جب ان سے ملے تو ایک لمبی گفتگو کے بعد گاندھی نے صیہونیت کے بارے میں ایک بغیردستخط شدہ بیان ان کے سپرد کیا ۔ نباچ نے یہ بیان عالمی صہیونی آرگنائزیشن کے صدر چیم وزمین کے حوالے اس ہدایت کے ساتھ کیا کہ گاندھی اس کی تشہیر نہیں چاہتے‘‘۔
معروف صحافی افتخار گیلانی کے مطابق ’’ گاندھی اور دیگر کانگریسی لیڈروں نے صیہونیت کے ساتھ اپنی قربت صرف اس وجہ سے چھپائی تھی کیوں کہ وہ ایک طرف ہندوستان کی مسلم آبادی سے خائف تھے ، دوسری طرف عربوں کو خوش رکھناچاہتے تھے جن سے ہندوستان کے وسیع تر اقتصادی اور انرجی مفادات منسلک تھے ۔
اہل فلسطین کے بنیادی انسانی حقوق اوران کی آزادی کے تئیں ہندوستان کے تاریخی اوراصولی موقف میں واضح تبدیلیاں اور اسرائیل سے دوستی اور تعاون و اشتراک کی پالیسی حکمراں طبقے کی اخلاقی پستی کا واضح ثبوت ہیں۔
٭ ریسرچ اسکالر ، شعبۂ دینیات ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

•••

تہمینہ ظفر فلاحی