طوفان الاقصیٰ کے بعد اسرائیل کی صورت حال

ڈاکٹر محمد سعود اعظمی
ستمبر 2024

بلا شبہ طوفان الاقصی نے اسرائیل کے ریاستی ڈھانچے کو  زبردست دھکا پہنچایا ہے، جس  کے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے ہمیں صرف عسکری نقصانات کے بجائے اس کے سماجی اور نفسیاتی اثرات پر  بھی غور کرنا ہوگا۔ڈاکٹر مصطفى حسانين نصار نے عربی میگزین المجتمع میں  اپنے ایک مضمون میں اس کا تجزیہ کیا ہے کہ  کس طرح طوفان الاقصی نے اسرائیلی سماج کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور اس کے نتیجے میں کس قدر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

سماج کی دراڑیں

طوفان الاقصی نے اسرائیلی معاشرے کے تانے بانے کو کافی   گہرئی چوٹ پہنچائی ہے ، جس کا واضح ثبوت معروف اسرائیلی صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی تحریروں میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ معاريف کے جنرل یتسحاق بریک نے ایک مضمون میں اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ جنگ کی شدت نے اسرائیل کے اندرونی اختلاف  کو بڑھا دیا ہے۔ مذہبی اور سیکولر طبقے، دائیں اور بائیں بازو، عربوں اور یہودیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ نے ریاستی استحکام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔معروف صحافی بن کسپیٹ کے مطابق، اسرائیل بحران کے کنارے پر نہیں بلکہ خود بحران میں ہے۔ شہریوں کی فوجی اڈوں کے دروازے توڑنے کی کوششیں اس بات کی علامت ہیں کہ سماج کی بنیادیں کس حد تک کمزور ہو چکی ہیں۔تل ابیب میں یحیی السنوار کی تصویر کے ساتھ وارننگ پوسٹر بھی یہ بتاتے ہیں کہ اسرائیلی سماج میں داخلی انتشار  کی گہرائی اور اس کے اثرات پر سوالات اٹھاتے ہیں۔

خوف اور حوصلے کی کمی

طوفان الاقصی نے اسرائیلی عوام پر خوف و ہراس مسلط کر دیا ہے۔ فوجی جوانوں اور افسروں پر بھی اس کے منفی اثرات دکھائی دے رہے  ہیں۔ معاريف کے ڈاکٹر ایتان ہا یا م کے مطابق، جنگ کے 10 ماہ بعد تقریباً 10 ہزار فوجی نفسیاتی صدمات کا شکار ہو چکے ہیں اور علاج کے لئے رجوع کر رہے ہیں۔فرانس پریس کی رپورٹ کے مطابق، جنگ کے دباؤ کے ردعمل میں اسرائیل میں مخدرات اور مهدی دواؤں کا استعمال بھی نمایاں طور پر بڑھ گیا ہے۔ لوگوں نے شدید دباؤ کے ردعمل میں مختلف منشیات کا استعمال بڑھا دیا ہے۔

مخالف ہجرت اور وطن کی محفوظ تصویر کا خاتمہ

طوفان الاقصی کے نتیجے میں اسرائیل میں مخالف ہجرت کی لہر اُٹھ رہی ہے، جو کہ اسرائیلی میڈیا میں بھرپور طریقے سے رپورٹ کی جا رہی ہے۔ حالیہ مہینوں میں کئی افراد نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے، خاص طور پر غلاف غزہ اور شمالی سرحد کے علاقوں سے۔ادبی حلقے میں بھی اسرائیل کی موجودہ صورت حال پر تنقید کی جارہی ہے۔ ہاآرتس کے ادیب ب. میخائل نے ایک مضمون میں اسرائیل کی موجودہ حالت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے نسل پرستی، قوم پرستی، عسکریت پسندی، اور مذہبی تعصب کا مجموعہ قرار دیا ہے۔

نتیجہ

یہ تمام شواہد اور واقعات اسرائیلی سماج کے بکھرنے اور خوف و ہراس کے گہرے اثرات کو اجاگر کرتے ہیں۔ انسانی نقصانات کے علاوہ، ان سماجی اور نفسیاتی نقصانات کا اثر اسرائیل کے مستقبل پر پڑے گا۔ اسرائیل کی مکمل اور ابدی شکست کے لئے عالمی سطح پر بنیادی تبدیلیاں ضروری ہیں، جو اس کے بڑے حامیوں کو کمزور اور اسلامی دنیا میں مثبت تبدیلیاں لائیں۔ ان حالات کا صحیح تجزیہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے گا کہ اسرائیل کی موجودہ مشکلات اور چیلنجز کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں اور ان کے دور رس اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔