ایک نیر تاباں حکیم شاہد بدر فلاحی ؒ

ڈاکٹر اسامہ عظیم فلاحی
اگست 2024

کچھ افراد اقوام و ملل میں زندگی کی علامت ہوتے ہیں۔ حکیم شاہد بدر رحمہ اللہ اسی قسم کے مرد مؤمن تھے۔ مصروفیات سے بھری زندگی میں اچانک ایک مرض کا حملہ ہوتا ہے اور چند ہی روز بعد 20 جولائی کو ہزاروں افراد کو سوگوار حالت میں چھوڑ کر دنیائے فانی سے کُوچ کرجاتے ہیں۔ ان  کی حیات کا ایک ایک لمحہ زندگی اور زندہ دلی سے عبارت ہے۔ دین کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو تکلیف میں دیکھ کر تڑپنا کوئی ان سے سیکھے۔ یہ افراد ضلعی سطح کے ہوں، ملکی سطح کے ہوں یا عالمی سطح کے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

حکیم شاہد بدر کی زندگی کا سب سے ابھرا ہوا پہلو اپنے مقصد اور کام کے تئیں انتہا درجے کا اخلاص اور لگن ہے۔ بچپن ہی میں یتیم ہوگئے۔ بچپن ہی میں تعلیم کے لیے جامعۃ الفلاح میں داخلہ ہوا۔  تعلیم میں یکسوئی کے ساتھ ساتھ اس کو عمل کے ذریعے ثابت کرنے کی لگن ان کی پہچان بن گئی۔ جامعۃ الفلاح میں سابق طلبہ تنظیم ایس آئی ایم سے وابستہ ہوگئے۔ تنظیم نے ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارا تو ایک ہیرے کی شکل اختیار کرگئے۔ فلاح سے فراغت کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو وہاں یونٹ کے صدر بنائے گئے اور وہاں تنظیم کو یونیورسٹی کی سطح پر مستحکم کیا۔ کیمپس میں اسلامی طلبہ تنظیم کے استحکام کے ضمن میں جب بھی بات ہوگی تو ایس آئی ایم کے تذکرے کے تحت ڈاکٹر شاہد بدر کا ذکر ضرور ہوگا۔ اپنے مضمون میں مہارت کے ساتھ طلبائی جدوجہد کی اعلی مثال حکیم صاحب تھے۔

طلبہ تحریک ہی ان کی سب سے بڑی پہچان تھی اور آخری وقت تک وہ ملت کے طلبہ و نوجوانوں سے ٹوٹ کر محبت کرتے نظر آتے رہے۔ ہر طرح کے طلبہ اور نوجوان ان کے پاس آتے اور ان سے رہنمائی حاصل کرتے۔ نوجوانوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیتے۔ طلبہ میں تصنیف و تالیف کے ذوق کو نکھارنے اور انہیں اسلامی فکر سے مسلح کرنے کے لیے آخر وقت تک کوششیں کرتے رہے۔ متعدد دفعہ انوکھے موضوعات پر مضمون نگاری کا مسابقہ کروایا۔ مختلف میدانوں میں سرگرم نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے ان کی ضرورت کے حساب سے توجہ دیتے۔ اس طور پر عملاً وہ نوجوانوں کی نفسیات کے بھی ڈاکٹر بن چکے تھے۔

بابری مسجد کا قضیہ ملت اسلامیہ ہند کا سب سے بڑا قضیہ رہا ہے۔ اس کو زندہ رکھنے، ملت کے اندر اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے نیز بابری مسجد کی بازیابی کی جدوجہد میں نوجوان قیادت کا ذکر ہوگا تو اپنے دور میں شاہد بدر واضح طور پر قائدین کی صف اول میں نظر آئیں گے۔

ڈاکٹر شاہد بدر کے یہاں کوئی کام برائے کام نہیں ہوتا تھا۔ ہر کام کے پیچھے ایک مقصد اور خلوص و للہیت موجود ہوتی۔ اس وجہ سے وہ کوئی موقع دعوت و تبلیغ کا ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ جب طلبہ تنظیم کے صدر تھے تو اس دور میں گجرات میں تباہ کن زلزلہ آیا۔ ایس آئی ایم کی ٹیم متاثرین کی مدد کے لیے میدان میں اتری۔ اس نے انسانوں کو سہارا دینے کے ساتھ ہی  بندوں کو اللہ کے در پر پہنچانے کی کوشش بھی کی۔ حکیم صاحب ٹیم کی قیادت کررہے تھے۔ اس موقع پر گجرات کے ضلع بھوج میں گم گشتہ راہ انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا، حکومت گجرات کی نگاہ میں جرم بن جاتا ہے اور ایف آئی آر درج ہوجاتی ہے۔ یہ کیس وفات تک برقرار رہا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس کیس کی وجہ سے بڑی آزمائش میں پڑنے سے اللہ نے بچایا۔

2000 میں آپ ایس آئی ایم کے کل ہند صدر منتخب ہوتے ہیں۔ آپ کا دور تنظیم کا دور عروج بھی ہے اور دور ابتلاء بھی۔ 2001 میں حکومت نے طلبہ تنظیم پر بلا ثبوت پابندی عائد کردی۔ تنظیم کے ذمہ داران پر فرضی مقدمات قائم کیے گئے۔ اس موقع پر شاہد بدر رحمہ اللہ ہنستے مسکراتے ہوئے خوشی خوشی جیل جاتے ہیں۔ اپنے نصب العین سے انتہا درجے کی وفاداری کی وجہ سے جیل کو بھی روشنی سے بھر دیتے ہیں۔ تہاڑ جیل میں انہوں نے کمال مہارت سے موبائل لائبریری قائم کی جو آج تک قائم ہے۔ قیدیوں کے درمیان مطالعہ کا ذوق و شوق پیدا کرکے انہیں علم کی دنیا سے جوڑ کر ان کی زندگیوں کو بامقصد بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ جیل میں رہتے ہوئے آپ نے تنازعات کو حل کرنے کی کامیاب کوشش کی جس کا خاطر خواہ فائدہ ہوا۔ آپ کے پڑوسی گاؤں میں ایک ہی دن میں چار قتل ہوتے ہیں۔ فریقین کے متعدد افراد جیل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب وہاں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ صورت حال انتہائی خراب ہونے کے باوجود صلح و مصالحت میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ سب کے محسن مانے گئے اور وفات تک اس علاقے میں متفقہ طور پر عیدین کے امام و خطیب رہے۔

انسانی ہمدردی آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔چند سال پہلے پڑوسی ملک نیپال شدید زلزلے کا شکار ہوتا ہے اور بڑے پیمانے پر انسانی جان و مال کا ضیاع ہوتا ہے۔ اعظم گڑھ سے ایک ٹیم تعاون لے کر نیپال پہنچتی ہے۔ اس ٹیم کا حصہ شاہد بدر بھی ہوتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر مالی تعاون کے علاوہ انسانوں کو اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس پورے معاملے میں آپ کی ایک اہم خوبی یہ دیکھنے میں آتی کہ آپ امر بالمعروف کے ساتھ نہی عن المنکر پر بھی بھرپور توجہ دیتے جو اس وقت بہت مشکل کام بن چکا ہے۔

تمام مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود قانونی لڑائی کیسے لڑی جاتی ہے کوئی ڈاکٹر صاحب سے سیکھے۔ 2004 سے وفات تک ہر تاریخ پر دہلی جانا معمول تھا۔ اس لڑائی میں تین مقدمات میں وہ بری بھی ہو چکے تھے۔  اس دوران انہیں مختلف طریقوں سے پریشان بھی کیا جاتا رہا۔ ایک دفعہ گجرات پولیس غیر قانونی طور پر زبردستی اغوا کرکے لے جانا چاہتی تھی لیکن عوام و خواص کی بروقت کوشش نے اس کو ناکام بنا دیا۔

2008اور اس کے بعد ضلع اعظم گڑھ کو دہشت گردی کی نرسری قرار دیتے ہوئے درجنوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں آئی۔ یہ ساری گرفتاریاں اسلام اور مسلم دشمنی پر مبنی تھیں۔ ان نوجوانوں کی رہائی کے لیے عوامی بیداری کے کام کا سہرا ڈاکٹر صاحب کے سر جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریک پر شہر اعظم گڑھ میں رمضان المبارک میں بے گناہ قیدیوں کے لیے افطار پارٹیوں کا آغاز کیا گیا۔ سربراہ آوردہ قسم کے لوگوں کو راستہ ملا اور پھر اومیلا کے نام سے ایک تنظیم کا وجود عمل میں آتا ہے جو اب بھی قانونی لڑائی کے میدان میں کسی حد تک سرگرم ہے۔

اللہ نے آپ کو تحریر کا زبردست ملکہ عطا کیا تھا۔ آپ نے دنیا بھر میں اسلام کی خاطر قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والوں کے لیے کتابیں لکھیں اور ملت کو اس مسئلہ کی جانب بھر پور توجہ دلائی۔ فکوا العانی (قیدیوں کو چھڑاؤ)، سرگزشت عافیہ، شعب ابی طالب جیسی کتابیں لکھ کر ملت کو ایک اہم فرض کی طرف توجہ دلائی۔

عمر کے آخری سالوں میں طبیب حاذق کے طور پر مشہور ہوچکے تھے۔ طب یونانی میں خالص پریکٹس کرنے والے وہ گنے چنے افراد میں سے تھے۔ ہر طرف سے مایوس مریض ان کے ہاتھوں شفایاب ہوتے۔ بہت ساری لاعلاج بیماریوں کی دوائیں بنائیں۔ علاج میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد نسخے کو چھپا کر نہیں رکھتے بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے عام کردیتے تاکہ خلق خدا کو فائدہ پہنچے۔ حالانکہ وہ ان نسخوں کو اپنے تک محفوظ رکھ کر اپنی دنیا بنا سکتے تھے لیکن وہ ان سب چیزوں سے بے نیاز تھے۔

کرونا دور کی آزمائش سے ہر فرد واقف ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب کی رائے اس معاملے میں بالکل مختلف تھی۔ وہ اس کو نزلہ وبائیہ قرار دیتے تھے اور بعد میں حالات نے ان کی بات کو بڑی حد تک درست ثابت کردیا۔ اس دور میں آپ کے یہاں مریضوں کا تانتا بندھا رہتا تھا جب کے بڑے بڑے ڈاکٹر میدان سے غائب ہوچکے تھے۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب کی انسانی ہمدردی دیکھنے کے لائق تھی۔ اپنے بچوں کے ساتھ رات بھر دوا سازی کا کام کرتے اور دن میں ساری دوا فروخت ہوجاتی۔ اس سے بھی بات نہیں بنی تو دوا کے اجزاء اپنے ساتھیوں کو لکھ کر دیا اور کہا کہ دوا بنا کر انسانوں تک پہنچائیں اور اسی قیمت پر پہنچائیں جو قیمت وبا سے پہلے تھی۔ مصیبت میں کسی سے ناجائز فائدہ بالکل نہیں اٹھانا ہے۔ اکیسویں صدی کے ربع اول میں طب یونانی کو زندہ کرنے والوں کا نام لیا جائے گا تو شاہد بدر کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔

اس میدان میں وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ پردہ خفا میں رہ جانے والے اطباء کی حیات و خدمات پر تصنیفی کام کا پختہ عزم کرچکے تھے۔ خالص یونانی کی پریکٹس کرنے والے اطباء کا ایک گروپ وہ تقریباً بنا چکے تھے جس کے ذریعے وسیع پیمانے پر اس کے ذریعے طب یونانی کو فروغ دینا چاہتے تھے۔

طبی دنیا میں انتہائی مصروف ہونے کے باوجود آخر تک ان کی آرزو تھی وہ علمی و فکری کاموں کے لیے اپنے آپ کو وقف کرسکیں۔ طلبہ تحریک کے عروج و زوال کی وہ سب سے اہم کڑی تھے۔ اس ضمن میں وہ تاریخی کام کرنا چاہتے تھے۔ اس کا تذکرہ وہ اکثر و بیشتر کرتے رہتے تھے۔

ان کی نگاہ میں بھارت میں کوئی ایسی ریفرنس لائبریری نہیں تھی جہاں سارا تحریکی لٹریچر دستیاب ہو اور شوق رکھنے والے افراد وہاں جاکر ایک مدت تک قیام کرکے استفادہ کرسکیں۔ اس ضرورت کو اکثر  وہ ذکر کرتے رہتے۔ سرمائے کی کمی اس کام کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھی۔ آخری سالوں میں ڈاکٹر صاحب کی مالی حالت کچھ بہتر ہوئی تو انہوں نے العرفان اکیڈمی کا خاکہ بنایا اور ارادہ کرلیا تھا کہ ذاتی آمدنی سے اپنے خوابوں کی العرفان اکیڈمی بناکر رہیں گے۔ اس طرح کے اور نہ جانے کتنے خواب تھے جو شرمندہ تعبیر ہونے سےرہ گئے اور وہ حق تعالیٰ کے حضور پہنچ گئے۔

ملک کے تیزی سے بدلتے حالات کے تناظر میں آپ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مسلمانوں کو اگر اپنی عزت اور وجودکو برقرار رکھنا ہے تو انہیں اپنے اندر جذبہ جہاد اور شوق شہادت کو پروان چڑھانا ہوگا۔ یہی دشمن کا علاج اور ملت کی سرخروئی کا ذریعہ ہے۔