نئے تعزیری قوانین غیر ضروری

آکار پٹیل
اگست 2024

لغت کے مطابق یہ ایک کہاوت ہے ،جس کی مقبولیت کا سہرہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر حکومت کے ایک اہلکار سے منسوب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ” کسی ایسی چیز کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے جو اچھی طرح سے کام کر رہی ہو”۔مجموعہ تعزیرات ہند (Indian Penal Code) 150 سال پرانا ہے۔ اس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ باقی جنوبی ایشیا میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ پاکستان خود کو ایک اسلامی جمہوریہ کہتا ہے، لیکن 1947 کے بعد اس کے تقریباً تمام قوانین وہی رہے جو انگریز چھوڑکر گئے تھے اور برصغیر میں رائج ہیں جس کو 1830 کی دہائی میں تھامس میکالے نے رقم کیا تھا اور جو 1862 سے نافذ ہوئے تھے۔

یہاں تک کہ 2023 میں بھی تعزیرات ہند اورتعزیرات پاکستان تقریباً ایک جیسے ہی تھے۔ 1947 کے بعدسے جو ترمیمات ہوئی ہیں وہ دونوں طرف کم ہیں۔ جس طرح لاہور کے لوگ جانتے ہیں کہ دفعہ144 (دفعہ 144 جومخصوص حالات میں لوگوں کو جمع ہونے کو جرم قرار دیتی ہے) کا قانون میں کیا مطلب ہے بالکل اسی طرح چنئی کےلوگ بھی اس کے مضمرات سے واقف ہیں۔ان قوانین سے لوگ واقف تھے اور وہ نافذ العمل تھے۔ تھانیدار اور کانسٹیبل سے لے کرعام شہری تک سب کو ان کے بارے میں علم تھا۔ پاکستانیوں اور ہندوستانیوں دونوں کے لیے، قتل کی سزا سےمتعلق دفعہ کو 302 اور دھوکہ دہی سے متعلق دفعہ کو 420 کہا جاتاہے۔ یہ تعزیرات ہند کے وہ نمبر ہیں جو 1947 میں آزادی کے بعد بھی برصغیر میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔

ایسا اس لیے کہ یہ قانون کام کرتا رہا ہے۔ اگر عدالتوں میں مقدمات کااژدحام ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ قوانین میں خامیاں ہیں اور نئےقوانین کے آجانے سے کوئی راحت مل جائے گی(بلکہ ہم اس کےبرعکس نتیجہ دیکھیں گے)۔ اگر مسئلہ یہ ہے کہ نوآبادیاتی قوانین ایک آزاد قوم کے لیے موزوں نہیں ہیں اور ہمیں زیادہ آزاد اور لبرل قوانین کی ضرورتہے تو کوڈ کا نام سنہتا رکھنے سے یہ تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ نہ ہی ملک میں ایسا کوئی مطالبہ تھا کہ قوانین کو تبدیل کیا جائے۔ اس سے ہماری مراد وقت بدلنے کے ساتھ جوتھوڑی بہت حذف و ترمیم، معانی کی تبدیلی یا نئے معانی کی شمولیت ضروری ہو جاتی ہے سے نہیں ہے۔ یہاں سوال سرے سے پورے مجموعہ تعزیرات ہند کو تبدیل کرنے کا ہے۔ یعنی کسی عمارت کوبغیر کسی وجہ کے مکمل طور پر گرا دینا۔ اہم سوال یہ ہے کہ جو چیز قابل عمل ہے اسے کیوں بدلا جائے؟

اس کا جواب نہ راقم الحروف پاس ہے اور نہ ہی کبھی مل پائے گا۔ اب بالی ووڈ کے اسکرپٹ رائٹرز کو اپنے مکالمے بدلنے ہوں گے ،ان کےاسکرین ججوں اور پولیس اہلکاروں کو کچھ نئی دفعات یاد کرنے کی ضرورت ہوگی، لیکن پیش آمدہ مسائل اس سے زیادہ گہرے ہیں۔ اولاَیہ کہ نئے قوانین سے عدالت میں داخل عرضیوں میں اضافہ ہو گا۔ وکیل سنجےہیگڑے کے مطابق چیک باؤنس ہونے کو فوجداری جرم قرار دئے جانےکےبعدعدالتیں نئی درخواستوں سے بھر گئی ہیں۔ وکیل کولن گونزالویز کاسوال ہے کہ پولیس کو نوآبادیاتی دور کے مقابلے شہریوں پر زیادہ من مانی کر نے کا اختیار کیوں دیا جا رہا ہے۔ کانگریس لیڈر اور وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے پوچھا ہے کہ 10 سال کی سزا کے ساتھ ‘لوجہاد’ کے غیر موجود (خود حکومت کے مطابق) رجحان کو جرائم کی فہرست میں کیوں شامل کیا جا رہا ہے۔ کچھ اور لوگوں نےیہ بھی نشاندہی کی ہے کہ بغاوت، ایک نئے نام سے، اس نئے مجموعہ تعزیرات میں ہنوز باقی ہے۔

بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہتا کی دفعہ 187، جس نے پرانے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 167 کی جگہ لی ہے، جوڈیشل مجسٹریٹ کو اختیاردیتی ہے کہ وہ کسی ملزم کو 90 دنوں تک پولیس کی تحویل میں رکھ سکتا ہے۔ یہ اس سے پہلے کی دفعہ 167 کے برعکس ہے جس کے تحت کسی شخص کو زیادہ سے زیادہ 15 دن کے لیے پولیس کی تحویل میں دیا جا سکتا تھا۔ اضافی تحویل کا مطالبہ کون کر رہا تھا اوراس کی ضروت کیا تھی ؟ کیایہ ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس کون سے شواہدہیں؟حالاں کہ پہلے ہی سے زیر سماعت قیدی اکثر مہینوں حتیٰ کہ سالوں بغیر مقدمہ چلے جیل میں گزارتے رہے ہیں؟

مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ غداری  کو جرم قرار دینے والی دفعہ کو ہٹادیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ محض اس کا نام بدل دیا گیا ہے۔ بھارتیہ نیائے سنہتا سیکشن 152 کہتا ہے: “کوئی بھی شخص کسی بھی مقصد سے، جان بوجھ کر، الفاظ کے ذریعہ،لکھ کر ، بول کر ،اشاروں سے، کسی چیز کے ذریعہ ،  الیکٹرانک مواصلات کے ذریعہ، مال کے استعمال سے، یا دوسری کسی صورت سے، جوش دلاتا ہے یا حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔علیحدگی ، مسلح بغاوت ، تخریبی سرگرمی،  علیحدگی پسند سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ، ہندوستان کی خودمختاری یا اتحاد وسالمیت کو خطرے میں ڈالناا اسی طرح کے کسی فعل میں ملوث یا اس کا ارتکاب کرنے والے کو عمر قید یا سات سال قیدکی سزا  اور جرمانہ ہوسکتا ہے۔

یہ مختلف کیسے ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ یہ مختلف نہیں ہے۔ تو پھر یہ تبدیلی کیوں؟ ماسٹر اسٹروک کو سمجھنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ یہ تسلیم کر لیاجائے کہ وہ ماسٹر اسٹروک ہیں اور ان کی ضرورت یا دانشمندی پر سوال نہ کھڑا کیا جائے۔

سابق آرمی چیف ایم ایم نروانے نے اپنی یادداشتیں مرتب کی ہیں اور اگرانہیں شائع کرنے کی اجازت دی گئی تو ان میں یہ انکشاف ہوگا کہ اگنی ویر اسکیم بالکل ہی حیران کن ہے۔ شارٹ سروس کمیشن کے ذریعے فوج نے اس سے بہتر تجویز دی تھی جسےالٹ دیا گیا۔یعنی اس طرح کی بھرتی سے آئےتین چوتھائی فوجیوں کی ملازمت برقرار رکھنے کے بجائےصرف ایک چوتھائی پر اکتفا  کیا گیا اور باقی کو محض 22سال کی عمر میں جبری طور پر ملازمت سے فارغ کردیا گیااور اس منصوبے میں بحریہ ا ور فضائیہ کوبھی شامل کرلیا گیا، جنہوں نے اس طرح کی کسی ’’اصلاح‘‘ کی نہ خواہش کی تھی اور نہ ہی انہیں اس کی ضرورت تھی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فیصلہ اوپر سے ہوا اور یہ وزیر اعظم کی ذہانت کی غیر متوقع اپج ہے ۔ اس نے ایک ایسی فوج جو 18ویں صدی یعنی 200 سالوں سے اچھی طرح کام کر رہی تھی کی صورت ہی بدل دی۔ ایسی کوئی چیز جو پہلے سےہی صحیح طور پر کام کررہی تھی اس کوڈسٹرب کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ یہ سوال نوٹ بندی کے شاندارفیصلے کے بارے میں بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ 1000 اور 500 روپے کےنوٹوں پر پابندی لگانے کی کس نے مانگ کی تھی؟ ریزرو بینک آف انڈیانے تو اس کی مخالفت کی تھی اور خبردار کیاتھا کہ یہ ایک غیر دانشمندانہ قدم ہے ،جس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچے گا اور ہوا بھی وہی ۔ نہ ماہرین اقتصادیات اور نہ ہی تاجر برادری اور یقینی طورپر عوام نے بھی اس کا کبھی مطالبہ نہیں کیا تھا۔ ایسا صرف خواہشات کے چلتے ہوا ہے ۔ یہی ذہنیت نئے فوجداری قوانین میں بھی کام کر رہی ہے۔

اس سے نہ صرف عدلیہ، پولیس، وکلاء اور عوام کو نئے قوانین سے پوری طرح واقف  ہو نا پڑے  گا بلکہ اس سے پرانے قوانین پر طے شدہ امور کوبھی خطرہ لاحق ہو جائے گا اور ہر قسم کے چھوٹے بڑے مسائل کھڑے ہوجائیں گے جو اس وقت نظر نہیں آرہے ہیں۔ قانونی نظیریں جو کہ کسی بھی قانون کی بنیادہوتی ہیں اور بحیثیت شہری جس کی ہم سب پیرویکرتے ہیں، ختم ہو جائیں گی۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اس تبدیلی کا مطالبہ آخر کون کررہا تھا؟ جج ، پولیس ، وکلاء اور عام شہریوں میں سے تو کسی نے اس کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔وکیل سنجے ہیگڑے نےخبردار کیا ہے کہ ایک بار متعارف ہو جانےکے بعد، یہ نئی سنہتا(مجموعہ قوانین) نوٹ بندی سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہوگی۔

امید کہ ایسا نہیں ہوگا۔ہم پچھلی ایک دہائی کے حقائق کے باوجود اس طرح کی امید کرسکتے ہیں کہ یہ تبدیلیاں کافی غور وفکر اور تیاری کے بعد کی گئی ہوں گی۔ جب کہ حقیقیت یہ ہے کہ ان کی واقعتا َ ضرورت بالکل نہیں تھی۔وہ لوگ جو ابھی بھی پریشان ہیں اور پوچھ رہےہیں کہ ہم یہ کیوں کر رہے ہیں تو ان کا بس ایک ہی جواب ہے جو ایک ایسی ذہنیت میں پوشیدہ دکھائی دیتا ہے جو یہ مانتی ہے کہ “اگر یہ چیز صحیح سالم ہے تو اس کو توڑ دو”۔