الیکٹورل بانڈ کے نام پر پورے ملک میں لوٹ کھسوٹ کے بعد اب مختلف کورسز اور ملازمتوں کے لئے ہونے والے مقابلہ جاتی امتحانات میں بڑے پیمانے پر ہونے والی بدعنوانی نے ملک کے کروڑوں طلبہ اور نوجوانوں کو ایک بار پھر چوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یوں تو اس طرح کے امتحانات کا پیپر لیک ہونا ہندوستان جیسے ملک میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن پچھلے چند سالوں میں اس میں جتنی تیزی دیکھنے میں آئی ہے اس نے سا بقہ سارے ریکارڈ تورڑ دئے ہیں۔مئی میں ڈاکٹری کی پڑھائی کے لئے ہونے والے مقابلہ جاتی امتحانات نیٹ (NEET)میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے الزامات نے 24, لاکھ نوجوان طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ اس کے بعد 18 جون کو یوجی سی نیٹ (UGC-NET)کے امتحانات کے فورا بعد مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے اعلان کیا اس کا پیپر بھی لیک ہونے کا خدشہ ہے لہذا اس کو بھی رد کردیا گیا۔ اس کے فورا بعد سائنس کے شعبہ میں سی ایس آئی آر نیٹ اور پھر نیٹ پی جی کی تاریخوں کو مؤخر کردیا گیا۔
ماضی میں بھی اس طرح کی وارادات ہوتی رہیں ہیں لیکن اس بار پانی اس وقت سر سے اونچا ہوگیا جب نیٹ کے امتحانات کے نتیجہ کے اعلان کیا گیا۔ نتیجہ میں حیرت انگیز طور پر 67 طلبہ کو پورے کا پورا 720 نمبر ملا تھا۔ اس میں سےچھ طلبہ کے امتحان کا مرکز ایک ہی تھا۔ اس کے علاوہ کئی طلبہ کے نمبرات 717اور 719 کے درمیان تھے۔ اصل ہنگامہ اس کے بعد ہی شروع ہوا کیوں کہ ان نمبرات کا حصول کسی بھی طور پر ممکن نہیں ہے۔کیوں کہ اس امتحان میں کل 180سوال ہوتے ہیں اور ہر سوال پر چارنمبر مختص ہوتے ہیں۔ کسی سوال کا غلط جواب دینے پر منفی نمبرات قانون کی رو سے کل حاصل کیے گئے نمبرات میں سے ہر غلط سوال پر ایک نمبر کاٹ لیے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ اگر مذکورہ طالب علم یا طالبہ نے سارے سوال صحیح کیے ہیں تو اس کو پورے کے پورے 720 نمبر ملنے چاہیے اور اگر ایک بھی سوال کا جواب غلط ہے تو اس کو715 نمبر ملنے چاہیے۔ اگر کسی طالب علم نے ایک سوال چھوڑ دیا ہے تو اس کو 716 نمبر ملنے چاہیے۔
سال 2016 سے اب تک جب سے نیٹ کے ذریعہ میڈیکل کالجوں میں داخلہ کا معاملہ شروع ہوا تب سے ہر سال صرف ایک سے تین طالب علموں نے پورے نمبر حاصل کیے تھے لیکن اس سال معاملہ الگ تھا۔ اس کے علاوہ اس بار 650-680 کے درمیان نمبرات لانے والے طلبہ کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا، جس سے ہندوستان کے اعلیٰ میڈیکل کالجوں میں نشستوں کے لیے مقابلہ آرائی زیادہ ہوگئی۔این ٹی اے کی دلیل یہ تھی کہ امسال زیادہ امیدواروں نے امتحان دیا ہے اس لیے ایسا ہوا ہے لیکن اگر یہ بات صحیح ہوتی تو اوسط نمبرات پانے والے طلبہ کی تعداد میں بھی اسی طرح اضافہ ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اس پر جب زیادہ لے دے مچی تو امتحانات کا انعقاد کرنے والی نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (NTA) نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ کچھ مراکز میں بعض تکنیکی خرابی کی وجہ سے امتحان تاخیر سے شروع ہوا اس لیے 1563 طلبہ کو گریس مارک کی شکل میں نمبر دیئے گئے ہیں۔ اس پر ہنگامہ ہونا طے تھااور دیکھتے دیکھتے پورے ملک میں بھونچال سا آگیا۔ سپریم کورٹ کے علاوہ مختلف ریاستوں کے ہائی کورٹ میں طلبہ اور ان کے والدین انصاف کے لیے پہنچے۔ بالآخر سپریم کورٹ نے اپنے عبوری فیصلے میں گریس مارک کو “من مانی” اور “غیر منصفانہ” قرار دے کر اسے منسوخ کر دیا اور ان 15سو طلبہ کو دوبارہ امتحان دینے کا موقع بھی دیا۔ لیکن اس درمیان ایسے دعوے بھی سامنے آئے کہ اس امتحان کا پرچہ امتحان سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر گردش کررہا تھا۔ گرچہ حکومت نے اس طرح کے کسی بھی دعوے کو خارج از امکان قراردیا ہے لیکن بہار اور گجرات سمیت مختلف ریاستوں کی پولیس اور مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی نے کئی لوگوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔ پورے ملک میں ان امتحانات کے دوبارہ انعقاد کے لئے پرزور مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ چھوٹے موٹے واقعات کچھ مقامات پر ہوئے ہوں لیکن عمومی طور پر امتحان بہتر ماحول میں ہوا ہے لہذا دوبارہ امتحان نہیں کرایا جاسکتا۔ فی الحال معاملہ سپریم کورٹ میں زیر غورہے۔
ان واقعات نے بہت سارے سوالوں کو جنم دیاہے۔ واضح رہے کہ میڈیکل کورسز کے لیے یہ مقابلہ جاتی امتحان ملک میں ڈاکٹر بننے کا واحد راستہ ہے۔ اگر اس میں اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی اور بدعنوانی پائی جارہی ہے تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں عوام کو ایسے لوگوں سے علاج کروانا ہوگا جو علم او ر پیشہ ورانہ طور پر اس کے لائق نہیں ہوں گے۔ لیکن معاملہ اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ نقل اور دھوکے سے امتحان پاس کرنا مشرقی ممالک میں ایک عام بات ہے۔ بعض دفعہ مغرب کے انتہائی ترقی یافتہ سمجھے جانے والے ممالک میں بھی اس کی بھونڈی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ چند سال قبل بورڈ کے امتحانات میں بہار کے ایک مرکز پر باونڈری سے باہر سے اپنی جان پر کھیل کر دوسرے منزلہ نقل کی پرچی پہنچانے کی تصویریں پوری دنیا میں مشہور ہوئی تھی۔ لیکن وہ اکلوتا واقعہ نہیں تھا۔ شمالی ہندوستان میں یہ وبا عام ہے۔ ابتدائی اور ثانوی درجات سے لے کر بورڈ امتحانات اور یونیورسٹی تک میں نقل کے معاملات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ طلبہ کے علاوہ اس طرح کی جرائم میں اساتذہ، والدین، سرپرست اور اسکول کا عملہ بھی شامل ہوتا ہے- جدید ٹکنالوجی نے اس میں مزید آسانی پیدا کردی ہے۔ اب امتحانی پرچوں کی چوری، اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا، طلبہ اور والدین سے رابطہ کرنا اور اس میں پیسوں کا لین دین بہت آسان ہوگیا ہے۔ چند ماہ قبل اترپردیش کی پوروانچل یونیورسٹی میں فارمیسی کے چار طلبہ کو امتحانی پرچوں میں صرف جے شری رام اور کرکٹ کھلاڑیوں کا نام لکھنے پر 56 فیصد نمبرات سے پاس کردیا گیا تھا۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ414 کروڑ والے اس ملک میں میڈیکل کی تعلیم کے لئے محض 11ہزار سیٹیں مختص ہیں جن میں تقریبا 6 ہزار سرکاری کالجوں میں ہیں بقیہ پرائیوٹ کالجوں میں ہے۔ان گیار ہ ہزار سیٹوں کے لئے امسال تقریبا 24 لاکھ طلبہ نے درخواست دی تھی۔ ظاہر ہے جب سیٹ کم ہوگی تو مقابلہ زیادہ ہوگا۔ لہذا سرکاری کالجوں میں داخلہ کے لئے طلبہ اور ان کے والدین لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہیں ۔ بعض دفعہ داخلہ امتحان کی تیاری میں ان کا پیسہ اصل کورس سے زیادہ خرچ ہوجاتا ہے۔ سرکاری کالجوں میں ایم بی بی ایس کا خرچ پانچ سے دس لاکھ ہے جب کہ پرائیوٹ کالجوں میں یہ خرچ اس سے دس گنا زیادہ ہے۔
داخلہ امتحان میں ادھر کافی سالوں سےمعروضی سوالات (Multiple Choice Question -MCQ)آتے ہیں۔ حالاں کہ بہت سارے ماہرین اس طرز امتحان کو صحیح نہیں مانتے۔ ان کے مطابق اس سے کسی طالب علم کی لیاقت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔اس کے علاوہ اس سے طلبہ کے اندر سے تخلیقی صلاحیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کادوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ پوری تیاری کے دوران طالب علم اور استاذ کا پورا زور اس طرح کے سوالات کے حل کرنے پر ہوتا ہے۔ میڈیکل کی تعلیم کے لئے ضروری معلومات اکثر اس میں کھو جاتی ہے۔گرچہ اس امتحان میں بارہویں کے نصاب سے سوالات تیار کیے جاتے ہیں لیکن پورے ملک میں بارہویں جماعت کی پڑھائی اور امتحان معروضی سوالات کے طرز پر نہیں ہوتے۔ لہذا پورے ملک میں میڈیکل میں داخلے کے تیار ی کے لئے لاکھوں کی تعداد میں کوچنگ سینٹر کھل گئے ہیں جہاں بڑی بڑی کمپنیاں لاکھوں کی فیس لے کر ان کو امتحانات کے لیے تیار کرتی ہیں۔ کوچنگ سینٹر امتحان کی تیاری کی فیکٹریوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ والدین، اساتذہ اور دوست احباب کی طرف سے اکثر توقعات زیادہ ہوتی ہیں اور اگر طالب علم ان توقعات پر پورا نہیں اترتا تو ڈپریشن کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اس کو لگتا ہے کہ اتنی محنت اور پیسہ لگاکر بھی میں میڈیکل میں داخلہ نہیں مل پائے گا۔ اس کا انجام بہت ساری خودکشیوں کی شکل میں بھی سامنے آتا ہے۔ گرچہ مختلف ریاستی حکومتوں اور کچھ مہینہ قبل مرکزی حکومت نے بھی اس طرح کی حرکتوں کے خلاف ایک قانون بنایا ہے جس میں پکڑے جانے پر جرمانہ اور جیل کی سزا ہے لیکن ابھی تک اس طرح کے جرائم پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
مختلف ریاستوں میں جن امتحانات کو پیپر لیک کی وجہ سے منسوخ اور کالعدم قرار دیا گیا ہے ان میں ایک بڑی تعداد ملازمت کے امتحانات کی ہے۔ ملک کے لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان بڑی بڑی مشکل سے ملازمت کے لئے منعقد ہونے والے امتحانات کی تیاری کرتے ہیں۔ سرکاری ملازمت ان کا خواب ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کے مسائل حل کرسکیں۔ بعض دفعہ والدین اور گھر کے لوگ کھیت بیچ کر یا زیور گروی رکھ ان امتحانات کی تیاری کے خرچ کا انتظام کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر پیپر لیک کی وجہ سے یہ امتحانات منسوخ ہوجائیں یا چھ مہینہ یا سال بھرکے لیے ملتوی ہوجائیں تو پھر ان کا کیا ہوگا؟ ریاستی سطح کےامتحانات میں حالات اورخراب ہوتے ہیں۔ مختلف مقامی سرکاری ملازمتوں کے امتحانات کے سوالیہ پرچے اکثر لیک ہوجاتے ہیں جب کہ ملازمتوں کے لیے سخت مقابلے ہوتے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ وہاں اکثر ملازمتیں غیر محفوظ اور کم تنخواہ والی ہوتی ہیں۔
فروری میں انڈین ایکسپریس اخبار نے مختلف پارٹیوں کی حکومتوں والی 15 ریاستوں میں پچھلے پانچ سالوں میں ملازمت کے امتحانات میں پیپر لیک ہونے کے حیران کن 41 معاملوں کی تفتیش کی تھی۔تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کی صرف پیپر لیکس سے کل ایک کروڑ 40 لاکھ لوگ متاثر ہوئے جب کہ جن ملازمتوں کے لیے وہ کوشاں تھے ان کی تعداد محض ایک لاکھ تھی
دوسرا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں مرکزی حکومت نے دوسری معاملات کی طرح اس طرح کے امتحانات کو بھی مرکزی کے تحت لانے کی کوشش کی ہے۔ حالاں کہ تعلیم اور صحت دونوں کا تعلق ریاستی حکومتوں سے ہے۔ لیکن نیٹ کا امتحان کل ہندسطح پر مرکزی ایجنسی کے ذریعہ کرایا جارہا ہے۔ تمل ناڈو جیسی کئی ریاستوں نے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکی۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ دونوں معاملات ریاستی حکومت کے تحت آتے ہیں تو پورے ملک میں ایک ایجنسی ایک ہی وقت میں امتحان کیوں منعقد کررہی ہے۔ اس سے امتحانات کے نظم ونسق میں بھی مسائل آتے ہیں۔ مثلا اگر آسام میں کہیں پرچہ لیک ہوتا ہے تو اس کا اثر پورے ملک پر پڑے گا اور کیرلہ اور گجرات کے بھی امتحانات کو منسوخ کرنا پڑے گا۔ حد تو یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے دوسرے بہت سارے امتحانات این ٹی اے نامی اس نئی نویلی ایجنسی کو دئے ہیں جس کے پاس نہ تو ڈھنگ کا انفراسٹرکچر ہے اور نہ ہی تجربہ۔ ایک دوسری مثال مرکزی یونیورسٹیوں میں گریجویشن، پوسٹ گریجویشن اور پی ایچ ڈی میں داخلے کی بھی ہے، جہاں سی یو ای ٹی کے تحت داخلہ امتحان لیے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مرکز کی ایک ایجنسی یہ کیوں طے کرے گی ملک کے کسی کونے میں واقع مرکزی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کون کرے گا۔ کیا اس یونیورسٹی میں ایسے قابل پروفیسر نہیں ہیں۔ کیااس سے یونیورسٹی کی آزادی پر حرف نہیں آتا؟
واقعہ یہ ہے کہ ملک میں تعلیم کے حوالے سے حکمراں طبقہ بالکل سنجیدہ نہیں ہے ۔ بلکہ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ طبقہ تعلیم کے نظام کو غیر مؤثر بنانے اور معیار تعلیم کو خراب کرنے میں ہی سنجیدہ ہے۔ آزادی کے 76 سال گذر جانےکے بعد بھی ملک میں گریجوٹ افراد کا تناسب کافی کم ہے ۔ پوسٹ گریجوٹ کا اور بھی کم۔ تعلیم کے بعد ملازمت میں اتنے سارے مسائل سے نئی نسل کا نہ صرف سسٹم پر سے اعتماد ختم ہوگا بلکہ تعلیم کے تئیں اس کی دلچسپی بھی کم ہوجائے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
•••
ابوظفر عادل اعظمی