قارئین کرام
سلام مسنون
اگست کا شمارہ حاضر ہے۔ مرکزی حکومت نے بجٹ اجلاس کی ہنگامہ آرائی کے دوران ایک ایسا فیصلہ کر ڈالا جس کے مضر اور دور رس اثرات کو اپوزیشن اور ملک کی عوام محسوس نہیں کرسکی اور اس کی وہ مخالفت نہیں ہوئی جو کہ ہونی چاہئے تھی۔ وہ فیصلہ تھا سرکاری ملازمین پر دوران ملازمت آر ایس ایس میں شمولیت پر لگی پابندی کو ہٹانے کا۔ اس کے کتنے دورس اور مضر اثرات پڑیں گے ملک پر، جمہوریت پر، ملک کے دستور کی بنیادی دفعات پر اور اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس بار سرورق کی کہانی اسی پر مبنی ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر شمس الاسلام ہمارے ملک میں آر ایس ایس پر اتھارٹی مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ہماری درخواست پر اس فیصلے کے مضمرات کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔
آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما اپنے مسلم دشمن اقدامات کے لئے مشہور ہیں۔ اس بار انہوں نے ایک مضحکہ خیز، دستور مخالف اور مسلمانوں کی معیشت کو نقصان پہنچانے والا فیصلہ کیا کہ اب کوئی ہندو نہ تو مسلمانوں سے کوئی چیز خریدے گا اور نہ انہیں کوئی چیز بیچے گا۔ ظاہر ہے تکثیری معاشروں میں ایسے بے ہودہ فیصلوں کا کوئی مقام نہیں ہے اور نہ وہ ٹہر سکتے ہیں البتہ اگر یہ قانونی مقام حاصل کرلیں تو دونوں ہی طبقات کے لئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ نوراللہ جاوید نے یہ اور اسی طرح کے دوسرے ریاستی حکومت کے فیصلوں کا جائزہ لیا ہے اپنے مضمون ” وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہیں” میں۔
بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک نے نہ صرف حسینہ واجد کی تانا شاہی حکومت کا خاتمہ کیا بلکہ 15 سالوں سے اقتدار پر فائز تانا شاہ کو اس طرح بے آبرو کیا کہ اسے اپنے ملک میں بھی پناہ نہیں ملی۔ قاسم سید نے اپنے مضمون ” بنگلہ دیش نئے مستقبل کی تلاش” میں آئندہ کے امکانات پر روشنی ڈالی ہے۔
اسماعیل ہنیہ ؒ کی شہادت کے پس پشت اسرائیلی عزائم اور اس کے فلسطین ۔ اسرائیل تنازعہ پر پڑنے والے اثرات کا ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی نے جائزہ لیا ہے اپنے مضمون ” اسماعیل بنیہ شہید ” میں۔
ان کے علاوہ بھی کئی اہم موضوعات پر سیر حاصل مضامین اورکچھ دوسرے اہم کالمس بھی ہیں آپ کے محبوب رسالہ میں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ افکار پابندی سے نکلتا رہے اور ملک و ملت کے اہم مسائل سے نہ صرف آپ کو باخبر رکھے بلکہ ملک و ملت کے اہم مسائل پر گفتگو اور بحث و تمحیص ایک پلیٹ فارم بھی بنا رہے تو براہ کرم اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اپنا تعاون بھی پیش کرتے رہیے۔ اس تعلق سے ہماری اپیل ( صفحہ نمبر )کو ضرور پڑھیئے اور اگر آپ کو اس سے اتفاق ہے تو پھر دیر نہ کیجئے۔ کبھی کبھی ایک بوند پانی بھی اگر وہ کئی طرف سے اور لگاتار آئے تو دریا بن جاتا ہے۔
والسلام
ناشر