ملک کی تقسیم کے بعدیو پی کے مسلمانوں کو سیاسی طور سے سب زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ۔ تقسیم سے پہلے یو پی مسلم سیاست کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا ۔یہاں کی دو بڑی سیاسی شخصیتیں نواب زادہ لیاقت علی خاں اور چودھری خلیق الزماں مسلم سیاست کا محور ہوا کرتے تھے ۔ ان دونوں کے پاکستان ہجرت کر جانے کی وجہ سے مسلم سیاست میں ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ،جس بھرپائی آج تک نہیں ہو سکی ۔اس سیاسی خلا کو پر کرنے بجائے مسلم اکابر نے حالات کے آگے سپر ڈال دی ۔
1948میں مولانا ابو الکلام آزاد کی ایماپر لکھنؤ میں مسلم قائدین کا ایک کنونشن منعقد کیا گیا ۔اس کنونشن میں جمع ہونے والی مسلمانوں کی بچی کھچی قیادت سیاسی مستقبل کے بارے میں کوئی لائحہ عمل طے کرنے میں ناکام رہی۔ البتہ لکھنؤ کنونشن میں یہ طے کیا گیا کہ مسلمان اب علاحدہ مسلم سیاسی جماعت نہیں بنائیں گے۔مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اتبا بڑا فیصلہ ایک نشست میں لے لیا گیا۔یہ فیصلہ سیاسی خود کشی کے مترادف تھا۔لیکن آج تک لکھنؤ کنونشن کے اس فیصلے کے عوامل کا سنجیدہ اور معروضی تجزیہ نہیں کیا گیا ۔ یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ مسلمانوں کی سیاسی خود سپردگی کے پس پردہ کن شخصیات کا ہاتھ رہا ہے۔وہ کون سے کردار تھے جو مسلم سیاست کو اپاہج بنانے کا کام کر رہے تھے ۔اس کنونشن میں شامل مسلم قائدین نے سیاسی موت کے محضر نامے پر خوداپنی مہریں ثبت کر دیں ۔اسی کنونشن کے بعد جمعیت العلما نے بھی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔مسلم اکابر کی سرگرم سیاست سے علاحدگی کی معقول وجہ آج تک سامنے نہ آ سکی ۔ تقریباً دو دہائیوں تک یو پی کے مسلمان سیاسی منظر نامے سے غائب رہے۔ اس طویل وقفے نے مسلمانوں کی سیاسی خو واعتمادی کو شدید طور سے مجروح کیا ۔
یو پی کی مسلم سیاست میں ایک انقلاب آفریں موڑ 1968میں اس وقت آیا جب ڈاکٹر عبد الجیل فریدی نے مسلم مجلس تشکیل دی۔ مسلم مجلس نے ایک بار پھر ریاست کے مسلمانوں کے اندر سیاسی حرارت پیدا کر دی ۔ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی کی سنجیدہ اور بصیرت افروز سیاست نے ریاست کے مسلمانوں کو متحدہ پلیٹ فارم پر لانے میں بنیادی کردار ادا کیا ۔ مسلم مجلس نے بہت کم وقت میں میدان سیاست میں اپنی مضبوط جگہ بنا لی ۔ ریاست کے علاوہ مرکز میں بھی مسلم مجلس کے ارکان وزارت میں رہے ۔لیکن ڈاکٹر فریدی کی نا وقت موت نے مسلم سیاست کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ ڈاکٹر فریدی کی وفات کے بعد بھی مسلم مجلس سیاست میں سرگرم رہی لیکن اندرونی انتشار اور قائدانہ فقدان کی وجہ سے جلد ہی جمود کا شکار ہو گئی ۔ کافی عرصے بعد 1999میں مسلم مجلس کے ایک پرانے رہنما محبوب احمد نے مسلم سیاست میں جان ڈالنے کے لیے ’’ملی جمہوری محاذ ‘‘ کے نام سے سیاسی پلیٹ فارم بنایا ۔ ملی جمہوری محاذ کا مقصد یو پی میں موجود بکھری ہوئی مسلم سیاسی جماعتوںکو متحد کرکے ایک محاذ بنانا تھا ۔ اپنے قیام کے بعد ملی جمہوری محاذ نے کئی بڑے عوامی جلسے ریاست کے مختلف اضلاع میں منعقد کئے ۔اس نئے سیاسی محاذ میں بہت سے مسلم لیڈران شامل تو ہوئے لیکن اپنے اپنے ذاتی مفاد کے ساتھ ۔ملی جمہوری محاذ میں شامل ہر لیڈر اپنے طور سے سیکولر پارٹیوں سے سانٹھ گانٹھ کرنے لگا۔بہت جلد ملی جمہوری محاذ بھی اپنی سیاسی موت مر گئی ۔
یو پی میں جس سیاسی پارٹی نے مسلم سیاست کے افق پر تادیر اپنی موجودگی برقرار رکھی وہ تھی ’’ نیشنل لوک تانترک پارٹی ‘‘۔ نوے کی دہائی کے وسط میں بہوجن سماج پارٹی کے ڈاکٹر مسعود احمد اور ارشد خان نے نیشنل لوک تانترک پارٹی کی بنیاد ڈالی ۔ ڈاکٹر مسعود مایا وتی کی پہلی سرکارمیں کابینہ وزیر اور ارشد خان ایم ایل اے تھے ۔ حکومت میں رہتے ہوئے مایا وتی نے دونوں پر پارٹی مخالف سرگرمیوں اور بدعنوانی میں ملوث ہونے الزام میں بی ایس پی سے نکال دیا ۔ پارٹی سے باہر کئے جانے کے بعد ڈاکٹر مسعود اور ارشد خان نے مل کر نیشنل لوک تانترک پارٹی بنا لی۔ چوں کہ دونوں لیڈر بی ایس پی کیڈر کے تھے لہٰذا ان کو زمینی سطح کی سیاست کا گہرا تجربہ تھا ۔انہوں نے نیشنل لوک تانترک پارٹی کوبی ایس پی کی طرز پر مسلمانوں میں منظم کرنے اور ان کوزمینی سیاست سے جوڑنے کا کام کیا ۔ ڈاکٹر مسعود اور ارشد خان نے تقریباًپندرہ برسوں تک پارٹی کے لیے سخت محنت کی ۔ مسلم مجلس کے بعد نیشنل لوک تانترک پارٹی ہی ایک ایسی پارٹی تھی جس نے مسلمانوں میں زمینی سطح پر کام کیا ۔پارٹی اپنے ٹکٹ پر لوک سبھا میں نمائندہ بھیجنے میں بھی کامیاب رہی ۔لیکن رفتہ رفتہ ڈاکٹر مسعود اور ارشدخان میں پارٹی کی قیادت کو لے کر اختلافات بڑھنے لگے ۔ یہ اختلافات اس حد تک بڑھے کہ جھگڑے تک کی نوبت آ گئی ۔ دونوں کے آپسی جھگڑوں نے بنی بنائی پارٹی کو ختم کر دیا ۔پارٹی ختم ہونے کے بعد ڈاکٹر مسعود نے کانگریس میں اور ارشد خان نے سماج وادی پارٹی میں شمولیت اختیار کی ۔
جب ڈاکٹر ایوب انصاری نے پیس پارٹی کی بنیاد ڈالی تو اس سے مسلمانوں میں کافی امیدیں پیدا ہوئیں ۔پیس پارٹی نے مشرقی یو پی کی مسلم سیاست پر اپنے اثرات مرتب کیا۔پیس پارٹی نیشنل لوک تانترک پارٹی کی طرح تنظیمی ڈھانچہ بنانے میں ناکام رہی ۔ اس کی پوری توجہ انتخابی سیاست پر مرکوز تھی ۔ پیس پارٹی کو انتخابی سیاست میں جزوی کامیابی بھی حاصل ہوئی ۔ اس کے تین امیدوار یو پی اسمبلی کے لیے کامیاب ہوئے۔لیکن اس کے بعد ہونے والے اسمبلی الیکشن میں پارٹی کاایک بھی امیدوار کامیاب نہیں ہو پایا ۔ یوگی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد پیس پارٹی پر سرکاری شکنجہ کسنے لگا ۔ خود پارٹی کے صدر ڈاکٹر ایوب کے خلاف کئی سنگین مقدمات درج کرائے گئے ۔ان مقدمات کے تحت ڈاکٹرایوب کو کئی برس جیل میں رہنا پڑا ۔ فی الحال پیس پارٹی سیاسی منظر نامے سے غائب ہے ۔
یوگی حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے مسلم سیاسی پارٹیوں کی تھوڑی بہت سر گرمیاں جاری رہا کرتی تھیں ۔لیکن یوگی حکومت کے سخت رویئے کی وجہ سے مسلم سیاسی پارٹیوں کو بیک فٹ پر جانے کو مجبور کر دیا ہے ۔ اب حالت یہ ہے کہ کسی ملی ایشوپر ان ڈور جلسہ یا سیمینار کرانا بھی لوگوں کے لیے مشکل ہو گیا ہے ۔صرف سیاسی ہی نہیں لگ بھگ تمام ملی اورسماجی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں ۔مسلم سیاسی کارکنان کے خلاف یوگی حکومت کی تادیبی کاروائیوں نے سیاسی کارکنان کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے ۔ایسا صرف سیاسی کارکنان ہی کے ساتھ نہیں ہو رہا ہے بلکہ سماجی اور تعلیمی میدانوں میں سرگرم رہنے والے افراد کو بھی حکومت کے جبر کا شکار ہو رہے ہیں۔مسلمانوں کے ساتھ حکومت کا رویہ صرف معاندانہ نہیں بلکہ تحقیر آمیز بھی ہوتا ہے ۔
ملک کی تقسیم کے بعد سے یو پی میں کوئی بھی سیاسی پارٹی کامیاب نہیں ہوئی۔مسلم مجلس نے جو سیاسی کامیابیاں حاصل کی تھیں ڈاکٹر فریدی کے بعد وہ دیر پا ثابت نہیں ہو پائیں ۔یو پی میں مسلم سیاست کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ سیاسی شعور کا فقدان ہے ۔عام طورسے جو بھی مسلم سیاسی پارٹیاں وجود میں آتیں ہیں ان کی نظر انتخابی سیاست تک محدود ہوتی ہے ۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد اسمبلی یا پارلیمنٹ تک پہنچ جائیں ۔ زمینی سطح پر ان پارٹیوں کا نہ تو کوئی کام ہوتا ہے اور نہ ہی عوام میں ان کی قبولیت ہوتی ہے ۔الیکشن کے موسم میں یہ پارٹیاں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی حاشیہ بردار کے طور پر کام کرتی ہیں ۔اس کے عوض میں ان کو پارٹی کی طرف سے ایک ٹکٹ مل جاتا ہے جس کا نتیجہ عموماً ہار کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ۔ ایسی پارٹیاں الیکشن کے بعد صرف کاغذوں تک محدود ہوکر رہ جاتی ہیں ۔جبکہ سیکولر پارٹیوں کو یک مشت مسلم ووٹ ملتا ہے اور وہ بڑی شان سے اسمبلی اور پارلیمنٹ پہنچ جاتی ہیں ۔
مسلم پارٹیوں کو اپنی کھوئی ہوئی سیاسی قوت حاصل کرنے کے لیے طویل المدت منصوببہ بند جدو جہد کی ضرورت ہے ۔ان پارٹیوں کو سب سے پہلے مسلم ووٹر لسٹ کی خامیاں دور کرنے، ووٹر لسٹ میں نئے نام شامل کرنے ، عوامی مسائل کو اٹھانے ، پارٹی کے لیے کیڈر تیار کرنے ، ضلع ، تحصیل اور گاؤں کی سطح پر پارٹی کا نظم قائم کرنے، پارٹی کارکنان کوسیاسی تربیت دینے، پارٹی کے مقاصد کی حمایت میں رائے عامہ ہموار کرنے جیسے بنیادی کاموں کو کرنا ہوگا ۔ قیادت کو مسلم عوام کا اعتبار حاصل کرنا بہت ضروری ہے ۔یہ تبھی ممکن ہے جب سیاسی قیادت میں بے لوث جدو جہد اور ایثار کا جذبہ موجود ہو ۔ انتخابات کا موسم سیاسی فصل کاٹنے کا ہوتا ہے، بونے کا نہیں ۔مسلم لیڈران الیکشن کے موقع پر فصل بونے جیسی باتیں کرتے ہیں۔سیاسی بالغ نظری قیادت کی شرط اول ہے ۔عوامی مقبولیت کے بغیر کسی سیاسی کامیابی کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔
افسوس کہ یو پی میں جو بھی مسلم سیاسی پارٹیاں وجود میں آتی ہیں وہ اقتدار تک پہنچنا تو چاہتی ہیں لیکن اقتدار تک کا راستہ کیسے طے کیا جاتا ہے اس کی عملی شکل ذہنوں میں واضح نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ یو پی میں بیس فیصد سے زیادہ مسلم آبادی ہونے کے با جود یہاں کے مسلمان سیاسی بے توقیری کا شکار ہیں ۔واضح رہے کہ سیاسی قوت حاصل کئے بغیر بنیادی حقوق کا تحفظ ممکن نہیں ۔مسلم سیاسی پارٹی کی جتنی ضرورت آزادی سے پہلے تھی اتنی ہی آج بھی ہے بلکہ اس کی ضرورت پہلے کے مقابلے آج زیادہ ہے۔ 76 برس پہلے کیا گیا سیاست سے دوری کا فیصلہ، جو تاریخ میں لکھنؤ ٔ کنونشن کے نام سے درج ہے ،اس کا خمیازہ مسلمان آج بھی بھگت رہے ہیں ۔اب اس فیصلے کی نحوست سے مسلمانوں کو باہر آنے کی ضرورت ہے۔