مہاراشٹر کے لوک سبھا انتخاب میں انڈیا اتحاد کی بہتر کار کردگی کے بعد اس کے حوصلے بلند ہیں ، خصوصی طور سے این سی پی (شرد پوار)اور شیو سیناادھو ٹھاکرے کے ۔ حالانکہ زیادہ بڑی کامیابی کانگریس کو ملی ہے ۔سب سے پرجوش شیو سینا (ادھو ٹھاکرے) ہے اوراس نے ابھی سے اپنے لئے زمین کو مزید ہموار کرنے کی جانب قدم بڑھانا شروع کردیا ہے ۔ لوک سبھا میں شرد پوار کی نیشنلسٹ کانگریس کو آٹھ سیٹیں ملی ہیں لیکن اس کے لیے زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ اس کے باغی گروہ کو صرف ایک سیٹ پر اکتفا کرنا پڑا اور شیو سینا ادھو کو نو سیٹیں ملی ہیں لیکن اس کے باغی گروپ کو سات سیٹیں مل گئیں ۔ الیکشن کے اس ریزلٹ کے بعد اور اب جب کہ مرکز میں نئی حکومت برسر اقتدار آگئی ہے ، اب یہاں کی ریاستی اسمبلی پر سب کی نظر یں ہیں ۔
گرچہ لوک سبھا میں انڈیا اتحاد کو مہاراشٹر میں کامیابی ملی ہے لیکن اسے کوئی جادوئی کامیابی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔ مگر جس طرح بی جے پی اور اس کرتا دھرتا ہمیشہ انتخابی موڈ میں رہتے ہیں اور دوسری جانب اپوزیشن پارٹیاں اس وقت اپنا کام شروع کرتی ہیں جب بی جے پی آدھے سے زیادہ میدان سر کرلینے کے قریب ہوجاتی ہے ۔ اس وجہ سے انڈیا اتحاد کی یہ بڑی کامیابی کہی جاسکتی ہے ۔ لیکن اس کامیابی نے ان کے حوصلے بلند کردیئے ہیں اور حکمراں محاذ ان کے حوصلوں اور لوک سبھا کی کار کردگی سے خوفزدہ ہے ۔اس کا خوف اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جلدی میں وہ بہت سارے عوامی مفاد کے منصوبے مکمل کرلینا چاہتے ہیں ۔ ریاستی اسمبلی کے جاری مانسون اجلاس میں حکومت کی جانب سے لاڈلی بہنا منصوبہ پیش کیا جانے والا ہے ۔ اس پر ادھو ٹھاکرے اور آدتیہ ٹھاکرے نے تلخ سوال بھی کیا کہ لاڈلی بہنا تو ٹھیک ہے لیکن لاڈلا بھائی منصوبہ شروع کرکے نوجوانوں کے روز گار کے مسائل بھی حل کئے جائیں ۔ دوسری جانب ممبئی کے مضافات میں مسلم بستی ممبرا کی ترقی کے لیے پچاس کروڑ جاری کئے گئے اس پر ممبرا کلوا کے رکن اسمبلی ڈاکٹر جتیندر اوہاڈ نے طنز کیا خواہ کتنا ہی فنڈ دیدو لیکن اسمبلی میں شکست تمہارا مقدر ہے ۔
بی جے پی کو شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے سے خدشہ ہے کہ وہ اس کی جیت کے رتھ کو روکنے کی قوت رکھتے ہیں، لوک سبھا انتخاب نے اسے ثابت کردیا ۔ اسی خدشہ کے پیش نظر لوکل باڈیز کے انتخابات نہیں ہوئے ۔ کئی دہائی سے ممبئی میونسپل کارپوریشن پر شیو سینا کا دبدبہ ہے ۔ مگر ریاستی اسمبلی میں اس بار انڈیا اتحاد ہی کے پوری طرح حاوی رہنے کی امید ہے ۔ لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جن پر اتفاق ہونا ضروری ہے۔ جیسے وزیر اعلیٰ کا چہرہ ۔ اس پر سنجے راوت نے ادھو ٹھاکرے کو وزیر اعلیٰ کے چہرہ کےطور پرپیش کرنے کے لیے کہا ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ بغیر وزیر اعلیٰ کے چہرہ کے الیکشن لڑنا خطرناک ہوسکتا ہے ۔ انتخابی ماحول میں صحافیوں کی نظر معمولی معمولی باتوں پر ہوتی ہے اور بعد میں ذرائع ابلاغ رائی کا پربت بنادیتا ہیں ۔ اسی طرح کا ایک واقعہ ہوا کہ سیکریٹریٹ کی ایک ہی لفٹ میں ادھو ٹھاکرے اور فڑنویس کا سفر کرنا بھی چےمہ گوئیوں کا سبب بن گیا ۔ قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ آئندہ اسمبلی انتخاب کے لیے شاید کوئی تال میل کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ لیکن یہ فضول باتیں ہیں ۔ہوسکتا ہے کچھ سیٹوں پر شاید تنازع ہولیکن اس کے اتنا بڑھنے کی امید نہیں ہے کہ کسی بڑی الٹ پھیر کا سبب بن جائے ۔
پارلیمانی الیکشن میں عوامی موڈ کچھ اور ہوتا ہے اور ریاست اسمبلی میں ان کے عزائم کچھ اور ہوتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی ریاست میں حکومت کے تبدیل ہونے اور حکمراں محاذ کی شکست کے آثار ہیں ۔ کسانوں کی خود کشی اور مراٹھا ریزرویشن کے مسائل موجودہ حکومت کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں ۔ جرانگے پاٹل بار بار احتجاج کی دھمکی دے کر شندے اور فڑنویس کے مصائب کو بڑھانے کا کام کرتے رہتے ہیں ۔ ریزرویشن معاملے میں جرانگے پاٹل نے مسلمانوں کی بھی شمولیت کی بات کی جس کی وجہ سے بی جے پی کو پسینہ آنا طے ہے ۔ بہار میں پٹنہ ہائی کورٹ کے ذریعہ نتیش کے 65 فیصد والے ریزرویشن کو مسترد کئے جانے کی وجہ سے ان راہوں کو اپنا کر یہاں کچھ نہیں ہوسکتا ۔ ریزرویشن کے نئے مطالبے کو پورا کرنےکے لیے دستور میں پچاس فیصد کی مقررہ تعداد بڑھانے کے لیے حکومت کو نئے قانون کی ضرورت ہے ۔اس کے بغیر اگر حکومت عوامی دباؤ اور سیاسی مصلحت کی بنا پر ریزرویشن دے گی تو ممکن ہے کہ عدلیہ اسے کالعدم قرار دے دے ۔ یہاں خشک سالی اور بے موسم برسات یا زیادہ بارش کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی بھرپائی بھی حکومت کے لیے مسلسل سر درد ہے ۔
ایک طرف عوامی مسائل اور دوسری جانب سیاسی عوامل ہیں ۔ جن لوگوں نے بی جے پی کے دباؤ میں پارٹی توڑ کر اپنے مفاد کو عوامی مفاد پر مقدم رکھا انہیں عوام نے اشارہ دے دیا ہے کہ وہ انہیں سبق سکھائیں گے ۔بی جے پی کا غرور اب بھی کم نہیں ہوا ہے اور اس کے ریاستی صدر چندر شیکھر باونکولے نے کہا ’’ریاست میں بی جے پی بڑے بھائی کے ہی کردار میں رہے گی‘‘۔ یہ بات شندے کی شیو سینا اور اجیت پوار کی این سی پی کو ہضم ہونا مشکل ہے ۔ گرچہ انہوں نے کہا کہ بڑا بھائی چھوٹے بھائیوں کو تکلیف نہیں دے گا لیکن یہ محض لیپا پوتی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ ویسے بھی شرد پوار کے آفر پراجیت پوار واپس آسکتے ہیں ،یعنی این سی پی کے باغی گروہ کا معاملہ صاف ہوجائے گا اور یہ بھی انڈیا اتحاد کے ہی مفاد میں ہے ۔
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ لوک سبھا میں مہاراشٹر سے کوئی مسلم رکن نہیں بن سکا کیوں کہ انڈیا اتحاد نے کسی مسلمان کو ٹکٹ ہی دیا نہیں۔ اب امید کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی کی تناسب سے انہیں ٹکٹ دیا جائے گا اور ریاستی اسمبلی میں ان کی نمائندگی کو سیاسی پارٹیاں یقینی بنانے کی کوشش کریں گی ۔ واضح ہو موجودہ چودہویں اسمبلی میں 288 ارکان ہیں جس میں بی جے پی کے 106، غیر منقسم شیو سینا کے 56، غیر منقسم این سی پی کے 53، کانگریس کے 44، آزاد 13 اور بہوجن ونچت اگھاڑی کے 3 نیز مجلس اور سماج وادی کے دو دو ۔ یعنی شیو سینا اور این سی پی کے باغی گروہوں کو ہٹا دیں تو انڈیا اتحاد کو برتری حاصل ہے اور آئندہ اسمبلی میں بی جے پی کو موجودہ تعداد سے بھی کم سیٹیں ملنے والی ہیں ۔ بی جے پی کی سیٹوں میں کمی کا سبب یہ بھی ہے کہ باوجود کوششوں کے مہاراشٹر میں فرقہ وارانہ فضا نہیں بن پائی اور فرقہ وارانہ ماحول میں ہی بی جے پی کو سیاسی طور سے فائدہ پہنچتا ہے۔
•••
نہال صغیر