موسیٰ رضا

ملک وملت کا سرمایہ تھے

معصوم مرادآبادی
جون 2024

سینئر اہل کار اور ممتازماہر تعلیم موسیٰ رضا گذشتہ 8مئی کو چنئی میں انتقال کرگئے۔ وہ کچھ عرصے سے صحت کے مسائل سے دوچارتھے اور صاحب فراش ہونے کی وجہ سے باقی دنیا سے ان کا رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔ جس جس نے ان کے انتقال کی خبر سنی وہ غمگین ہوگیا اور سبھی نے ان کی گراں قدر قومی وملی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ موسیٰ رضا ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت کا نام تھا جنھوں نے بامقصد زندگی گزاری اور اپنے مقصد سے ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہیں رہے۔ ایک بیوروکریٹ کی حیثیت سے وہ خود کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں تک محدود رکھ کر بھی اپنی زندگی کا سفر پورا کرسکتے تھے۔ اس طرح وہ ایک کام یاب انسان کہلاتے، لیکن انھوں نے خود کو محض اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ ملت کی فلاح وبہبود کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں کا استعمال کیا۔انھوں نے فرض شناسی، دیانت داری اورزندگی کے عظیم مقصد سے وابستگی کے ساتھ زندگی گزاری۔

اگرموسیٰ رضا کی زندگی کا سرسری مطالعہ بھی کیا جائے تومعلوم ہوتاہے کہ وہ ایک متحرک اور مستحکم شخصیت کے مالک تھے۔انتظامی امور سے گہری واقفیت کے علاوہ انھیں تعلیمی، سماجی اور معاشی امور سے بھی گہری دل چسپی تھی۔ انھوں نے کئی تعلیمی وثقافتی اداروں کی صورت گری میں کلیدی کردار ادا کیا۔نئی دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کی تعمیر وتشکیل میں ان کا بنیادی کردار تھا، لیکن انھوں نے اس سے مفاد پرستی کا کوئی تعلق نہیں رکھا۔ جب انھیں یہ محسوس ہوا کہ یہ سینٹر سیاسی طالع آزماؤں کا مرکز ہوا چاہتا ہے تو انھوں نے اس سے عملی تعلق ختم کرلیا۔سرکاری ملازمت سے سبکدوشی کے بعد انھوں نے خود کو تعلیمی اور سماجی خدمت کے کاموں میں مصروف رکھا۔انھوں نے کئی اہم تعلیمی اداروں اور تنظیموں کی بنیاد ڈالی اور ملت کے تعلیمی اور معاشی امپاورمنٹ کے لیے مسلسل جدوجہدکی۔اس کے علاوہ شعر وادب سے بھی ان کا شغف قابل داد تھا۔وہ جہاں اردو میں بہترین شعر کہتے تھے تو وہیں انگریزی زبان وادب پر بھی ان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔انھوں نے اردو اور انگریزی میں کئی کتابیں یادگار چھوڑیں۔ انھوں نے غالب کے اردو کلام کا انگریزی زبان میں بڑامعنی خیز ترجمہ کیا تھا۔ان کے انتقال پر وزیراعظم نریندرمودی سمیت کئی اہم شخصیات نے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

موسیٰ رضا کی پیدائش 27فروری 1937 کو جنوبی ہند کی ریاست تمل ناڈو کے ولوپورم ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں مینامبور میں غلام علی مہکری اور آسیہ بیگم کے ہاں ہوئی تھی۔ان کے نانا ایک کاشتکار تھے اور جنوبی ہند کے نوائتھ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔موسیٰ رضا نے آٹھ سال کی عمر تک مقامی گاؤں کے اسکول میں اردو اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ اپنے والدین کے ساتھ چنئی(مدراس) منتقل ہوگئے۔ انھوں نے مدرسہ اعظم نامی ایک مقامی اسکول میں تعلیم حاصل کی اور 1955میں اس وقت سرکاری کلا کالج (موجودہ قائد ملت کالج) سے انٹر میڈیٹ تک تعلیم حاصل کی۔موسیٰ رضا نے 1958 میں مدراس پریزیڈنسی کالج، مدراس یونیورسٹی سے انگریزی زبان وادب میں اوّل پوزیشن میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔

موسیٰ رضا نے اپنے کیریر کا آغاز پریزیڈنسی کالج میں ہی اسسٹنٹ پروفیسر کے طورپر کیا۔جہاں وہ انگریزی ادب پڑھاتے تھے۔یہی وہ دور تھا جب انھوں نے آئی اے ایس کے امتحان کی تیاری کی۔وہ1960میں سول سروس کے امتحان میں شریک ہوئے اور پہلی ہی کوشش میں کام یابی ہوگئے اورگجرات کیڈر کے آئی اے ایس افسربنے۔ اس کے بعد انھوں نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ اگلی تین دہائیوں تک وہ ترقی کی منازل طے کرتے رہے۔انھوں نے اپنی محنت، لگن اور سرشاری سے سول سروس کے منظرنامے پر گہری چھاپ چھوڑی۔ بطورآئی اے ایس آفیسراپنے کیریر کے دوران وہ کلیدی عہدوں پر فائز رہے، جہاں ان کی قائدانہ اور انتظامی صلاحیتوں کے راز کھلے۔انھوں نے گجرات کے کئی اضلاع میں کلکٹر اور ڈی ایم کی خدمات انجام دیں۔ اپنی بہترین صلاحیتوں کے سبب وہ گجرات کے پرنسپل سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ بعدازاں انھوں نے جموں وکشمیرکے چیف سیکریٹری کی حیثیت سے اس شورش زدہ ریاست میں اپنی انتظامی صلاحیتوں کالوہا منوایا۔

موسیٰ رضا کی پوری زندگی عوامی خدمت اور مقصد کے لیے خودسپردگی کے ساتھ بسر ہوئی۔وہ ایک اعلیٰ فرض شناس اور ادب دوست سرکاری افسر تھے۔ان کی شخصیت میں قدرتی رعب ودبدبہ بھی تھا۔انھوں نے اعلیٰ انسانی اقدار اور اصولوں کے ساتھ زندگی گزاری اور معاشرے پر اپنی تعمیری سوچ اور شخصیت کے گہرے نقوش چھوڑے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی غیرمعمولی خدمات کے لیے حکومت نے انھیں ’پدم بھوشن‘ کے شہری اعزاز سے سرفراز کیا تھا۔انھوں نے سرکاری ملازمت سے سبکدوشی کے بعد خود کو ملت کی تعلیمی اور سماجی زبوں حالی دور کرنے کے کاموں میں جھونک دیا۔خاص طورپر جنوبی ہند میں انھوں نے تعلیمی میدان میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ ساؤتھ انڈین ایجوکیشن ٹرسٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے انھوں نے تعلیم نسواں، بہبود اطفال اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔تمل ناڈو کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے شروع ہونے والا ان کا سفر ملک کے ایک اہم بیوروکریٹ، ماہر تعلیم،سماجی خدمت گزار تک دراز ہوا۔ ایک کام یاب بیوروکریٹ اور ماہر تعلیم کے ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہترین ادیب، شاعر اور مترجم بھی تھے۔ انھوں نے انگریزی میں اپنی سوانح بھی لکھی جو Of Nawabs and Nightingalesکے نام سے شائع ہوئی تھی۔یہ کتاب ان کے سول سروس کے ابتدائی تجربات پر مبنی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ”بلبلیں نواب کی“کے عنوان سے کراچی میں شاہ محی الحق قادری نے کیا جو 1998میں وہیں سے شائع ہوئی۔روحانی اور ذاتی تجربات پر مبنی ان کی ایک اور کتاب کانام ”In Search of Oneness”ہے۔

یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ اردو کے بہترین شاعر بھی تھے۔2011میں چنئی سے ”خواب ناتمام“ کے عنوان سے ان کا شعری مجموعہ بھی شائع ہوا تھا، جس کا پیش لفظ اردو کے ممتازنقاد شمس الرحمن فاروقی نے لکھا تھا۔156صفحات کے اس مجموعہ کلام میں حمد، غزلیں،نظمیں، قطعات اور متفرق اشعار شامل ہیں۔ دو متفرق اشعار ملاحظہ ہوں:

ہم اہل تذبذب پر یہ بار گراں ترہے

اصرار بھی رکنے کا، چلنے کے تقاضے بھی

یہ کائنات یہ کون ومکاں ہیں میرے لیے

میرا وجود یہاں ورنہ بے سبب ہوتا

شمس الرحمن فاروقی نے ان کے شعری مجموعہ پر لکھا ہے کہ

”موسیٰ رضا کے یہاں کلاسیکی پختگی، عدم الفعالیت اور ہلکے طنز کی شو خی کا نہایت عمدہ امتزاج ملتا ہے۔ ان کے طنزیہ شعور کا سب سے اچھا اظہار ان کی نظم ’بے چارہ مسلمان‘میں ہوتا ہے جس میں انھوں نے ہندوستان کے تفرقہ پسند رہ نماؤں کو باتو ں باتوں میں طنز ملیح کا نشانہ بنایا ہے۔ ایسی نظموں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ موسیٰ رضا اگر شاعری کی طرف پوری توجہ دیں تو بہت اچھی طویل نظم خاص کر مثنوی کہہ سکتے ہیں۔“(’خواب ناتمام‘ص6)

چند اشعار اور ملاحظہ ہوں:

تم نے موسیٰ کو دیا تھا کوئی روکھا ساجواب

لن ترانی کبھی ہم کو بھی سناؤ تو کہیں

ایک پاپوش ہی کیا جان بھی چھوڑ آئیں گے

طورپر ہم کو کسی روز بلاؤ تو کہیں