کیا آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان باضابطہ جنگ کے مناظر دیکھنے کو ملیں گے؟ کیا واقعی سنگھ نے انتخابات کے دوران ملک اور خاص طور سے یوپی میں بے دلی سے کام کیا جس کے سبب بی جے پی 62 سے 34 سیٹوں پر سمٹ گئی اور کیا اب سنگھ کی قیادت مودی سے چھٹکارے کا راستہ تلاش کررہی ہے۔ اسے مودی کے کم زور ہونے کا انتظار تھا۔ کیا بی جے پی کے صدرجے پی نڈا کا بیان سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت دلوایا گیا تھا یا یہ بی جے پی کی رعونت،گھمنڈ اور فرعونیت کا اظہار تھا۔ آنے والے دنوں میں ایسے سارے سوالوں کا جواب مل جائے گا۔ جب بچہ تمام آداب و حفظ مراتب بھول کر نافرمانی اور بغاوت کے تیور دکھانے لگے تو پھر گوشمالی ضرور کی جاتی ہے۔ اس کے اندرونی تہوں کو کھنگالنے کی ضرورت ہے جو پیاز کی طرح پہلودار ہیں اور الیکشن کے نتائج نے کافی کچھ بیان کردیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے درمیان موجودہ تعلقات کے بارے میں سچائی، جس پر اب تک صرف بحث ہو رہی تھی،کو انتخابی نتائج نے اسے مزید واضح کردیا ہے۔ اس کا آغاز مودی امت شاہ کی جوڑی کے سنگھ کو مسلسل نظر انداز کرنے اور پھر جے پی نڈا کے انٹرویو کے ان جملوں سے ہوگیا جو انھوں نے انڈین ایکسپریس کو دیا تھا کہ اب پارٹی آر ایس ایس سے آزاد ہوگئی ہے اور اسے کسی مددگار کی ضرورت نہیں ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ بیان لوک سبھا انتخابات کے عین وسط میں آتا ہے۔
اس بیان کے بارے میں جو چیز حیران کن ہے وہ یہ ہے کہ یہ آر ایس ایس کی عوام میں کچھ نہ کہنے یا کرنے کی احتیاط سے تیار کی گئی حکمت عملی کو توڑتا ہے، جو سنگھ پریوار کی بڑی محنت سے تشکیل دی گئی تنظیمی یکجہتی سے بھی متصادم ہے۔ یہ ایسا ماسک تھا جو اپنے مخالفین کو مسلسل خوف میں مبتلا رکھتا اوراسے بظاہر ناقابل تسخیر بناتا تھا۔
بی جے پی، وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں مناسب وقت پر اس مسئلہ کو اٹھانا چاہتی تھی جو کچھ عرصے سے بی جے پی کے سرکردہ رہ نماؤں کے اندر ابھر رہا تھا۔ نڈا کے بیان نے اس بھرم کو توڑدیا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی مکمل طور پر ایک جان دو قالب ہیں اور ان دونوں کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
یہاں ایک سوال بجا طور پر پیدا ہوتا ہے کہ آخر جب مودی آرایس ایس کے کلیدی ایجنڈے کو پوری ایمانداری سے نافذ کررہے تھے، اور ملک کو تیزی کے ساتھ ہندوراشٹر کی طرف لے جارہے تھے۔ جنھوں نے ہندوتو کو بھارت کی سیاست کے محور میں لاکر کھڑا کردیا کہ اب کسی پارٹی میں ہمت نہیں تھی کہ وہ ہندو مفاد کے خلاف سوچ سکے اور مسلمانوں کی بھلائی کے بات کرسکے۔ انھوں نے محض اپنی دو میقات میں سنگھ کے کور ایجنڈے کو نافذ کردیا یعنی دفعہ 370، رام مندر کی تعمیر، تین طلاق پر پابندی،مسلمانوں کو حاشیے پر پہنچادینا اور یوسی سی کی طرف پیش قدمی وغیرہ تو پھر شکایت آخر کیا اور کیوں ہے ؟ مگر یہ سوچ سنگھ کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ہمیں آر ایس ایس کی بنیادی فکر کی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آر ایس ایس مودی حکومت کے نظریاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے کام سے خوش تھی۔ مگر اس کے لیے یہی سب کچھ نہیں تھا۔ وہ اپنے ایجنڈے کو نافذ ضرور دیکھنا چاہتی تھی، لیکن اپنی بنیادی سوچ کی قیمت پر نہیں۔ اس کا ایک غیر متزلزل اصول ہے کہ تنظیم کو فرد سے اوپر ہونا چاہیے نہ کہ کوئی فرد تنظیم پر حاوی ہوجائے۔ بی جے آر ایس ایس کے ایجن ڈے کو بروئے کار لانے کت لیے بنی ہے نہ کہ آر ایس ایس پر حاوی ہونے کے لیے۔ بی جے پی کے ساتھ آر ایس ایس کی موجودہ بے چینی کی وجہ بالکل وہی سلوک اور رویہ ہے جو مودی حکومت پچھلے دس برسوں سے سنگھ پریوار کے ساتھ کررہی ہے۔
مودی نے آر ایس ایس فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا۔ تعلقات میں تناؤ اتنا واضح تھا کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر اعظم کے طور پر اپنے دس سالہ دور اقتدار میں انھوں نے آر ایس ایس سے مشورہ لینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔وہ کبھی آرایس ایس کے ہیڈکوارٹر نہیں گئے اپنے وزیروں کی کلاس نہیں بھی لگنے دی۔ انھوں نے بھگوت کو کبھی ایک حد سے زیادہ مداخلت کی اجازت نہیں دی۔ لیکن سنگھ نے بھی ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ وہ موقع کے انتظار میں رہا۔ جب یوگی کو ہٹانے کی افواہوں نے زور پکڑا تو سنگھ کا بیک گراؤنڈ نہ ہونے کے باوجود بھگوت اینڈ کمپنی مضبوط دیوار بن کر ان کی پشت پر کھڑی ہوگئی اورمودی امت شاہ کی ایک نہ چلنے دی آج بھی یوگی کی سلامتی سنگھ کی وجہ سے ہی ہے۔
مودی کا ڈی این اے ایسا ہے کہ وہ کسی کو محض خوش رکھنے کی خاطر کچھ کرنے میں یقین نہیں رکھتے، جب تک کہ اسے بااثر مقام پر رکھنا ضروری نہ ہو۔رام مندر پران پرتشٹھان کی تقریب کو ذہن میں رکھا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انھوں نے ہندو رسم ورواج اور سنسکاروں کو بالائے طاق رکھ کر، شنکراچاریوں کی مخالفت کے باوجود خود کو مرکز میں رکھ کر پورا کام کیمروں کی روشنی میں انجام دیا۔ اس وقت بھگوت محض ان کے تابعدار نظر آئے۔
پچھلے دس برسوں میں مودی پورے کشش ثقل کا مرکز بن چکے ہیں اور ہر چیز ان کے گرد گھوم رہی ہے۔یہ ایسی چیز ہے جو آر ایس ایس کے بنیادی اصول کے خلاف ہے کہ کوئی بھی شخص تنظیم سے بالاتر نہیں ہے، یہاں تک کہ آر ایس ایس کا سربراہ بھی نہیں۔
لیکن مودی اس کے قائل نہیں وہ ایک آمرانہ اور فسطائی مزاج رکھتے ہیں جو کہ آرایس ایس کی روح ہے مگریہ روح صرف سنگھ کے جسم میں ہی رہنی چاہئیے کہیں اور نہیں۔ یہیں سے آہنکار کا ٹکراؤ شروع ہوا۔ مودی یہیں پر نہیں رکے بلکہ وہ طاقت کے اکلوتے مرکز بن گئے اور پارٹی ان کا بغل بچہ بن گئی۔ حد تو اس وقت ہوئی جب مودی نے اپنے بائیلوجیکل ہونے سے ہی انکار کردیا اور بھگوان کا اوتار بن گئے جس نے خاص مقصد سے انھیں دنیا میں بھیجا ہے۔
مودی کے آمرانہ رویہ کو ملک نے قبول نہیں کیا۔سنگھ بھی عوام کے بدلتے موڈ کو گہرائی سے پڑھ رہا ہے اور وہ اس عتاب کا حصہ نہیں بننا چاہتا جو بی جے پی کے حوالے سے محسوس کیا جارہاہے۔
آر ایس ایس کا خیال ہے کہ جس لمحہ یہ تنظیم کسی فرد کےماتحت ہو جائے گی وہ اس کے لیے موت کی گھنٹی ثابت ہوگی۔حکومتیں آتی جاتی رہیں گی لیکن ادارہ قائم رہنا چاہیے۔ اپنی بقا کی یہی فکر آرایس ایس کو نریندر مودی سے دور کر چکی ہے۔ اس نے اس الیکشن سے خود کو الگ کرلیا۔ مودی کے لیے اس کا چیلنج تھا کہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ بی جے پی کو آر ایس ایس کی ضرورت نہیں ہے تو جائیے اور اپنے بل بوتے پر الیکشن جیتیے۔ نڈا نے بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ نتیجہ سامنے ہے کہ ہندوتو کی نئی لیباریٹری میں بی جے پی کا کیا انجام ہوا۔ رتھ کا ایک پہیہ نکل گیا۔ ایک کم زور مودی نائیڈو اور نتیش کے رحم و کرم پر تیسری مدت کا حلف لے کر کانٹوں کا تاج پہن چکے ہیں۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان یہ ’’سرد جنگ ‘‘ کہاں تک جائے گی یہ آنے والا وقت بتائے گا؟
آرایس ایس کا گیم شروع ہوچکا ہے چوہان اور گڈکری اس کے پیادے ہیں، سنگھ نے پہلے بھی ہندوہردے سمراٹ اڈوانی کو گھر بھیج دیا تھا، جب وہ سنگھ سے زیادہ طاقتورہوگئے تھے۔ مودی اب اس کا دوسرا شکار ہوں گے۔مودی اپنی سیاسی بقا کی سب سے مشکل جنگ لڑنے جارہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ بالآخر اس جنگ میں کون فاتح ہوتا ہے۔