مودی کی تیسری حکومت کتنی پائیدار ؟

عبدالباری مسعود
جولائی 2024

سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔ یہ محاورہ زبان زد عام وخاص ہے۔ کچھ یہی حال وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بنی ( حقیقی معنوں میں ) نیشنل ڈیموکریٹک الائنس ( این ڈی اے ) کی مخلوط حکومت کا ہے۔ پہلے میڈیکل داخلہ امتحان نیٹ( NEET) امتحان کے پرچے افشاں ہونے کا معاملہ سامنے آیا ۔ پھر ایک کے بعد ایک ایئر پورٹوں کی چھتیں اور پل پہ پل گرنے کے حادثے ہونے لگے۔ رہی سہی کسر 18ویں پارلیمان کے پہلے اجلاس نے پوری کردی، جہاں حزب اختلاف انڈیا محاذ، دیگر جماعتوں اور آزاد ارکان نے مودی، ان کے مصاحب خاص اور بی جے پی پر اتنے زوردار حملے کیے کہ وہ پناہ مانگنے لگے۔ نیز مودی کا دونوں ایوانوں میں گزشتہ دس سال میں پہلی مرتبہ اس قدر مذاق اڑایا گیا کہ اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ بالخصوص غیر طبعی پیدائش کا دعویٰ خوب طنز و تشنیع کا موضوع بنا ۔یہاں تک کہ ایوان بالا ( راجیہ سبھا ) میں پوری اپوزیشن نے مودی کی تقریر میں غلط بیانی کے خلاف ایوان سے واک آوٹ کیا ۔ ان تمام مناظر کو پوری دنیا نے دیکھا۔ جس سے یہ قوی احساس ہوتا ہے کہ موجودہ مخلوط حکومت شاخ نازک پر کھڑی ہے۔
بقول حزب اختلاف 18ویں عام انتخابات میں اخلاقی اور سیاسی شکست کے باوجود مودی نے جو حکومت بنائی ہے وہ بہت کمزور ہے اور اس کا نظارہ گیارہ روز تک جاری رہے پارلیمان کے پہلے اجلاس میں ہی دنیا نے دیکھ لیا۔گزشتہ دس سال میں یہ پہلا موقع تھا جب حزب اختلاف نے اپنی بھرپور قوت کا مظاہرہ کیا اور حزب اقتدار کو دفاع پر مجبور کردیا ۔ خاص طور سے آر ایس ایس اور بی جے پی اور اس کے منافرانہ نسلی تفوق کے نظریہ کو جس زبردست اور مدلل انداز میں نشانہ بنایا گیا اس کی مثال ماضی میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔
پارلیمان میں بحث کا آغاز صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کے خطبہ پر تحریک تشکر سے ہوا ۔ یہ خطبہ دراصل حکومت وقت کا لکھا ہوا ہوتا ہے ۔ شیو سینا ( ادھوٹھاکرے ) کے سنجے راوت نے اپنے مخصو ص انداز میں اسے نشانہ بناتے ہوئے کہا صد رجمہوریہ آئین کا محافظ ہوتا ہے لیکن ان کے خطبہ کا ہر صفحہ جھوٹ پر مبنی تھا ۔ صدر صاحبہ کہتی ہیں کہ مودی نے تیسری دفعہ مطلق اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی ہے، حالاں کہ یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی نے ایک اقلیتی حکومت تشکیل دی ہے۔ راوت نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ مودی اور بی جے پی نے الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کی مدد سے لوک سبھا کی پچاس (50 ) سے زیادہ سیٹیں چرائی ہیں۔ شیو سینا لیڈر نے مرمو کے اس طرز عمل پر بھی طنز کیا کہ جب مودی راشتر پتی بھون میں صدر جمہوریہ کو حکومت بنانے کی اطلاع دینے گئے تو انہیں صدر صاحبہ نے ( برہمنی روایت کے مطابق ) دہی چینی کھلائی ۔ ترنمول کانگریس کے ندیم الحق نے بھی کہا کہ صدر جمہوریہ کے خطبہ میں مخلوط حکومت کا کوئی تذکرہ نہیں جب کہ بی جے پی کو حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت نہیں ملی۔ اس پر آپ کیسے پردہ ڈال سکتی ہیں کہ لوگوں نے مودی کو مسترد کردیا۔
محاذ آرائی کا سلسلہ لوک سبھا میں حزب اختلاف کا قائد مقرر ہونے کے بعد راہل گاندھی کی تقریر سے شروع ہوا۔ دس سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب ایوان زیریں میں کوئی قائد حزب اختلاف بنا ہے۔ پچھلی بار کی دونوں لوک سبھا میں کانگریس یہ پوزیشن حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی جس کے لیے ایوان کے ارکان کی منجملہ تعداد کا دس فیصد حاصل کرنا لازمی ہے۔
راہل نے اس موقعہ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر مسئلہ پر حکومت کو گھیرا۔ تاہم جب انہوں نے ہندتوا کے نظریہ پر کاری ضرب لگائی تو مودی، امت شاہ سمیت بی جے پی کے آر ایس ایس پس منظر والے ارکان تلملا اٹھتے۔
راہل گاندھی نے ہندتوا پر کاری ضرب لگاتے ہوئے حزب اقتدار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ صبح و شام نفرت ا ور ہنسا ( تشدد) پھیلاتے ہیں جب کہ ہندو دھرم میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہندو دھرم کی مقدس کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئےانہوں نے کہا کہ سچا اور حقیقی ہندو وہ ہے جو امن پسند، روادار، سچ بولنے والا اور ندڑ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو اپنے ہندو ہونے کا دعوی کرتے ہیں وہ دراصل ہندو نہیں ہیں۔ اس پر مودی نے مداخلت کرتے ہوئے آپ پورے ہندو سماج کو متشدد کہہ رہے ہیں۔ وزیراعظم کی اس غلط بیانی کا زور دار جواب دیتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ نہیں جو حزب اقتدار کی صفوں میں بیٹھے ہیں وہ ہندو نہیں ہیں۔ غالبا راہل گاندھی نے اپنی تقریر کے لیے ونائک چتر ویدی کی کتاب Hindutva and Violence: V.D.Savarkar and the Politics of History (2022) سے مدد لی ہوگی ۔ اس کتاب میں چترویدی نے بتایا ہے ساورکر ، جنہوں نے ہندتوا کی اصطلاح سب سے پہلے رائج کی، کے ہندتوا کا بنیادی محور تشددہے۔ چترویدی نے ساورکر کی تحریروں کے مطالعہ کا نچوڑ ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ہندو نہ صرف ماضی میں حالت جنگ میں باقی رہے لیکن انہیں اپنے مستقبل کے لیے بھی حالت جنگ( ہنسا) کو دائمی طور پر اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہندو صرف ہنسا کے عمل کے ذریعہ ہی ہندو تصور کئے جاتے ہیں ۔
“)Hindus had not only existed in a state of war in the past but they also needed to embrace permanent war as part of their future” for “Hindus understand themselves as Hindus only through acts of violence(”
غالبا یہی وجہ ہے کہ ہندتوا کی قوتوں اور عناصر کی سرگرمیوں میں شستر( اسلحہ ) کی پوجا ایک اہم روایت ہے۔ یہ نکتہ اہم ہے کہ کیا تشدد سچے ہندو دھرم کی نفی ہے یا تشدد یا ہنسا ہندتوا کی تاریخ کا ایک لازمی جز ہے؟
راہل کے ہندتو پر اس زور دار حملہ سے مودی اور ان کے ہمنواؤں کا سیخ پا ہونا فطری تھا کیوں کہ راہل نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا۔ پارلیمانی روایت کا لحاظ نہ کرتے ہوئے راہل کی تقریر پر مداخلت کے لیے سب سے پہلے مودی کھڑے ہوئے اور راہل کے بیان کو مسخ کرتے ہوئے کہا آپ پوری ہندو قوم کو متشدد بتا رہے ہیں۔ امت شاہ نے بھی ان کا ساتھ دیتے ہوئے اسی انداز میں بیان کو مسخ کرنے کی کوشش کی ۔ جب کہ راہل نے اپنی تقریر میں واضح طور پر حزب اقتدار کی صفوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہنسا اور نفرت کا نکتہ اٹھایا تھا۔ مودی اور حکمراں جماعت کی مداخلت کا زوردار جواب دیتے ہوئے راہل نے کہا مودی پوراہند و سماج نہیں ہے ، بی جے پی پوار ہند و سماج نہیں ہے اور آر ایس ایس پورا ہند و سماج نہیں ہے۔ حکومت کے دباؤ میں آکر اسپیکر اوم برلا (جو اپنے پہلی میعاد میں خاصے بدنام رہے ہیں)نے راہل کی تقریر کے اس حصہ کو ایوان کی کارروائی سے حذف کردیا۔ جس پر راہل نے کہا
“مودی کی دنیا میں سچائی کو حذف کیا جاسکتا ہے لیکن حقیقی دنیا میں نہیں، میں نے جو کہا وہ سچ ہے وہ جتنی بار چاہیں اسے حذف کریں مگر سچائی سچائی ہوتی ہے اسے دبایا نہیں جاسکتا۔”
راہل کی حقیقت پر مبنی اس تقریر کے خلاف آر ایس ایس و بی جے پی کا پورا صوتی نظام حرکت میں آگیا اور اپنے ترجمان نیوز چینلوں کے ذریعہ راہل اور کانگریس کے خلا ف ایک طوفان
بدتمیز ی کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس پر کسی نے کان نہیں دھرا ۔ کیوں کہ اب پوری دنیا جان گئی ہے کہ دروغ گوئی، حقیقت کو مسخ کرنا، آدھی ادھوری بات پیش کرنا حکمراں گروہ کے اوزار ہیں۔ چنانچہ خود جیوتش پیٹھ کے شنکر اچاریہ سوامی اموکتیشور نند نے راہل کی تقریر کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ پوری تقریر سنی ہے جس میں راہل حکمراں جماعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ وہ ہنسا اور نفرت پھیلاتے ہیں۔اس میں ہندو دھرم میں بارے میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔
راہل کے علاوہ کا نگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے نے بھی ایوان بالا میں مودی اور آر ایس ایس پر زبردست حملے کیے جسے ایوان کی کارروائی سے نکال دیا گیا۔ کھڑگے نے انتخابی مہم میں مودی نے جس طرح مسلمانوں اور کانگریس کو نشانہ بنایا اس کا ذکر کیا۔ کیا مودی کے پاس اپنی دس سالہ حکومت کی کارکردگی پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کا کام سماج میں تفرقہ پھیلانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دستور کا ذکر کرتے ہوئے آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر کے نومبر 1949کے شمارہ کے حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان قوتوں نے دستور کو کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا اور یہ منو سمرتی کا قانون اس ملک پر نافذ کرنا چاہتے تھے لیکن عوام نے انہیں مسترد کردیا۔ تاہم راجیہ سبھا کے نائب چیئر مین جے دیپ دھنکر نے اپنے آئینی منصب کے علی الرغم آر ایس ایس کا دفاع کیا اور کہا کہ آر ایس ایس ملک کےمفاد میں کام کرنے والی ایک تنظیم ہے کیا ایسی تنظیم کا رکن ہونا کوئی جرم ہے؟ آپ اسے نشا نہ بنارہے ہیں اور آر ایس ایس سے متعلق اس حصہ کو حذف کردیا۔
ای وی ایم کا معاملہ دونوں ایوان میں بھی پر زور طریقے سے اٹھا۔ سماجوادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادو نے کئی حوالے دے کر کہا “ای وی ایم پر مجھے کل بھی بھروسہ نہیں تھا، آج بھی نہیں ہے، میں 80 میں سے 80 سیٹ جیت جاؤں تب بھی اس پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔” سماج وادی پارٹی اترپر دیش کی 80 میں سے 37نشستیں جیت کر ریاست میں اول اور ملک میں تیسری بڑی پارلیمانی جماعت کی شکل میں ابھری ہے۔اکھلیش کا الزام ہے کہ ای وی ایم اور انتظامیہ کی مدد سے متعدد نشستوں پر ان کی جماعت کے امیدواروں کو ہرایا گیا ہے، بصورت دیگر
اتر پردیش میں بی جے پی کی نشستوں کی تعداد 33 سے کم ہوکر چودہ پندرہ رہ جاتی۔ انہوں نے این ڈی اے حکومت کو شکست خوردہ حکومت سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ جو دستور ہند کے حامی تھے وہ کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے ذات پر مبنی مردم شماری کا معاملہ پوری شدت سے اٹھایا، جس سے آر ایس ایس اور بی جے پی خاصی گھبرا تی ہے۔ راجیہ سبھا میں کانگریس لیڈر دگ وجے سنگھ نے بھی ای وی ایم کا معاملہ اٹھایا ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی مشین ہیک ہوسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن اس بارے میں اپوزیشن سے ملنے سے کیوں کتراتا ہے۔ سٹیزن کمیشن آن الیکشن کے رکن ایم جی دیوا شیام جو ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر ہیں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ کہ یہ انڈیا کی انتخابی تاریخ میں سب سے زیادہ جانبدرانہ الیکشن تھے ۔ ا ن کے مطابق 140پارلیمانی حلقوں میں جتنے ووٹ ڈالے گئے اس سے زیادہ ووٹ شمار کیے گئے ۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق کم از کم سو نشستوں پر حکمراں جماعت کو کامیابی دلائی گئی۔
تحریک اظہار تشکر کے دوران میں مودی اور بی جے پی لیڈروں کا نام لے کر مسلمانوں کو اپنی ہرزہ سرائی کا نشانہ بنانے کا معاملہ بھی متعدد ارکان نے اٹھایا۔ ان میں ترنمول کانگریس کے کلیان بنرجی، مہوا مؤترا ،چندر شیکھر آزاد راون اور اسدالدین اویسی قابل ذکر ہیں ۔
اویسی نے مسلم نمائندگی کے حوالے سے سوال اٹھایا کہ ہر ایک کو یہ محاسبہ کرنا چاہیئے کہ او بی سی کی پارلیمان میں نمائندگی نام نہاد اعلی ذاتوں کے برابر آگئی ہے لیکن مسلمانوں کو ان کا حق کیوں نہیں مل رہا ہے۔ کیا ہم صرف آپ کو ووٹ دینے کے لیے ہیں، اس ایوان میں آنے کے لیے نہیں؟ اویسی نے کہا میں ان لوگوں کی طرف سے بول رہا ہوں جنہیں مودی نے گھس پیٹیا اور زیادہ بچے پیدا کرنے والاکہا ہے۔ مسلم نوجوانوں کی ماب لنچنگ ہورہی ہے، ان کی طرف سے بول رہا ہوں ۔ انڈیا بلاک کا نام لیے بغیر سوال کیا کہ مسلمانوں کے مسیحا کا کیا یہ سماجی انصاف ہے کہ صرف چار فی صد مسلمان پارلیمان میں پہنچے؟ یہ ان کی
اخلاقی فتح نہیں بلکہ اکثریتی سوچ کی فتح ہے۔ اویسی نے کہا کہ دستور صرف علامتی چیز نہیں ہے ۔ دستور صرف ایک کتاب نہیں جو چومنے کے لیے ہے۔ دستور ساز اسمبلی کی بحث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلم ریزرویشن ختم کرتے وقت کہا گیا تھا کہ یہ اکثریتی فرقہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں کی مناسب نمائندگی کو یقینی بنائیں لیکن اس پر عمل کہاں ہورہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ مودی کو جو ووٹ ملے ہیں وہ مسلمانوں سے نفرت اور ہندتوا کی حمایت کی بنیاد پر ملے ہیں۔ مسلم ووٹ بینک کے فسانہ کو پاش پاش کرتے ہوئے کہا ” سی ایس ڈی سی کا ڈاٹا بتاتا ہے کہ اعلی ذاتوں کا ووٹ بینک ہے جو یکمشت ووٹ ڈالتا ہے جب کہ مسلمانوں کا نہ کبھی ووٹ بینک تھا اور نہ کبھی رہے گا ۔
راون نے کہا کہ بی جے پی کا سب کا ساتھ ۔ سب کا وکاس کا نعرہ سیاسی فائدہ کے لیے صرف ایک نعرہ ہے کیوں کہ گزشتہ دس برسوں میں دلتوں اور مذہبی اقلیتوں پر جو مظالم ڈھائے گئے ہیں وہ کسی سے چھپے نہیں ہیں۔ مودی اور حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کے سی وینو گوپال نےکہا کہ انتخابی نتائج انڈیا محاذ کی اخلاقی فتح ہے اور بی جے پی کی شکست۔ انہوں نے اس پہلو کو بھی اجاگر کیا کہ بانسواڑا میں جہاں مودی نے انتخابی جلسہ میں منگل سوتر اور دیگر سوقیانہ باتیں کہی تھیں وہاں لوگوں نے اسےمکمل طور پر مسترد کردیا۔ یہ حقیقت کس سے چھپی ہے کہ مودی ملک کی تاریخ کے سب سے کم ظرف اور سب سے زیادہ بدلحاظ وزیراعظم ہیں۔ اپنے سابقہ دو ادوار میں انہوں نے ہندوستانی معاشرے اور سیاست کے منظرنامے کو کس طرح تباہ کیا ہے ہر ہندوستانی جانتا ہے۔ بہرحال مودی نے تقریبا دو گھنٹے تک جوابی تقریر کی جس میں وہی غلط بیانی تھی جو ان کی سیاست کا خاصہ ہے۔
مبصرین کے مطابق پچھلی دو لوک سبھا یعنی 2014 اور 2019 کےبرعکس دونوں ہی میں ایوانوں میں حزب اختلاف بھرپور قوت کے سا تھ پہنچی ہے۔ جس نے مودی کے لیے بڑی مشکلات کھڑی کردی ہیں ۔ ان کی زیادہ من مانی اب نہیں چلے گی۔ نامور سیاسی مبصر ابھے دوبے کے مطابق مودی کا اس اجلاس میں جس قدر مذاق اڑا یا گیا وہ گزشتہ دس سال میں کبھی نہیں ہوا تھا، اس پر ان کی حلیف جماعتیں تلگو دیشم اور جنتادل یو کے ارکان ایوان میں خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ اب دیکھنا ہے کہ دو علاقائی جماعتوں کے سہارے بنی یہ حکومت کتنی دیر پا ثابت ہوتی ہے-

•••

عبدالباری مسعود