اٹھار ہویں لوک سبھا یا ایوان زیریں میں جو 24مسلمان پہنچے ہیں ان میں 14بالکل نئے چہرے ہیں ۔ ان نئے منتخب ارکان پارلیمان میں رامپور حلقہ سے مولانا محب اللہ ندوی اور کشمیر کے بارہ مولا حلقہ سے عبدالرشید شیخ المعروف انجینئر رشید کی کامیابی کئی اعتبار سے حیرت انگیز ہے۔ اول الذکر کو پرچہ نامزدگی کے عین آخری دن پارٹی کا پروانہ ملا جب کہ ثانی الذکر گزشتہ پانچ سال سے دہلی کے تہاڑ جیل میں پابند سلاسل ہیں۔
تمام تر داخلی اور خارجی مشکلات خاص طور پر حکمراں بی جے پی کی انتہا درجہ کی مسلم مخالف مہم کے باوجود محب اللہ ندوی بی جے پی کے موجودہ رکن پارلیمنٹ گھنشیام سنگھ لودھی کو 87ہزار ووٹوں کے فرق سے با آسانی شکست دے کر میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئے ۔ نوابوں کے شہر رامپور کا نام زبان پر آتے ہی اعظم خان کا نام زبان پر آجاتا ہے جسے وہ اپنی جاگیر سمجھتے ہیں ، اور یہاں سے کسی اور مسلمان کو سماج وادی پارٹی کا امیدوار بنائے جانے کے سخت مخالف تھے۔ا سی لیے محب اللہ ندوی کو بالاآخری لمحہ میں اپنا پرچہ نامزدگی داخل کرنا پڑا۔ جو پارلیمنٹ اسٹریٹ جامع مسجد (دہلی) کے امام ہیں ۔
محب اللہ ندوی عالمی شہرت یافتہ اسلامی مدرسہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے پہلے فارغ التحصیل ہیں جو ملک کے اعلیٰ ترین قانون ساز ایوان میں پہنچے ہیں ۔ اس سے قبل دارالعلوم دیوبند کے کئی سابق طلبہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے ایوان پارلیمان میں داخل ہوئے ہیں ۔ اس الیکشن میں بھی دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل مولانا بدرالدین اجمل قاسمی آسام سے اپنی روایتی دھوبری نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے جس پر وہ 2004کے الیکشن سے کامیاب ہو رہے تھے ۔
48 سالہ ندوی کو سہ رخی مقابلے میں 49.74 فیصد ووٹ اور بی جے پی امیدوار لودھی کو 40.71 فیصد ووٹ ملے۔ دونوں امیدواروں کے درمیان ملنے والوں ووٹوں میں تقریباً 9 فیصد کا فرق ہے۔ جب کہ بی ایس پی کے ذیشان خان کو صرف 8.2فیصد ووٹ ملے۔ ندوی کا دعوی ہے کہ اگر انتخابات منصفانہ ہوتے تو ان کی فتح دیڑھ لاکھ سے زائد ووٹوں سے ہوتی۔
محب اللہ ندوی کا تعلق رام پور کے گاؤں رضا نگر سے ہے۔ رام پور شہر میں حفظ مکمل کرنے کے بعد سنبھل کے ایک مدرسہ میں داخلہ لیا ۔ اس کے بعد ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا ۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھی گئے لیکن یہاں کا ماحول انہیں راس نہیں آیا ۔ بعدازاں وہ دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ چلے آئے جہاں سے عربی میں آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ اسلامک اسٹڈیز میں ایم اے کرنے کے بعد الفلاح یونیورسٹی سے بی ایڈ کیا۔
وہ 2005 میں جامع مسجد میں امام مقرر ہوئے یہ مسجد پارلیمنٹ کی عمارت کے بالکل سامنے ہے۔ جہاں سرکردہ مسلم ارکان پارلیمان اور رہنما نماز ادا کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ان کی کامیابی میں لوگوں کی دلچسپی کی ایک وجہ اس مسجد سے وابستگی بھی ہے۔
اس بار اتر پردیش سے پارلیمنٹ کے لیے پانچ مسلمان منتخب ہوئے ہیں ۔ ریاست سے چھ مسلم امیدواروں چار سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر اور دو کانگریس کے ٹکٹ پر مقابلے میں تھے ۔ بہوجن سماج پارٹی نے 22 مسلمانوں کو میدان میں اتارا تھا ، لیکن ان میں سے کوئی بھی پارلیمنٹ میں نہیں پہنچا۔
افکار ملی کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو میں محب اللہ ندوی نے کہا کہ بی جے پی کے چیلنج کے علاوہ انہیں اس امر کو بھی یقینی بنایا کہ بی ایس پی کے مسلم امیدوار کی وجہ سے مسلم ووٹ تقسیم نہ ہوجائے جس نے تقریباً 79,000 ووٹ حاصل کیے ۔ انہوں نے کہا کہ 12 سے 15 بوتھوں میں دھاندلی کی گئی ہے جن میں ایس پی ہامی ووٹروں کی بڑی تعداد ہے بصورت دیگر ان کی فتح کا فرق ایک سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان ہوتا۔
اس سوال پر کہ آپ کی کامیابی کا راستہ ہموار نہیں تھا، اعظم خان اور ایس پی کی مقامی یونٹ آپ کی امیدواری کے خلاف تھی نیز اعظم خان کے معاون خاص عاصم راجہ نے ایس پی کا امیدوار ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیا تھا۔ محب اللہ ندوی نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ ’’میں پارٹی کی پہلی پسند کا امیدوار نہیں تھا اور 27 مارچ کو نامزدگی کے آخری دن آخری وقت میں اپنے کاغذات داخل کیا تھا۔
”وہ ایک چیلنجنگ لمحہ تھا۔ ہمارا متبادل امیدوار بھی دستیاب نہیں تھا۔ وقت ختم ہو رہا تھا۔” انہوں نے کہا ” پارٹی کے ناراض ساتھیوں کی وجہ سے کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم ایک عالم دین اور امام ہونے کی وجہ سے انہیں پذیرائی ملی ۔
ان کے منبر سے اچانک سیاست میں آنے کے بارے میں سوال پر محب اللہ ندوی نے کہا کہ وہ سیاست کی طرف زیادہ مائل نہیں تھے ۔” میری اقتدا میں نماز ادا کرنے والوں میں کئی اہم سیاسی شخصیات ہوتی تھیں جن سے مجھے تحریک ملی۔ انہوں نے کہا، ’’ وہ اس سال جنوری میں سنبھل کے ایم پی شفیق الرحمن برق کے ساتھ ایس پی کے صدر اکھلیش یادو سے لکھنؤ میں پارٹی دفتر میں ملاقات کرنے گئے تھے لیکن انہوں نے مجھے ٹکٹ دینے کا وعدہ نہیں کیا تھا ، لیکن متبادل کے طور پر تیار رہنے کے لیے کہا تھا۔” تاہم ان کی پرچہ نامزدگی بہت ڈرامائی رہی۔
مرحوم شفیق الرحمان برق کی طرح وہ بھی ترک مسلم برادری سے تعلق رکھتے ہیں ۔ برق نے غالبا اسی بنیاد پر محب اللہ ندوی کی حمایت کی تھی جن کا ایک ماہ بعد ترانوے سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ وہ تحلیل شدہ لوک سبھا کے سب سے بزرگ ترین رکن تھے ان کے پوتے ضیاالرحمن برق ان کی روایتی سنبھل نشست سے منتخب ہوئے ہیں۔
خیال رہے اتر پردیش مسلم ممبران پارلیمنٹ کا سب سے بڑا دستہ بھیجتا ہے۔ 1980 کے ساتویں عام انتخابات میں 18 مسلم امیدوار اس ریاست سے کامیاب ہوئے تھے جو اب تک کی ایک ریکارڈ تعداد ہے ۔ لیکن اس کے بعد سے یہاں ہندو فرقہ پرستی کے زور اور مسلمانوں میں برادری کی عصبیت کے نتیجہ میں مسلم نمائندگی کم ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ 2014 کے الیکشن میں ایک بھی مسلمان منتخب نہیں ہو سکا تھا ۔ 2019 کے الیکشن میں چھ مسلمان منتخب ہوئے تھے جب کہ اس بار پانچ مسلمان منتخب ہوئے ہیں ۔
زوال پذیر مسلم نمائندگی کے مسئلہ پر ندوی نے کہا کہ ہماری سیاسی نمائندگی کا محاسبہ کرنے کے لیے تعداد نہیں معیار مقرر ہونا چاہیے ۔ اچھا رکن جو کمیونٹی کے لیے وقف ہو، اسلام کے تمام پہلوؤں کو جانتا ہو، اور مسلمانوں کے مسائل و امور کو مناسب طریقے سے پیش کرنے کی اہلیت رکھتا ہو، چاہے ایک ہو، کافی ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ دیکھا گیا ہے کہ سیکولر پارٹیوں سے منتخب ہونے والے مسلم امیدواروں کو ان کے کمیونٹی سے تعلق کی وجہ سے ٹکٹ ملتا ہے لیکن وہ پارلیمنٹ میں اپنی کمیونٹی کے متعلق مسائل کو مشکل سے ہی اٹھاتے ہیں۔ محب اللہ ندوی نے جواب دیا کہ کہ اگر کوئی شخص مخلص اور سچا ہے تو وہ حکومت یا کسی بھی جماعت کی طرف سے کی گئی کسی بھی غلط کاری کے خلاف آواز اٹھا سکتا ہے۔
(جملہ معترضہ : مسلم نمائندگی کے حوالے سے گفتگو سے کچھ زیادہ امید افزاء پہلو نہیں نکل آیا۔ نیز پورے ملک خاص طور سے اتر پردیش میں جس طرح کے سیاسی حالات تھے جہاں سماج وادی پارٹی کے حق میں ہمدردی کی ایک لہر نظر آئی رامپور حلقہ میں یہ کامیابی اسی کا نتیجہ ہے۔)
18ویں عام انتخابات کے نتائج ایک دوسرے پہلو کو بھی واضح کرتے ہیں ۔ اس مرتبہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے خلاف ملک کے متعدد علاقوں میں ایک لہر چل رہی تھی ۔ اس لحاظ سے مسلم نمائندگی کے لیے 2019کے مقابلے میں حالات نسبتا سازگار تھے مگر مسلم ارکان کی تعداد سابقہ 26سے کم ہوکر 24رہ گئی ۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کانگریس اور سماج وادی پارٹی نے بڑی کم تعداد میں انہیں ٹکٹ دیا تھا ۔ مزید کہ یہ بعض مسلم امیدوار بہت ہی معمولی ووٹوں کے فرق سے شکست کھا گئے۔ جن میں منصور علی خان بھی شامل ہیں، جنہوں نے بنگلور شہر کے بنگلور سینٹرل حلقہ سے کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا۔ منصور اپنی شکست کی وجہ اپنے حلقے میں جعلی ووٹروں کی حیرت انگیز تعداد کو بتاتے ہیں اور انتخابی نتیجہ کو عدالت میں چیلنج کرنے کے لیے شواہد یکجا کر رہے ہیں۔
کرناٹک کے دارالحکومت میں تین پارلیمانی نشستیں ہیں لیکن بنگلور سنٹرل کی نشست پر زبردست مقابلہ دیکھنے میں آیا جہاں منصور علی خان نے بی جے پی کے تین بار کے ایم پی پی سی موہن کو تقریبا شکست دیدی تھی۔
منصور علی خان اپنے بی جے پی حریف موہن پر 80ہزارسے زیادہ ووٹوں کی سبقت بنائے ہوئے تھے اور کانگریس کے کارکنوں اور ان کے حامیوں نے جشن منانا بھی شروع کردیا تھا لیکن جب سی وی رمن نگر، گاندھی نگر اور مہادیو پورہ اسمبلی حلقوں میں ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو یہ سبقت کم ہونا شروع ہوئی حالانکہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر منصور علی خان کو اب بھی سبقت دکھائی جارہی تھا ۔ موہن کو 6,58,915 ووٹ اور منصور علی خان کو 6,26,208 ووٹ ملے ۔ جب کہ NOTA کے حصہ میں 12,126 وو ٹ پڑے ۔
51 سالہ منصور علی خان اس وقت آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے سکریٹری اور تلنگانہ کانگریس کمیٹی کے انچارج ہیں۔ وہ 2022 میں کرناٹک پردیش کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری بھی تھے۔ متعدد تعلیمی ادارے چلانے کے علاوہ وہ شہر میں CBSE اسکولوں کی انجمن کے جنرل سکریٹری ہیں ۔ وہ سابق مرکزی وزیر اور راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین کے رحمان خان کے بیٹے ہیں۔ خاندانی پس منظر کی وجہ سے سیاست ان کی رگوں میں ہے۔
افکار ملی سے بات کرتے ہوئے اپنی غیر متوقع شکست کے بارے میں منصور علی خان نے کہا کہ میرے ابتدائی جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ فرضی ووٹروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ پچھلے نو مہینوں کے دوران میرے حلقے کے تحت آنے والی کچھ اسمبلی سیٹوں پر 50,000 تک فرضی ووٹر رجسٹرڈ ہوئے۔ صرف دس مہینوں میں دس گنا زیادہ ووٹرز کا اندراج ہونا ایک غیر معمولی بات ہے۔ الیکشن کمیشن کو اس کی تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے ،کیونکہ یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔
مزید برآں یہ کہ ٹکٹ الیکشن سے صرف 20 دن پہلے ملا ۔ اس لیے ان کی ٹیم ان جعلی ووٹروں کی بروقت شناخت کرنے میں ناکام رہی۔ سر دست دس سے گیارہ ثبوت ملے ہیں اور مزید جمع کیے جارہے ہیں تاکہ بنگلور سنٹرل سیٹ کے نتیجہ کو چیلنج کیا جاسکے ۔ جب یہ سوال کیا گیا کہ آپ کی شکست سے بہت سے لوگ حیران رہ گئے کیونکہ آپ کے پارلیمانی حلقے میں زیادہ تر ایم ایل اے کانگریس سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان میں سے تین سدارامیا کابینہ میں وزیر بھی ہیں۔ اس سوال پر منصور علی خان گویا ہوئے “کانگریس کے تمام ایم ایل اے اور وزراء کے ساتھ ساتھ عام کارکنوں نے ان کے لیے سرگرمی سے کام کیا۔ فرقہ پرستی کے عنصر نے بھی میری شکست میں کردار ادا کیا۔ لیکن میں یہ کہوں گا کہ اگر الیکشن کمیشن غیر جانبدارانہ ریفری کا کردار ادا کرتا تو میرے حلقہ سمیت کئی حلقوں میں نتائج مختلف ہوتے۔”
جب یہ پوچھا گیا کہ کرناٹک میں کانگریس بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیوں نہیں کرپائی حالانکہ اس نے گزشتہ سال کے اسمبلی انتخابات میں زبردست اکثریت کے کامیابی حاصل کی تھی ؟ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی سدارامیا کی قیادت میں کرناٹک حکومت نے انتخابی منشور میں وعدے کے مطابق پانچ فلاحی اسکیموں کو نافذ کیا۔ تاہم فرقہ وارانہ صف بندی نے اپنا اثر دکھایا ۔ کانگریس ہائی کمان نے خراب کارکردگی کے پیچھے وجوہات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ حتمی رپورٹ آنے میں ایک مہینہ لگے گا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کرناٹک میں مسلمانوں کی اکثریت نے کانگریس پارٹی کی حمایت کی تاہم اس الیکشن میں صرف ایک ٹکٹ ملا ۔ جب کہ اس سے قبل گلبرگہ، ہبلی ،دھارواڑ اور بنگلور سے مسلم امیدوار کھڑ ےکئے جاتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں نے کانگریس کو اقتدار میں لانے کے لیے اسمبلی انتخابات میں بھاری اکثریت سے ووٹ دیا۔ تاہم ملک کی فرقہ وارانہ صورتحال، اور سیاسی محرکات کو دیکھتے ہوئے پارٹی ہائی کمان نے کمیونٹی کو زیادہ نمائندگی نہیں دی۔ لیکن پارٹی قیادت ریاستی قانون ساز کونسل، راجیہ سبھا، کارپوریشنوں اور دیگر سرکاری اداروں میں کمیونٹی کو زیادہ سے زیادہ نمائندگی دینے پر غور کر رہی ہے۔ پارٹی کے قائدین میں اس بات کا شدید احساس ہے ۔
حکومت تبدیلی کے باوجود کرناٹک میں مذہبی منافرت پرمبنی واقعات پیش آ رہے ہیں۔ NET کا امتحان دینے والی ایک لڑکی کو اس کا حجاب اتارنے پر مجبور کیا گیا۔ اس پر منصور علی خان نے کہا کہ جب بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں ریاستی حکومت سخت کارروائی کرتی ہے۔ کمیونٹی لیڈروں اور ایم ایل اے حضرات کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ جہاں بھی ناانصافی اور ظلم و زیادتی کا معاملہ سامنے آئے اس پر آواز اٹھائیں ۔
•••
عبدالباری مسعود