فلسطین کے سابق وزیر اعظم اور حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ شیخ اسماعیل ہنیّہ اپنی مراد کو پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں شہادت کی وہ مبارک خلعت پہنا دی، جس کو زیب تن کرنے کے لیے ان کی روح بے چین رہتی تھی۔ اس وقت ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی اتباع میں کہتے ہیں:
إِنَّ العينَ لَتَدْمَعُ وَإِنَّ القَلبَ لَيَحْزَنُ وَإِنَّا عَلَى فِرَاقِكَ
لَمَحْزُونُونَ وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا.
(آنکھیں بہہ رہی ہیں، دل افسردہ ہے، ہم آپ کی جدائی سے غم زدہ ہیں، لیکن ہم کوئی ایسی بات نہیں کہیں گے جو ہمارے پروردگار کی مرضی کے خلاف ہو۔)
ہمیں وہ وقت یاد آرہا ہے جب 2004 میں إمام الانتفاضة شیخ احمد یاسین اور چند روز بعد اُن کے جانشین فلسطين ڈاکٹر عبدالعزيز رنتیسی کو شہید کردیا گیا تھا۔ اِس بیس سال کی مدت میں حماس کی صفِ اول کا کوئی قائد شہید نہیں کیا گیا۔ اس میں حماس کی حکمت عملی کا بھی دخل تھا اور صہیونی بے وقوفیوں کا بھی۔ البتہ یہ طے ہے کہ اس بیس سال کی مدت میں حماس کے رہنما صہیونی چال بازیوں سے نہ تو غافل رہے اور نہ انھوں نے اپنی جان بچنے کی وجہ سے چین کی سانس لی۔ وہ سب بار بار ناجائز صہیونی ریاست کے خاتمے تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم بھی دہراتے رہے اور شہادت کی آرزو بھی کرتے رہے۔ اس مدت میں حالات نے بہت سی کروٹیں لیں۔ اِن جیالوں کو جلاوطنی، جان لیوا حملے، اعزہ و اقربا کی شہادت اور اپنوں کی طرف سے بدگمانیوں اور تہمتوں کو برداشت کرنا پڑا۔ انھوں نے یہ ساری آزمائشیں ہنستے کھیلتے برداشت کیں، کیوں کہ ان کی نظر اپنی منزلِ مقصود پر تھی۔ یعنی شہادت، اللہ کے راستے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا۔ آخر کار اسماعیل ہنیہ اپنی منزلِ مراد تک پہنچ گئے۔ جگر مراد آبادی نے ایسے ہی سرفروشوں کے لیے کہا تھا:
جان ہی دے دی جگرؔ نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
شیخ اسماعیل ہنیہ شہید حماس کی دوسری صف کے فرد تھے۔ امام احمد یاسین شہید، ڈاکٹر محمود زہار اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی شہید نے آج سے 38 سال پہلے جہاد و شہادت کا جو مقدس قافلہ تیار کیا تھا، شیخ اسماعیل ہنیہ شہید اس کی دوسری صف کے سوار تھے۔ یا یوں کہیے کہ بانیوں کے بعد پہلی صف کے فرد تھے۔ اس صف کے لوگوں میں سے شیخ صلاح شحادہ شہید، شیخ یحییٰ عیاش شہید، ڈاکٹر نزار ریان شہید، شیخ سعید صیام شہید، شیخ احمد جعبری شہید مختلف اوقات میں شہید کیے جاچکے ہیں۔ الحمد للہ شیخ خالد مشعل، شیخ یحییٰ سنوار اور شیخ موسیٰ ابو مرزوق جیسے قائدین باحیات ہیں۔ 2004 میں جب حماس کے بانی اور ان کے جانشین کو ایک ماہ کے اندر شہید کردیا گیا تھا تو دشمنوں نے خوشی میں اور نادان دوستوں نے مایوسی میں یہ سمجھ لیا تھا کہ حماس ختم ہوگئی۔ قائدین ہی نہ رہے تو قافلہ کیسے رواں دواں رہے گا۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ قائدین کی ایک لمبی صف سامنے آگئی۔ ایک کے بعد ایک شہادت کے منصف پر فائز ہوتے رہے۔ ایک جاتا تو دوسرا اَس کی جگہ لے لیتا۔ یہ عمل بیس سال سے جاری تھا اور ان شاء اللہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ کیوں کہ موجودہ صفِ قائدین کے بعد کی صف بندی بھی ہو رہی ہے، یا ہوچکی ہے۔
شیخ اسماعیل ہنیہ نے اس دنیا میں 63 سال گزارے۔ اس مدت میں انھوں نے اپنے مرشد و مربی امام احمد یاسین سے لے کر اپنی معصوم پوتی تک نہ جانے کتنے پیاروں کی جدائی کا صدمہ برداشت کیا۔ لیکن قربان جائیے اس عظیم قائد اور بے باک مجاہد پر کہ اتنے صدموں کے باوجود ایک لمحے کے لیے بھی قدم نہیں ڈگمگائے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں صیہونیت کے خلاف شروع ہونے والی مبارک جدوجہد طوفان الأقصى کے ابتدائی مہینوں میں صہیونیوں نے شیخ اسماعیل ہنیہ شہید، شیخ خالد مشعل اور شیخ موسیٰ ابو مرزوق کی کردار کشی کی بھی تحریک چلائی تھی۔ اِن مبارک شخصیات کو دولت کا پجاری اور فلسطینی قوم کا سوداگر کہا گیا۔ ایسی جعلی رپورٹیں جاری کی گئیں جن میں انِ حضرات کو اَربوں کھربوں میں کھیلتے ہوئے اپنی قوم کو مرنے کے لیے چھوڑنے والا ثابت کیا گیا۔ صہیونی جو کریں کریں، افسوس کہ امت کا ایک طبقہ بھی اس صہیونی چال کا شکار ہوگیا اور اپنے اِن قائدین پر شک کرنے لگا۔ خارجی فکر کے معاصر علم برداروں میں سے کچھ نے تو اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے تشکیک کے صہیونی مشن کو اپنا مشن بنالیا۔ حد تو یہ ہے کہ رمضان المبارک میں جمعہ کے منبروں سے صہیونی میڈیا کی غلاظت اچھال اچھال کر محراب و منبر اور امت کی سماعت کو آلودہ کیا گیا۔ عید الفطر کے بعد ایک حملے میں اُن کے دو جوان بیٹے اور معصوم پوتے شہید ہوئے تو اسماعیل ہنیہ نے ناقابلِ یقین عزم و ثبات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناجائز صہیونی ریاست کے خاتمے تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم دہرایا۔ تب کہیں جاکر صہونیت کی معاون زبانیں بند اور قلم رکے۔
شیخ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا غم معمولی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا سانحہ ہے، جس کا غم تادیر بھلایا نہ جاسکے گا۔ اُن کی شخصیت میں عجب دل کشی اور دل آویزی تھی۔ وہ کبھی اپنے بزرگوں کی دست بوسی کرتے اور اُن کی خدمت کرتے دکھائی دیتے تھے تو کبھی ننھے منے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے نظر آتے تھے۔ اسلامی علوم پر بھی اُن کی اچھی نظر تھی۔ الاتحاد العالمي لعلماء المسلمين اور دوسرے اداروں کے جلسوں میں وہ خالص مذہبی موضوعات پر گفتگو کرتے تھے تو قرآن و حدیث کے حوالے اُسی شان سے دیتے تھے، جو شان مذہبی علماء کے لیے خاص ہے۔ اُن کے اوپر اکثر رقت طاری ہوجاتی تھی۔ اپنے رفقاء میں نمازوں کی امامت اور جمعہ و عیدین کے خطبات کے لیے بھی انھیں ہی آگے بڑھایا جاتا تھا۔ اس روحانی چھاپ کے ساتھ ساتھ اُن کے پہلو میں شہادت کے لیے تڑپنے والا دل اور سَر میں بہترین تدابیر کرنے والا دماغ بھی تھا۔ ان سب عناصر نے مل کر انھیں کاروانِ جہاد و شہادت کا روحانی قائد بنا دیا تھا۔
شیخ اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارالسلطنت تہران کے ایک ہوٹل میں شہید کیا گیا ہے۔ وہ وہاں نو منتخب ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ ایران کے سپریم کمانڈر اور دوسرے قائدین سے ان کی ملاقاتیں ہوچکی تھیں۔ ابھی اس حادثے کی تفصیلات جاری نہیں ہوئی ہیں۔ حقائق کو سامنے آتے آتے وقت لگے گا۔ اس لیے کسی بھی مسلم فرقے یا ملک کے خلاف ردعمل ظاہر کرنا قبل از وقت بھی ہوگا اور نامناسب بھی۔ یاد رکھنے کی اصل بات یہ ہے کہ اللہ کے ایک محبوب بندے کی آرزو بَر آئی۔ وہ شہادت سے سرفراز ہوگیا۔ جہاد و شہادت کی تاریخ میں ایک خوب صورت صفحہ کا اضافہ کرگیا۔ ہمیں اور آپ کو یہ پیغام دے گیا کہ بدترین حالات میں بھی اپنے رب سے لَو لگائے رکھنا اور حتیٰ الامکان جدوجہد جاری رکھنا ہی کام یابی کی کلید ہے۔ امت کے نام اُنھوں نے دو تین دن پہلے ایک پیغام جاری کیا تھا۔ اس پیغام میں پوری امت سے اپیل کی گئی تھی کہ 3 اگست کو پوری دنیا میں یومِ غزہ کے طور پر منایا جائے۔ آئیے ! اُس شہیدِ جلیل کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کے ساتھ اُس کی مبارک زندگی کے ہر پیغام پر عمل کرنے کا عہد کریں۔