ایک کہاوت ہے کہ گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے یا چیونٹی کے پر اس وقت نکلتے ہیں جب اس کی زندگی کا اختتام قریب ہوتا ہے ۔ ان کہاوتوں کی روشنی میں یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ بھارت یا ریاست مہاراشٹر میں فرقہ واریت کا خاتمہ قریب ہے ۔ لیکن اتنا تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ منافرت کی سیاست کرنے والوں نے لوک سبھا الیکشن کے نتائج سے کوئی سبق سیکھنے کی بجائے منافرت کی شدت میں اضافہ کردیا ہے ۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ اضافہ انہیں فائدہ پہنچائے گا یا نقصان ؟ مگر یہ تو طے ہے کہ نفرت کی اس سوچ سے ریاست کا ماحول بگڑے گا اور خدا نہ کرے اگر یہ کوششیں کامیاب ہوگئیں تو جہاں جانی و مالی نقصان ہوگا وہیں یہاں کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی والے ماحول کو بھی نقصان پہنچے گا ۔ امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے سبب معاشی سرگرمیاں سست پڑیں گی جس کا راست اثر ریاست کی جی ڈی پی پر ہوگا ۔بہر حال سیاست دانوں پر ان حالات کا یا عوام کو ہونے والے نقصان کا کوئی اثر پہلے ہوا ہے نہ اب ہونے والا ہے ۔ ان کا ایک ہی منصوبہ ہوتا ہے یعنی ہر حال میں اقتدار کا حصول ۔ اس لئے اس کاتجزیہ ضروری ہے کہ وشال گڑھ میں ہوا کیا تھا اور اب آگے کیا ہونا ہے۔ اور اس طرح کے واقعات کا تسلسل کب تک قائم رہے گا ؟
14؍ جولائی کو شرپسند عناصر کی بڑی تعداد جن کی تعداد، ایف آئی آر کے مطابق پندرہ سو تھی اور جس کی قیادت سمبھا جی اور دیگر کررہے تھے ، نے اچانک ملک ریحان کی درگاہ اور اس کے اطراف کی مسلم آبادی پر حملہ کردیا ۔ اس بھیڑ نے لوگوں کو مارا پیٹا ، گھروں کو لوٹا ، آگ زنی کی اور مسجد پر چڑھ کر اسے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ۔ مسجد کے اندرونی حصوں میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی ۔ متاثرین کا الزام ہے کہ جس وقت یہ سب کچھ ہو رہا تھا اس وقت پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی جیسا کہ آزادی کے بعد سے ہی اس طرح کا الزام پولیس فورس پر لگتا آرہا ہے ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آج تک حکومتیں یا اعلی پولیس افسران نے اس پر کوئی کارگر کارروائی یا سدھار کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ یہ سب کچھ وہاں سے تجاوزات کے خاتمہ کیلئے کیا جارہا تھا ۔ یعنی پولیس اور شرپسند ساتھ ساتھ غیر قانونی حرکت میں شامل تھے ۔ اک ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ تجاوزات اور غیر قانونی قبضہ کے نام پر مسلمانوں کی املاک کو زمین بوس کرنا اب قابل گرفت عمل نہیں رہا ۔ لیکن اس واقعہ کے چار پانچ دن بعدہائی کورٹ میں وشال گڑھ قلعہ کے علاقے کے تین مقامی لوگوں ایوب یو کاغذی، عبدالسلام کے ملنگ اور مراد محلدار نے تشدد، پولیس کی مبینہ بے عملی اور پی ڈبلیو ڈی کی مسماری پر الگ الگ درخواستیں دائر کیں۔دوران سماعت شاید پہلی بار ججوں نے بہت سخت رویہ اپناتے ہوئے پولیس اور انتظامیہ کو سخت وارننگ دی کہ تاحکم ثانی ساری کارروائی روکی جائے ۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ عدالت کے حکم کے باوجود حکومت اور پولیس و شہری انتظامیہ نے کسی حیلے بہانے سے اپنی کارروائی جاری رکھی ۔ اس لیے ججوں نے سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ذرا سی بھی حکم عدولی ہوئی تو سخت کارروائی کی جائے گی اور ذمہ داروں کو جیل جانا پڑے گا ۔ججوں نے 29؍ جولائی کو جواب داخل کرنے کی تاریخ مقرر کی تھی ۔
29؍ جولائی کو تشدد کے لئے 21گرفتار شدگان میں سے پندرہ افراد نے ضمانت کی عرضی داخل کی تھی ۔عدالت نے پولیس سے پوچھا کہ ان گرفتار شدگان کے خلاف ان کے پاس کیا ثبوت ہے ؟ واضح رہے کہ ایف آئی آر پندرہ سو افراد کے خلاف ہوئی ہے جس میں بائیس نامزد افراد شامل ہیں اور اس فسادی گروہ کی قیادت کرنے والے دو افراد پولیس کے مطابق ہنوزفرار ہیں ۔
یہ مسائل اس لئے پیدا کئے جارہے ہیں کہ اس کی مدد سے سماج میں خلیج پیدا کرکے سیاسی عزائم کی تکمیل کی جائے ۔ ورنہ مقامی افراد میں کوئی فرقہ وارانہ خلیج نہیں ہے ۔ اس سے قبل وہاں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ اب یہ ہندو شدت پسند گروہ جو گذشتہ کئی برسوں سے مہاراشٹر میں سرگرم ہیں ان کا اگلا نشانہ لونا والا (مہاراشٹر کا ایک سیاحتی مقام) کے قریب لوہ گڑھ قلعہ تھا ۔یہاں پر وشال گڑھ کی طرز پر جلوس نکالنے کا منصوبہ سکل ہندو سماج ، بجرنگ دل ، نیول گروپ اور لوہ گڑھ مکتی سنگھرش مہم وغیرہ شامل تھے ۔ انہوں نے شیواجی دور کے چالیس سے زیادہ قلعوں کی فہرست بنا رکھی ہے جس میں رائے گڑھ ، چندن وندن گڑھ اور قلابہ کا قلعہ شامل ہے ،جہاں سے بزعم خود ان کا مقصد تجاوزات ہٹانے کا ہے ۔سماجی تنظیموں اور سیاسی لیڈروں نےاس طرح کے کسی بھی مارچ یا تحریک پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے کہ تاکہ ریاست کو تشدد سے بچایا جاسکے ۔ عرصہ سے کلیان کی حاجی ملنگ درگاہ بھی ان کی اشتعال انگیزی کا مرکز رہی ہے ۔ ایک زمانہ میں جب شیو سینا کے ایک گروہ کی تطہیر قلب نہیں ہوئی تھاتو وہ علامتی طور پر وہاں تشدد پھیلانے کی کوشش کرتا تھا ۔ اب یہ کام شیو سینا کا دوسرا گروپ کررہا ہے ۔ موجودہ وزیر اعلیٰ کلیان درگاہ کی آزادی کا نعرہ بلند کرچکے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومتی فرائض میں مصروف ہوکر یا سیاسی مصلحت پسندی کی وجہ سے اب ان کی زبان سے اس طرح کے الفاظ ادا نہیں ہورہے ہیں ۔
لوک سبھا انتخاب میں ہزیمت کے بعد حکومت مہاراشٹر نے عوامی رفاہی منصوبوں کا اعلان کرکے عوام کے رخ کو اپنی جانب موڑنے کی کوشش کی ہے لیکن شاید وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں اسی لئے تشدد اور اشتعال انگیزی پر نرم رویہ یا در پردہ حمایت کا رویہ اپنا رکھا ہے ۔ اس طرح کے رویہ اور عوامی مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا بی جے پی اور اس حلیف پارٹیاں مہاراشٹر اسمبلی پر منافرت کی سیاست سے قبضہ کر پائیں گے ۔ اگر اس کا جواب وثوق سے ہاں میں نہیں دیا جاسکتا تو اس کی نفی بھی نہیں کی جاسکتی ۔ بی جے پی اور شیو سینا و این سی پی کے باغی گروہوں سے گھر واپسی کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ کو دیکھتے ہوئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ عوام لوک سبھا سے زیادہ ریاستی اسمبلی میں کانگریس، این سی پی شرد پوار، شیو سینا ادھو کو نوازنے والے ہیں ۔ یہی خدشہ بی جے پی اور ان کے حلیفوں کو پریشان کئے ہوئے ہے ۔اسی لئے وہ تشدد کی آگ کو سلگانے کی کوشش کررہے ہیں ، یعنی صاف چھپتے بھی نہیں اور پاس آتے بھی نہیں والی بات ہے۔یہ اپنی کوشش سے باز نہیں آئیں گے اور چاہیں گے کہ تشدد پھیلے اور سماجی تانا بانا بکھرے کیوں کہ یہی ان کی امید کی آخری کرن ہے ۔ وہ ایک کے بعد ایک شوشہ چھوڑیں گے اور حکومت اور انتظامیہ چشم پوشی اختیار کرے گی۔ امید ہے کہ مہاراشٹر کے عوام اپنی بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے ان کے منصوبے خاک میں ملا دیں گے ۔ 29 ؍ جولائی کو عدالت میں پولیس نے اپنی تساہلی اور جانبداری کا جواز فراہم کرتے ہوئے یہ کہا کہ موسلا دھار بارش اور کہرے کی وجہ سے انہیں کارروائی کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ دوسرے، ایک جگہ اور احتجاج اور دھرنا کا پروگرام تھا جس کی وجہ سے وہ تذبذب کا شکار ہوگئے کہ انہیں جانا کہاں ہے ۔ پولیس کے بیان سے ناراض ایک مراٹھی صحافی نے کہا کہ اس کا لب لباب یہ نکلتا ہے کہ پولیس والوں کی آنکھیں پھوٹ گئی تھیں اس لئے وہ تشدد پر آمادہ افراد پر کارروائی نہیں کرسکے۔
کانگریس اور اس کی حلیف پارٹیوں کو ریاستی اسمبلی میں اکثریت ملنے کی امید ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہاں کے عوام میں فرقہ وارانہ سوچ پختہ نہیں ہے جیسا کہ ہندی بولنے والی ریاستوں میں ہے ۔ آر ایس ایس کا ہیڈ کواٹر یہیں ہے اور اس کےچوٹی کے لیڈر یہیں کے رہے ہیں اس کے باوجود ان کی بنیاد یہاں کمزور ہی رہی ہے ۔ دوسری اہم وجہ گجرات لابی کے ذریعہ یہاں کی صنعت کو گجرات منتقل کرنے کے سبب یہاں مقتدر طبقہ کے خلاف منافرت کا ماحول پروان چڑھ رہا ہے ۔ تیسری وجہ بغاوت ہے جس کی وجہ سے لوک سبھا میں بھی بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کو نقصان ہواتھا۔ عوام آج بھی انہیں غدار تصور کرتے ہیں۔ چوتھی اور اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں سیاسی شعور پختہ ہے ، جس کی وجہ سے وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتے جس سے فرقہ پرستوں کو طاقت ملے اور وہ پھر سے اقتدار پر قابض ہوجائیں ۔