اٹھارہویں لوک سبھا کا الیکشن سات مرحلے سے گزرتا ہوا اپنی پوری ہنگامہ آرائی کے ساتھ یکم جون 2024 کو تمام ہوگیا۔ نتیجے بھی 4جون کووقت پر سامنے آگئے۔اس کے بعدان میں ہار جیت کی نئی بحث شروع ہوگئی ہے اوراسی کے ساتھ نئی جوڑ توڑ،بہلانے پھسلانے، مننے روٹھنے اور سرکار بنانے کی قواعد بھی جاری ہوگئی۔ میڈیا پر نئی بحثوں کا شور بھی ہے۔ کار آمد اور مفید بحثیں کم ہیں زیادہ تر بحثیں تکرار اور اشتہارکا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔
میرے نزدیک الیکشن کے نتائج پر اس حیثیت سے اب ہم سب کو غور کرناچاہیے کہ کیا نئے چیلنجز ہیں جو ملک کے مستقبل کو سنوارنے میں اب درپیش ہوں گے اور حالیہ الیکشن نے کیا امکانات پیدا کردیے ہیں۔
اس سلسلے میں پہلی بات جو واضح رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس پارلیمانی الیکشن میں حالات کو بدلنے میں سیاسی پارٹیوں سے زیادہ اہم رول ملکی سماج کے ہر حلقے وعلاقے میں کام کرنے والی سول سوسایٹیز کا ہے ۔ پہلی دفعہ ملک کی سول سوسائٹیوں کا یہ کردار کھل کر سامنے آیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں بھی ولولہ وجوش ان کی پشت پناہی کے بعد ہی پیدا ہوا۔
اس لیے سچی بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں جو کچھ حاصل ہوا ہے چاہے وہ جمہوری قدروں کی آبرو ہو یا مذہبی آزادی و رواداری کی ہندوستانی روایت ہو، دستوری آداب اور اداروں کا پاس ولحاظ ہو یا کم زوروں اور مظلوموں کی داد رسی و حمایت ہو،حکومت کے ویلفیر کردار اور سوشل جسٹس کے سبق کی یاد دہانی ہو سب میں اصل رول سول سوسائٹی کا ہی ہے۔ ہم سبھوں کو یاد ہے سیاسی پارٹیاں تو اپنے اپنے ذاتی،خاندانی اور پارٹی مفادات سے اوپر اٹھ نہیں رہی تھیں اور زیادہ تر خوف زدہ تھیں۔ بی جے پی حکومت نے بھی انھیں تنگ کر رکھا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ تر پارٹی کے لیڈروں کے دامن داغدار ہیں لہذا انکم ٹیکس اور ای ڈی کا خوف ان پر چھایا ہواتھا چناں چہ ان پارٹیوں کا الکشنی بیانیہ بھی پارٹی کے محدود سیاسی مفادات سے آگے نہیں جارہا تھا اس سلسلے میں راہل گاندھی کا بیانیہ قابل ستائش رہا ‘ انھوں نے بہت صاف صاف ہندتوا آئیڈیولوجی کو نشانہ بنایا اور بی جے پی کی بنیادی پالیسی پر دو ٹوک تنقید کی۔ گاندھی جی اور نہرو کے خوابوں کو ہندوستان کے اصل خواب کی حیثیت سے پیش کیا بعد میں دوسری پارٹیوں نے بھی اس بیانیے کو تقویت پہنچائی لیکن راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا اور نیایے یاترا نے بڑا کام کیا۔
آج حکومت بنانے میں انڈیا گٹھ بندھن کو جوکمی ہورہی ہے اس کی ایک وجہ خود گٹھ بندھن سے وابستہ سیاسی پارٹیوں کی کم زوری ہے۔ بہار میں لالو پرساد کا پترموہ یعنی اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو منصب اقتدار پر بٹھانے کی خواہش بھی ان میں سے ایک ہے۔بھلا پپو یادو کے پیچھے اتنا پڑنے کی کیا ضرورت تھی اور کنیہیا کمار کو دہلی جانا کیوں پڑا۔ امیدواری میں کس طرح الٹ پھیراور نوک جھونک ہوتا رہا آخری وقت تک بات بن بن کر بگڑ جاتی تھی-
حنا شہاب کا مسئلہ آخر تک سلجھ نہ سکا- نتیش کمار اور ان کے پلٹنے سے بہار کی حکومت بھی ایک دم پلٹ گئی اور ریاست میں پارلیمانی انتخاب بھی بی جے پی کے اقتدار میں شریک رہتے ہوا اس نے سیاسی پس منظر بدل دیا اور حالیہ پیش منظر نتیش کی اسی سیاسی عیاری کا نتیجہ ہے۔ خود کانگریس کی تنظیمی صورت حال بہار میں کیا ہے، بنگال میں کانگریس کے ریاستی صدر کا رول گٹھ جوڑ کے منفی رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کا معاملہ بالکل دوسرا ہے-ان کے رولس آف گیم کا بنیادی فارمولہ اقتدار کا حصول ہے۔
لہذا حکومت کسی کی تشکیل پائے، کتنے دنوں تک چلے سول سوسایٹیز کو مل جل کر پورے ملک میں منصوبہ بند طریقے سے گراس روٹ لیول پر بہت چھوٹے چھوٹے پروگرام اور اس کے بعد ریاستی سطح پر ایک بڑے پروگرام کے ذریعے اپنے سیاسی فرائض کو ادا کرنا چاہیے اور اپنےمشن کو مشترکہ طور پر جاری بھی رکھنا چاہیے۔ اس کام میں سیاسی پارٹیوں سے ایک بامعنی قربت اور حکیمانہ فاصلہ بناکر ہر سطح پر نئی نئی سیاسی،اجتماعی اور مشترکہ قیادت برپا کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کو بھی اس مہم میں شریک ہوکر اپنی نئی نسل میں سیاسی قیادت کو پروان چڑھانا چاہیے کیوں کہ ہماری یہاں بھی سیاسی نمائندگی کرنیوالے پارٹیوں سے وابستہ لیڈران اسی مرض میں مبتلا ہیں۔مسلمانوں کے اندر تو اور پستی آگئی ہے یہاں تو بس اقتدار کے دسترخوان سے چوسی ہوئی ہڈیوں کی حرص و ہوس اور امید میں سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کی کاسہ لیسی اور بروکری مسلم سیاسی لیڈروں کا وطیرہ ہوگیا ہے الا ماشاء اللہ اگر ایک دو اس سے مختلف ہیں تو وہ قابل قدر ہیں۔
بہرحال اس سلسلے میں خیر امت کے فرائض کاشعو ر رکھنے والوں کوبھی اپنے خول سے نکل کر اس میں پیش پیش رہنا چاہیے۔
کیوں کہ اس الیکشن میں سول سوسائٹی سے وابستہ ہندوستانی عوام اور بعض میڈیا پرسن کارویہ بہت قابل قدر اور قابل تعریف رہا ہے اس کی تعریف اور تزکیہ دونوں ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا یہی وہ لمحہ ہے جب مسلمان قوم بحیثیت مجموعی قومی کشمکش کی سیاست کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کا پر عزم فیصلہ کرے تو تاریخ کا رخ بدل سکتی ہے۔ ورنہ یہ جو تھوڑی مہلت ملی ہے اس میں اگر ہم وہی قومی سیاست کا راگ الا پتے رہے اور خیر امت اور اخرجت للناس کا فریضہ ادا نہیں کیا تو یاد رہے کہ اس کے بعد ہندتوا کا ایک آخری کلایمکس آنا ابھی باقی ہے، اس کو آپ روک نہیں سکیں گے۔ یقین نہ ہوتو ملت کے بڑے لوگوں کی تحریروں کو دوبار پڑھ لیجئے- دور کیوں جائیے مولانا ابوالکلام آزاد کی شاہجہانی مسجد کے خطبے اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے خطبہ مدراس کے ابتدائی نکات کو تازہ کرلیجئے اور نظام حیدرآباد کو جو خیرخواہانہ مشورے انھوں نے دئیے تھے ان کو بھی پڑھ لیجیے۔ یا پھر 1963-64 میں آل انڈیا مجلس مشاورت کا جو پس منظر تھا اور اس موقع پر ملت کے اکا برین نے جو بیانات دیے تھے انھیں کو تازہ کرلیجئے صرف مولانا علی میاں مرحوم کی تقریر دوبار سن لیجئے اور ڈاکٹر سید محمود کے تبصرے کو دیکھ لیجئے یا اس وقت کی روداد ہی کم ازکم پڑھ لیجئے۔
بہرحال ہندتوا فورسیز کی نصف شکست نے ایک نیا چیلنج کھڑا کردیا ہے مکمل شکست ہوتی تو بات دوسری تھی۔ یہ تو معاملہ ہی دوسرا ہے۔ کہیں یہ ایک وقفہ جیسا نہ ہوجائے۔ ملکی سیاست کی زمین اور آسمان کا رنگ نہیں بدلا ہے۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ بس ابھی چند ماہ اور ایک ڈیڑھ سال میں کئی ریاستوں کے الیکشن بھی ہیں۔ نئی حکمت عملی کے ساتھ چوٹ کھایے ہوئے اژدھے کی طرح وہ ازسر نو میدان میں اتریں گے۔ ان کی تنظیمی قوت وسائل و ذرائع اور کمٹمنٹ سب پر نظر رہے۔ قدرت نے دونوں کو کام کرنے کا موقع دیا ہے، ہندتوا سیاست کو بھی اور جمہوری و مذہبی رواداری کی قوتوں کو بھی، کلچرل نیشنلزم کو بھی اور دستوری قومیت کے علمبرداروں کو بھی۔ بلکہ ابھی بھی تعداد میں جادوئی نمبر نہ سہی لیکن بحیثیت مجموعی تنظیمی قوت ہو یا دوسرے وسائل و ذرائع ہوں پلڑا انھیں کا بھاری ہے۔ دونوں کا میزانیہ دیکھیے گا تو ابھی بھی جمہوری قدروں کےعلمبرداروں کے اسکور کی قوت کم ہے-
ایک اور پہلو ہے ایم پی کی تعداد ان کی کم تو ہوئی ہے لیکن نفوذ اور پھیلاؤ بڑھا ہے- کیرالا میں ایک ایم پی کا ہونا بہت معنی رکھتا ہے، کانگریس کے بارے میں یہ واضح رہنا چاہیے کہ کیرالا کے کانگریسی بھی بدلیں گے تو ایک جست میں بھا جپائی ہوجائیں گے- جنوب کی ریاستوں میں بی جے پی کی رسائی ایک بڑا اہم قدم ہے۔کرناٹک،آندھرا اور تلنگانہ ہر جگہ نفوذ ہوگیا ہے۔
اس لیے حالات کو فوری سرکار بنانے اور نہ بنانے، جادوئی تعداد تک پہنچنے اور نہ پہنچنے کے زاویے سے مت دیکھیے۔ بلکہ تاریخی قوت کے پورے بہاؤ اور بدلاؤ کو تمام پہلوؤں سے دیکھیے۔تب آپ چیلنجز اور امکانات پر غور و فکر کا حق ادا کرسکتے ہیں۔