کاکا سعید احمد عمریؒ

ملّتِ اسلامیہ ہند کے بے لوث خادم

محمد رضی الاسلام ندوی
جون 2024

جنوبی ہند کے مشہور تعلیمی ادارے جامعہ دارالسلام عمرآباد کے معتمد عمومی جناب کاکا سعید احمد عمری کا مؤرخہ11؍ مئی2024ء میں انتقال ہوگیا۔اس طرح ملّت اسلامیہ ہند ایک مخلص داعی،بے لوث خادم اور اتحاد ملّت کے عَلَم بردار سے محروم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور ملّت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے،آمین۔

کاکا سعید احمد کا تعلق عمر آباد کے اس خاندان سے تھا جو تعلیمی، سماجی اوررفاہی میدان میں اپنی خدمات کے لیے جانا جاتاہے۔یہ خاندان چرم کے کاروبار سے منسلک تھا۔اس کا کاروبار بیرون ملک تک پھیلا ہوا تھا۔ایک صدی قبل کاکا محمد عمر نے1924ء میں جامعہ دار السلام کی بنا ڈالی تھی۔ ان کی خدمات کے اعزاز میں اس بستی کا نام عمر آباد رکھا گیا۔ کاکا سعید احمد نے جامعہ کی ذمے داری سنبھالی تو محنت اور لگن سے اسے خوب ترقی دی، متعدد شعبے کھولے،تعلیم کا معیاری انتظام کیا،فاضل اساتذہ کی خدمات حاصل کیں اور جامعہ کے دروازے ہر مکتب و مسلک کے طلبہ کے لیے کھول دیے۔اِن دنوںجامعہ دار السلام کا وسیع کیمپس ہے۔ اعلیٰ دینی تعلیم کے علاوہ تمل میڈیم پرائمری اسکول، اردو میڈیم پرائمری اسکول،ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ برائے کمپیوٹر ایجوکیشن،صنعت و حرفت کی تعلیم کے لیے ایک انسٹی ٹیوٹ بھی قائم ہے۔ ایک بڑا ہاسپٹل بھی چل رہا ہے،جو عوام کی خدمت کے لیے وقف ہے اور بلا تفریق مذہب و ملّت علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ ان سب کاموں کے لیے خوب صورت اور وسیع و عریض تعمیرات کاکاسعید کے زمانے میں ہی ہوئی ہیں۔

کاکا سعید احمد آل نڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے طویل عرصہ سے نائب صدر تھے۔ وہ بورڈ کی نشستوں میں پابندی سے شرکت کرتے اور حسب موقع اپنی آرا پیش کرتے۔ وہ خاموشی سے کام کرنے کے عادی تھے۔ ملّت کی تعمیر و ترقی کے لیے ہمہ وقت جدّوجہد کرنے والے تھے۔

کاکا سعید صاحب کی دو خوبیاں انھیں ملّت کی سرکردہ شخصیات میں بلند مقام عطا کرتی ہیں: ایک یہ کہ انھیں دعوتِ دین کے کام سے بہت دل چسپی تھی۔ انھوں نے جامعہ میں اس کا باقاعدہ شعبہ قائم کررکھا تھا اور اس میدان میں کام کرنے والوں کی تربیت کے لیے اساتذہ مقرر کررکھے تھے۔ نو ہدایت یافتگان کی تربیت کا بھی معقول انتظام کیا تھا۔ دوسری خوبی یہ کہ وہ وحدتِ امت کے داعی اور عَلَم بردار تھے۔ وہ تمام ملّی اداروں اور دینی جماعتوں کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ ان کی فکر میں بڑا توسّع اور اعتدال پایا جاتا تھا۔انھوں نے جامعہ میں مسلکی توسّع اور وسیع المشربی کو فروغ دیا۔ چناں چہ وہاں ہر مسلک کے اساتذہ تدریس کی خدمت انجام دیتے تھے اور طلبہ میں بھی ہر مسلک کی نمائندی پائی جاتی تھے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے،ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل دے اور ملّت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، آمین، یا رب العالمین!