ہندوستان کی مشرق وسطیٰ میں سفارت کاری ایک بار پھر عرب اسرائیل بحران کے فریقوں کے دباؤ میں ہے۔ ہندوستان کی دو ریاستی حل والی روایتی پالیسی جس کے مطابق مشرقی یروشلم ایک آزاد اور قابل عمل فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار پائے، بدستور برقرار ہے۔ بہر حال ہندوستان اپنی فلسطین پالیسی کے معنی اور سیاق و سباق کی دوبارہ تشریح کیسے کرتا ہے اس حوالے سے کافی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔
7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد ہندوستانی میڈیا اور دائیں بازو پر مبنی رائے عامہ نے غزہ میں اسرائیلی فوجی حملے کی زبردست حمایت کی تھی۔ نئی دہلی میں مقیم عرب سفارت کاروں نے فلسطین کے حوالے سے بڑھتی ہوئی مخالفانہ رائے عامہ پر اپنی تشویش کا اظہار کیاتھا۔
ملک میں برسر اقتداربھارتیہ جنتا پارٹی کے اسرائیل نواز اشارے عرب سفارت کاروں سے مخفی نہیں ہیں۔ یہ بات ان کے علم میں ہے کہ بی جے پی حکومت فلسطین اور اسرائیل کے درمیان اپنی ’’توازن ‘‘ قائم کرنے والی پالیسی سے ہٹ کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کر رہی ہے۔
بی جے پی اور اس کی حامی افراد اسرائیل کو ایک ایسا ملک سمجھتے ہیں جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کسی بھی تنازعہ کے وقت ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔ اسرائیل ہندو پاک تنازعہ سے آگاہ ہے اور اس نے اسے پوری طرح ایک موقع کے طور پر استعمال کیا ہےاور دوسری طرف ہندوستان کی حساس رائے عامہ سے بچنے کے لیے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں کو خفیہ بھی رکھا ہے ۔ جو لوگ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اسرائیل کی کوششوں سے آگاہ ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ دو مسلم ممالک، پاکستان اور انڈونیشیا، اسرائیل اور اس کے مغربی حمایتی جنہوں نے معاہدہ ابراہیمی میں اہم کردار ادا کیا تھا کے لیے اولین ترجیح ہیں۔ سعودی عرب بھی پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی بہتری کاحامی ہے کیوں کہ پاکستان اس کا روایتی حلیف ہے۔
اس طورپر ممکن ہے کہ ہند- اسرائیل تعلقات کی خصوصی اہمیت نہ رہے اور زیادہ دیر تک اس کا انحصار پاکستان پر مرکوز نہ ہو۔ اسرائیل، پاکستان اور ترکی کے ساتھ سال 2020 میں آذربائیجان کے نگورنو کاراباخ پر دوبارہ قبضے کے اہم طرف داروں میں سے تھا، جب کہ آرمینیا نے اپنے فوجی سازوسامان کے لیے ہندوستانی پر انحصارکیا تھا۔ جب سے غزہ- اسرائیل تنازع شروع ہوا ہے ہندوستان کو ایک مختلف چیلنج کا سامنا ہے۔
اولاَ یہاں ایک مضبوط اسرائیل نواز رائے عامہ ہے جو ہندوستان میں حکمران جماعت اور اس کے حامیوں کے نظریے سے وابستہ ہے۔ دوسرے، نریندر مودی کی ایک دہائی پر محیط حکمرانی میں ہندوستان نے خلیجی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو ترجیح دیتے ہوئے علاقائی معاملات سے سابقہ ہچکچاہٹ اور الگ تھلگ رہنے کے رویہ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
چین کا کردار
خلیج میں امریکہ اور چین کے درمیان اثر و رسوخ کے لیے جاری مقابلہ آرائی میں ہندوستان خلیجی ممالک کی سلامتی اور استحکام کی حمایت کے لیے مغرب کی زیر قیادت کوششوں میں شامل ہے۔ یہ خطے میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ کو روکنے کی ایک کوشش ہے۔ ہندوستان نئے اور وسیع تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے خطے کو اسٹریٹجک اور سیکورٹی سپورٹ پیش کرنے کے لیے تیار ہے۔
چین کے ذریعہ ایران -سعودی تعلقات کی بحالی سے بھی ہندوستان کا فائدہ ہوا ہے۔ ہندوستان کے لیے ایران کی اصل اسٹریٹجک اہمیت خلیج میں نہیں بلکہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں ہے جہاں ایران متعدد کنیکٹی ویٹی پروجیکٹوں میں ہندوستان کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔ اس لحاظ سے اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر ایران کی طرف سے بہت کم یا نہ کے برابر اعتراضات کیے گئے ہیں۔
غزہ-اسرائیل تنازعہ کے درمیان جب ہندوستان کے ذریعہ اسرائیل کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرنے کی خبریں سامنے آئیں تو نہ تو عرب ممالک نے اور نہ ہی ایران نے کوئی ردعمل ظاہر کیا۔ گولہ بارود کی فراہمی جس کی ابھی تک سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی گئی، ہندوستان اور مشرق وسطیٰ کے تعلقات کی تبدیلی کے حوالے سے ایک اہم موڑ ہے۔ ہندوستان کی وزارت خارجہ کے تمام سرکاری بیانات نے اس بات پر زور دیا ہے کہ حماس کی 7 اکتوبر 2023 کی کارروائیاں “دہشت گردی” کے زمرے میں آتی ہیں اور یہی موقف زیادہ تر مغربی ممالک کا بھی ہے جس کی ان کے خلیجی اتحادیوں بشمول سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے خاموش تائید کی ہے۔ ہندوستان نے پہلے معاہدہ ابراہیمی کا خیرمقدم کیا تھا جو کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے باہر عرب اسرائیل تنازعہ کے حل کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں شروع ہوا تھا۔جب کہ مصر، اردن، ترکی، قطر اور ایران نے نام نہاد نئے امن عمل کی حمایت سے انکار کیا ہے۔
بحران اور اس کا مستقبل
اسرائیل کو گولہ بارود کی سپلائی سے مغربی ممالک میں ہندوستان کی حمایت بڑھ سکتی ہے۔ تاہم عرب اسرائیل بحران کا مشرق وسطیٰ میں طاقت کے مستقبل کے توازن کی تشکیل میں اہم کردار بدستور جاری ہے، خاص طور پر مغربی ممالک اور ان کے خلیجی اتحادیوں کے خلاف۔ سعودی عرب اس بحران کے حوالے سے زیادہ محتاط اور حساس رہا ہے کیونکہ اگر یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کی قیمت پر اسرائیل کی حمایت کررہا ہے تو یہ اس کی داخلی سیاست میں وسیع پیمانے پر غصہ اور بدامنی پیدا کر دیتی۔
ایران کو اپنے علاقائی عزائم کے ساتھ لبنان، یمن اور خلیجی معاشروں کے کچھ حصوں میں عوامی حمایت حاصل ہے۔ چاہے عرب ممالک عرب- اسرائیل قضیے میں اس کے کردار کو تسلیم کریں یا نہ کریں، ایران ایک ایسا کھلاڑی ہے جس کے اثرات کافی زیادہ ہیں اور اس کی حمایت کسی بھی امن میکانزم کو برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان مختصر فوجی تصادم نے یورپی طاقتوں کو خبردار کردیا کہ اگر امریکہ فلسطینیوں کے مطالبات کو نظر انداز کرتا رہا تو وہ خطے میں اپنی ساکھ کھو دیں گے۔
دوسری طرف مصر کئی دہائیوں تک اسرائیل کی حمایت کے باوجود اس بحران میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والاملک ہے۔ مصر ہندوستان-مشرق وسطی اقتصادی راہداری(IMEC) کے ذریعہ بنائے جانے والے متبادل راستوں کے حوالے سےبھی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔اس کے علاوہ مصر مقبوضہ غزہ کے راستے بحیرہ احمر اور بحیرہ روم کے درمیان ایک نئی نہر بنانے کےاسرائیلی منصوبہ کے حق میں بھی نہیں ہے۔ اسی لیے مصر کو حماس کے نظریاتی سرپرست اخوان المسلمون سے نفرت کے باوجود حماس کا دفاع کرنا چاہیے۔ ہندوستان دفاعی برآمدات کے مواقع تلاش کر رہا ہے کیونکہ مودی حکومت ایک مضبوط دفاعی صنعت کے فروغ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ تاہم جنگ کے دوران اسرائیل کو گولہ بارود فروخت کرنا ایک سیاسی اعلامیہ کا اظہار ہے۔
تاہم ہندوستان جہاں وہ واقع ہے اس خطے کے حوالے سے اس کی حکمت علمی اس کی زمینی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔لہذا اس کی جغرافیائی سیاست کی سمجھ کو بحر اوقیانوس میں کم لیکن بحر ہند اور خلیج میں زیادہ آزمایا جائے گا۔ خطے کے ممالک امریکی قیادت پر بہت کم اعتماد کرتے ہیں اور ایک نئے سیکورٹی ڈھانچے کی تلاش میں ہیں جس کا امریکہ اور یورپ پر کم انحصار ہو اور وہ علاقائی بحرانوں کو حل کرنے کا خواہاں ہو۔ایسا امکان ہے کہ غزہ جنگ کے بعد مصر، ایران، ترکی اور سعودی عرب جیسی علاقائی طاقتیں خطے میں روس اور چین کو علاقائی معاملات کے تصفیے کے لیے دعوت دیں گی ۔ لہٰذاہندوستان کو فوری طور پر دوطرفہ تعلقات سے آگے نکل کر وسیع تر علاقائی معاملات میں اپنے کردار کے لیے تیار رہنا چاہیے۔