اسماعیل ہنیہ شہیدؒ

ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی
اگست 2024

31جولائی کا سورج امت ِمسلمہ کے لیے ایک بری خبرلے کرطلوع ہوا۔ رات کے آخری پہر میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موسادکے ایجنٹوں نے شہرتہران کے ایک سرکاری مہمان خانہ پرمیزائل داغ کر وہاں مقیم سب سے بڑے فلسطینی رہنما اسماعیل ہنیہ  کونشانہ بناکرشہید کردیا ۔ اوریوں راہ ِخدامیں جان دینے کی ا ن کی تمنا پوری ہوگئی ۔    ؎

یہ رتبہ ٔبلندمل گیاجس کومل گیا

ہرمدعی کے واسطے دارورسن کہاں

تہران میں وہ نئی حکومت ایران کے مہمان تھے اورنو منتخب ایرانی صدرمسعودپزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔

حافظ اسماعیل ہنیہ  خاصان خداوندی میں سے تھے۔ان کا پورانام اسماعیل عبدالصالح احمد ہنیہ  تھا۔وہ الشاطی رفیوجی کیمپ(مخیم الشاطی)میں  1962کوپیداہوئے۔31 جولائی کو 62 سال کی عمرمیں تہران میں ان پر قاتلانہ حملہ ہواجس میں انہوں نے شہادت کا جام پی لیا۔ جنازہ ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ خامنہ ای نے پڑھایااوراس کے بعدان کے جسدخاکی کوقطرلے جایاگیا جہاں قطرکے شاہی قبرستان لُسیل میں امیرقطرکی موجودگی میں ہزاروں سوگواروں نے ان کی میت کو سپرد خاک کیا۔     ؎

بناکردندخوش رسمے بخاک وخون غلطیدن

خدارحمت کنداین عاشقان پاک طنیت را

ہنیہ  کا خاندان عسقلان کے گاؤں الجورہ سے 1948میں اسرائیل کے قیام اورفلسطینی نکبہ کے وقت ہجرت کرکے آیاتھا۔شہید ہنیہ  کے 13بچے تھے جن میں سے تین کچھ عرصہ پہلے اسرائیل کے دہشت گردانہ حملہ میں شہیدہوگئے تھے۔اہلیہ سارہ ہنیہ  حیات ہیں اوردو بیٹیاں خولہ ہنیہ  اورآما ل ہنیہ  ہیں نیزان کے بیٹے حازم ہنیہ  ابھی زندہ ہیں۔یہ شہیدوں کا گھرانہ ہے اورمقدس گھرانہ ہے کہ ہنیہ  فیملی اب تک دودرجن سے زایدشہیدمسجداقصی پر قربان کرچکی ہے۔

اسماعیل ہنیہ  نے غازہ کی اسلامی یونیورسٹی سے بی اے تک کی تعلیم حاصل کی ۔عربی میں اس کوشہادہ البکالوریاکہتے ہیں جس میں ان کا موضوع عربی زبان وادب تھا۔وہ حماس کے بانی الشیخ احمدیاسین ؒ کے مسترشدین میں سے تھے۔جب 1987میں اسرائیلی ظالمانہ قبضہ کے خلاف پہلاانتفاضہ ہواجس کے نتیجہ میں حرکۃ المقاومہ الاسلامیہ (حماس ) کی بناپڑی تواسماعیل نے تعلیم چھوڑکرمجاہدین کی اس تنظیم میں شمولیت اختیارکرلی۔جلدہی ظالم اسرائیل نے ان کوپے درپے تین بارگرفتارکیا۔ 1992رہائی کے بعدان کولبنان جلاوطن کیاگیا۔ ایک سال بعد واپس آئے توغزہ  کی اُسی اسلامی یونیورسٹی میں ڈین کے فرائض انجام دیے۔1997میں ان کوحماس کے مرکزی آفس میں اہم منصب پر فائزکیاگیا۔

2006میں فلسطینی علاقوں میں انتخابات ہوئے اورحماس نے واضح اکثریت سے جیت درج کرائی۔ جس کے نتیجہ میں قاعدہ قانون کے مطابق حماس کی حکومت بننی چاہیے تھی مگراسرائیل اوراس کے مغربی آقاؤں(امریکہ اوراس کے ذلہ رباممالک ) نے حماس کی انتخابی جیت کوتسلیم کرنے سے انکارکردیا۔ تاہم ان کی ہٹ دھرمی کے علی الرغم اسماعیل ہنیہ  فلسطین کے وزیراعظم بنائے گئے تب 14جون 2007کومغرب واسرائیل کے اشاروں پر ناچنے والے فلسطنی مقتدرہ کے نام نہادصدرمحمود عباس نے اسماعیل ہنیہ  کوعہدے سے برخواست کردیا۔لیکن حماس نے ان کے فیصلہ کوتسلیم نہیں کیا۔یوں حماس اورالفتح میں کشاکش ہوئی اوراس کے نتیجہ میں فلسطینیوں کا زیرانتظام علاقہ دوحصوں میں بٹ گیا۔غزہ کی پٹی پر حماس کی حکومت تھی اورمغربی کنارہ فلسطینی مقتدرہ کے زیرانتظام ۔اس عہدہ کے علاوہ وہ غزہ میں 2006سے 2017 حماس کے قائداعلی بھی رہے ۔اس کے بعدیہ منصب یحیٰ السنوارکودے دیا گیا جواب شہیداسماعیل ہنیہ  کے جانشین بنائے گئے ہیں۔

چھ مئی 2017 کواسماعیل ہنیہ  حماس کے پولیٹیکل بیوروکے چیف منتخب کیے گئے ۔اِس سے قبل خالدمشعل اس منصب پرفائزتھے۔پولیٹیکل بیوروچیف کا مطلب حماس کاسربراہ اعلی ہوناہے۔حماس کی قیادت کے بعد ہنیہ  غزہ سے قطرمنتقل ہوگئے۔انہیں کی قیادت میں حماس نے سات اکتوبر 2023کواسرائیل پر حملہ کیا جس کومعرکۃ طوفان الاقصیٰ کا نام دیاگیا۔اِس حملہ کی وجوہات بہت ساری تھیں اورسب فوری کارروائی کی متقاضی تھیں مگرفوری سبب اس حملہ کے دوتھے ۔

ایک یہ کہ تمام عرب ممالک ایک ایک کرکے اسرائیل سے تعلقات استوارکررہے تھے جس کوعربی زبان میں تطبیع کہتے ہیں۔یہاں تک کہ سعودی عرب بھی جوحرمین کا محافظ ہے اس دوڑ میں آگے تھااور وہ بس اسرائیل کے ساتھ تعلقات کونارملائزکرنے کے معاہدہ پردستخط کرنے ہی والاتھا۔اس کے بعد جو ہوتا وہ یہ کہ غزہ پٹی ،مغربی کنارہ اور دوسرے علاقوں سے فلسطینیوں کو کھدیڑکر مصرکے صحرائے سینا اوراردن کے اندر دھکیل دیاجاتا،فلسطینی وجودکا خاتمہ ہوجاتا اورمصر واردن کوان کی اوقات کے مطابق مغربی دنیا پیسوں سے نواز دیتی۔

دوسرے یہ کہ جب اس شیطانی اسکیم پر عمل درآمد ہوجاتا جس میں سعودی عرب،مصر،اردن اورمتحدہ عرب امارات کے علاوہ امریکہ و برطانیہ اوراسرائیل کے شیاطین بھی جمع ہوگئے  تھے توپھر اس کے بعداقصی ٰ کے انہدام کی کارروائی شروع ہوجاتی، جس کے لیے اسرائیل بہت دنوں سے سرخ گائے پال رہاہے، جس کا قربان کیا جانا باقی ہے، جس کے بعد نام نہاد منہدم شدہ سولومن ٹیمپل کی تعمیرشروع ہونی ہے۔

اِن دونوں شیطانی منصوبوں کوروکنے کے لیے فوری طورپر کچھ بڑاکرناضروری تھاجوطوفان الاقصیٰ کی شکل میں سامنے آیا۔ممکن ہواس میں کچھ اسرائیل کے عام شہری  بھی مارے گئے ہوں مگر جنگ میں توایسا ہوتا ہی ہے۔مغربی دنیااوراس کے غلاموں کی ابلیسیت یہ ہے کہ وہ بس ہمیشہ اسرائیلی شہری جوطوفان الاقصیٰ میں مارے گئے کا روناروتے ہیں،اِن خبیثوں کویہ نظرنہیں آتاکہ سفاک اسرائیل نے اپنے وحشیانہ حملوں میں چالیس ہزارنہتے فلسطینی عوام کوشہیدکرڈالاہے جس میں پندرہ ہزارسے زایدمعصوم بچے ہیں!اوراس جرم میں سعودی ،مصری ،اردنی اوراماراتی نام نہاد ‘مسلم حکمراں’ سب برابرکے شریک ہیں۔

طوفان الاقصیٰ کو اب نومہینے ہوگئے اوراسرائیلی بربریت سلامتی کونسل کی قراداد، بین الاقوامی عدالت ِانصاف کے اس جارحیت کوفوراًروکنے کے حکم کے باوجودامریکی آشیروادسے بدستورجاری ہے۔غزہ کے 80فیصدمکانات تباہ کیے جاچکے ہیں لیکن حماس میدان میں ڈٹی ہوئی ہے۔اور تاحال اسرائیل اِس جنگ سے اپناکوئی اعلان شدہ ہدف پوراکرنے میں ناکام ہے۔اسماعیل ہنیہ  شہیدہوگئے ۔ اسلامی روایت میں شہادت کی موت ایک بڑااعزازہے ۔سچ کہاہے کسی نے      ؎

شہید کی جوموت ہے وہ قوم کی حیات ہے ۔

ارشادباری ہے:  فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَ مِنْهُمْ مَنْ يَنتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (الاحزاب: 23 )مومنوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنے وعدہ کوپوراکردکھایااورکچھ ایسے ہیں جواپنی باری کے منتظر ہیں اورانہوں نے کچھ بھی نہیں بدلا۔

چندریالی مولویوں کے علاوہ آج عرب ممالک ،پاکستان ،ہندوستان اورمغربی ممالک کے مسلمانوں میں کون سی آنکھ ایسی ہے جواشکبارنہ ہوئی ہو! مفتی تقی عثمانی،مولاناسجادنعمانی، سلمان حسینی ،حافظ نعیم الرحمن(امیرجماعت پاکستان)سیدسعادت اللہ حسینی ،اوریامقبول جان ،کمال خطیب اورعزام تمیمی وغیرہ اوربہت سے علماودانشوروں میں سے کون ہے جس نے اسماعیل ہنیہ  کے بلندرتبہ کی گواہی نہ دی ہو جس نے ان کی شہادت پر امت ِمسلمہ سے تعزیت کا اظہارنہ کیاہو!

حدیث میں آیاہے کہ وہ جواللہ کومحبوب ہوتے ہیں ان کے لیے زمین میں بھی قبولیت ومحبوبیت لکھ دی جاتی ہے۔شہادت کا مرتبہ اور مقام بلند انہی لوگوں کوملتاہے ۔ ارشادالٰہی ہے :”جنہوں نے خداکی راہ میں جان دیدی ان کو ہرگز بھی مردہ نہ سمجھو،وہ زندہ ہیں ان کوان کے رب کی طرف سے رزق دیاجاتاہے مگرتم ان کی زندگی کا شعورنہیں رکھ سکتے” ۔(آل عمران:  169)

ظالم وسفاک صہنیوں نے ایک اسماعیل ہنیہ  کوشہیدکرکے بغلیں بجالیں مگروہ بے چارے نہیں جانتے کہ فلسطین کے ہرگھرسے ایک نیااسماعیل ہنیہ  نکلے گا۔اسرائیل کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے اوراس کا زوال مقدرہے ۔خداتعالی کی سنت ہے کہ ظالموں اور سرکشوں کی لٹیا ڈبونے سے پہلے اس کوپورا بھرنے دیاجاتاہے، پھراچانک قہرالٰہی ان کودبوچ لیتاہے۔