19 مئی کی دوپہر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو لے جانے والا ہیلی کاپٹر آذربائیجان کی سرحد سے متصل ارسباران پہاڑوں کے آسمان میں لاپتہ ہوگیا۔ اگلے دن معلوم ہوا کہ یہ ہیلی کاپٹر، جس میں صدر سمیت وزیر خارجہ جہ حسین امیرعبداللہیان اور کئی دیگر افسران بھی سوار تھے، حادثہ کا شکار ہو کر تباہ ہو چکا ہے۔رئیسی، آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کے ساتھ سرحد پر ایک ڈیم کے افتتاح میں حصہ لے رہے تھے۔ جہاں ہیلی کاپٹر گرا ہے، وہ خدافرین ڈیم سے تقریباً 80 میل کے فاصلہ پر ہے۔
اس حادثہ کے بعد معمول کے مطابق سازشی تھیوریوں کا ایک سیلاب سا آگیا ہے۔ کوئی آذربائیجان کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے، کیوں کہ اس خطے میں یہ اسرائیل کا اتحادی ہے اورماضی میں آرمینیا کے خلاف جنگ میں اسرائیل نے اس کی بھر پور مدد کی ہے۔ آرمینیا آرتھوڈوکس عیسائی ملک ہونے کے ناطے یہودیوں کا مخالف اور موجودہ صورت حال میں ایران کا اتحادی ہے۔ جو جہاں تک گھوڑے دوڑا سکتا ہے، وہ دوڑا رہا ہے۔
خیر اگر ایرانی صدر کی موت کے بعد کی صورت حال کا معروضی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے دو چیزیں فوری طور پر متاثر ہوئی ہیں۔
حال ہی میں عمان میں ایران اور امریکہ کے درمیان خفیہ مذاکرات کے دور شروع ہوئے تھے۔ اس ناگہانی موت کے بعد یہ مذاکرات خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق امریکہ کو اس کی ضرورت 18 اپریل کے بعد محسوس ہوئی، جب ایرانی میزائلوں اور ڈورن طیاروں نے اسرائیل کو نشانہ بنایا۔ اس سے قبل اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کرکے کئی افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان مذاکرات میں اچھی پیش رفت ہورہی تھی۔
دوسری چیز جو متاثر ہوئی ہے وہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی جانشینی کا مسئلہ ہے، جو ملک کے سب سے طاقتور شخص ہیں۔ جس طرح رئیسی کو صدر بنایا گیا تھا، اس سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کو اس پوسٹ کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے جانکار حلقوں کا کہنا ہے کہ عمان کے دارالحکومت مسقط میں ہو رہے مذاکرات کی سربراہی امریکی صدر جوائے بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے سینئر مشیر بریٹ میک گرک اور ایران کے پوائنٹ مین علی باقری کنی کر رہے تھے۔باقری اس وقت نائب وزیر خارجہ تھے لیکن ہیلی کاپٹر حادثے میں وزیر خارجہ کی ہلاکت کے اب وہ قائم مقام وزیر خارجہ ہیں۔
مذاکرات تین موضوعات پر مرکوز تھے: اسرائیل میں حکومت کی تبدیلی کی مشترکہ خواہش۔ غزہ پر اسرائیل کی جنگ کا خاتمہ؛ اور تنازع کو خطے میں کہیں اور پھیلنے سے روکنا۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام اور تیل کی پابندیوں میں نرمی پر بھی بات چیت ہورہی تھی۔
رئیسی کی موت کے بعد ایران میں 50 دنوں کے اندر صدارتی انتخابات کراناضروری ہے، اور غیر یقینی کے اس دور میں خارجہ پالیسی کے بڑے فیصلے کیے جانے کا امکان نہیں ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات بھی نومبر میں ہونے والے ہیں۔چوں کہ صدر اور وزیر خارجہ دونوں کا انتقال ہو گیا ہے اور جلد ہی انتخابات ہونے والے ہیں، اس لیے ممکنہ طور پر مذاکرات میں انتخابات کے بعد تک تاخیر ہو جائے گی، جیسا کہ 2021 کی صدارتی دوڑ کے دوران ہوا تھا جب انتخابات تک بات چیت کو روک دیا گیا تھا۔ تب تک امریکہ میں صدارتی دوڑ کےلئے جوڑ توڑ شروع ہو جائیگا۔
رئیسی کی موت کے بعد سے سب اہم مسئلہ ایران کے 85 سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانشینی کا ہے۔ ایران میں یہ ایک اہم عہدہ ہے، جو ملک کی سیکورٹی اور خارجہ پالیسی طے کرتا ہے۔آئین کے مطابق ماہرین کی 88 رکنی اسمبلی سپریم لیڈر کے جانشین کا انتخاب کرتی ہے۔ تاہم خود اسمبلی کے ارکان کو ایران کی گارڈین کونسل کے ذریعے پہلے جانچا جاتا ہے، جو کہ ایک طاقتور 12 رکنی ادارہ ہے جو انتخابات اور قانون سازی کی نگرانی کرتا ہے۔
ویسے تو ممکنہ جانشینوں کی فہرست کو انتہائی خفیہ رکھا گیا ہے۔ فروری کے اوائل میں ماہرین کی اسمبلی کے ایک سینئر رکن محمد علی موسوی جزائری نے اس کو خفیہ رکھنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھاکہ ممکنہ امیدوارں کو ایران کے دشمنوں خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔مگر ذرائع کے مطابق موجودہ سپریم لیڈر کے بیٹے مجتبیٰ خامنہ ای، آیت اللہ خمینی کے پوتے حسن خمینی اور صدر رئیسی کو خامنہ ای کے جانشین کے بطور شارٹ لسٹ کردیا گیا تھا۔رئیسی کی موت کے تین روز بعد ہی اس اسمبلی نے 21 مئی کو ایک بورڈ کا انتخاب کیا۔ جواگلے سپریم لیڈر کے لیے نام دوبارہ شارٹ لسٹ کرےگا۔ خامنہ ای کے بڑھاپے اور رئیسی کی حالیہ موت کے پیش نظر بورڈ کا یہ انتخاب خاصا اہم ہے۔
ماہرین کی اسمبلی نے جن افراد کو اس بورڑ کےلئے منتخب کیا ہے وہ ہیں آیت اللہ محمد علی موحدی کرمانی، جو اس بورڈ کے چیرمین ہوں گے۔ ان کی عمر 93 سال ہے۔ آیت اللہ ہاشم حسینی بوشہری جو اس بورڈ کے نائب چیرمیں ہوں گے۔ دیگر ممبران میں آیت اللہ علی رضا عرفی، آیت اللہ محسن اراکی اورآیت اللہ عباس کعبی شامل ہیں۔
فی الحال نائب صدر محمد مخبر نے صدارتی اختیارات سنبھال لیے ہیں۔ مگر آئین کی رو سے نئے صدر کا انتخاب 50 دنوں کے اندرکروانا ضرور ی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اچانک تبدیلی نے ایران کو سیاسی طور پر غیر یقینی صورت حال میں ڈال دیا ہے۔
ابراہیم رئیسی اپنے قدامت پسندانہ خیالات کہ وجہ سے سخت گیر دھڑے کے لیڈر مانے جاتے تھے۔ 2021 میں جب و ہ ملک کے آٹھویں صدر منتخب ہوئے، تو گارڈین کونسل نے ان کا راستہ صاف کرنے کے لیے متعدد اصلاح پسند اور اعتدال پسند امیدواروں کو نااہل قرار دیا تھا۔بطور منصف رئیسی کو 1988 کے متنازعہ عدالتی کمیشن میں اپنے کردار اور پھر 2002 میں حجاب نہ پہننے کی وجہ سے ایک خاتون مہسا امینی کی حراستی موت کے بعد برپا تشدد کو بزور طاقت دبانے کی وجہ سے کافی عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑاتھا۔یہ مظاہرے اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کے سب سے بڑے اور طویل ترین مظاہروں میں سےایک تھے۔ مغربی میڈیا کے مطابق ان مظاہروں میں 500 سے زیادہ مظاہرین ہلاک ہوئے اور سینکڑوں زخمی، لاپتہ، یا حراست میں لیے گئے۔
رئیسی کے دور صدارت کا سب سے بڑا کارنامہ 2023 میں چین کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بحال کر نا تھا۔ سعودی عرب اور ایران کی باہمی چپقلش نے کئی دہائیوں سے اسلامی دنیا کی وحدت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا تھا۔ ان کے اس قدم نے مغربی ممالک خاص طور پر امریکی سفارت کاری کو ایسی مات دی کہ اس کی باز گشت کئی برسوں تک سنائی دیتی رہے گی۔گو کہ امریکی خفیہ اداروں کو معلوم ہو گیا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مکالمہ چل رہا تھا، مگر ان کو امید تھی کہ جوہری معاملات پر ایران کے سخت گیر رویہ کی وجہ سے یہ تعلقات اتنی جلدی معمول پر نہیں آئیں گے۔ان کی قیادت میں ایران نے یورینیم کی افزودگی جاری رکھی، جس سے مغرب کے ساتھ کشیدگی بڑھ گئی۔ تاہم، رئیسی نے عرب ممالک کو رام کرلیا۔ اس مفاہمت نے یمن اور شام میں امن مذاکرات کی راہیں کھول دیں، جہاں دونوں ممالک متحارب گروپوں کی حمایت کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق رئیسی نے خارجہ امور میں عملیت پسندی کو اپنایا۔ سعودی عرب کے ساتھ مفاہمت نے دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کی راہیں کھول دیں۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نومبر میں، غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے دوران، شام کے صدر بشار الاسد اور رئیسی دونوں نے ریاض میں عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کی، جس میں اسرائیل کے خلاف مزید تعزیری اقدامات کی وکالت کی گئی۔
رئیسی کی قیادت میں ایران نے ممکنہ امریکی پابندیوں کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے چابہار بندرگاہ کے معاہدے کو سرد خانہ سے نکال کر اس کا ایک ٹرمینل باضابطہ ہندوستان کے حوالے کر دیا۔ دونوں ممالک نے حال ہی میں اس اسٹریٹجک بندرگاہ کو ترقی دینے اور چلانے کے لیے 10 سالہ معاہدے پر دستخط کیے۔ ہندوستان شہید بہشتی ٹرمینل کو اپنی تحویل میں لے گا اور اس کو جدید ترین بنانے کے لیے 120 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس کے ساتھ بندرگاہ میں متعلقہ منصوبوں کے لیے 250 ملین ڈالر کی اضافی قرض کی سہولت فراہم کی جائے گی، جس سے معاہدے کی مالیت 370 ملین ڈالر ہو جائے گی۔
اپریل میں رئیسی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان جنوری میں سرحدی کشیدگی اس وقت بڑھ گئی تھی جب ایران نے سرحد پار سے پاکستان میں فضائی حملے کیے جس میں دو بچے ہلاک ہو گئے تھے۔ ایران کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ حملہ مسلح گروپ جیش العدل کے دو ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایرانی علاقے میں میزائل داغا اور تہران سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔پاکستانی سفارت کاروں کے مطابق ان حملوں کے فوراً بعد ہی رئیسی کی ایما پر ایرانی وزیر خارجہ تناؤ کو ختم کرنے کے لیے اسلام آباد آنا چاہتے تھے۔ مگر پاکستان نے ان کو انتظار کر نے کے لیے کہا، کیوں کہ عوامی پوسچرنگ کے لیے ان کو جوابی کارروائی کرنی تھی۔ رئیسی کے دورہ سے جلد ہی تعلقات دوبارہ پٹری پر آگئے۔
اسی طرح اگست 2023 میں انھوں نے ایران اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی منظوری دی۔ جس کی وجہ سے کوریا میں منجمد چھ بلین ڈالر تک ایران کی رسائی ہوگئی۔ اکتوبر میں جب حماس نے اسرائیل کی طرف سے بنائی گئی سرحدوں کوعبور کر کے کئی فوجی ٹھکانوں پر یہودی بستیوں پر حملہ کیا، تو کئی ممالک نے ایران کو مالی اور فوجی امداد و ٹریننگ فراہم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ مگر چند دن بعد امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ اس کے ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے ہیں۔
اس دوران اسرائیل نے ایران کو اس قضیہ میں شامل کرنے کی بھر پور کوشش کی تاکہ ایران کو روکنے کے نام پر مغربی ممالک اور امریکہ کو بھی اس جنگ میں شامل کرکے ایک تو اس کا دائرہ وسیع کیا جائےاور دوسری طرف دنیا کی توجہ غزہ سے ہٹا دی جائے۔ مگر رئیسی نے یہ دال گلنے نہیں دی۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے جب اسرائیل نے ایران کے دمشق میں موجود سفارت خانے کو نشانہ بنایا، اس کا جواب بھی خاصی دانش مندی سے دیا گیا۔ اسرائیل کو وارننگ بھی ملی، مگر جنگ کے دائرہ کو وسیع کرنے کا جوا ز بھی نہیں دیا گیا۔ فلسطین کے مزاحمتی گروپوں کی ایران کی مسلسل پشت پناہی نے مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا کی سڑکوں پر اس کا اثر و رسوخ بڑھا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے مصر جیسے کئی دیگر عرب ممالک کو بھی فلسطینیوں کی مدد کے لیے عوامی سطح پر آگے آنے پر مجبور ہونا پڑا۔