سی بھی نئے قانون کو لانے یا کسی موجودہ قانون میں ترمیم کرنے کا واضح مقصد ایسی تبدیلیاں لانا ہوتاہے جو انصاف کی فراہمی کے نظام میں انصاف اور افادیت کو مزید یقینی بنائے۔ محض قانون کا نام بدل کر اور پولیس کو مزید اختیارات دے کر اپنی نوآبادیاتی وراثت کو ختم کرنے کا تاثر پیدا کرنے کے لیے ایسا نہیں کیا جا سکتا۔موجودہ سیٹ اپ میں، پولیس کے پاس پہلے سے ہی کافی اختیارات ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کارروائی کرسکے۔ یہ قدرتی طور پر طاقتور ہے اور اپنی صوابدیدکے مطابق کام کرنے کا اسے پورا اختیار بھی حاصل ہے۔ آج پولیس بغیر کسی ظاہری اور عملی احتساب کے اپنا کام کرتی ہے۔ مرکزی حکومت نے ہندوستان کے فوجداری قوانین کو تبدیل کرنے کے لیے جو قدم اٹھایا ہے اس کو ہمیں اسی عینک سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ چند بنیادی نکات ہیں جن کی جانب ہمارے قانون سازوں کو فوری توجہ کرنی چاہیے۔
سسٹم میں کوئی اصلاح نہیں
مثال کے طور پر،کسی بھی جرم کے بعدپہلا مرحلہ ایف آئی آر کیاندراج کا ہوتا ہے۔ اب شکایات کے اندراج کے لیے الیکٹرانک ذرائع متعارف کرائے جانے کے باوجود، مذکورہ مراسلت پر شکایت کنندہ کو تین دن کے اندر دستخط کرنے ہوں گے۔ اس طریقہ کار میں اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پولیس اسٹیشن میں شکایت کا نمبر وغیرہ کاآسانی سے اندراج ہو جائے۔ شکایات کے اندراج میں لوگوں کی شکایتوں کو دیکھتے ہوئے، مجوزہ عمل مکمل طور پر مبہم ہے۔ اس کے لیے ہر ریاست کے پاس الیکشن آئی ڈی، آدھار، ٹیکس ریٹرن نمبر، پاسپورٹ وغیرہ کے ساتھ ایک مرکزی سافٹ ویئر سسٹم کا ہونا ضروری ہے۔ تاکہ الیکٹرانک شکایت پر رجسٹریشن اور کارروائی سے پہلے دستخط کی ضرورت کو ختم کیا جا سکے۔
ہمارے موجودہ نظام میں پولیس کے پاس ایف آئی آر کے اندراج سے پہلے ‘ابتدائی انکوائری’ کرنے کااضافی قانونی پہلے ہی سے موجود ہے۔ تاہم یہ کام من مانی طور پر انجام دیا جاتا ہے۔ اب شکایت درج کروانے کے بعد، جس جرم کی سزا تین سال یا اس سے زیادہ،لیکن سات سال سے کم ہے،جرائم کے لیے ’ابتدائی انکوائری‘ کی تجویز دی گئی ہے – قطع نظر اس کے کہ یہ قابل ادراک ہے یا نہیں۔ اس طاقت کو استعمال کرتے ہوئے، پولیس 14 دن کی مدت کا استعمال کر سکتی ہے کہ آیا تفتیش آگے بڑھائی جاسکتی ہے یا نہیں۔یہ اس کے ذاتی صوابدید پر منحصر ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کا مقصد 2013 میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی طرف سے جاری کردہ وضاحت اور ہدایت کو نظر اندازکرنا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ قابل اعتراض نوعیت کی شکایت موصول ہونے پر، پولیس افسر فوری طور پر ایف آئی آر درج کرے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
عدالت نے یہ بھی وضاحت کی تھی کہ ابتدائی انکوائری نہ صرف موصول ہونے والی معلومات کی سچائی کی تصدیق کرے گی بلکہ اس بات کا بھی پتہ لگائے گی کہ آیا وہ معلومات قابل جرم ہے یا نہیں۔ عدالت نے محسوس کیا کہ ازدواجی تنازعات، تجارتی جرائم، طبی لاپروای اور بدعنوانی سے متعلق مقدمات استثنائی نوعیت کے ہو تے ہیں۔ لیکن آج کل ایک ایسے کلچر میں جہاں بغیر پیشگی اطلاع کے ملزم کے گھر کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر روانہ کردیا جا تا ہے صرف اس وجہ سے کہ مذکورہ شخص (ضروری نہیں کہ مالک ہی) کسی جرم میں مشتبہ ہے۔ ابتدائی تفتیش کا یہ تصور حد درجہ مشتبہ ہے۔
صوابدید کااختیار
فی الحال، ایف آئی آر کے اندراج نہ ہونے کے سلسلے میں، کوئی بھی شخص سی آر پی سی کی دفعہ 156 (3) کے تحت مجسٹریٹ سے رجوع کر سکتا ہے اور یہ شکایت کنندہ کے ذریعے تیار کردہ مواد پر منحصر ہوتا ہے۔ اب ترمیم کے بعد مجسٹریٹ کی طرف سے تحقیقات کا حکم دینے سے پہلے پولیس کے رول کا اضافہ کردیا گیا۔درحقیقت، ایک بار ایف آئی آر درج ہونے اور تفتیش شروع ہوجانے کے بعد، نئی ترمیم اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے کہ آیا پولیس کی حراست میں رہنے کی 15 دن کی مدت، ریمانڈ کے پہلے 15 دنوں کے اندر ہونی چاہیے، یایہ تفتیش کی مدت کے 60 یا 90 دن کی مدت کو محیط ہے۔
اس کے علاوہ، بل کے متعارف ہونے سے کچھ دن پہلے اس مسئلے کو سپریم کورٹ نے سینتھل بالاجی کیس میں ایک بڑی بینچ کے ذریعے حل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ موجودہ ضابطہ کے ساتھ ساتھ مجوزہ ترمیم میں پولیس کی حراست کے لیے زیادہ سے زیادہ دن 15 دن کا ہی وقت ہونا چاہیے۔اس کے علاوہ تفتیش کے اختتام کے بعد چارج شیٹ داخل کرنے کے مرحلے پر، سب سے زیادہ زیادتی کیا جانے والا طرز عمل یہ ہے کہ ایک نامکمل چارج شیٹ دائر کی جائے اور زیر التواء تفتیش کے بہانے مقدمے کو آگے ہی نہ بڑھنے دیا جائے۔اس عمل میں ملزم کو حراست میں رکھتے ہوئے استغاثہ کے کہنے پر اس کے کئی سال ضائع کیے جاسکتے ہیں۔ اس سے پہلے سے طے شدہ ضمانت کا تصور ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں استغاثہ کی طرف سے ضمنی چارج شیٹ دائر کرنے کی بار بار کوششوں کے پیش نظر ظاہر ہوتا ہے۔ ایسے نظام کی کارکردگی کا بہتر اندازہ ایسے معاملات میں سزا کا تناسب ہے۔ایک شخص جو ناحق اور بے بنیاد طور پر حراست میں لیا گیا یا گرفتار کیا گیا ہے وہ معاوضے کا حقدار ہے اور یہ منصفانہ اور معقول ہونا چاہیے۔ تاہم ہمارے موجودہ کوڈ میں یہ 2005 سے 1000 روپے ہے اور مجوزہ ترمیم میں بھی یہ 1000 روپے ہی رکھا گیا ہے۔ ایسے وقت میں جب سیٹ بیلٹ کے بغیر گاڑی چلانے پر 1000 روپے کا جرمانہ ہے تومعاوضہ کو بڑھا کر کم از کم ایک لاکھ روپے تو ہونا ہی چاہیے۔
ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ انصاف صرف عدالتوں اور مجسٹریٹ سے نہیں ملتا بلکہ فوجداری معاملات میں انصاف کی فراہمی کا ایک بڑا جزو حتمی ریلیف حاصل کرنے کے لیے عدالتوں کی دہلیز تک پہنچنے سے پہلے ایف آئی آر کے اندراج اور پولیس کے موثر اقدامات سے شروع ہوتا ہے۔ان نئے ضابطوں میں عدالتوں میں مقدمات پیش ہونے سے پہلے انصاف کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ نوآبادیاتی قانون سازی سے لیس پولیس کے وسیع اختیارات کے ساتھ انصاف قطعا ممکن نہیں ہے۔ ان ترامیم میں تقریباًان تمام دفعات کو برقرار رکھا گیا ہے جو پولیس کے اختیارات میں اصلاحات کی نفی کرتی ہیں۔سپریم کورٹ کی مسلسل یاددہانی کے باوجود پولیس نظام میں اصلاحات اور ان کے احتساب کے لیے کوئی بھی موثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔
(مضمون نگارسپریم کورٹ آف انڈیا میں ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ہیں۔)