سرکاری ملازمین کی آرایس ایس میں شمولیت کے مضمرات

شمس الاسلام
اگست 2024

آر ایس ایس-بی جے پی حکومت کی طرف سے 9 جولائی 2024 کو جاری ہونے والے ہدایت  نامے میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے 1966، 1970 اور 1980 میں جاری کردہ ہدایات کا “جائزہ” لیا ہےاوراس میں سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا تذکرہ ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ ہدایات (آفیشل میمورنڈم) 30نومبر 1966، 25جولائی 1970 اور 28اکتوبر 1980 کو جاری کی گئی تھیں۔ اندرا گاندھی کے دور حکومت میں جاری کی گئی ان ہدایات میں سرکاری ملازمین کی آر ایس ایس اور جماعت اسلامی کی سرگرمیوں میں شرکت پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ 1966 کی ہدایت جس کے بعد اس پر عمل درآمد شروع ہوا ،میں درج ہے کہ “کوئی بھی سرکاری ملازم کسی سیاسی جماعت یا کسی ایسی تنظیم کا رکن یا اس سے منسلک نہیں ہو گا جو سیاست میں حصہ لیتی ہے، نہ اس کی سرگرمیوں میں حصہ لے گا اور نہ  اس کے طریقے پر کسی سیاسی تحریک یا سرگرمی میں مدد کرےگا۔”

درحقیقت یہ ہدایات سردار پٹیل کے تحت وزارت داخلہ کی طرف سے وضع کردہ اصول کا تسلسل تھا۔ گورنمنٹ سرونٹ کنڈکٹ رولز 1949 کے تحت سرکاری ملازمین کے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔ امریکہ کے برعکس ایک غیر متعصب اور غیر جانبدار بیوروکریسی کو یقینی بنانے کے لیےایسا کیا گیا تھا، جہاں بیوروکریسی کو عام طور پر حکمراں جماعت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور اس کو’committed bureaucracy’ کہا جاتا ہے۔

9 جولائی کی ہدایت 23 جولائی کو منظر عام پرآئی،  جس نے آر ایس ایس کو نہ صرف سیاسی تنظیم کے زمرے سے نکال دیا بلکہ جمہوری و سیکولر سیاست کے لیے خطرہ قرار دینے کو بھی منسوخ کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مرارجی ڈیسائی (1977-79) اور اٹل بہاری واجپائی (1996) میں ایک ماہ کے لئے اور (1998-2004) کی سربراہی میں  آر ایس ایس نواز ہندوستانی حکومتوں نے کبھی بھی آر ایس ایس پر یہ احسان کرنے کی ضرورت  نہیں سمجھی۔  یہ بات بھی اہم ہے کہ 9 جولائی کا سرکاری حکم  جماعت اسلامی کے بارے میں خاموش ہے، جسے اندرا گاندھی حکومت نے آر ایس ایس کے ساتھ جوڑدیا تھا۔ مودی حکومت کایہ حکم نامہ مودی اور آر ایس ایس کے درمیان دراڑ کی تمام کہانیوں کو مسترد کر تاہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مودی نے آر ایس ایس اور ہندوتوا کے منصوبے سے اپنی وفاداری ثابت کرنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

ہمیں 9 جولائی کو آرایس ایس کو دئے گئے  کریکٹر سرٹیفکیٹ کا اس کی تحریروں اور تقریروں سے موازنہ کرنا چاہیے۔ کیا آر ایس ایس کبھی غیر سیاسی تنظیم اور جمہوری سیکولر ہندوستان کی وفادار رہی ہے؟ نہ ایسا پہلے کبھی تھا اور نہ اب ہے- بیوروکریسی کے لیے آر ایس ایس کے دروازے کھولنے سے مودی حکومت کی گزشتہ دس سالوں میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی اگر کچھ ساکھ باقی رہ گئی تھی تو اس سے یہ بھی تباہ ہوجائے گی۔ ذیل کی سطور میں ہم نے اس  کا جائزہ لیا ہے۔

 

کیا آرایس ایس ایک غیر سیاسی تنظیم ہے؟

آر ایس ایس کے اس دعوے کا کہ وہ ایک ثقافتی و سماجی تنظیم ہے اور اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے کا ایم ایس گولوالکر جنہوں نے آر ایس ایس کے بانی  بی ہیڈگیوار کے بعد اس تنظیم کی سربراہی کی اور جنہیں  تنظیم کا سب سے بڑا نظریہ ساز سمجھا جاتا ہے ، کے درج ذیل دو بیانات سے موازنہ کرنا چاہئے۔ پہلا بیان ہمیں ان اہلکاروں کے بارے میں بتاتا ہے جنہیں سیاست میں جوڑ توڑ کے لیے بھیجا جاتا ہے اور یہ کہ آر ایس ایس ان سے کیا توقع رکھتی ہے۔ 16 مارچ 1954 کو سندھی، وردھا میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

 “اگر ہم کہتے ہیں کہ ہم تنظیم کا حصہ ہیں اور اس کے نظم و ضبط کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر اپنی زندگی میں من چاہی چیزیں منتخب کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم سے جو کہا جائے وہ ہمیں کرن ہے۔ اگر کہا جائے کہ کبڈی کھیلو! تو کبڈی کھیلو۔ میٹنگ کرنے کو کہا  جائے تومیٹنگ کرو۔۔۔ مثال کے طور پر ہمارے کچھ دوستوں سے کہا گیا کہ سیاست میں جا کر کام کریں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اس میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں یا ان کے اس سے کچھ خواب وابستہ ہیں۔ وہ سیاست پر اس طرح نہیں مرتے جیسے پانی کے بغیر مچھلی۔ اگر انہیں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا حکم ملے  تب بھی انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگنا چاہیئے۔ ان کی ذاتی پسند جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔”

[گولوالکر ، شری گرو جی سماگر درشن (ہندی میں گولوالکر کے جمع کردہ کام)، بھارتیہ وچار سادھنا، ناگپور، جلد 3، ص۔ 33۔]

دوسرا بیان بھی بہت اہم ہے جس میں کہا گیا:

“ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے کچھ سویم سیوک [کیڈر] سیاست میں کام کرتے ہیں۔ وہاں انہیں کام کی ضروریات کے مطابق جلسے جلوس وغیرہ کا اہتمام کرنا پڑتا ہے، نعرے لگانے ہوتے ہیں۔ ان سب چیزوں کی ہمارے کام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ تاہم ایک اداکار کو اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق دئے گئے کردار کو پیش کرنا چاہیے۔ لیکن بعض اوقات سویم سیوک ایک اداکار کو تفویض کردہ کردار سے آگے بڑھ جاتے ہیں کیونکہ ان کے دل میں حد سے زیادہ جوش ہوتا ہے۔یہاں  تک کہ وہ اس کام کے لیے بیکار ہو جاتے ہیں۔ یہ مناسب نہیں ہے۔” 4

[حوالہ سابق، جلد. 4، صفحہ 4-5۔]

یہاں ہم دیکھتے ہیں گورو گولوالکران سویم سیوکوں کوجو سیاسی شاخ کو بطور قرض  دیئے گئے ہیں کو ایسا ’نٹ‘ یا اداکار قرار دیتے ہیں جن کا مقصد آر ایس ایس کی دھن پر رقص کرنا ہے۔یہاں اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے کہ گولوالکر کے اوپر درج سیاسی بازو کو کنٹرول کرنےوالے منصوبے کو 1951 میں جن سنگھ (بی جے پی کی پیش رو پارٹی) کے قیام کے تقریباً نو سال بعد مارچ 1960 میں بیان کیا گیا تھا۔

 آر ایس ایس کے مضبوط سیاسی عزائم ہیں اور آر ایس ایس کے ایک کتاب سے اس کے  اس منصوبے کی مزید تصدیق ہوتی ہے۔ آر ایس ایس کے مرکزی اشاعت گھرسروچی پرکاشن، جھنڈے والان، نئی دہلی،  نے پرم ویبھو کے پتھ پر (1997) نامی کتاب  شائع کی جس میں آر ایس ایس کی طرف سے مختلف کاموں کے لیے بنائی گئی 40 سے زیادہ تنظیموں کی تفصیلات درج ہیں۔ ایک سیاسی تنظیم کے طور پر بی جے پی اس میں نمایاں طور پر تیسرے نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں اے بی وی پی، ہندو جاگرن منچ، وشو ہندو پریشد، سودیشی جاگرن منچ اور سنسکار بھارتی وغیرہ  بھی شامل ہیں۔ کتاب کا دیباچہ خود اعلان کرتا ہے کہ ” سیوم سیوکوں کی مختلف طرح کی سرگرمیوں کے علم کے بغیر  آر ایس ایس کا تعارف نامکمل ہے۔ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ اس کتاب میں سویم سیوکوں کی مختلف سرگرمیوں کے بارے میں مختصر معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ کتاب 1996 تک کی تنظیمی حیثیت کا احاطہ کرتی ہے…ہمیں یقین ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے کارآمد ثابت ہوگی جو آر ایس ایس اور اس کے رضاکاروں کوسمجھنا چاہتے ہیں”۔ 5

سپرے، ایس ڈی، پرم ویبھو کے پتھ پر، سروچی، دہلی، 1997، صفحہ۔ 7۔]

 

آر ایس ایس ہندو راشٹر کے قیام کے لیے پرعزم ہے:

اگر سرکاری ملازمین کو آر ایس ایس کی ‘شاکھاؤں’ میں شامل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے تو ان کے لیےمندرجہ ذیل پرارتھنا (دعا) اور پرتیگیا (حلف)  کو پڑھنالازمی ہوگا، جن کو ہر ‘شاکھا’ میں پڑھنا ضروری ہے۔

پرارتھنا:

پیاری مادر وطن، میں ہمیشہ آپ کے سامنے جھکتا ہوں/اے ہندوؤں کی سرزمین، آپ نے مجھے آرام وسکون سے پالا ہے/اے مقدس سرزمین، خیر کی عظیم خالق، میرا یہ جسم آپ کے لیے وقف ہو/میں بار بار آپ کے سامنے جھکتا ہوں/ اے خدائے بزرگ و برتر، ہم ہندو راشٹر کے اٹوٹ انگ آپ کو عقیدت کے ساتھ سلام پیش کرتے ہیں/تیرے مقصد کے لیے ہم نے اپنی کمر کس لی ہے/اس کی تکمیل کے لیے ہمیں برکت عطا  فرما۔‘‘ 6

[آر ایس ایس، شاکھا درشیکا، گیان گنگا، جے پور، 1997، صفحہ 1۔]

حلف:

“میں طاقت ور خدا اور اپنے آباؤ اجداد کے سامنے انتہائی سنجیدگی سے یہ حلف لیتا ہوں کہ میں اپنے مقدس ہندو مذہب، ہندو سماج، اور ہندوؤں کی ترقی کو فروغ دے کر بھارت ورش کی ہمہ گیر عظمت حاصل کرنے کے لیے آر ایس ایس کا رکن بنوں گا۔ میں سنگھ کے کام کو ایمانداری  اور بے لوثی کے ساتھ دل و جان سے انجام دوں گا اور ساری زندگی اس مقصد پر قائم رہوں گا۔ بھارت ماتا کی جے” 7 [حوالہ سابق، ص. 66۔]

لہذا سرکاری ملازمین  نے ملازمت شروع کرتے وقت جمہوری-سیکولر ہندوستان کےلئے جوحلف لیا تھا اس کو ایفا نہیں کرسکیں گے بلکہ اسے ایک ہندو تھیوکریٹک حکومت میں تبدیل کرنے کا عہد کریں گے۔

 آر ایس ایس اور قومی پرچم کی بے حرمتی

ہندو راشٹر کی تعمیر کے اس عزم کی وجہ سے قومی ترنگا اور آئین ہند جو ہندوستانی سیکولر جمہوری سیاست کی دو عظیم علامتیں ہیں، سے آر ایس ایس کو نفرت ہے۔

آر ایس ایس 1925 میں اپنے قیام کے بعد سے مطالبہ کررہا ہے کہ ہندوستان ایک ہندو ملک ہے اور اس کا قومی پرچم صرف بھگوا جھنڈا ہونا چاہیے۔ جب دستور ساز اسمبلی نے ترنگے کو قومی پرچم قراردیا تو آر ایس ایس نے دہلی کے لال قلعہ کی فصیل پر بھگوا جھنڈا لہرانے کا مطالبہ کیا اور ترنگے کے انتخاب کی مندرجہ ذیل الفاظ میں مذمت کی:

“جو لوگ شومئی قسمت سے اقتدار میں آئے ہیں وہ ہمارے ہاتھوں میں ترنگا  تودے سکتے ہیں لیکن یہ ہندوؤں کے درمیان نہ تو کبھی عزت پا سکے گا اور نہ ہی وہ اس کو تسلیم کریں گے۔  لفظ تین بذات خود ایک برائی ہے اور تین رنگوں والا جھنڈا جو کہ ملک کے لیے نقصان دہ ہے، یقیناً بہت برا نفسیاتی اثر ڈالے گا  ۔

(آرگنائزر (آر ایس ایس کا انگریزی ترجمان) Mystery behind the bhagwa dhwaj’ ، 14 اگست 1947۔)

 جمہوری-سیکولر ہندوستانی آئین کو منوسمرتی سے بدلنے کا عہد :

آر ایس ایس آئین ہند کے ساتھ کتنی وفادار ہے اس کا اندازہ گولوالکر کے درج ذیل بیان سے لگایا جا سکتا ہے، جسے بنچ آف تھاٹ  نامی کتاب کے ذریعہ دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ کتاب  نہ صرف ایم ایس گولوالکر کی تحریروں کا انتخاب ہے بلکہ آر ایس ایس کیڈرس کے لیے بائبل کادرجہ رکھتی ہے۔

“ہمارا آئین بھی بوجھل اور وسیع ہے جس میں مغربی ممالک کے مختلف آئینوں کی دفعات شامل ہیں ۔ اس میں قطعی طور پرایسا کچھ نہیں ہے جسے ہمارا اپنا کہا جا سکے۔ کیا اس کے رہنما اصولوں میں ایک لفظ بھی ایسا ہے جو  ہمارا قومی مشن ہے یا جس کی  ہماری زندگی میں کلیدی حیثیت ہے؟ ” 10

[گولوالکر، بنچ آف تھاٹ، ساہتیہ سندھو، بنگلور، 1996، صفحہ۔ 238۔]

دراصل آر ایس ایس کی خواہش ہے کہ اس آئین کو منوسمرتی یا کوڈز آف منو سے تبدیل کیا جائے جو اچھوت اور خواتین کے تئیں تضحیک آمیز اور غیر انسانی حوالہ جات کے لیے جانی جاتی ہے۔ جب ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی نے 26 نومبر 1949 کو ہندوستان کے آئین کو حتمی شکل دی تواس سے آر ایس ایس خوش نہیں تھا۔ اس کے ترجمان آرگنائزر نے 30 نومبر 1949 کے اپنے اداریہ میں ان الفاظ میں شکایت کی:

“لیکن ہمارے آئین میں قدیم بھارت میں منفرد آئینی ترقی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ منو کے قوانین اسپارٹا کے لائکرگس یا فارس کے سولون سے بہت پہلے لکھے گئے تھے۔ آج بھی اس کے قوانین جیسا کہ مانوسمرتی میں بیان کیا گیا ہے، دنیا کی تعریف کو پرجوش انداز میں پیش کرتے ہیں اور خود بخود اطاعت اور مطابقت پیدا کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے آئینی پنڈتوں کے لیے اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔‘‘

جمہوریت مخالف:

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی تنظیم جو کھلم کھلا قومی پرچم اور آئین کی توہین کرتی ہے، کی سرگرمیوں میں سرکاری ملازمین کی شرکت  سے جمہوری سیکولر ہندوستان کے خاتمے کا عمل تیز  ہوجائےگا۔

جمہوریت مخالف:

آر ایس ایس  کاجمہوریت کے اصولوں کے برعکس مسلسل یہ مطالبہ رہا ہے کہ ہندوستان میں مطلق العنان حکومت قائم ہو۔ گولوالکر نے 1940 میں مدراس میں آر ایس ایس کے 1350 اعلیٰ سطح  کے کیڈروں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا: “ایک پرچم، ایک رہنما اور ایک نظریے سے متاثر آر ایس ایس اس عظیم سرزمین کے ہر کونے میں ہندوتوا کی مشعل روشن کر رہا ہے۔” [شری گروجی سماگر درشن، جلد۔ 1، ص۔ 11۔]

ایک پرچم، ایک لیڈر اور ایک نظریہ کا یہ نعرہ براہ راست یورپ کی نازی اور فاشسٹ پارٹیوں سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس طرح، وہ تمام لوگ جو آر ایس ایس کی دھن پر رقص کریں  گے قدرتی طور پر ان کے نظریات جمہوری ہندوستان کے خلاف ہوں گے۔

وفاقیت کے خلاف:

آر ایس ایس آئین ملک کا وفاقی ڈھانچہ جو ہندوستانی سیاست کی ایک بنیادی خصوصیت ہے،کے بھی خلاف ہے ۔ یہ گولوالکر کے درج ذیل خط سے بھی واضح ہوتا ہے جسے انہوں نے 1961 میں قومی یکجہتی کونسل کے پہلے اجلاس میں بھیجا تھا۔

“آج کا وفاقی طرز حکومت نہ صرف علیحدگی پسندی کو جنم دیتا ہے بلکہ ایسے جذبات کو پروان بھی چڑھاتا ہے- وہ ایک قوم کی حقیقت کو تسلیم کرنے کا انکاری ہے بلکہ  اسے تباہ کر دیتا ہے۔ لہذا اسے مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، آئین کو پاک کیا جائے اور حکومت کی وحدانیت قائم کی جائے۔ [حوالہ سابق، جلد. 3، ص۔ 128۔]

تصور کریں کہ جس بیوروکریسی کو ہندوستان کے وفاقی سیٹ اپ کے لیے پابند کیا جانا چاہیے وہ آر ایس ایس کی خواہشات کے مطابق اسے تباہ کرنے کے لیے کام کرے گی۔

 

 گاندھی جی کے قتل میں آر ایس ایس کا کردار

یہ شرم  کی بات ہے کہ ہندوستان میں سرکاری ملازمین کو ایک ایسی تنظیم کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دی جارہی ہے جسے سردار پٹیل جیسے شخص نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ پٹیل نے بطور ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ  18 جولائی 1948 کو ہندو مہاسبھا کے ایک سرکردہ رہنما شیاما پرساد مکھرجی کو اپنے خط میں لکھاتھا:

“جہاں تک آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا کا تعلق ہے چوں کہ گاندھی جی کے قتل سے متعلق کیس زیر سماعت ہے لہذا مجھے ان دونوں تنظیموں کی شمولیت کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہیے، لیکن ہماری رپورٹس اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ ان دونوں تنظیموں خصوصاً آرایس ایس کی سرگرمیوں کے نتیجے میں ملک میں ایک ایسا ماحول بنا جس سے ایسا ہولناک سانحہ ممکن ہوا۔ میرے ذہن میں کوئی شک نہیں کہ ہندو مہاسبھا کا انتہا پسند طبقہ اس سازش میں ملوث تھا۔ آر ایس ایس کی سرگرمیاں حکومت اور ریاست دونوں کے وجود کے لیے واضح خطرہ ہیں۔ ہماری رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ پابندی کے باوجود وہ سرگرمیاں ختم نہیں ہوئی ہیں۔ درحقیقت، جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے، آر ایس ایس کے حلقے مزید ڈھیٹ ہوتے جا رہے ہیں اور اپنی تخریبی سرگرمیوں میں تیزی سے ملوث ہو رہے ہیں۔”

(سردار پٹیل کا خط نمبر 64: سلیکٹ کراسپانڈنس19450-1950، جلد۔ 2، نوجیون پبلشنگ ہاؤس، احمد آباد، 1977، صفحہ 276-277۔)

اگر آر ایس ایس کی فلسفیانہ وابستگی اور سرگرمیاں ایسی ہیں تو کسی بھی محب وطن ہندوستانی کجا کہ سرکاری ملازمین کو اس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ اب وقت آگیا ہے کہ وہ تمام تنظیمیں اور افراد جو ایک سیکولر جمہوری ہندوستان میں یقین رکھتے ہیں، یہ سوال پوچھیں کہ جب ‘ماؤوادی’، ‘خالصتانی’ اور ‘اسلام پسند’، ‘اربن نکسل’ وغیرہ کو معمول کے مطابق ملک دشمن قرار دیا جاتا، جیل میں ڈالا اور پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے- کیونکہ ان کا مقصد ہندوستان کے آئینی سیٹ اپ کو تباہ کرنا ہے تو پھر آر ایس ایس اس جانچ سے باہر کیوں؟ بدقسمتی یہ ہے کہ ہندو علیحدگی پسندی کو اس کے خوفناک، ملک اور انسانیت دشمن ریکارڈ کے باوجود ہندوستانی جمہوریت کے لیے کبھی ایک سنگین خطرہ کے بطورتسلیم نہیں کیا گیا۔ جلد ہی مرکزی حکومت کے دفاتر اور ادارے آر ایس ایس کی ایسی شاکھاؤں اور بودھک شیویر یا نظریاتی تربیت کے کیمپوں کا منظر پیش کرنے والے ہیں جو سیکولر جمہوری سیاست کے خلاف نفرت کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ایک مثبت منظر یہ ہو سکتا ہے کہ ہندوتوا مخالف محب وطن ملازمین دفاتر میں ان سرگرمیوں کا مقابلہ کریں ۔ 9 جولائی کی ہدایت کی بدولت ہر دفتر دو کیمپوں میں تقسیم ہو سکتا ہے۔ حکومتی سرگرمیوں کے تحت چل رہے کام کاج  کو تباہ کرنے کا یہ آرایس ایس کا منصوبہ ہے۔

اگر کانگریس اور دیگر جمہوری سیکولر پارٹیاں سیکولر-جمہوری ہندوستان کو بچانے کے لیے سنجیدہ ہیں تو انہیں اوپر درج دستاویزات کے ساتھ قانونی اور سیاسی طور پر آر ایس ایس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ انہیں اپنی صفوں سے ہندوتوا عناصر کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اب اس کے لیے وقت بہت کم ہے۔