ماحولیات پر گلوبل وارمنگ کا اثر اور اسلام

ڈاکٹر جاوید جمیل
جولائی 2024

اس وقت دنیا جو بنیادی طور پر سرمایہ داروں کے کنٹرول میں ہے، مسائل اور ان کے حل پر اس طرح بحث کرتی ہے کہ اصل آقاؤں کو نقصان نہ پہنچنے پائے بلکہ اس سے انہیں مزید فائدہ ہی ہو۔ گلوبل وارمنگ کے موضوع پراکثر بحث ہوتی ہے لیکن مسئلے کے حقیقی حل کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔
“گلوبل وارمنگ” سے مراد پورے کرّہ زمین کے مجموعی درجہ حرارت کی طویل مدتی حدت ہے۔ اگرچہ یہ کافی عرصے سے جاری ہے لیکن پچھلے سو سالوں میں اس کے تناسب میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب حیاتیاتی ایندھن (fossil fuels)کا جلنا سمجھا جاتا ہے۔ مختلف قسم کی گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ساتھ،ایسے ایندھن (کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس) کی کھپت بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ زمین کے ماحول میں “گرین ہاؤس اثر” کا سبب بنتا ہے۔ جیسا کہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج زمین کےاطراف واکناف کو گرم کردیتا ہے۔ ان گیسوں کے ذریعے سورج کی حرارت کو استعمال میں لانے کی وجہ سے گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔
عام طور پر بجلی، مینوفیکچرنگ اور صنعت – جیسے سیمنٹ، لوہا، اسٹیل، الیکٹرانکس، پلاسٹک، کپڑے، دیگر سامان، کان کنی، وغیرہ– ان گیسوں کے اخراج کا سبب بنتے ہیں اور یہ زیادہ تر حیاتیاتی ایندھن جلانے سے ہوتا ہے۔ ایک اور اہم وجہ جنگلات کی کٹائی ہے، کیونکہ اس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھ جاتی ہے۔ قدرتی آفات دراصل انسانو ں کی اپنی لائی ہوئی ہیں ۔ اس سلسلے میں اسلامی ہدایات درج ذیل ہیں۔
قرآن کہتا ہے:
(وہ اللہ ہی ہے) جس نے تہ بہ تہ سات آسمان بنائے۔ تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطگی نہ پاوٴ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو،کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاوٴ، تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور اُنہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ اِن شیطانوں کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ ہم نے مہیّا کر رکھی ہے۔(سورۃ الملک 3-5)
اگر ہمارے سروں کے اوپر کائنات کے کام کرنے میں کمال نظر آتاہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اجزاء خدا کے بنائے ہوئے قوانین فطرت کے عین مطابق ہیں۔ اگر ہماری زمین پر افراتفری ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اس سماجی اور روحانی نظام کی پیروی میں ناکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے ذریعے ان تک بھیجا ہے اور اس سلسلہ کی آخری کڑی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ قرآن اس بات کی تفصیل سے وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح خدا نے زمین کو اپنے بندوں کے لیے محفوظ بنایا ہے۔ درج ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں:
آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے کی بہ نسبت یقیناً زیادہ بڑا کام ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔(سورۃ المومن – 57)
کیا انہوں نے کبھی اس آسمان و زمین کو نہیں دیکھا جو انہیں آگے اور پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے؟ ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا آسمان کے کچھ ٹکڑے ان پر گرا دیں۔ درحقیقت اس میں ایک نشانی ہے ہر اس بندے کے لیے جو خدا کی طرف رجوع کرنے والا ہو ۔ (سورۃ سبا 9)
اور وہ کون ہے جو خلق کی ابتدا کرتا ہے اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے؟ اور کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ ۔۔۔۔ (سورۃ النمل 64 )
اور وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس کے اندر دریا رواں کیے اور اس میں ﴿پہاڑوں کی﴾ میخیں گاڑدیں ۔۔۔۔ (سورۃ النمل 61 )
کیا وہ ﴿ ہماری اِس خلّاقی کو ﴾ نہیں مانتے؟ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تا کہ وہ اِنہیں لے کر ڈھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں، شاید کہ یہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں۔(سورۃ الانبیا 31 )
کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا، اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا ۔(سورۃ النبا 6-7 )

زمین ماں کی گود کی طرح کام کرتی ہے کیونکہ یہ مخلوق کو ہر وہ چیز مہیا کرتی ہے جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ پہاڑ کھونٹوں کی مانند ہیں۔ وہ اپنے بھاری وزن کے ساتھ اور ان کی جڑیں زمین پیوست ہیں تاکہ وہ اس کو قائم رہنے میں مدد کریں ۔ یہ حقیقت کہ زلزلے اکثر پہاڑوں کی تشکیل کا باعث بنتے ہیں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ پہاڑوں کو قدرتی طور پر زلزلوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔
اللہ ہی ہے جو ہواوٴں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اُٹھاتی ہیں، پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے جس طرح چاہتا ہے اور اُنہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تُو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں ٹپکے چلے آتے ہیں۔ یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکایک وہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں حالانکہ اس کے نزول سے پہلے وہ مایوس ہو رہے تھے۔(سورۃ الروم 48-49)
رات اور دن کا اُلٹ پھیر وہی کر رہا ہے ۔ اِس میں ایک سبق ہے آنکھوں والوں کے لیے۔( سورۃ النور44)
اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا پھر جب سیلاب اُٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔ اور ایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اُٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔(سورۃ الرعد17)
اِن سےکہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر تمہارے کنووٴں کا پانی زمین میں اُتر جائے تو کون ہے جو اِس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں تمہیں نکال کر لادے گا؟ (سورۃ الملک 30)
جب کہ طبیعیات کے قوانین پوری کائنات کو کنٹرول کرتے ہیں، زمین پر بھی حیاتیاتی قوانین موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بنی نوع انسان کے پاس سماجی قوانین ہیں جس کی اسے پیروی کرنا ہے۔ فطرت کے قوانین اور حیاتیاتی قوانین انسانی کنٹرول سے باہر ہیں لیکن سماجی قوانین بڑی حد تک انسانوں کے اختیار میں ہیں۔ اور ان کا ماحول پر بھی اثر پڑتا ہے۔ مندرجہ ذیل نکات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے:
1۔یہ ایک قائم شدہ آفاقی نظام ہے جو بغیر کسی خلل کے چلتا رہتاہے کیونکہ طبیعیات کے قوانین جو ان پر حکمرانی کرتے ہیں انتہائی موزوں اور درست ہیں اور کرہ ارض کے ماحول میں بھی بہت توازن پایا جاتا ہے۔
2۔ اس میں زیادہ تر توازن اس طرح قائم کیا گیا ہے کہ انسان اسے ختم نہیں کر سکتا۔ فطرت میں کسی بھی خلل جواس توازن کو تباہ کر سکتا ہے کو درست کرنے کا فطری رجحان پایا جاتا ہے ۔
3۔اگرچہ انسان اس توازن کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتا لیکن وہ اسے نقصان ضرور پہنچا سکتا ہے۔
4۔انسانوں کے اپنے کرتوت کی وجہ سے قدرتی آفات ہمیشہ تو نہیں لیکن اکثر اکثروبیشترآتی رہتی ہیں ۔ فطرت اس کا تجزیہ کرتی ہے اور اصلاحی اقدام کرتی ہے جسے ہم قدرتی آفات کے نام سے جانتے ہیں۔
ماہرین ماحولیات کے درمیان یہ بحث کا موضوع رہا ہے کہ آیا قدرتی آفات انسانوں کی بنائی ہوئی ہیں یا نہیں ۔ صرف حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ کے ذریعہ تشکیل کردہ ماحولیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل نے 1990 کے بعد سے اپنا چوتھا جائزہ پیش کیا ہے جس میں اعلان کیا گیا ہے کہ گلوبل وارمنگ انسانوں کی بنائی ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں درج ذیل نمایاں باتیں شامل ہیں:
1 ۔ اس میں مستقبل کے بارے میں اندازے بالکل واضح تھے۔ ان میں سے مندرجہ ذیل سب سے اہم ہیں:
(a) اس صدی میں زمین 3 سے 8 ڈگری فارن ہائٹ تک مزید گرم ہوسکتی ہے۔
(b) پوری دنیا میں موسم گرم رہے گا۔ کچھ علاقے خشک ہوتے جا ئیں گے، جبکہ دوسرے علاقوں میں زیادہ بارش ہوگی۔ اور
(c) سطح سمندر میں اضافہ بدستور جاری رہے گا۔
2۔ عالمی اوسط درجہ حرارت کے علاوہ کئی متغیرات بھی ہیں جو موسم گرم ہونے کا اشارہ دیتے ہیں۔ ان میں برف کا غلاف ، سمندری برف، سطح سمندر میں اضافہ، گلیشیئرز کا پگھلنا، دنیا بھر میں خشک سالی، سمندری طوفانوں میں تبدیلیاں وغیرہ شامل ہیں۔
3۔۔۔ شدید خشک سالی اور سیلاب آئے گا۔
4۔۔20 ویں صدی کے آغاز سے کرہ ارض 1.5 ڈگری فارن ہائٹ اور 1970 سے تقریباً ایک ڈگری فارن ہائٹ مزید گرم ہوا ہے۔
5۔ گرین لینڈ کی برف کی چادر اور شاید انٹار ٹکا کی برف کی چادر کے سمندر میں پگھلنے یا ٹوٹ جانے کی وجہ سے، آج کے مقابلے میں سطح سمندر 15 فٹ بلند ہو سکتا ہے۔
اوزون کی تہہ خدا کی طرف سے انسان کو فراہم کردہ ایک بہت بڑا تحفظ ہے۔ سورہ رحمٰن کی آیات ملاحظہ فرمائیں جو کرۂ ارض میں توازن بیان کرتی ہیں اور اس توازن کو خراب نہ کرنے کی ہدایت بھی دیتی ہیں۔
سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں اور تارے، درخت سب سجدہ ریز ہیں ۔ آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی ۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو، انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تو لو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو ۔(سورۃ الرحمٰن 4-8)
ایسا لگتا ہے کہ یہاں آسمان کا ذکر کشش ثقل کے دائرے یا خاص طور پر زمین کے پہاڑی کرہ کے حوالے کے طور پر آیا ہے۔ اس آیت میں’میزان‘ ماحول کے توازن کی نشاندہی کرتا ہے، جسے اگر بگاڑ دیاجائے تو زمین پر موجود جانداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ اب ماحولیاتی سائنس میں بہت مشہور ہے۔ قرآن خاص طور پر اوزون کی تہہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ زمین کے اوپر آسمان کو بنی نوع انسان کے لیے حفاظتی چھت بنایاگیا ہے۔
وُہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی۔۔۔(سورۃ البقرہ 22)
جس طرح چھت باشندوں کو گرمی، سردی، ہوا اور دیگربیرونی خطرات سے بچاتی ہے، اسی طرح آسمان اور اس کی اوزون تہہ زمین کو نقصاندہ شعاعوں اور دیگر چیزوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ (1) زمین کے اوپر فضا میں اوزون کی تہہ سورج سے shorter wavelength اور انتہائی مضر الٹرا وائیلیٹ ریڈی ایشن (UVR) کے فلٹر کا کام کرتی ہےاور زمین کو اس کے مضر اثرات سے بچاتی ہے۔ اوزون کی سطح جتنی کم ہوگی،شمسی ریڈی ایشن اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ اس تحفظ کے بغیر انسانوں کا زندہ رہنا تقریباً ناممکن ہے۔ (2) آسمان اسٹیرائڈز اور Meteorsسے حفاظت کرتا ہے۔ (3) شدید سردی سے بچاتا ہے۔ (4) پھر وین ایلن ریڈی ایشن بیلٹ کی شکل میں ایک اور تحفظ موجود ہے۔
قرآن ساتویں صدی سے ہی متنبہ کررہا ہے کہ خدا کے نظام میں دخل دینے اور انسانی غلطیوں کی وجہ سے مستقبل میں آسمان کے افق پر خلل پڑے گا:
اگر تم ماننے سے انکار کروگے تو اُس دن کیسے بچ جاوٴ گےجو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور جس کی سختی سے آسمان پھٹا جا رہا ہو گا؟ اللہ کا وعدہ تو پُورا ہو کر ہی رہنا ہے۔(سورۃ المزمل 17-18)
یہاں ایک بار پھر تذکرہ ہے کہ آسمان کےنظام کو خراب کرنے کا مطلب ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے بیسویں صدی میں اوزون کی تہہ کا ختم ہونا ہے۔
اچھا انتظار کرو اس دن کا جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا اور وہ لوگوں پر چھا جائے گا، یہ ہے درد ناک سزا۔
(سورۃ الدخان 10-11)
اس کا مطلب ہوا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آلودگی ہے، جو پہلے ہی ہندوستان سمیت دنیا کے کئی حصوں میں لوگوں کے لیے بہت زیادہ پریشانی کا سبب بن رہی ہے، یا پھر اس سے مرادسے کوئی بڑا یا خاص واقعہ بھی ہوسکتا ہے۔
قرآن نے تقریباً 1500 سال پہلے واضح کر دیا تھا کہ آفات اکثر انسان کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
قسم ہے طور کی اور ایک ایسی کھلی کتاب کی جو رقیق جلد میں لکھی ہوئی ہے ، اور آباد گھر کی، اور اونچی چھت کی ، اور موجزن سمندر کی، کہ تیرے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے، جسے کوئی دفع کرنے والا نہیں ۔ وہ اس روز واقع ہو گا جب آسمان بری طرح ڈگمگا نے لگے گا اور پہاڑ اڑے اڑے پھریں گے ۔
(سورۃ الطور 1-10)
“مسجور” کا ترجمہ مختلف مترجمین نے مختلف انداز میں کیاہے۔ کچھ لوگوں نےاس کا ترجمہ(سمندروں کا) ‘نگلنا’ کیاہے، کچھ نے (سمندروں میں) ‘آگ ‘ کیا ہے۔ دونوں ترجموں سے کچھ دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ایک اہم واقعہ عالمی میڈیا نے رپورٹ کیا، جب ایک سمندر میں چند گھنٹوں تک آگ کی لپٹیں اٹھتی رہیں۔ ذیل میں “خلیج میکسیکو میں سمندر میں آگ” کے عنوان سے ایک رپورٹ کے اقتباسات پیش خدمت ہیں:
“4 جولائی، 2021 کو خلیج میکسیکو میں پھٹنے والی 12 انچ پائپ لائن جو Pemex نامی کمپنی کی ملکیت تھی، نے سمندر میں آگ بھڑکا دی۔ … لیک سے آگ کا ایک بہت بڑا حلقہ بن گیا جو سمندر کے بیچوں بیچ پائپ پھٹنے سے پیدا ہوا تھا۔ ”
کیا سمندر میں آگ لگ سکتی ہے؟” 2021 میں دنیا کو اس سوال کا جواب مل گیا۔ .. آگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے آسٹریلیا کی میکوری یونیورسٹی میںنامیاتی جیو کیمسٹری کے ایک پروفیسر نے نوٹ کیا کہ آگ: میتھین اور ممکنہ طور پر دیگر گیلی گیسز کے اجزاء (ایتھین،پروپین وغیرہ) کےپائپ لائن سے لیک ہونے کے بعد سمندر کی سطح پر بھڑکنے کی وجہ سے لگی۔
2015 میں اسلامی رہنماؤں نے استنبول میں ایک بین الاقوامی “اسلامی موسمیاتی تبدیلی” سمپوزیم میں منظور کیے گئے آب و ہوا سے متعلق ایک اسلامی اعلامیہ میں دنیا کے 1.6 بلین مسلمانوں سے موسمیاتی تبدیلیوں سے نبردآزما ہونے کے لیے فعال کردار ادا کرنے کی اپیل کی اور عالمی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ ماحولیات کی تبدیلی پر ایک مؤثر عالمگیر خاکہ ترتیب دیں۔
اگر ہم نقصاندہ گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں ناکام رہے تو سائنس دانوں کا خیال ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ہر سال پوری دنیا میں دولاکھ 50, ہزار سے زائدلوگوں کی موت کا باعث بن سکتی ہے اور 2030 تک دس کروڑ لوگوں کو غربت میں لے جا سکتی ہے۔
ماحولیاتی توازن پر ایک مکمل بحث کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ کہنا کافی ہوگا کہ:
1۔قرآن ماحولیاتی توازن کے تمام اہم عوامل کو بیان کرتا ہے – جانور (پرندے، کیڑے مکوڑے، دودھ دینے والے جانور، مچھلیاں اور “غیر مرئی” جاندار)، پودے، ہوا، پانی، پہاڑ، نہریں، دریا، سمندر، مٹی، زمین، کھیت۔ ، جنگلات، باغات وغیرہ۔
2۔قرآن انسانوں کو کائنات کی چیزوں پر کنٹرول دیتا ہے، خاص طور پر زمین پر۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ان کا استعمال انصاف کے ساتھ اور عام فلاح کے لیے کیا جانا چاہیے۔
3۔ خدا کے احکام کو مخصوص مقاصد کے لیے دوبارہ ترتیب دیا
جاسکتا ہے اور بہتر بنایا جا سکتا ہے، لیکن اس کے توازن کو پوری طرح ختم کرناحرام ہے۔
4۔ خدا نے خبردار کیا ہے کہ اس کے نظام کو تسلیم کرنے سے انکار اور اس کے احکام کی نفی مختلف قسم کی قدرتی آفات اور مصیبتوں کا باعث بن سکتی ہے، جیسے بیماریاں، قحط، سیلاب، سیلابی بارش، زلزلے، تارہ کا ٹوٹنا، ٹڈی دل اور بارش کے ذریعہ فصلوں کی تباہی وغیرہ۔
آخر میں قرآن مجید کی چند آیات کا حوالہ دینا مناسب ہو گا:
“حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے ربّ کا بڑا ناشکرا ہے، اور وہ خود اِس پر گواہ ہے، اور وہ مال و دولت کی محبت میں بُری طرح مُبتلا ہے۔” (سورۃ العٰدیٰت 6-8)
جب قرآن دنیوی اثاثوں کی محبت کا رد کرتا ہے تو اس کا اطلاق صرف افراد پر نہیں ہوتا بلکہ دولت کی ادارہ جاتی محبت پر بھی ہوتا ہے۔ معاشیات یقیناً انسانی زندگی کے ضروریات میں سے ایک ہے۔ لیکن مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب معاشیات کے لیے ہر چیز کو قربان کردیا جاتا ہے۔ اگر گلوبل وارمنگ کو روکنا ہے تو اس کا واحد راستہ معاشی قوتوں کے کردار کو کنٹرول کرنا ہے۔ اسلام صحت اور امن کو خطرے میں ڈالنے والے تمام طریقوں کو غلط قراردیتا ہے۔ غیر صحت منداور خراب چیزوں کی تجارت دنیا کے مسائل میں اضافہ کا سب سے بڑا سبب ہے۔ بنی نوع انسان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ خدا کے نظام پر حرف بہ حرف عمل ہی تمام مسائل کا واحد حل ہے۔ اگر انسان یہ سمجھ لے تو زمین یقیناً رہنے کے لیے ایک بہتر اور خوشگوار جگہ بن جائے گی۔

•••

ڈاکٹر جاوید جمیل