طرحی غزل

سرفراز بزمی
جولائی 2024

ہوں جب سے ترے حلقہء فیضان نظر میں
دنیا سمٹ آئی ہے مرے دیدہء تر میں
ہے قلزم ادراک کی موجوں میں تلاطم
اب چین میسر ہے سفر میں نہ حضر میں
اے گنبد خضرا کے مکیں وقت دعا ہے
کعبے کے مصلے ہیں کلیسا کے اثر میں
اے میر عرب شوکت و سطوت کی ڈھلی شام
ہر لمحہ سفر برق و شرر خوف و خطر میں
گرداب کی موجوں سے صدف ہوتے ہیں سیراب
کچھ خیر کے پہلو بھی ہوا کرتے ہیں شر میں
رکھ شیشہء دل گرد کدورت سے مصفی
مٹی کوئی رکھتا ہے کہیں کانچ کے گھر میں
اس شمع کی دنیا کو ضرورت ہے بہت آج
جو شیخ لیے بیٹھا ہے اللہ کے گھر میں
بزمی تن خاکی کا تقدس نہیں مطلوب
ہے عظمت گوہر کی بنا آب گہر میں

•••

سرفراز بزمی