ہوں جب سے ترے حلقہء فیضان نظر میں
دنیا سمٹ آئی ہے مرے دیدہء تر میں
ہے قلزم ادراک کی موجوں میں تلاطم
اب چین میسر ہے سفر میں نہ حضر میں
اے گنبد خضرا کے مکیں وقت دعا ہے
کعبے کے مصلے ہیں کلیسا کے اثر میں
اے میر عرب شوکت و سطوت کی ڈھلی شام
ہر لمحہ سفر برق و شرر خوف و خطر میں
گرداب کی موجوں سے صدف ہوتے ہیں سیراب
کچھ خیر کے پہلو بھی ہوا کرتے ہیں شر میں
رکھ شیشہء دل گرد کدورت سے مصفی
مٹی کوئی رکھتا ہے کہیں کانچ کے گھر میں
اس شمع کی دنیا کو ضرورت ہے بہت آج
جو شیخ لیے بیٹھا ہے اللہ کے گھر میں
بزمی تن خاکی کا تقدس نہیں مطلوب
ہے عظمت گوہر کی بنا آب گہر میں
•••
سرفراز بزمی