مولانا کلیم صدیقی، عمر گوتم، جہانگیر قاسمی سمیت بارہ افراد کولکھنو کی این آئی اے عدالت نے ملک میں یوپی تبدیلی مذہب قانون 2021کے تحت 15, افراد کو کئی سنگین دفعات کے تحت عمر قید اور ہر دفعہ پر الگ الگ سزائیں سنائی ہیں۔ ظاہر ہے پولس کی طرف سے عائد کردہ من گھرٹ، بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کے تحت یہ سزائیں سنائی گئیں۔ ریاست اترپردیش کا تبدیلئ مذہب قانون بنیادی طور پر غیر آئینی ہے۔ ملک کا آئین نہ صرف یہ کہ ہر شہری کو کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی ترویج و اشاعت کی آزادی دیتا ہے۔ دستور کی دفعہ 25, کے تحت دیا گیا یہ حق ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔
ملزمین پر پولس کا یہ الزام ہے کہ کہ لوگوں کو شادی، روزگار، ملازمت اور دیگر لالچ دے کر ان کے مذہب تبدیل کرائے گئے۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ مذہب تبدیل کرنے والوں کے لئے ورکشاپ اور ٹریننگ کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔ اسی طرح یہ الزام بھی لگایا گیا کہ اس کے لئے دوسرے ممالک سے فنڈنگ
بھی ہوتی تھی۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کہ یہ تمام الزامات بے بنیاد اور من گھرٹ ہیں۔ جو لوگوں دعوت کے میدان میں کام کرتے ہیں وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس دین کے وہ داعی ہیں اس کی یہ واضح ہدایت ہے کہ ‘لا اکراہ فی الدین’۔ (دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے)زور زبردستی کا مطلب کسی بھی نوعیت کی زور زبردستی سے ہے یعنی دباؤ اور لالچ بھی زور زبردستی میں ہی شمار ہوگا۔ پھر یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ جو امت خود تہی دست ہو جس کے لاکھوں افراد خود برسر روزگار نہ ہوں وہ روزگار اور ملازمت کالالچ کیسے دے سکتی ہے۔ اسی طرح شادی کے لالچ کا الزام بھی بے ہودہ ہے۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص محض روزگار اور شادی کی غرض سے اپنا آبائی دین چھوڑ دے۔
اسی طرح یہ الزام بھی غلط ہے کہ تبدیلئ مذہب کے باہر کے ممالک سے کوئی فنڈ آرہا ہے۔ مسلم ممالک جب مسلمانوں پر کوئی آفت آتی ہے، چاہے لنچنگ کی شکل میں ہو یا بلڈوزر ٹیررزم کی شکل میں ہو، چاہے ان کی مسجدوں پر قبضے ہورہے ہوں یا ان کی اوقافی جائدادوں کو ہڑپنے کے لئے قانون بنائے جارہے ہوں، چاہے ان کے مدارس پر حملے ہورہے یا ان کی شہریت کو ہی ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہو بلکہ جب اللہ رسولﷺ کی شان میں علی الاعلان گستاخی کی جاتی تو کسی بھی مسلم ملک کے کان پر جون تک نہیں رینگتی وہ بھلا ھندوستان میں تبدیلئ مذہب کے لئے کوئی مالی مدد دیں گے۔
اسی طرح جو لوگ بھی اسلام قبول کرتے ہیں، دین سیکھنا، قران کو سمجھنا، نماز و دیگر عبادات کے طریقے جاننا ان کی بمیادی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا اس ضرورت کے لئے ورکشاپ اور ٹریننگ کا اہتمام کرنا کب سے جرم بن گیا ہے۔ اسی طرح ریاستوں میں تبدیلئ مذہب کے لئے جو قوانین بن رہے ہیں وہ بھی عجیب و غریب ہیں۔ ظاہر ہے قانون بنانے والے یہ جانتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کو اختیار اور کسی مذہب سے کنارہ کشی کے معاملہ میں دستوری طور پر ہر شخص آزاد ہے یہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ یہ قانونی طور پر کوئی جرم نہیں ہے۔ لہذا اب قانون بناتے وقت یہ کہا جاتا ہے کہ کسی پر دباوٴ ڈال کر، زور زبردستی سے یا کسی بھی قسم کا لالچ دلاکر مذہب تبدیل کرانا قابل سزا جرم ہے اور جو شخص بھی دھرم پریورتن کرے گا وہ پہلے ڈی ایم کو اطلاع کرے گا اور ڈی ایم اس کی تحقیق کرگے گا کہ کہیں کوئی دباوٴ یا کوئی لالچ تو نہیں کام کررہا ہے اور اگر ایسا ہے تو پھر ان تمام لوگوں پر جن کے ذریعہ دعوت پہنچائی گئی، مقدمہ قائم کرکے کیس چلایا جائے گا۔ حیرت اور تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض قوانین میں یہان تک کہا گیا کہہ اگر دوزغ کا خوف اور جنت کی ترغیب دی گئی تو یہ بھی دباوٴ اور لالچ میں شمار ہوگا۔ ظاہر ہے اس کے بعد تو دستور کا عطا کردہ بنیادی حق بے معنی ہوجاتا ہے۔ ہمیں یقین ہے اگر اس فیصلہ کو ھائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اچھے وکیلوں کی خدمات حاصل کرکے پروفیشنل ڈھنگ سے لڑا گیا تو ہم نہ صرف اپنے ان بھائیوں کو باعزت بری کرواسکتے ہیں بلکہ آزادی مذہب کے بنیادی حق کو جو بے اثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس کو بھی روک سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ملک کی بڑی اور اہم دینی تنظیموں کو چاہئے کہ اس مقدمہ کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ اس لئے کہ یہ معاملہ صرف چند افراد کی سزا ہی کا نہیں ہے بلکہ آزادی مذہب، دعوت دیں اور اشاعت دیں کے دستوری و بنیادی حق سے جڑا ہواہے۔