دہلی کا اگلا اسمبلی انتخاب: امکانات و اندیشے

سہیل انجم
جولائی 2024

حالیہ پارلیمانی انتخابات میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے دہلی میں انتخابی اتحاد کیا۔ اتحاد کے نتیجے میں کانگریس نے تین اور عام آدمی پارٹی نے چار نشستوں پر ایکشن لڑا۔ ایسا سمجھا جا رہا تھا کہ کم از کم دو تین سیٹیں اس اتحاد کو مل جائیں گی۔ لیکن اسے ایک بھی سیٹ نہیں ملی اور سات کی ساتوں سیٹ پر بی جے پی کامیاب رہی۔ حالانکہ ووٹوں کی گنتی کے دوران کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے امیدوار بعض حلقوں میں آگے رہے لیکن رفتہ رفتہ وہ پچھڑتے چلے گئے اور بالآخر ہار گئے۔
دہلی میں عام طور پر بی جے پی کو جیت حاصل ہوتی رہی ہے۔ اسمبلی انتخابات میں کانگریس بھی جیتتی رہی ہے اور کانگریسی رہنما شیلا دیکشت تو مسلسل تین بار وزیر اعلیٰ رہیں۔ لیکن یہ اسمبلی کی باتیں ہیں۔ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی ہی بازی مارتی رہی ہے۔ جب عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال سیاست میں آئے اور ملک میں ایک نئی قسم کی سیاست شروع کرنے کا اعلان کیا تو عوام کو لگا کہ یہ ایک ایماندار آدمی ہے اور اگر اسے جتاکر عام آدمی پارٹی کی حکومت بنائی جائے تو ممکن ہے کہ ملکی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ہو جائے۔ لہٰذا عوام نے اس پارٹی کو اسمبلی انتخابات میں ووٹ دیا اور وہ اسی وقت سے برسراقتدار ہے۔ کانگریس اور بی جے پی نے اسے اقتدار سے بے دخل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پائیں۔ دونوں پارٹیاں اس کی مخالف ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے انہی دونوں کے ووٹ بینک پر قبضہ کیا ہے۔ کانگریس تو خیر بہت کمزور ہو گئی ہے۔ لیکن بی جے پی بھی اسے تخت سے اتارنے کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوپائی۔ جبکہ ساتوں پارلیمانی نشستوں پر وہی اب تک کامیاب ہوتی آئی ہے۔
دراصل عوام کو لبھانے والی پالیسیاں عام آدمی پارٹی کے کام آتی ہیں اور انہی پالیسیوں کی وجہ سے ہی کیجریوال کو مقبولیت حاصل ہے۔ دہلی ایک مکمل ریاست نہیں بلکہ مرکز کے زیر انتظام ایک علاقہ ہے جسے این سی آر کہا جاتا ہے۔ یہاں گورنر نہیں بلکہ لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) ہے جو مرکز کا نمائندہ ہوتا ہے۔ بی جے پی ایل جی کے توسط سے کیجریوال کی حکومت کو پریشان کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف شعبوں میں حکومت بری طرح ناکام ہے۔ جہاں تک عوامی موڈ کی بات ہے تو عوام کا کہنا ہے کہ دہلی میں کیجریوال اور مرکز میں مودی یعنی بی جے پی۔
بہرحال پارلیمانی انتخابات میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی میں اتحاد ہوا لیکن عوام نے مذکورہ بالا فارمولے کے تحت ووٹ دیا۔ یعنی لوک سبھا انتخابات میں انھوں نے بی جے پی کو کامیاب بنایا۔ ویسے کیجریوال سے انتخابی مفاہمت کے سلسلے میں کانگریس میں اتفاق رائے نہیں تھا۔ اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی نے اس کے ووٹ بینک پر قبضہ کیا ہے اور دوسرے اس کے نزدیک کیجریوال غیر معتبر ہیں وہ کب کون سا قدم اٹھا لیں گے کہا نہیں جا سکتا۔ وہ اپوزیشن کے اتحاد میں شامل ہونے کے لیے پہلے آمادہ نہیں تھے۔ لیکن جب کانگریس نے نرمی کا مظاہرہ کیا تو شامل ہو گئے۔ اب اگلے سال فروری یا اس کے آس پاس اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ دونوں پارٹیوں میں اس وقت تک انتخابی اتحاد باقی رہتا ہے یا نہیں۔ خیال ہے کہ نہیں رہے گا۔ عام آدمی پارٹی کے بعض رہنماؤں نے اپنے بیانات میں اس کا اشارہ دے دیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اروند کیجریوال کو یہ یقین ہے کہ اگلے اسمبلی انتخابات میں بھی وہ کامیاب ہو ں گے۔ جب بغیر اتحاد کے کامیابی مل جائے تو پھر اپنے حصے میں کسی اور کو کیوں کر شریک کیا جائے۔
ویسے دلی کے مسلمانوں کی اکثریت عام آدمی پارٹی کے ساتھ رہی ہے۔ اسے ان کی مجبوری کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ کانگریس کمزور
ہوگئی ہے اور مسلمان بی جے پی کو ووٹ دینے سے رہے۔ لے دے کر یہی ایک پارٹی باقی بچتی ہے۔ اگر ہم پارلیمانی انتخابات کے تناظر میں دیکھیں تو مسلمانوں نے کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے اتحاد کو ووٹ دیا۔ حالانکہ عام آدمی پارٹی مسلمانوں کے لیے اب تک کوئی خاص کام نہیں کر پائی ہے۔ بلکہ مسلمانوں کا نقصان ہی ہو رہا ہے۔ جتنے اقلیتی ادارے ہیں سب غیر موثر ہو کر رہ گئے ہیں۔ دہلی کے سرکاری اسکولوں میں اردو اساتذہ کے تقرر کے معاملے میں سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی۔ دہلی اقلیتی کمیشن میں کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔ کیجریوال نے اپنی پارٹی کے ایک ممبر کو اس کا چیئرمین بنا رکھا ہے۔ جب ڈاکٹر ظفرالاسلام خان اس کے چیئرمین تھے تو کافی کام ہوا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے وہ تقریباً ٹھپ ہے۔ دہلی اردو اکادمی عضو معطل بن کر رہ گئی ہے۔ وہاں بھی اردو کے فروغ کے لیے کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔ دہلی حج کمیٹی میں بی جے پی نے اپنی پسند کی ایک خاتون کو جو کہ اس کی ممبر ہیں چیئرپرسن بنا کر بٹھا رکھا ہے۔ مسلمان مجموعی طور پر پسماندہ ہیں لیکن عام آدمی پارٹی کے پاس ان کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو وہ مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہی کام کرتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال جب دہلی کارپوریشن کے انتخابات ہوئے تو مسلم اکثریتی علاقوں میں اسے کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔
مسلمانوں نے اس کے خلاف ووٹ کیا تھا۔ ان کی اکثریت نے کانگریس کو ووٹ دینا پسند کیا۔ دہلی میں تین علاقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے۔ یہ ہیں جامعہ نگر، پرانی دہلی اور جمنا پار علاقہ۔ جامعہ نگر میں بٹلہ ہاؤس، غفور نگر، جوگا بائی، غفار منزل، جوہری فارم، حاجی کالونی، ابوالفضل انکلیو اور شاہین باغ وغیرہ آتے ہیں۔ فصیل بند شہر دہلی میں جامع مسجد اور بلی ماران کا بہت بڑا علاقہ آتا ہے۔ جبکہ جمنا پار میں سیلم پور، جعفرآباد، مصطفی آباد اور دیگر کئی مسلم کالونیاں ہیں۔ عام آدمی پارٹی کو جامعہ نگر اور جمنا پار علاقوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ اسے جامع مسجد او ربلی ماران علاقے میں کامیابی ملی۔ شاہین باغ وہ کالونی ہے جہاں سے سی اے اے کے خلاف دھرنا شروع ہوا تھا جو پورے ملک میں پھیل گیا تھا۔ جبکہ جمنا پار علاقے میں شمال مشرقی دہلی بھی آتا ہے جہاں 2020 میں مسلم مخالف فسادات ہوئے تھے جن میں 53 افراد ہلاک ہوئے تھے اور ہلاک شدگان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اروند کیجریوال اور ان کی پارٹی نے ان دونوں معاملات میں مسلمانوں کو بہت مایوس کیا تھا۔ کیجریوال نے شاہین باغ کی حمایت میں اپنی زبان سے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے یہ تک کہا کہ اگر دہلی کی پولیس ان کے ماتحت دے دی جائے تو وہ چوبیس گھنٹے میں دھرنا ختم کرا دیں گے۔
شمال مشرقی دہلی کے فسادات میں بھی انھوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسلمان ہی مارے کاٹے جا رہے ہیں، ان کی زبان سے ہمدردی کا ایک لفظ نہیں نکلا۔ انھوں نے ایک روز دورہ تو کیا لیکن مسلمانوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں کی۔ وہ اس وقت تک گھر سے باہر نہیں نکلے جب تک کہ فسادات کی آگ بھڑکتی رہی۔ شاید انھوں نے یہ سوچا ہو کہ دہلی کی پولیس مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے ماتحت ہے اور فساد پر قابو پانا پولیس کا ہی کام ہے۔ لہٰذا فساد جتنا زیادہ پھیلے گا امت شاہ کی اتنی ہی زیادہ بدنامی ہوگی۔ اگر انہوں نے ایسا سوچا ہو تو یہ بھی غلط تھا کیونکہ فساد کی مار تو مسلمانوں پر پڑ رہی تھی۔ اگر وہ مسلمانوں کے ہمدرد ہوتے تو ان کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرتے۔ انھوں نے تو مسلمانوں کے خلاف ہی کام کیا۔ ان کی پارٹی کے ایک کونسلر طاہر حسین پر پولیس نے فساد بھڑکانے کا الزام لگایا اور انھیں گرفتار کر لیا۔ (وہ اب بھی جیل میں ہیں)۔ کیجریوال نے اس بات پر انھیں فوراً پارٹی سے برطرف کر دیا۔ جبکہ بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا پر بھی فساد بھڑکانے کا الزام تھا لیکن بی جے پی نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ وہ اب بھی پارٹی میں باعزت مقام کے مالک ہیں۔ حالانکہ طاہر حسین نے اپنے محلے میں مسلمانوں کو باہر سے آنے والے فسادیوں کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن کیجریوال نے ان سے کوئی ہمدردی نہیں کی۔ یہی وجہ تھی کہ جامعہ نگر اور جمنا پار کے مسلم اکثریتی علاقوں میں عام آدمی پارٹی کی شکست ہو گئی۔ البتہ جامعہ مسجد اور بلی ماران میں اس کو کامیابی ملی۔
میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں پرانی دہلی کے مٹیا محل اور بلی ماران اسمبلی حلقوں کی کارپوریشن کی سیٹوں پر عام آدمی پارٹی کامیاب ہوئی لیکن اس میں اس کا اپنا کوئی کردار نہیں تھا۔ مٹیا محل کے دبنگ لیڈر شعیب اقبال کی اس علاقے پر زبردست گرفت ہے۔ ان کے سامنے کسی کا ٹکنا آسان نہیں ہے۔ ان کی مقبولیت کی وجہ سے وہاں عام آدمی پارٹی کو کامیابی ملی۔ ان کے فرزند آل محمد اقبال کامیاب ہوئے۔ وہ کسی دوسری پارٹی میں ہوتے تو اسی پارٹی کو کامیابی ملتی۔ اسی طرح بلی ماران سے عام آدمی پارٹی کے عمران حسین ایم ایل اے ہیں۔ ان کی ساکھ بہت اچھی ہے۔ وہ دہلی حکومت میں وزیر بھی ہیں۔ انھیں مقبولیت حاصل ہے اور علاقے پر ان کی گرفت ہے۔ وہ بھی اگر کسی دوسری پارٹی میں ہوتے تو وہی پارٹی جیتتی۔ وہاں بھی عام آدمی پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی میں پارٹی کا کوئی رول نہیں ہے۔ مجموعی طور پر دہلی کے مسلمانوں نے عام آدمی پارٹی کو مسترد کر دیا تھا۔ انھوں نے اس کے مقابلے میں کانگریس کی حمایت کی تھی۔
جہاں تک آئندہ اسمبلی انتخابات کی بات ہے تو بی جے پی اس بار کامیابی حاصل کرنے کی پوری پوری کوشش کرے گی۔ وہ عام آدمی پارٹی کو کمزور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ پہلے وزیر صحت ستیندر جین کو بدعنوانی کے معاملے میں گرفتار کیا گیا۔ انھیں سزا ہو چکی ہے اور وہ جیل میں ہیں۔ اس کے بعد نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کو گرفتار کیا گیا وہ بھی جیل میں ہیں۔ رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ کو بھی گرفتار کیا گیا تھا جو کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ضمانت پر باہر ہیں۔ وزیر اعلیٰ کیجریوال کو بھی گرفتار کیا گیا اور وہ بھی جیل میں ہیں۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے حکم پر انھیں عارضی طور پر رہا کر دیا گیا تھا تاکہ وہ انتخابی مہم میں حصہ لے سکیں۔ اس کے بعد پھر انھیں جیل میں سرینڈر کرنا پڑا۔ مرکزی حکومت انھیں اسمبلی انتخابات تک جیل میں رکھنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے ای ڈی نے گرفتار کیا اور جب یہ لگا کہ عدالت انھیں ضمانت دے دے گی تو سی بی آئی نے گرفتار کر لیا۔ اگر اس معاملے میں بھی انھیں ضمانت مل جاتی ہے تو کوئی اور ایجنسی یا ادارہ گرفتار کر سکتا ہے۔ دہلی حکومت میں باقی جو وزرا ہیں ان کو بھی پریشان کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایل جی وی کے سکسینہ مرکزی حکومت کے مقاصد کی تکمیل میں مصروف ہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ جب 2020 میں دہلی میں اسمبلی انتخابات ہو رہے تھے تو اس وقت سی اے اے کے خلاف شاہین باغ کی خواتین دھرنے پر بیٹھی تھیں۔ اس دھرنانے پوری دنیا کے میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی تھی۔ اس وقت وزیر داخلہ امت شاہ نے دہلی میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ جب ووٹ دینے جائیں تو اتنی تیز بٹن دبائیں کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ والوں کو لگے۔ وہ تو عوام نے جو فیصلہ دیا اس سے کرنٹ انہی کو لگ گیا۔ جبکہ انوراگ ٹھاکر نے گولی مارنے کا نعرہ لگوایا تھا۔ لیکن بہرحال یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس باربی جے پی اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دے گی۔ اگر کانگریس اور عام آدمی پارٹی میں اسمبلی انتخابات کے سلسلے میں بھی اتحاد قائم ہوا، جس کا امکان کم ہے، تو بی جے پی کے لیے مشکل ہو گی۔ لیکن اگر ایسانہیں ہوا اور دوسری طرف کیجریوال اور سسودیا اندر ہی رہے تو پھر عام آدمی پارٹی کے لیے مشکل ہوگی۔ فی الحال اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اسمبلی انتخابات میں کس کی جیت ہوگی کس کی ہار۔ لیکن اس بات کا اندیشہ ضرور ہے کہ بی جے پی اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے کوئی بھی حربہ اختیار کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔

•••

سہیل انجم