چندر شیکھر آزاد راون اور مسلمان

کیا مسلمانوں کو ان پر بھروسا کرنا چاہیے ؟

مشتاق عامر
جولائی 2024

بھیم آرمی کے بانی چندر شیکھر آزاد راون نے مغربی یو پی کی نگینہ سیٹ سے جیت حاصل کرکے سب کو چونکا دیا۔ یہ وہی چندر شیکھر راون ہیں جو 2022 کے اسمبلی الیکشن میں گھورکھپور سے یو گی آدتیہ ناتھ کے خلاف الیکشن لڑے تھے اور ان کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی ۔اس الیکشن میں چندر شیکھر راون کو صرف ساڑھے چار ہزار ووٹ ملے تھے جبکہ سماج وادی پارٹی دوسرے نمبر پر تھی۔ نگینہ لوک سبھا سیٹ پر مسلم ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوتا رہا ہے ۔نئی حلقہ بندی کے بعد یہاں کے تقریباً 16؍ لاکھ ووٹوں میں سے چھ لاکھ ووٹ مسلمانوں کے ہیں ۔ تین لاکھ ووٹ دلتوں کے بتائے جاتے ہیں۔ چندر شیکھر آزاد راون نے یہاں سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ ووٹوں سے اپنی جیت درج کرائی ہے جو کہ اپنے آپ میں ایک رکارڈ ہے ۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر آج یو پی میں اسمبلی انتخابات ہو جائیں تو چندر شیکھر آزاد کی آزاد سماج پارٹی ( کانشی رام ) کو چار پانچ سیٹیں آسانی سے مل سکتی ہیں۔ چندر شیکھر کی غیر معمولی جیت نے کئی طرح کے سوالوں کو بھی جنم دیا ہے ۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ کیا بی جے پی پس پردہ چندر شیکھرآزاد کی پشت پناہی کر رہی ہے؟۔ اس خیال پیچھے کچھ دلائل ہیں۔ ماضی میں مایاوتی نے بی جے پی کی اور بی جے پی نے مایاوتی کی جس طرح مدد کی ہے اس کی بنیاد پر اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ مایا وتی بی جے پی کی حمایت سے اپنی حکومت بھی بنا چکی ہیں۔لیکن اس وقت بہوجن سماج پارٹی کی حالت نہ گفتہ بہ ہے ۔ لوک سبھا الیکشن کے بعد بی ایس پی اپنے زوال کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے ۔الیکشن میں بی ایس پی کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔اسی طرح اسمبلی میں بھی بہوجن سماج پارٹی کی صرف ایک سیٹ باقی رہ گئی ہے۔ یو پی کی دلت سیاست میں زبردست خلا پیدا ہو گیا ہے۔ چندر شیکھر آزاد کی نئی تشکیل شدہ آزاد سماج پارٹی کے لیے اس وقت میدان بالکل خالی ہے ۔اس خلا کو پر کرنے کے لیے بی جے پی کوایسی دلت پارٹی کی ضرورت ہے جو اس کے ایجنڈے میں فٹ بیٹھ سکے۔ بی جے پی چندر شیکھرپراپنا داؤ لگا سکتی ہے ۔ چندر شیکھر نے بھی ابھی تک کوئی ٹھوس سیاسی حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا ہے ۔ اب تک ان کی سیاسی سرگرمیاں ہنگاموں اور وقتی ایشوز پر ہی مرکوز رہی ہیں۔ ان کے سیاسی مقاصد کیا ہیں اور یہ کس طرح کے سیاسی نظر یے کے حامل ہیں ۔اس سوال کا حتمی جواب دینا قدرے مشکل ہے۔مستقبل میں ان کی سیاست کیا ہوگی۔ ان کا سیاسی ایجنڈا کیا ہے ۔ ان سوالوں کے جواب ابھی ملنا باقی ہیں ۔ لیکن چندر شیکھر آزاد کے حالیہ بیان نے بعض شک و شبہات کو جنم ضرور دیا ہے ۔لوک سبھا میں حلف برداری کے بعد ان کی تعارفی تقریر نے کئی سوال پیدا کر دئے ہیں ۔ لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے جو مختصر تقریر کی، اس میں انہوں نے کہا : ’’سر ! بہت سے ممبران نے آپ کی تعریف کی ہے ۔ میں آپ سے پہلے مل چکا ہوں ۔جب میرے اوپر پریشانی آئی تھی تو آپ نے مجھے تحفظ ( سنرک چھن ) فراہم کیا تھا۔ہم نئی پارٹی ہیں۔ ہم آپ سے تحفظ کی اپیل کرتے ہیں۔ امید کرتا ہوں آپ میرا تحفظ کریں گے ۔ آپ جمہوریت کی طاقت ہیں ۔قدرت آپ کو جمہورت کی حفاظت کی طاقت عطا کرے۔ ‘‘
اس مختصر سی تقریر نے لوک سبھا میں چندر شیکھر کی پارٹی لائن کو بہت حد تک واضح کر دیا ہے ۔چندر شیکھر کے ساتھ دلت ووٹ کتنا ہے اس کا تو ابھی اندازاہ ہی لگایا جا رہا ہے ۔لیکن اتنی بات تو واضح ہے کہ نگینہ کی جس سیٹ سے چندرشیکھر نے اپنی جیت درج کرائی ہے ۔اس سیٹ پر مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ یو پی میں ہمیشہ سے ہی مسلمانوں نے دلت تحریکوں کا ساتھ دیا ہے ۔ 80 کی دہائی میں یو پی کے مسلمانوں نے کانشی رام کی پارٹی کو اپنے پیسے اور وسائل سے بھر پور مدد کی تھی اور بی ایس پی کو اس قابل بنایا تھا کہ بحیثیت ایک سیاسی پارٹی کے الیکشن میں مضبوطی کے ساتھ حصہ لے سکے ۔کانشی رام تو مسلمانوں کے اس گراں قدر تعاون کا کبھی کبھار اعتراف کربھی لیا کرتے تھے لیکن مایا وتی نے اس حقیقت کا اعتراف کبھی نہیں کیا۔ اس کے بر عکس انہوں نے وقتاً فوقتاًمسلمانوں پر بی ایس پی کو ہرانے اور الیکشن میں دھوکہ دینے کا الزام ضرور عائد کیا ہے ۔
یو پی کا مسلمان ’’ خو د ساختہ سیاسی یتیمی ‘‘ کا شکار رہا ہے۔ یہاں کا مسلمان اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے بجائے سیاسی بیساکھیوں کو تلاش کرتا ہے ۔اسے جس پارٹی سے امید کی کوئی کرن نظر آتی ہے اسی کو اپنا سیاسی سرپرست مان لیتا ہے۔ لوک سبھا الیکشن میں سماج وادی پارٹی اور کانگریس کو جو غیر معمولی کامیابی ملی ہے وہ مسلم ووٹوں کی مرہون منت ہے ۔ مسلمان نام نہاد سیکولر سیاسی پارٹیوں سے بار بار دھوکہ کھانے کے بعد بھی انہی پارٹیوں کو ووٹ دے کر اقتدار کی کرسیوں تک پہنچاتا رہا ہے۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی سے بارہا دھوکہ کھانے کے بعد اگر چندر شیکھر راون پر اب اپنا اعتماد قائم کررہا ہے تو اس میں نہ کوئی تعجب کی بات ہے اور نہ ہی کوئی غیر معمولی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ۔
یو پی میں دلت مسلم اتحاد کی کوششیں اب تک بے سود ثابت ہوئی ہیں۔ دلتوں کے ساتھ اتحاد کی پہلی کوشش مسلمانوں نے ہی کی تھی۔ ساٹھ کی دہائی میں مسلم مجلس کے بانی ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی نے دلت مسلم اتحادکی ضرورت کو پہلی بار محسوس کیا تھا ۔لیکن دلت لیڈروں نے مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ دلت لیڈروں کی پوری کوشش اقتدار تک پہنچنے اور ریزور ویشن سے فائدہ اٹھانے کی تھی ۔مسلمانوں کے تعلق سے دلت لیڈروں کا رویہ با لعموم دیگر کسی سیاسی پارٹی مختلف نہیں ہو تا۔ یعنی مسلمانوں کو سیاسی حیثیت سے نمبر دو پر رکھا جائے۔ دلت لیڈروں کو اس بات سے بھی قطعی کوئی دلچسپی نہیں کہ ان کی طرح مسلمانوں کو بھی ریزر ویشن دیا جائے۔مسلم ریزر ویشن کے مسئلے پر دلت لیڈروں کی خاموشی اس حقیقت کی غماز ہے ۔اس کی روشن مثال یہ ہے کہ2004 میں لکھنؤ میں مسلم ریزرویشن موومنٹ کی بنیاد پڑی۔ معروف قانون داں اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفر یاب جیلانی اس کے صدر بنائے گئے ۔ مسلم ریزرویشن موومنٹ میں یوپی کی سرکردہ مسلم شخصیات شامل تھیں ۔ ان میں شفیق الرحمان برق، ایڈوکیٹ عبد المنان ، محمد سلیمان ، ملک عظیم احمد خاں ،قمر یاب جیلانی اور جہانگیر عالم شامل تھے ۔ مسلم ریزرو ویشن موونٹ نے کئی برسوں تک اپنی مہم چلائی لیکن اس مہم کو ایک بھی قابل ذکر دلت لیڈر نے اپنی حمایت نہیں دی اور نہ ہی اس میں وہ شامل ہوے ۔حقیقت یہ ہے کہ دلت بھی دوسری پارٹیوں کی طرح مسلمانوں کو برابری کا سیاسی مقام دینے تیار نہیں ہیں ۔چندر شیکھر کی پارٹی اگر بی ایس پی کا متبادل بن جاتی ہے تو اس میں بھی مسلمانوں کی حیثیت ثانوی ہی ہوگی ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں ضمناً ایک اور بات عرض کرتا چلوں کہ جب کسی مسلم قیادت والی پارٹی میں کوئی دلت لیڈر شمولیت اختیار کرتا ہے تو اس کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ گویا اس نے پوری مسلم قوم پر احسان کیا ہے۔ وہ ایک مخصوص احساس برتری کے ساتھ پارٹی میں شامل ہوتا ہے ۔اس کے رویے میں فرق صاف طور سے دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کا تجربہ ان مسلمانوں کو اچھی طرح ہوا ہوگا جنہوں نے دلت پارٹیوں یا دلت لیڈروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کی ہوگی۔ دوسری جانب مسلمان دلت لیڈروں کو عزت کا وہ مقام دیتے ہیں جس تصور نام نہاد اعلیٰ ذات کے لیڈران سے نہیں کیا جا سکتا ۔چندر شیکھر آزاد راون نے اپنی سیاسی پارٹی آزاد سماج پارٹی کے ساتھ کانشی رام کا نام جوڑا ہے ۔وہ ا پنی تقریروں میں کانشی رام کے اصولوں پر چلنے کی بات بھی کہتے رہے ہیں ۔ڈاکٹر امبیڈکر کے بعد کانشی رام دلتوں کے سب سے بڑے لیڈر ہوئے ہیں۔انہوں نے کبھی منو واد سے سمجھوتا نہیں کیا ۔لیکن جون 1995 میں مایاوتی نے بی جے پی ساتھ مل کر حکومت بنائی اسی دن سے بہوجن سماج پارٹی کے زوال کی شروعات ہو گئی۔ کانشی رام کی موت کے بعد سے یو پی کی دلت سیاست ہندوتو کے نرغے میں رہی ہے ۔اگر چندر شیکھرآزاد کانشی رام کے اصولوں پر چلتے ہوئے دلتوں،مسلمانوں اور محروم طبقات کے حقوق کی جد وجہد کرتے ہیں تو پورا ملک نہ سہی یو پی میں کانشی رام کی سیاست کے وارث بن سکتے ہیں ۔رہی مسلمانوں کی بات تو وہ چندر شیکھر آزاد راون کی پارٹی سے بہت زیادہ امید نہ رکھیں تو بہتر ہے۔ اگرچندر شیکھر نے شروع میں ہی بی جے پی سے کوئی ساٹھ گانٹھ کر لی ہے تو یہ نئی پارٹی بہت دور تک نہیں جا سکتی ۔ جن سنگھ اور اس کے بعد بی جے پی کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ کام نکالنے کے بعد اپنے اتحادیوں کو ختم کر دیتی ہے ۔ ماضی میں اس کی مثال جنتا پارٹی، جنتا دل، سمتا پارٹی اور حال کے دنوں میں شیو سینا، عآم آدمی پارٹی اور بیجو جنتا دل سے دی جا سکتی ہے۔

•••

مشتاق عامر

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.