اسلام: اہل مغرب کی نظر میں
(قرآن مجید، سیرت طیبہ اور انگریزی ادب کے حوالے سے مغربی فضلاء کی تصانیف کا تجزیہ)
صفحات : 296 قیمت: 500/- روپے اشاعت: ادارہ تحقیق و تصنیف، علی گڑھ
مبصر: سہیل بشیر کار؛ بارہمولہ کشمیر
296 صفحات کی زیر تبصرہ کتاب معروف محقق پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کی اہم کتاب ہے۔ یہ کتاب مغربی مترجمینِ قرآن، ماہرین اسلامیات اور مؤرخین کی تصانیف کے تجزیوں پر مشتمل ہے۔ یہ اسلام سے متعلق مغربی ذہن کے تعصبات، مزعومات اور تحفظات کو آشکار کرتی ہے اور بعض مثبت روشن مثالوں کو بھی نمایاں کرتی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب کو مصنف نے تین ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب ”قرآن مجید پر مغربی فضلاء کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ” میں 11 مضامین ہیں۔ دوسرے باب” سیرت طیبہ پر مغربی فضلاء کا تنقیدی جائزہ ”میں مصنف نے 5 مضامین اور آخری باب” انگریزی ادب پر مغربی فضلاء کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ ”میں مصنف نے 5 مضامین شامل کیے ہیں۔
پہلے باب کے پہلے مضمون” اکیسویں صدی کے بعض مغربی مطالعات ”میں مصنف نے حال ہی میں مغربی مصنفین کے کیے گئے تراجم کا تعارف پیش کیا ہے۔اس تعارف سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مغربی مصنفین دین اسلام کے تئیں انتہائی تعصب کے شکار ہیں۔ ان تراجم کی بنیاد ہی اسلام کے تئیں تعصب ہے۔ ان مترجمین میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شامل ہیں۔
دوسرے مضمون ”کورپس قرانکم: قرانیات سے متعلق مشترقین کا حالیہ علمی محاذ ”میں مصنف نے جرمن مستشرق Theodor Nöldeke کی طرف سے شروع کردہ ایک علمی منصوبے ”کورپس قرانکم” سے قاری کو آگاہ کیا ہے۔ اس منصوبہ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ یہ ثابت کیا جائے کہ قرآن کریم بائبل سے مستعار ہے۔ اس باب میں مصنف نے” کورپس قرانکم” کی طرف سے مختلف سورتوں کا جو مفہوم بیان کیا گیا ہے، اس کو پیش کیا ہے۔
تیسرے باب ”قران کریم کے اعجازی پہلو (مستشرقین کے موقف کا محاکمہ” میں مصنف نے کئی مستشرقین کے ترجموں کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح انھوں نے غلط ترجمے کییہیں اور اس طرح مستشرقین قرآن مجید کے اعجازی پہلو کی ترجمانی میں بھی ناکام رہے۔ان کا بغض و عناد اس کی بنیادی وجہ ہے۔
چوتھے باب” انگریزی میں مطالعہ قرآن مجید کے جدید رجحانات؛ حالیہ کتابیات کی روشنی میں” مصنف نے ایران کے مرکز برائے ترجمہ قرآن مجید قُم کی طرف سے مرتب کردہ مطالعات قرآن مجیدکو محیط ایک جامع کتابیات Bibliography Of Quranic Studies In European Languages کا تعارف پیش کیا ہے۔مصنف نے اپنے اس مضمون میں ان موضوعات کی فہرست بھی دی ہے جن میں مستشرقین اپنے قلم کی جولانیاں دکھاتے ہیں۔ مذکورہ کتاب کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ: ”مطالعات قرآن مجید کی مختلف جہات کا احاطہ ان کتابیات کا قابل ذکر کارنامہ ہے اور اس کی جامعیت اس پر مستزاد – یہ تصنیف بلاشبہ قرانیات میں ایک وقیع اضافہ کادرجہ رکھتی ہے۔”
پانچواں باب” جدید مستشرقین کے مطالعات تفسیر: رجحانات اور تعبیرات ”میں مصنف نے چند جدید مستشرقین کی تفاسیر کے بارے میں رجحانات اور حکمت عملی کو پیش کیا ہے۔ یہاں ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔مصنف نے مصطفیٰ شاہ کے زیر ادارت چار ضخیم جلدوں پر مشتمل Tafsir: Interpreting The Quran کا تجزیہ پیش کیا ہے۔مصنف لکھتے ہیں: ”تفسیر پر سب سے زیادہ توجہ اہل سنت والجماعت کی رہی ہے۔ امت میں اسی کا اعتبار بھی رہا ہے۔ لیکن ان نمائندہ ممتاز مسلم مفسرین کے بالمقابل زیادہ توجہ بلکہ سر پرستی صوفی، شیعہ معتزلہ، اسماعیلی حتی کہ بہائی مذہب کی آئینہ دار تفاسیر پر ہے۔ مثلاً اس مجموعے کی جلد ۳ میں شامل کل اکیس (۱۲) مقالات میں سے پندرہ (۵۱) مقالات مذکورہ بالا گروہی تفاسیر سے ہی مختص ہیں۔” (صفحہ 88) اس باب میں مصنف نے تفسیر کی روایت کو مجروح کرنے کی کوششوں کو بیان کیا ہے۔
چھٹے باب ”برطانوی مستشرقین کے تراجم قرآن مجید: ایک محاکمہ” میں مختصر مگر جامع انداز میں 7 برطانوی مستشرقین کے ترجموں کا تعصب پیش کیا گیا ہے۔ مصنف کی یہ بات صحیح ہے کہ یہ تحریریں ترجمہ کہلانے کی مستحق ہی نہیں ہیں۔ البتہ اس مضمون سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان مستشرقین کے تراجم وسیع پیمانے پر شائع ہوتے ہیں۔ مصنف لکھتے ہیں ”George Sale کا ترجمہ 1734 میں شائع ہوا اور اب تک تقریباً 200 مرتبہ طبع ہو چکا ہے۔ (صفحہ 101)
ساتویں باب” قرآن مجید کے انگریزی تراجم: ایک تنقیدی جائزہ ”میں مصنف نے مستشرقین کے انگریزی تراجم کی وجہ بتاتے ہوئے لکھا ہے: ”قرآن مجید کا استخفاف اور مخالفت جونز کے ذہن پر ایسی مستولی ہے کہ انھوں نے سیکڑوں قرآنی اصطلاحات، تراکیب اور الفاظ کو گنجلک، غیر واضح، بالکل مبہم اور مفہوم اور معنی سے عاری قرار دیتے ہوئے انھیں مسترد کر دیا ہے۔ غرض یہ کہ وہ کتاب مبین جس نے اب تک کروڑ ہا کروڑ افراد کو اپنے اعجاز اور ایجاز، حسن بیان اور بلاغت اور فصاحت سے مسحور کیا اور اپنے قارئین کی قلب ماہیت کردی، اس مستشرق کی نظر میں ایک بے معنی اور لایعنی کتاب ہے جس میں انھیں صرف ژولیدہ بیانی نظر آتی ہے۔ تعصب انسان کے دل و دماغ کو کیسا محتمل اور مفلوج کر دیتا ہے، اس حقیقت کا جیتا جاگتا نمونہ یہ ترجمہ قرآن مجید ہے۔ ”(صفحہ 118)
آٹھویں مضمون ” قرآن مجید کے بارے میں مستشرقین کا علمی تعاقب” میں مصنف نے پہلے مستشرقین کے تعصب کو بیان کیا ہے اس کے بعد استشراق کے اس پردہ کو چاک کرنے والی دو کوششوں ۔ محمد مصطفی العظمی پروفیسر مہر علی کے کتابوں کا تعارف پیش کیا ہے۔
نویں باب ”ایک مستشرق کا خوشگوار انگریزی ترجمہ قرآن مجید ”میں مصنف نے امریکہ میں مقیم ٹامس کلیری کے انگریزی ترجمہ قرآن کی خصوصیات بیان کی ہے، مصنف لکھتے ہیں: ”صدیوں کو محیط استشراق کی تاریخ میں قرآن فہمی کی ایسی درخشاں مثال شاذ ہی ملتی ہے۔ ”
دسویں مضمون ”دو حالیہ گراں قدر انگریزی تراجم قرآن مجید ” میں مصنف نے سید مودودی کی تفہیم القرآن کے انگریزی ترجمہ اور تفسیر عثمانی کے انگریزی ترجمہ کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ”مسرت کا مقام البتہ یہ ہے کہ تراجم کے نام پر اس طاغوتی فکری یلغار کے باوصف چند پاک نفوس ایسے بھی ہیں جن کو خدمت قرآنی کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ ان کے تراجم غیر عربی خواں قارئین کے لیے مثل آب حیات ہیں کہ ان کے مطالعے سے وہ قرآن مجید کے مالہ وماعلیہ سے واقف ہوتے ہیں، ہدایت ربانی سے مالا مال ہوتے ہیں، اللہ کے احکام اور پیغام سے بہرہ ور ہو کر اپنا مقصد حیات پالیتے ہیں اور دنیا اور آخرت میں فوز وفلاح سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ ان میں قابل ذکر ہیں سید مودودی کی ”تفہیم القرآن” کا انگریزی ترجمہ نیز تقی الدین ہلالی اور محسن خان، عبد الماجد دریابادی، محمد خطیب، محمود الحسن اور شبیر احمد عثمانی کی ”تفسیر عثمانی” کا انگریزی ترجمہ۔ ذکی احمد حماد، طریف خالدی، احمد رضا خاں بریلوی کی” کنز الایمان” کا انگریزی ترجمہ مفتی حسین الیاس اور صحیح انٹرنیشنل کے دعوتی ادارے کے انگریزی ترجمے ہیں۔”(صفحہ 137)
گیارہویں مضمون” جنوبی افریقہ کے جج جان مرفی کا قبول اسلام؛ چند تاثرات ”میں مصنف نے سورہ الضحٰی سے متاثر اور قبول اسلام کرنے والے جنوبی افریقہ کے جج کے قبول اسلام پر مختصر تاثرات پیش کیے ہیں۔
دوسرے باب میں مصنف نے ان مضامین کو شامل کیا ہے جن میں مستشرقین کے سیرت طیبہ پر کام کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ پہلے مضمون میں مصنف نے مستشرقین کے xenophobia پر بحث کی ہے۔ مستشرقین نے اسلام پر حملے کے لیے سیرت طیبہ کو ہی کیوں چن لیا؛ مصنف لکھتے ہیں: اسلام کی تصویر کو مجروح کرنے کے لیے مستشرقین کی نظر انتخاب سب سے پہلے سیرت طیبہ پر پڑی۔ ایسا کرنے میں کئی مصلحتیں تھیں۔ اسلام کا بنیادی ماخذ تو قرآن پاک ہے لیکن اول تو عربی سے نا واقفیت آڑے آئی اور دوسرے قرآن پاک سے متعلق بحث ہوتی بھی تو سراسر علمی جس سے عام مغربی قارئین کو کیا دل چسپی ہوسکتی تھی۔ چناں چہ طے یہی پایا کہ سیرت طیبہ میں جابجا عامیانہ افسانوں کی آمیزش کی جائے اور اسے اس درجے سنسنی خیز بنا دیا جائے کہ اس سے عوام الناس کو بھی دل چسپی پیدا ہو جائے اور ان کی اسلام دشمنی راسخ ہو جائے” (صفحہ 153) اس باب میں مصنف نے انگریزی ادیبوں مثلا دانتے، ولیم میور، ٹوئن بی وغیرہ کے افکار سے قاری کو آگاہ کیا ہے کہ کیسے ان کو اسلام کے تئیں دشمنی تھی۔ مصنف لکھتے ہیں کہ جو اعتراضات سیرت طیبہ پر کیے جاتے ہیں ان میں کوئی بھی موضوع سنجیدہ نہیں۔ کسی کو وحی سے مسئلہ ہے؛ کسی کو رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقی پہلو پر اعتراض ہے وغیرہ وغیرہ۔
دوسرے مضمون ”سیرت طیبہ پر تھامس کارلائل کا رجحان ساز خطبہ” میں مصنف نے پہلے اہل مغرب کے اسلام کے خلاف بغض کو بیان کیا ہے۔ اس کے بعد مصنف نے تھامس کارلائل کے خطبہ کو بیان کیا ہے؛ جس میں اس نے سیرت پاک کی صحیح تصویر پیش کی ہے۔ پروفیسر عبدالرحیم قدوائی لکھتے ہیں: ”مغربی علمی دنیا میں سیرت طیبہ سے متعلق ایک حد تک مثبت موقف کا سہرا کارلائل کے رجحان ساز خطبہ کو حاصل ہے۔”
تیسرے مضمون” سیرت طیبہ (حالیہ مغربی تصانیف کے آئینے میں ”میں مصنف نے ان کتابوں کا تعارف کرایا ہے جن سے سیرت طیبہ کا مثبت پہلو سامنے آتا ہے۔
چوتھے مضمون” بہتر عیسائی مسلم تعلقات کی نقیب” میں مصنف نے سیرت طیبہ پر مغرب میں لکھی گئی ایک کتاب The Humanity of Mohammad: A Christian view کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ یہ تصنیف سیرت طیبہ کی عظمت، ندرت، جامعیت اور فضیلت کو عالمانہ اور مخلصانہ طور پر خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ مصنف نے بہت ہی خوب صورتی سے کتاب کا ریویو کیا ہے۔
پانچوں مضمون ”سیرت طیبہ پر مغربی فضلاء کی تصانیف خوش آئند رجحانات” میں مصنف نے لکھا ہے کہ جہاں استشراق نے بحیثیت مجموعی اسلام شکن روایت پیش کی ہے؛ وہیں کچھ ایسی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں جن میں بین المذہبی مطالعے کی عکاسی کی گئی ہے۔ ان مغربی مفکرین اور مورخین نے اسلام کی حقانیت کا اثبات کیا ہے جو کہ نہ صرف مسلمان عالم کے لیے باعث مسرت ہے بلکہ یہ بنی نوع انسان کے لیے ایک نیک فال ہے، اس مضمون میں ایسے مفکرین کا مصنف نے تفصیل سے ذکر کیا ہے جنھوں نے یہ کارنامہ انجام دیا۔
کتاب کے تیسرے باب ”انگریزی ادب پر مغربی فضلاء کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ” ” میں مصنف کے پانچ مضامین ہیں۔ پہلے مضمون” استعماری فکر کی روایت انگریزی ادب کے تناظر میں ” میں مصنف نے وڈز ورتھ کے خیالات میں استعماریت کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
اس باب کے تیسرے مضمون” انگریزی رومانوی شاعرات کے کلام میں ہندوستان کی تصویر کشی” میں مصنف نے انیسویں صدی کی ان انگریزی شاعرات کا ذکر کیا ہے جن کے کلام میں ہندوستان اور اہل ہند کے گوناگوں مظاہر جلوہ گر ہیں،اس باب میں جن شاعرات کا مصنف نے تذکرہ کیا ہے ان میں گل سرسبد ایمارابرٹس، اینا ماریا جونز، فلیشا ڈوروتھی ہیمیز قابل ذکر ہے۔ مصنف اس مضمون کا اختتام یوں کرتے ہیں: ”اپنے تنوع، لطائف اور ندرت کے باوصف ان کے اپنے عہد کے تعصبات اور مقبول عام سیاسی عزائم کے اسیر ہیں اور اس حقیقت کے شاہد بھی اور مشہور بھی کہ ادب بڑی حد تک اپنے عہد کا بہرکیف آئینہ ہی ہوتا ہے۔ ” (صفحہ 245)
اس باب کے تیسرے مضمون ”برطانوی ناول نگار ای ایم فوسٹر ہند – اسلامی تہذیب کا شناور ”میں مصنف نے مشہور برطانوی ناول نگار ای ایم فوسٹرکے اسلامی تہذیب کے کام کو پیش کیا ہے۔ اس مضمون کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ انگریزی ادب کی تاریخ ہند اسلامی تہذیب سے بالغ النظر آگہی اور اس کی ستائش کے اظہار کے باب میں اس برطانوی ادیب ای ایم فوسٹر کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
چوتھے مضمون ”قوموں کا عروج و زوال: چند مغربی مفکرین کی آراء” میں مصنف نے چند مفکرین کی عروج و زوال کے متعلق آرا پیش کی ہیں۔
کتاب کے آخری باب ”انگریزی ادب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کشی ایک تجرباتی مطالعہ” دراصل مصنف کتاب پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کی انگریزی کتاب” Image of the Prophet Muhammad in English” کی تلخیص ہے، تلخیص کا کام زریاب احمد فلاحی نے انجام دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”مذکورہ کتاب ذریعہ انھوں نے مسلم مسلم و مغربی دنیاؤں کے مابین افہام و تفھیم کی سعی کی ہے، اس میں بارہویں صدی سے 1900 تک کے انگریزی ادب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کا بیان اور تجزیہ ہے، جس سے انگریزی کی ادبی تہذیبی مطالعات اور ادبی استشراق کے طلبہ کے لیے خاصا دل چسپی کا سامان فراہم ہوگا۔ ”(صفحہ 264)
یہ باب تیس ابواب پر مشتمل ہے اور فلاحی صاحب نے خوب صورتی سے ساری کتاب کی تلخیص پیش کی ہے۔
یہ کتاب ہندوستان کے موقر ادارہ” ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ نے عمدہ گیٹ اپ پر شائع کی ہے۔ کتاب ہارڈ باونڈ ہے اور قیمت 500 روپے مناسب ہے۔ کتاب فون نمبر90274 45919 پر حاصل کی جا سکتی ہے۔