بنگلہ دیش میں ہفتوں پر محیط پُرتشدد مظاہروں اور اگست کے اوائل میں پولیس و عوامی لیگ کے حامیوں کے ہاتھوں تین سو زائد ہلاکتوں کے بعد بنگلہ دیش کی آمرانہ مزاج کی مالک “جمہورت پسند” ڈکٹیٹر وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے عہدے سے استعفیٰ دیا اور فرار ہوکر اپنے دیرینہ قابل اعتماد دوست بھارت کی پناہ میں آگئیں ۔اس سے زیادہ ستم ظریفی کیا ہوسکتی ہے اور اس سے بڑی بے وفائی و غداری کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی جان بچاکر توبھارت آگئیں مگر اپنے حامیوں ،پارٹی کے وفاداروں کو وقت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔
یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی کہ اصل سپر پاورعوام ہیں۔کوئی حاکم کتنا ہی طاقتور ،ظالم،متشدد،فسطائیت پسند کیوں نہ ہو، جب عام آدمی تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سڑکوں پر اتر آئے تو بڑی بڑی حکومتیں خس وخاشاک کی مانند بہہ جاتی ہیں ۔ڈکٹیٹر اقتدار ہی سے دستبردار نہیں ہوتا بلکہ یا تو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیاجاتا یا پھر خودکشی کرلیتا ہے۔ حسنیٰ مبارک سے لے کر شیخ حسینہ تک تاریخ نے خود کو کئی بار دوہرایا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی پی ایم ہاؤس اور پارلیمنٹ ناراض مشتعل عوام کے پاؤں تلےروند دئے گئے ،تخت و تاج اچھالے گئے۔
76 سالہ شیخ حسینہ واجد نے تقریباً دو دہائیوں تک بنگلہ دیش پر حکومت کی اور وہ ملک میں سب سے طویل دورانیے کی وزیراعظم رہیں ۔شیخ حسینہ شاید ہی اب بنگلہ دیش کی سیاست میں واپس آئیں ۔کیونکہ ان کی پیٹھ پر گناہوں کااتنا بوجھ اور بے گناہ سیاسی قیدیوں کے خون ناحق کا اتنا قرض ہے کہ اسے اتارتے اتارتے زندگی گزر جائے گی پھر بھی قرض باقی رہے گا بقول شہریوں کے ان کے ملک نے چھ اگست کو دوبارہ آزادی حاصل کی ہے۔
یہاں کچھ سوالوں کا جواب ضروری ہے؛ مثلا طلبہ کا نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج، حکومت مخالف ملک گیر تحریک میں کیسے بدل گیا؟ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے شیخ حسینہ کی حکومت پر گرفت ڈھیلی ہوتی گئی؟ کیا انہیں عوام کے بڑھتے غصے اور سرکار سے بیزاری ونفرت کا اندازہ نہیں ہوسکا؟ اور یہ کہ آگے بنگلہ دیش میں صورتحال کیا رخ اختیار کرے گی ؟ کیا اب دائیں بازو کو سیاست میں دخیل ہونے موقع ملے گا اور دو بڑے اسٹیک ہولڈرس عوامی لیگ اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی آئندہ حکومت میں اپنا رول ادا کرسکیں گی؟۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ شیخ حسینہ نے اپنے طویل دور اقتدار میں دائیں بازو کی طاقتور اسلام پسند جماعت پر نہ صرف پابندی لگائی بلکہ اس کے کئی سینئیر اور بزرگ لیڈروں کے خلاف جھوٹے مقدمات لگاکر انہیں سزائے موت دلائی اور پھانسی پر لٹکادیا ۔اس وقت بھارت کا مین اسٹریم میڈیا ، سیاسی تجزیہ نگار اور در پردہ برسر اقتدار طبقہ بھی حسینہ کی حمایت میں رطب اللسان تھا۔ صورت حال لگاتار تبدیل ہورہی ہے یہ سطور لکھے جانے تک ملک میں طوائف الملوکی پھیلی ہوئی ہے ،فوج حالات کو سنبھالنے کی کوشش کررہے ہے اور شیخ سیاسی پناہ کی تلاش میں ہیں اور عارضی طور پر بھارت کی مہمان ہیں ۔ان کی اگلی منزل کیا ہوگی کسی کو پتہ نہیں۔
بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ جو ملک جی ڈی پی میں بھارت سے آگے بڑھ گیا تھا ،جنوبی ایشیا کا ٹائیگر اور گارمنٹ انڈسٹری کا بے تاج بادشاہ بن گیا تھا ،اس کی گارمنٹ مصنوعات اس کی شناخت بن گئی تھیں۔ شیخ حسینہ کو اکثر بنگلہ دیش کی معیشت کو ترقی دینے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ترقی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبا کے لیے ملازمتیں پیدا کرنے کا سبب نہیں بن سکی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً ایک کروڑ80 لاکھ بنگلہ دیشی نوجوان نوکریوں کی تلاش میں ہیں۔ کم تعلیم یافتہ افراد کے مقابلے میں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ ترقی کا زیادہ فائدہ صرف حسینہ کی عوامی لیگ کے قریبی لوگوں کو ہی ہوا ہے۔ دوسرے جس رفتار سے ترقی ہوئی اس کا فائدہ نیچے تک نہیں پہنچا اور کچھ خواص نے ہی ملائی کھائی بعض طبقے اس کاموازنہ بھارت کی صورتحال سے کرتے ہیں جو پانچ ٹریلین اکنامی کے ہدف کی طرف گامزن ہے، دنیا کی پانچ بڑی معیشتوں نے میں سے ایک ہے اور آنے والے دنوں میں تین بڑی معیشتوں کا حصہ بننا چاہتی ہے مگر اس ترقی کے فائدے نیچے تک نہیں پہنچ رہے ہیں، بیروزگاری کی شرح میں زبردست اضافہ ہے، پڑھا لکھا نوجوان نوکری کی تلاش میں سڑکوں پر بھٹک رہا ہے ۔دولت اور ترقی چند لوگوں کی جاگیر بن گئی ہے ۔بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف ابتداء اسٹوڈنٹ آٹھ کھڑے ہوئے، شیخ حسینہ شاید صورتحال کی سنگینی کا ادراک نہیں کرسکیں انہوں نے عوامی طاقت کو دبانے کے لئے سرکاری طاقت کا استعمال کیا۔ مظاہرین کو رضاکار اور دہشتگرد گرد کہا یہ بیان ان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا اور کوٹہ سسٹم مخالف تحریک ان کے استعفے کی تحریک میں بدل گئی۔ پھر جو کچھ ہوا وہ دنیا کے سامنے آگیا۔ آمرانہ طرز حکمرانی کے نصیب میں جلاوطنی ہی آتی ہے۔
علاوہ ازیں شیخ حسینہ کے دور اقتدار میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی طویل داستان ہے۔حزب اختلاف کی آوازوں کو کچلنا اور اختلاف رائے کو منظم طریقے سے دبانا معمول بن گیا تھا۔ ان کے دور میں چوروں، ڈکیتوں اور قاتلوں سے زیادہ سیاسی ورکر جیلوں میں تھے ۔ شیخ حسینہ پر آمرانہ طرزِ حکمرانی کے الزام لگتے رہے۔انہوں نے اپوزیشن رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ احتجاج کو روندنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور مقدمات کا انبار لگادیا۔ سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء شدید بیماری کے باوجود جیل میں تھیں اور جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے جماعت اسلامی کے کئی سرکردہ لیڈروں کو پھانسی پر لٹکادیا گیا ۔اپنے سیاسی مخالفین اور میڈیا پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔ انہوں نے جمہوری عمل اور اداروں کو کمزور کردیا ،انتخابات میں دھاندلی اور تشدد کے الزامات لگتے رہے۔ گزشتہ جنوری کے عام انتخابات میں ان کی پارٹی تنہا میدان میں تھی، ساری پارٹیوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ عوامی لیگ نے غنڈہ گردی کی ایک متبادل حکومت قائم کررکھی تھی۔
شیخ حسینہ کا دور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا دور رہا ۔جن میں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔بین اقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نےان زیادتیوں کو دنیا کےسامنے دستاویزی شکل میں پیش کیا۔مغربی ممالک نے کچھ سیکورٹی فورسز کے خلاف پابندیاں بھی عائد کیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سنہ 2009 کے بعد ملک میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ماورائے عدالت ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔حالیہ مہینوں میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سینیئر رہنماؤں اور ہزاروں سیاسی کارکنان کو حکومت مخالف مظاہروں کے درمیان گرفتار کیا گیا۔
شیخ حسینہ نے ملک کو کھلی جیل میں تبدیل کردیا تھا جہاں کیا بولنا ہے کیا سننا ہے اور کیا سنانا ہے، سب سرکار کی مرضی پر منحصر تھا۔ ان حالات میں لاوا اندر ہی اندر پکتا رہا اور ناہید اسلام نام کے ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علم نے اپنے دو اسٹوڈنٹ دوستوں آصف محمود اورابوبکر کے ساتھ بنگلہ دیش میں اتنی بڑی تحریک کھڑی کردی کہ وزیراعظم شیخ حسینہ کو بلاآخر راہ فرار اختیار کرمی پڑی۔ یہ تینوں عام گھروں سے آتے ہیں، ان کا کوئی سیاسی پس منظر بھی نہیں ہے۔ پہلے چھوٹے چھوٹے مظاہرے ہوتے رہے۔ لیکن ریزرویشن کی آگ نے ان میں اتنا غصہ بھر دیا کہ بلاآخر وہ حکومت سے لڑ پڑے۔ رہی سہی کسر سرکارکے پرتشدد اقدامات نے پوری کردی۔ ان کے خلاف کارروائی کی گئی، انہیں ہراساں کیا گیا جس کی وجہ سے غصہ بڑھتا چلا گی اور ملک شیخ حسینہ کے ہاتھ سے پھسل گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ نوجوانوں کی مایوسی،بے چینی اور احساس محرومی کی کوکھ سے انقلاب جنم لیتے ہیں۔ ترقی کا فیض نچلی سطح تک نہ پہنچے تو انقلاب کو کھاد ملتی ہے۔
بھارت کے لئے چیلنج
بھارت کے سامنے کئی سنگین چیلنجز ہیں ۔حال ہی میں نیپال میں اعلیٰ نے سرکار سنبھالی ہے جو بھارت مخالف اور چین نواز سمجھے جاتے ہیں۔ وہیں میانمار ،سنگا پور ،بھوٹان ،سری لنکا اور مالدیپ میں بھی چین اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے جب کہ پاکستان سے ہمارے تعلقات ویسی ہی کشیدگی برقرار ہے۔ وہاں بھی چین اس کا سب سے بھروسہ مند دوست ہے ۔کل ملاکر چین نے بھارت گرد مضبوط جال بن دیا ہے ایک بنگلہ دیش تھا جو اس پورے خطہ میں بھارت کا سب سے قابل اعتماد دوست تھا اور شیخ حسینہ بھارت کی غیر مشروط دوست مانی جاتی ہیں اب وہ بھی ہاتھ سے نکل گیا۔
بی بی سی سے گفتگو میں معروف سیاسی تجزیہ کار سوبجیت باگچی نے اس تعلق سے بھارت کی خارجہ پالیسی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی غلطی یہ رہی کہ اس نے بنگلہ دیش میں اپنا سارا داؤ شیخ حسینہ اور ان کی پارٹی عوامی لیگ پر لگا دیا اور شیخ حسینہ کی شدید مخالفت کے سبب انڈین اسٹیبلشمنٹ نے اپوزیشن بی این پی اور جماعت اسلامی سے اپنا رابطہ توڑ لیا۔ باگچی کہتے ہیں کہ ’حسینہ کی پارٹی تیزی سے عوام میں غیر مقبول ہوتی جا رہی تھی، جمہوری ادارے ختم ہوتے جارہے تھے اور حکومت سے عوام کی نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔ چونکہ انڈیا شیخ حسینہ کا سب سے بڑا حمایتی تھا اسی لیے وہاں کے عوام انڈیا سے بھی اتنی ہی نفرت کرنے لگی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہی نہیں انڈیا امریکہ، برطانیہ اور پوری دنیا کو یہ باور کرواتا رہا ہے کہ اگر عوامی لیگ ہار گئی تو بنگلہ دیش انتہا پسندوں کے قبضے میں چلا جائے گا۔ انڈیا کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت سے عوامی نفرت اس حد تک پہنچ جائے گی کہ انھیں اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہونا پڑ سکتا ہے۔ یہ انڈیا کے لیے ویسا ہی بڑا دھچکا ہے جیسا امریکیوں کے لیے افغانستان ثابت ہوا۔‘ سوبحیت باگچی کا خیال ہے کہ انڈیا اب بی این پی اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے بھی بات چیت شروع کرے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا جب افغانستان کی طالبان حکومت سے بات چیت کر سکتا ہے تو پھر بی این پی اور جماعت اسلامی سے تعلقات بنانے میں کیا مشکل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چین اور امریکہ بحر ہند میں غلبہ حاصل کرنے کی دوڑ میں ہیں۔ امریکہ اس خطے میں اپنا بحری اڈہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور چین میانمار کے ذریعے اپنے بحری اور جنگی جہازوں کا اڈہ حاصل کر لے گا۔‘
ایسی صورت میں بھارت شیخ حسینہ کی مدد سے چین کا توڑ حاصل کرنے کی کوشش کر رہاتھا وہ بھارت کے لئے اس لڑائی کا اہم ٹول تھیں۔ شیخ حسینہ کے جانے کے بعد اس ضمن میں بھارت کی تشویش اور بڑھ جائے گی۔‘معلوم نہیں وہاں کس طرح کی سرکار آئے اور بھارت کے تئیں اس کا کیا رویہ ہو البتہ اتنا تو طے ہے کہ عبوری سرکار میں عوامی لیگ کی کوئی حصہ داری نہیں ہوگی ایسے میں بھارت کو اپنے مفاد کے تحفظ کے لئے بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا۔ نئی سرکار میں بی این پی اہم عنصر ہوگی بھارت کو بنگلہ دیش میں نئے دوست تلاش کرنے ہوں گے۔
آزادی پسند انقلابی طلبا تحریک کے لیڈر اپنے ملک کے لئے ایک نیا خواب دیکھ رہے ہیں اور ان خوابوں کو پورا کرنا نئے حکمرانوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا ۔البتہ ان کے مقصد کو ناکام بنانے کے لیے مختلف قوتیں پہلے ہی سے سرگرم ہیں اور طرح طرح کی سازشیں اور منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے “ہم آزادی پسند طلبہ کی جانب سے واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے طلبہ اس بنگلہ دیش کو فاشسٹ سلطنت سے آزاد کرانے اور ایک نئے اور عوامی بنگلہ دیش کے قیام کے لیے ہر قسم کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں” کیا وہ کامیاب ہوں گے یا انہیں روایتی سیاستداں کامیاب ہونے دیں گے؟ شیخ حسینہ کے عبرت انگیز زوال کے بعد ہر بنگلہ دیشی کی زبان پر یہی سوال ہے۔