بنگال میں بی جے پی کا مسلم مخالف بیانیہ ناکام

بہار میں این ڈی اے کی سوشل انجینئرنگ روزگار پر حاوی

نوراللہ جاوید
جون 2024

لوک سبھا انتخابات کے نتائج کو منظر عام پر آنےکے بعد سیاسی جماعتیں اور تجزیہ نگار فتح و شکست کا تجزیہ کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ ضروری بھی ہے کیوں کہ اس کے بغیر کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے مستقبل کا لائحہ عمل مرتب نہیں کرسکتی ہے۔اسی طرح سول سوسائٹی کے اداروں اور تنظیموں کو بھی احتساب کرنے کی ضرورت ہے کہ اس انتخابی نتائج سے انھوں نے اپنے مقاصد حاصل کیے ہیں یا نہیں۔ اترپردیش کے نتائج چونکادینے والے تھے۔ شاید اس کی توقع اکھلیش یادو اور راہل گاندھی کو بھی نہیں رہی ہوگی کہ وہ منڈل کی سیاست کے ذریعے مندر کی سیاست کو درکنار کردیں گے۔

تاہم اترپردیش کی پڑوسی ریاست بہار میں انڈیا اتحاد کے نتائج توقع سے کہیں زیادہ خراب رہے۔دوسری طرف مغربی بنگال میں ا نڈیا اتحاد دو خیمے میں منقسم رہا لیکن اس کے باوجود بی جے پی گذشتہ کارکردگی کو دہرانے میں کام یاب نہیں ہوسکی۔ سوال یہ ہے کہ آخر بہار میں انڈیا اتحاد بہتر کاکرردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام کیوں رہا ؟۔ بنگال میں انڈیا اتحاد کے انتشار کے باوجود بی جے پی جو 30سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کررہی تھیں،اس کا نصف بھی نہیں جیت سکی ؟

دراصل بہار اور مغربی بنگال کاسیاسی بیانیہ اور منظرنامہ مختلف ہے۔ بنگا ل میں مسلمانوں کی آبادی لگ بھگ 30فیصد ہے، جب کہ بہار میں 17 فیصد ہے۔جس میں زیادہ آبادی سیمانچل کے علاقے میں مرتکز ہے۔ جب کہ بنگال کے چند اضلاع کے علاوہ بیشتر اضلاع میں مسلمانوں کی آبادی 20فیصد کے قریب ہے۔مرشدآباد، مالدہ، شمالی دیناج پور میں مسلمانوں کی آبادی 50 فیصد سے زائد ہے۔ جب کہ ندیا، بیربھوم، جنوبی دیناج پوراورشمالی 24پرگنہ جیسے اضلاع میں مسلمانوں کی آبادی 30فیصد سے زائد ہے۔ ہوڑہ، ہگلی، کوچ بہار،بردوان مشرق، بردوان مغرب جیسے اضلاع میں مسلمانوں کی آبادی 20 فیصد سے زائد ہے۔جلپائی گوڑی، علی پور دوار، دارجلنگ اور مشرقی مدنی پور، مغربی مدنی پور، پرولیا، بانکوڑہا جیسے اضلاع میں مسلمانوں کی آبادی 10فیصد سے زائد ہے۔بنگال میں مسلمانوں کی آبادی کا یہ تناسب کسی بھی سیاسی جماعت کے جیت کے امکانات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

مغربی بنگال کی 42سیٹوں پر لوک سبھا انتخابات سات مرحلے میں ہوئے۔ لوک سبھا انتخابات کے پہلے دو مرحلے میں ریاست کی جن سیٹوں پر انتخاب ہوئے ان سیٹوں پر بی جے پی جیت حاصل کرنے میں کام یاب رہی۔ صرف کوچ بہار میں مرکزی وزیر نشیت پرمانک شکست سے دوچار ہوئے۔ اس حلقے میں مسلمانوں کی آبادی 25, فیصد کے قریب ہے۔ تیسرے مرحلے کی پولنگ سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے دیگر لیڈروں نے ہندو مسلم کے نام پر سیاست شروع کردی تھی۔ اس کی وجہ سے بنگال میں مسلم ووٹوں کا پولرائزیشن ہوگیا اور اس کا خمیازہ بائیں محاذ اور کانگریس اتحاد کو بھی بھگتنا پڑا۔ تاہم کانگریس اور ترنمول کانگریس کے درمیان اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے مالدہ شمال، رائے گنج اور بالور گھاٹ جیسی مسلم آبادی والے علاقے میں بی جے پی سیٹیں جیتنے میں کام یاب ہوگئی۔ مالدہ شمال میں مسلمانوں کی آبادی 50 فیصد کے قریب ہے۔اس کے باوجود ترنمول کانگریس نے سابق آئی پی ایس آفیسر پرسون بنرجی کو امیدوار بنایا، جب کہ کانگریس نے سابق ممبر اسمبلی مشتاق عالم کو امیدوار بنایا۔ بی جے پی امیدوار نے 5,27,023 ووٹوں کے ساتھ جیت حاصل کی ہے۔ جب کہ کانگریس اور ترنمول کانگریس کے امیدوار وں نے مشترکہ طور پر

8,34,079 ووٹوں حاصل کیے۔ جس میں کانگریس کے امیدوار نے 3,84,764 ووٹ اور ترنمول کانگریس کے امیدوار نے 4,49,315ووٹ حاصل کیے۔ اگر یہاں کانگریس اور ترنمول کانگریس کے درمیان اتحاد ہوتا تو بی جے پی کی شکست یقینی تھی۔

گذشتہ پارلیمانی انتخاب میں بھی کانگریس اور ترنمول کانگریس کے درمیان ٹکراؤ کے نتیجے میں بی جے پی کا فائدہ ہوا تھا۔مسلم اکثریت والی دوسری سیٹ رائے گنج کی ہے۔ یہاں بی جے پی نے دوسری مرتبہ جیت حاصل کی ہے۔ بنیادی طور پر یہ حلقہ کانگریس کا گڑھ رہا ہے۔ترنمول کانگریس نے 50 فیصد مسلم آبادی کو نظر انداز کرکے 30, فیصد آبادی والے راج بنشی سے تعلق رکھنے والے کرشنا کلیانی کو ٹکٹ دیا۔کرشناکلیانی گذشتہ اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ یہاں بی جے پی امیدوار 5,60,897ووٹوں کے ساتھ پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کام یاب رہا۔ جب کہ ترنمول کانگریس 4,92,700ووٹوں کے ساتھ دوسرےنمبر پر رہی۔جب کہ کانگریس کے علی عمران رمز نے 2,63,273ووٹوں کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی۔اگر یہاں دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد ہوتا توبی جے پی ایک لاکھ سے زائد ووٹوں سے ہارسکتی تھی۔

مالدہ جنوب میں گذشتہ انتخاب میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سخت مقابلہ ہوا اور بہت ہی کم فاصلے کے ساتھ کانگریس کے امیدوار ہاشم خان چودھری انتخاب جیتنے میں کام یاب رہے۔اس مرتبہ ابوہاشم خان چودھری کے بیٹے عیسی خان چودھری امیدوار تھے اور ان کے مقابلے ترنمول کانگریس نے نوجوان لیڈر شاہنواز علی ریحان کو امیدوار بنایا تھا۔ یہاں مسلم ووٹروں کی اکثریت کانگریس امیدوار کی طرف پولرائز ہوئی اور اس کا فائدہ عیسی چودھری کو مل گیا۔

تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بنگا ل کے کئی علاقوں میں اس بار سی پی آئی( ایم )نے اپنے ووٹ فیصد میں اضافے کیاہے۔ اس کا فائدہ ترنمو ل کانگریس کوملا ہے۔ جنوبی بنگال میں سی پی آئی (ایم) ہندو ووٹ کا ایک معمولی حصہ دوبارہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئی جو گذشتہ انتخابات میں بی جے پی کے حصہ میں چلاگیا تھا۔ خطے میں بائیں بازو کے ووٹ شیئر میں اضافہ کم از کم ایک درجن سیٹوں پر بی جے پی کے امکانات کو کم کرنے میں ایک اہم عنصر رہا ہے۔دوسری طرف سی پی آئی ایم مسلم ووٹروں کو متاثر کرنے میں ناکام رہی۔اس لیے ممتا بنرجی مخالف ووٹ کی تقسیم کا فائدہ ترنمول کانگریس کو ملا۔ آسنسول میں بی جے پی کے ایس ایس اہلووالیا 59,564 ووٹوں سے ہارگئے۔ جب کہ سی پی آئی (ایم) کے امیدوار نے 1 لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیا۔آرام باغ میں ترنمول کانگریس کی جیت کا فرق 6399 ہے جب کہ تیسرے نمبر پر رہنے والی سی پی آئی (ایم) نے 92 ہزارسے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ اسی طرح ہگلی میں بی جے پی کے امیدوار کی 76,852کے فرق سے شکست ہوئی جب کہ تیسرے نمبر پر رہنے والی سی پی آئی (ایم) کو 1.39لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے۔ بیر بھوم اور کلکتہ اتر میں، کانگریس کے امیدواروں نے 16فیصد اور 12فیصد ووٹ حاصل کیے، جس سے بی جے پی کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔

تاہم یہ سوال اہم ہے کہ ترنمول کانگریس کے مخالف ہندو ووٹوں کی آخر بی جے پی کی طرف واپسی کیوں نہیں ہوئی؟ دراصل بی جے پی بنگال کی نفسیات کو پڑھنے میں ناکام رہی ہے۔ بی جے پی ایک دہائی سے جدو جہد کررہی ہے اس کے باوجود یہ نہیں سمجھ پارہی ہے کہ بنگال میں نفرت کی سیاست زیادہ کارگر نہیں ہوسکتی ہے۔ چناں چہ مودی نے پوری قوت کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ممتا بنرجی کی پارٹی مسلم حامی اور ہندو مخالف ہے۔جب کہ دوسری طرف ممتا بنرجی اپنی فلاحی اسکیموں کے ذریعے عام لوگوں میں اپنی پکڑ مضبوط بنائے رکھی۔ شہریت ترمیمی ایکٹ سے بی جے پی کو کافی امیدیں تھی مگر بن گاؤں اور رانا گھاٹ کے علاوہ یہ کہیں کام نہیں آیا۔ بارکپور، دمدم، باراسات،کرشنا نگر اور مشرقی بردوان جہاں متواج سماج کی اچھی خاصی آبادی ہے وہاں ترنمول کانگریس نے آسانی سے جیت حاصل کرلی ہے۔ ترنمول کانگریس کے راجیہ سبھا ممبر اور سابق آئی پی ایس آفیسر جواہر سرکار کہتے ہیں کہ جب بنگال، کیرالہ اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں کی بات آتی ہے تو بی جے پی کی نفرت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ معمولی معمولی بہانوں سے انھوں نے مغربی بنگال کو فنڈز سے محروم کیا، جس سے بنگال کے لوگوں میں غصہ آیا۔ بی جے پی کی کوشش تھی یہ الزام لگاکر کہ ترنمول دیہی روزگار فراہم کرنے کے قابل نہیں ہے، لوگوں کے غصے کو ترنمول کی طرف موڑ دیا جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ جواہر سرکار کہتے ہیں کہ کلکتہ ہائی کورٹ کے مختلف فیصلوں سے ترنمول کانگریس کو گھیرنے کی کوشش کی گئی مگر ججوں کے رویے طشت ازبام ہوگئے کہ وہ کہاں سے فیصلے دے رہے ہیں۔ عدلیہ کا کردار بھی بی جے پی کے نقصان کا ایک سبب بنا ہے۔ایک اور عنصر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن اور انکم ٹیکس کا محکمہ ہے جو بنگال میں متوازی مشنری کے طور پر کام کررہا ہے۔ سرحدی علاقوں میں بی ایس ایف کی نگرانی کے دائرہ کار میں اضافہ اور اس کے بعد بی جے پی لیڈروں کی سیکورٹی میں اضافے نے بھی منفی پیغام دیا ہے۔

مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی بڑی کام یابی کے پیچھے مسلم ووٹروں کا پولرائزیشن اور ترنمول کانگریس کی طرف اتحاد اہم عنصر ہے۔ ریاست کی 30 فیصدمسلم آبادی میں سے 25 فیصد کا یک طرفہ ووٹ ترنمول کانگریس کی بڑی طاقت بن گیا ہے۔مگر ترنمول کانگریس کی جیت کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریاست کی مسلم آبادی جس کی اکثریت غربت اور پسماندگی کا شکار ہے، کی واپسی فلاحی ایجنڈے کی طرف کب ہوگی۔یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ بنگا ل کے سیاسی منظرنامے سے کانگریس اور بائیں محاذ کی غیر موجودگی اور بی جے پی کے عروج نے مسلم ایشوز پس پشت ڈال دیے ہیں۔ بنگال کی سیاست میں گذشتہ اسمبلی انتخاب میں آئی ایف ایف ایک بڑی امید کے ساتھ میدان میں آئی تھی مگر لو ک سبھا انتخاب میں وہ کوئی بڑا اثر چھوڑنے میں ناکام رہی۔ گرچہ ریاست کے تین حلقے جے نگر، بشیر ہاٹ اور متھرا پور میں وہ تیسری پوزیشن پر رہی مگر کافی فرق کے ساتھ۔

بہار اور اترپردیش دونوں ہندی بیلٹ ہیں مگر یہاں کی سیاست دونوں سے الگ ہے۔بہار میں بی جے پی اپنے قوت پر اب تک حکومت بنانے میں ناکام رہی ہے۔ نتیش کمار دو دہائیوں سے بی جے پی کے ساتھ ہیں اس کے باوجود وہ اپنی سیکولر شبیہ قائم رکھنے میں کام یاب رہے اور انھوں نے بہار میں مسلم مخالف قوتوں کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینے نہیں دیا ہے۔اس کی وجہ سے آرجے ڈی کے مقابلے کم ہی سہی مگر مسلم ووٹروں میں ا ن کی پکڑ باقی ہے۔انھوں نے مسلمانوں سے تعلقات قائم رکھنے میں توازن باقی رکھا ہے۔ چناں چہ سیمانچل اور دیگر علاقوں میں جیسے سیتامڑھی اور شیوہر میں انھیں مسلم ووٹ بھی ملے ہیں۔

بہار میں دوسرا سب سے اہم فیکٹر آرجے ڈی کی حد سے زیادہ خود اعتمادی بھی تھی جو اس کی شکست کی ایک بڑی وجہ بنی۔ تیجسوی یادونے اپنے سیاسی قد کو بلند تو ضرور کیا ہے مگر وہ حکمت عملی اور سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری ہیں۔ انھیں یہ گمان ہوگیا تھا کہ بہار میں وہ روزگار کے سوال پر این ڈی اے کے اتحاد جس کی سوشل انجینئرنگ کافی بہتر تھی کا مقابلہ کرلیں گے،مگر یہ نہیں ہوسکا۔انھوں نے کانگریس کو کنارے کرنے کی بھر پور کوشش کی، اس کی وجہ سے کانگریس کے کارکنان کافی ناراض رہے۔ پپو یادو کانگریس میں شامل ہوگئے اور وہ پورنیہ سے انتخاب لڑنے کے خواہاں تھے۔ کانگریس بھی پورنیہ سیٹ چاہتی تھی مگر آر جے ڈی نے اس کو اپنے انا کا سوال بنالیا۔ پورنیہ سے پپو یادوہ آزاد امیدوار کے طور پر کام یاب ہوگئے مگر اس کا اثر سمیانچل کی دیگر سیٹیں سہرسا، مدھےپورہ، سپول جیسی سیٹوں پر بھی پڑا جہاں یادو ووٹ ان سے کافی نارض رہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں پپو یادو کی پکڑ مضبوط ہے۔اسی طرح جن جھاڑ پور سے آرجے ڈی نے آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے مہا سیٹھ کو ٹکٹ دےبدیا جس کی وجہ سے مسلم ووٹ ناراض ہوگیا۔اسی طرح مدھوبنی سیٹ پر کانگریس کی پکڑ مضبوط ہے۔گذشتہ انتخاب میں ڈاکٹر شکیل آزادامیدوار کی حیثیت سے بھی دوسری پوزیشن پر تھے اگر وہ کانگریس کے ٹکٹ پر انتخاب لڑتے تو انھیں اعلیٰ طبقات کا بھی ووٹ ملتا۔ جس کی بدولت وہ ماضی میں بھی جیتتے رہے ہیں۔ اسی طرح والمیکی سیٹ پر کانگریس کی پکڑ مضبوط ہے مگر وہاں بھی انھوں نے کانگریس کو نظر انداز کیا۔