مغربی اترپر دیش کے شہر مظفر نگر میں جیسے ہی داخل ہوتے ہیں ڈی جے پر کان پھاڑ دینے والی موسیقی اور زعفرانی لباس میں ملبوس کانوڑیوں کی بھیڑ استقبال کرتی ہے جب کہ مقامی باشندے خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔ مظفر نگر کو کانوڑیا یاترا میں مرکزی حیثیت حاصل ہے جہاں سے ہر ریاست کے یاتری گزرتے ہیں۔ شہر کی مرکزی شاہراہ پر کئی دکانیں اور ریستوراں (نان ویج) یا تو بند ہیں یا گاہکوں کے منتظر ہیں۔ یوپی کی یوگی آدیتہ ناتھ حکومت کے غیر آئینی فرمان کا سب سے زیادہ اثر اسی شہر میں نظر آتا ہے ۔ سیکولر دستور کے تحت حکومت کا اپنا کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ وہ کسی مذہب کو خصوصی ترجیح دے سکتی ہے۔ لیکن جب سے بی جے پی برسر اقتدار آئی ہے سیکولر کردار کی دھجیاں کچھ زیادہ ہی اڑائی جارہی ہیں۔ یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کا ملک ہے جب کہ دیگر مذاہب کے لوگ دوسرے و تیسرے درجے کے شہری ہیں۔ گو سپریم کورٹ نے اس متنازعہ حکم پر روک لگادی ہے لیکن مسلم دکانداروں نے اپنے نام کے کتبے دکانوں کی پیشانی پر اب بھی چسپاں ہیں۔ حزب اختلاف اور سول سوسائٹی نے اس حکم نامہ کو ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنانے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سراسر امتیازی اور غیر آئینی ہے جو نازی جرمنی اور جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کی یاد دلاتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حکم نامہ فرقہ وارانہ سیاست سے آلودہ تھا، جس کا مقصد وزیراعلیٰ یوگی آدیتہ ناتھ کو کرسی سے ہٹانے کی مہم کی طرف سے توجہ ہٹانا تھا جن کو یوپی میں پارلیمانی الیکشن کے دوران بی جے پی کی خراب کارکردگی کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ تاہم اس حکم نامہ نے مظفر نگر کے دونوں طبقات ( ہندو اور مسلم ) کو برہم کردیا ہے۔ جن کے مطابق یہ شہر کے پرامن ماحول کو خراب کرنے اور ان کے کاروباری مفادات کو نقصان پہنچانے کا سبب ہے ۔کیوں کہ ان کے کاروبار ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
افکار ملی سے بات کرتے ہوئے مسلم اسٹور مالکان نے کہا کہ ان پر پولیس محکمہ کا دباؤ تھا کہ وہ اپنے نام ظاہر کریں۔ محمد قمر عالم کے مطابق 15, جولائی کو پولیس اہلکار ان کے اسٹور پر آ گئے اور انہیں سائن بورڈ پر مالک کا نام لکھنے کی ہدایت دی۔ جس شاہراہ سے کانوڑ یاتری گزرتے ہیں، اسی پر قمر عالم کی ڈیری اور مٹھائی کی دکان ہے جس پر انمول ڈرنکس کا نا م آویزاں ہے۔قمر عالم نے کہا کہ اس حکم سے ہمارے کاروبار پر کوئی اثر نہیں پڑا کانوڑیے بدستور ہماری دکان پر آ رہے ہیں۔
بیکری مصنوعات فروخت کرنے والے یعقوب نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ جب دکانداروں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی دکانوں کی شناخت کے لیے مالکان کے نام ظاہر کریں۔مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کی دکانوں سے چیزیں خریدتے ہیں۔ ان دونو ں کے کاروباری مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہیں، لہذا اس فرمان کا مقصد بھائی کو بھائی سے الگ کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
انہی احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے، ایک اور دکاندار فضل احمد نے کہا کہ یہ ایک عجیب وغریب فرمان ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے کون کس کی دکان سے کیا خرید رہا ہے۔ یہ تو فرقہ وارانہ جذبات کو ہوا دینے کے مترادف ہے جب کہ حکومت کا کام امن اور بھائی چارہ بنائے رکھنا ہوتا ہے، جس کا آئین تقاضہ کرتا ہے۔ فضل احمد کی دکان انمول ڈرنکس کے بالکل سامنے ہے۔
جب اس نامہ نگار نے دہلی کے نوجوان کانوڑیا ابھیشیک کو فضل کی دکان پر دم لیتے دیکھا تو اس سے سوال کیا کہ آپ ایک مسلم دکاندار کی دکان پر بیٹھے ہیں وہ تو گویا ہوا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ کس کی دکان ہے ! وہ سامان خریدنے میں ہندو یا مسلمان اسٹور کی تفریق نہیں کرتے ۔
ہریانہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور کانوڑیا دیویش نے بتایا کہ جب کانوڑیا مسلم علاقوں سے گزرتے ہیں تو انہیں کوئی مسئلہ در پیش نہیں ہوتاہے۔ وہ (مسلمان) ہمارے ساتھ ہمدردی سے پیش آتے ہیں اور ہم مسلمانوں کی دکانوں سے کھانے پینے کی چیزیں اور دیگر اشیاء خریدتے اور کھاتے ہیں۔ یو پی حکومت کا فرمان غلط ہے اس طرح کا بھید بھاؤ حکومت کی طرف سے نہیں ہونا چاہیے۔
تاہم غازی آباد کے ایک گاؤ ں سے تعلق رکھنے والے کانوڑیا دیوندر نے یوگی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے معلوم ہوگا کہ کون اس کا مالک ہے ۔ شاہد نے جو کئی سالوں سے کانوڑ یاترا کے راستے پر چائے کی دکان لگاتے ہیں نے بتایا کہ ’’اگرچہ ہماری دکان پر پہلے سے ہی والد کے نام کا بورڈ موجود ہے، انتظامیہ نے اصرار کیا کہ ہم ایک نیا نصب کریں۔” شاہد نے مزید کہا کہ ہم ہر سال کانوڑیوں کی خدمت کرتے ہیں۔ جب وہ ہمارے اسٹور کے پاس رکتے ہیں تو وہ مجھے شاہد بھائی کہہ کر بلاتے ہیں۔ ہم کبھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتے ۔
حکومت کے فرمان کا یہ اثر تھا کہ پھل کا بھی مذہب بن گیا۔ پھلوں کا ٹھیلہ لگانے والوں کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ اپنا نام ظاہر کریں۔ چنانچہ پھلوں کی گاڑیوں پر بھی نام لکھے گئے ہیں۔ شاہد نے طنز کرتے ہوئے کہا “پھل درخت پر اگتا ہے۔ کوئی نہیں بناتا تاہم مسلمان ان پر بھی اپنے نام لکھنے پر مجبور ہیں‘‘۔
شہر کے مسلم ارتکاز والے علاقہ کھالاپار مارکیٹ میں متعددا سٹور مالکان نے اپنے اداروں پر نام کی تختیاں لگا رکھی ہیں۔ پھل فروشوں نے اپنے اسٹال اور گاڑیوں پر اپنے نام لکھوا رکھے ہیں۔ یہ ایک عجیب سا منظر ہے ۔آم فروش عارف اپنی گاڑی کے پیچھے کھڑا ہےجس پر ایک سفید بورڈ ہے جس پر ہندی میں لکھا ہے ”عارف پھل”۔ عارف نے بتایا کہ انہیں کچھ دن پہلے پولیس اہلکاروں نے حکم دیا تھا کہ اپنے ٹھیلوں پر نام لکھیں ۔
عارف پچھلے دس سال سے پھلوں کے کاروبار کر رہا ہے ۔ ایسا حکم پہلے کبھی نہیں آیا ۔ کیا نام ظاہر کرنے سے پھلوں پر بھی مذہبی رنگ چڑھ جاتا ہے؟ اس نے سوال کیا ۔
اس حکم نامہ سے ان مسلم ہوٹلوں کو بھی مستثنیٰ نہیں رکھا گیا جو صرف صرف سبزی اور دال کے پکوان پیش کرتے ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے اس کا مقصد ایک مخصوص کمیونٹی کی معیشت کو متاثر کرنا ہے۔ مرکزی شاہراہ پر ایک سبزی خور ہوٹل ہے جس کے مالک سلیم احمد ہیں۔ ان کے ہوٹل کے سائن بورڈ پر پہلے کسی مسلم نام درج نہیں تھا۔ اب انہیں اپنا نام سلیم ہوٹل کے نام کے ساتھ لگانا پڑا ہے۔سلیم نے بتایا کہ ان کے ہوٹل میں صرف سبزی خور کھانا بنتا ہے تاہم پولیس نے ان سے بورڈ پر اپنا نام لکھنے کا حکم دیا ۔ جب پوچھا گیا کہ کیا آپ کے کاروبار پر کوئی اثر پڑا ہے ؟ سلیم نے کہا ’’ شناخت ظاہر ہونے کے بعد سے پہلے سے زیاد ہ یاتری کھانے کے لیے آ رہے ہیں، کیوں کہ ہمارا کھانا مزیدار ہوتا ہے،۔ سلیم نے مزید کہا، ’’ہم 2 اگست کو یاترا ختم ہونے کے بعد پرانے سائن بورڈ کو دوبارہ نصب کر دیں گے۔‘‘
بی جے پی کے زیر قیادت یوپی حکومت کا رویہ گوشت کا کاروبار کرنے والوں ساتھ بھی معاندانہ نظر آتا ہے۔ چنانچہ یہ حکم نامہ گوشت اور مچھلی فروشوں کے ساتھ ساتھ ان ہوٹلوں کے لیے بھی بے روزگاری کا سبب بن گیا۔ 22 جولائی کو جب سے یاترا شروع ہوئی، گوشت فروشوں کو اپنی دکانیں کھولنے سے منع کرد یا گیا ہے، یہاں تک کہ مویشیوں کے ساتھ مرغیوں کے ذبیحہ پر بھی پابندی عائد کردی گئی ۔ مین روڈ پر واقع اپنے نان ویجیٹیرین کھانوں کے لیے مشہور کریم ہوٹل 22 جولائی سے بند ہے کیوں کہ شہر میں گوشت دستیاب نہیں ہے۔ گوشت فروش نفیس احمد نے دعویٰ کیا کہ سینکڑوں لوگ اس پیشہ سے وابستہ جن میں بیشتر یومیہ مزدور ہیں۔اس اقدام کے نتیجے میں یہ لوگ بے روزگار ہو گئے اور ان کے پاس معاش کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ شہر میں تقریباً 500 گوشت کی دکانیں ہیں اور سب بند ہیں۔ پولیس 17 جولائی سے ہی کاروبار بند کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی تھی مگر ہم نے اس کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ اس سے پہلے کانو ڑ یا یاترا کے موقع پر انتظامیہ ایک ہفتے کے لیے پابندی لگاتی تھی۔ بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے یاترا کے آخری دن گوشت پر پابندی لگائی جاتی تھی اب یہ 15 دنوں کے لیے ہے ۔
ایک اور گوشت فروش علاؤ الدین نے کہا کہ کانو ڑ یا یاترا کوئی نئی مذہبی یاترا نہیں ہے بلکہ یہ ہر سال ہوتی ہے تاہم جب سے
بی جے پی اتر پردیش میں اقتدار میں آئی ہے قریشی برادری کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ ان کے مطابق ریاست میں غیر بی جے پی حکومتوں نے یاترا کے دوران اس طرح کی پابندیاں کبھی نہیں لگائیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یوگی حکومت مختلف بہانوں سے گوشت کی تجارت کو نشانہ بنا رہی ہے۔ مقامی انتظامیہ گوشت کی دکان کھولنے کے لیے نیا لائسنس جاری نہیں کرتی اور نہ ہی پرانے لائسنس کی تجدید کرتی ہے۔ بہانہ یہ ہوتا کہ نیا مذبح تعمیر کیا جائے۔ علاؤالدین نے سوال کیا کہ سلاٹر ہاؤس کے لیے ہم ایک بڑی رقم کہاں سے لائیں گے۔ یہ ذمہ داری تو حکومت کی ہے وہ ہر مقام پر سلاٹر ہاوس تعمیر کرے۔ کیوں کہ گوشت صرف مسلمان ہی نہیں کھاتے ہیں بلکہ غیرمسلم سب سے زیادہ کھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گوشت کا کاروبار کرنے والوں کو گزشتہ دس سالوں سے طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
خیال رہے کہ کانوڑیایاترا ہندوؤں کے مقدس مہینے ساون کے دوران ہوتی ہے۔ ہندو دیوتا شیو کے عقیدت مند پانی جمع کرنے اور اسے شیو مندروں میں پیش کرنے کے لیے گنگا کے کنارے مذہبی مقامات تک پیدل سفر کرتے ہیں۔ یہ یاترا 22جولائی سے شروع ہوئی اور 2 اگست کو اختتام کو پہنچی۔
15 جولائی کو اتر پردیش کے مظفر نگر ضلع میں حکام کی طرف سے یاترا کےتما م راستوں پر موجود ریستورانوں اور دکانداروں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی مذہبی شناخت کو واضح کریں۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ جو حلال سرٹیفکٹ کے ساتھ مصنوعات فروخت کرے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یوپی حکومت سے شہ پاکراتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت نے بھی اسی طرح کی پابندی عائدکردی تھی، یہاں تک کہ اس راستہ میں واقع ایک مسجد اور مزار کو پردہ سے ڈھک دیا گیا تھا کہ کہیں کانوڑیوں کا دھرم بھرشٹ نہ ہوجائے۔ اس اقدام کی ہر طرف سے سخت مذمت ہونے کے بعد پردہ ہٹادیا گیا تھا۔ کانوڑ یاترا کے دوران تشدد کے واقعات عام بات ہوگئی ہے۔ اس دوران درجنوں ایسے واقعات سامنے آئے جس میں کانوڑیوں نے معمولی خراش پہنچنے پر راہ گیروں اور موٹر سواروں کو شدید زدو کوب کا نشانہ بنایا اور ان کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا، جب کہ پولیس خاموش تما شائی بنی رہی۔
اس حکم نامہ پر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومت کی اتحادی جماعتوں جیسے جے ڈی (یو) اور لوک جن شکتی پارٹیوں نے بھی تنقید کی۔ سول سوسائٹی کے گروپوں نے اس حکم کو نازی جرمنی سے مشابہ قرار دیا۔ ان کے مطابق ہولوکاسٹ سے پہلے نازی جرمنی اور اس کے زیر قبضہ یورپی ملکوں میں یہودیوں کو اپنی شناخت ظاہر کرنے کے لیے مجبور کیا گیاتھا ۔اس کے تحت یہودیوں کو اپنے گلے میں پیلے رنگ کا ستارہ ڈیوڈ (Star of David )پہننا پڑتا تھا ۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کی حلیف جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ اس کو اس طرح کی تفرقہ انگیز اور خطرناک حرکتوں سے باز رکھے۔ مارکسی کمیونسٹ پارٹی نے کہا کہ اس حکم نامہ کا فوری مقصد فرقہ وارانہ پولرائزیشن کو تیز کرنا ہے۔ بی جے پی حکومتوں کے اس طرح کے اقدامات جلد ہی ذات پات کے تناؤ کو بڑھانے اور ذات پات کی بنیاد پرسماجی جبر کو تیز کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ وہ سمت ہے جس میں بی جے پی کا مقصد ہمارے معاشرے کو ’منوسمرتی‘ کے خطوط پر استوار کرنا ہے، جو ہمارے آئین کی بنیادوں اور اس کی آزادی، مساوات، بھائی چارے اور تمام شہریوں کے لیے انصاف کی ضمانت کی نفی کرتاہے۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے وزیراعظم مودی سے اس بارے میں اپنا موقف ظاہر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی دلتوں، مسلمانوں اور دیگر گروہوں کے حقوق کو محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ان کی معیشت کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔