آسام – اےآئی یو ڈی ایف زوال کی راہ پر

نور اللہ جاوید
جولائی 2024

شمال مشرقی ریاست آسام میں مسلمان کن حالات سے گزررہے ہیں اگر یہ سوال ملک گیر سطح کی ملی تنظیموں اور ان کے سربراہوں سے کیا جائے شاید ہی کوئی تنظیم یا پھر سربراہ مکمل معلومات دے سکے۔ دراصل اس ملک کی سیاست پرہمیشہ سے’’ لوٹین دلی‘‘حاوی رہی ہے۔ کم وپیش یہی حال دہلی میں ہیڈ کوارٹر رکھنے والی ملی تنظیموں کا بھی ہے۔ لوٹین دہلی سے آگے ان کی نظراور میدان کار رک جاتا ہے۔گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے سے آسامی مسلمانوں کو جن مشکلات و مصائب کا سامنا ہے اس کا ادراک تو دورقومی سطح کی تنظیموں کو مکمل طور پر واقفیت بھی نہیں ہے۔غیر روایتی میڈیا (نیوز پورٹل اور صحافیوں کے انفرادی رپورٹ) میں تسلسل کے ساتھ جو رپورٹیں آرہی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ آسام کے مسلمان ’’ تعذیب مسلسل ‘‘ سے دوچار ہیں ۔
آسام میں مسلمانوں کے خلاف اس وقت جو کچھ کیا جارہا ہے اس کا موازنہ 60سال قبل میانمار میں روہنگیامسلمانوں کے خلاف میانمار کی فوجی جنتا اور انتہا پسندبدھشٹوں کے ذریعہ شروع کی گئی مہم سے کیا جاسکتا ہے۔آج صورت حال یہ ہے کہ دس لاکھ روہنگیا انتہائی کسمپرسی کے عالم میں بنگلہ دیش کے کاکس بازار کے کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔تقریبا6 لاکھ میانمار کے صوربہ راکھین کے مختلف کیمپوں میں آباد ہیں ۔جب کہ سیکڑوں روہنگیا پناہ گزیں ہندوستان میں تعصب اور بدترین حالات سے دوچار ہیں ۔عالمی میڈیا میں یہ خبریں آرہی ہیں کہ میانمار کی خونریز خانہ جنگی میں ایک بارپھر میانمارکی فوجی جنتا اور باغی گروپ راکھین آرمی میانمار میں رہ جانے والے 6 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو لقمہ اجل بنانے کو تیار ہیں ۔دونوں گروپ چاہتے ہیں کہ روہنگیا مسلمان ان کے لئے جنگ لڑیں۔ اس کے لئے روہنگیا نوجوانوں کا دونو ں گروپ اغوا تک کررہے ہیں۔
آسام میں لسانی تعصب کی جنگ آزادی کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی مگر سنگھ پریوارگزشتہ 40 سالوں سے کوشاں تھا کہ لسانی اختلافات کو مذہبی اختلافات میں تبدیل کردیا جائے ۔گرچہ آج بھی عوامی سطح پر بنگالی ہندو اور آسامی ہندؤوں کے درمیان خلیج کافی گہری ہیں ۔دونوں کی تہذیب و تمدن الگ ہے اوروہ ایک دوسرے کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔تاہم 2016میں بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کے بعدسے ہی آسام میں آباد بنگالی نژاد مسلمانوں کے خلاف مختلف محاذ پر حملے جاری ہیں ۔2021میں سابق کانگریسی لیڈر ہیمنت بسوا شرما کو وزیر اعلیٰ بنائے جانے کے بعد سے ہی کئی محاذ پر مسلمانوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔سرکاری زمینوں پر تجاوزات کے خلاف مہم کے نام پر تسلسل کے ساتھ غریب اور مفلوک الحال مسلمانوں کو اجاڑنے کی کارروائی جاری ہے۔انگریزی ویب سائٹ ’’مکتوب میڈیا ‘‘کے مطابق ایشین سینٹر فار ہیومن رائٹس نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 3 لاکھ سے زائد افراد آسام میں بے گھر ہوچکے ہیں ۔ہوجائی، درنگ، سونیت پور، اور بارپیٹا میں جن لوگوں کے مکانات چھین لئے گئے ہیں وہ لوگ دراصل دریا کے کٹاؤ کا شکار ہیں اور برسوں سے حکومت نے ان کی بازآبادکاری نہیں کی ہے۔ایک انگریزی صحافی آدتیہ مکھرجی نے آسام کے درنگ ضلع کے دھلپورجہاں پہلی مرتبہ 2021میں بے دخلی مہم شروع کی گئی تھی سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ مئی 2024میں ایک بار پھر بڑے پیمانے پر اس ضلع میں بے دخلی مہم شروع کی گئی ہے۔
2026میں ملک بھر میں حدبندی ہونی ہے مگر آسام میں جلدبازی میں تین سال قبل 2023میں ہی حلقہ بندی کی گئی ۔حلقہ بندی کے آغاز سے قبل ہیمنت بسوا شرمانے چار اضلاع کو ضم کردیا۔بھر پور کوشش کی گئی مسلم اکثریتی پارلیمانی اور اسمبلی حلقہ کو ختم کردیا جائے ۔ہیمنت بسوا شرما کھلے عام اعتراف کرتے ہیں کہ اسمبلی میں مسلم اکثریتی اضلاع کی تعداد کم ہوکر 22رہ گئی ۔گویا یہ نئی حد بندی کا مقصد صرف آسام میں مسلمانوں کو بے اثر کرنا تھا۔
چنانچہ لوک سبھا انتخابات کے دوران مسلم نمائندوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔این آرسی ایک بار پھر شروع کرنے کے لئے حکومت ہاتھ پاؤں ماررہی ہے۔ان سب کا ایک ہی مقصد ہے آسام میں مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کردیا جائے۔ہیمنت بسوا شرما کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ وہ ہندو اور مسلمانوں کی سیاست کرتے ہیں ۔تاہم ان کی بھی یہ کوشش ہے کہ بنگالی نژاد اور آسامی نژاد مسلمانوں کے درمیان اختلافات گہرے کردیے جائیں۔
ان حالات میں اے آئی یو ڈی ایف جیسی سیاسی جماعت کا منظرنامہ سے غائب ہوجانا کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ 2024کے لوک سبھا انتخابات میں اے آئی یوڈی ایف کو اس قدر بدترین شکست کا سامنا کیوں کرنا پڑا ۔خود مولانا بدرالدین اجمل کو دس لاکھ سے زائد ووٹوں سے شکست ہوئی ۔ نوگاؤں لوک سبھا حلقہ سے اے یوآئی ڈی ایف کے جنرل سیکریٹری امین الاسلام بھی بری شکست سے دوچار ہوگئے ۔اسی طرح کریم گنج جیسے مسلم اکثریتی حلقے میں اے یوڈی آئی ایف کی وجہ سے کانگریس کے حافظ رشید چودھری محض چند ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔وہ جتنے ووٹوں سے ہارے ہیں، اتنا ہی ووٹ اےآئی یو ڈی ایف کے امیدوار کو ملاہے ۔انگریزی ویب سائٹ دی کوئنٹ نے الیکشن کمیشن کے ذریعے جاری اعداد و شمارکا تجزیہ کرنے کے بعدکئی ایسے حلقوں کی شناخت کی ہے جہاں ووٹنگ سے زیادہ ای وی ایم مشین میں ووٹ پائے گئے۔کریم گنج بھی ان حلقوں میں شامل ہے۔اےآئی یو ڈی ایف کی پوری سیات بنگالی نژاد مسلمانوں پر مرکوز تھی مگر مسلم اکثریتی اضلاع میں ہی اےآئی یو ڈی ایف کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
2024کے لوک سبھا انتخابات میں بنگالی مسلمانوں کا رجحان کانگریس کی طرف ہوگیا تھا۔ تاہم یہ بھی سچائی ہے کہ آسام میں بنگالی مسلمانوں کو جن حالات و مشکلات کا سامنا ہے اس کو عوام کے سامنے اور اس کے خلاف جدو جہد کانگریس اس قدر نہیں کرسکتی ہے جتنی مسلم قیادت والی سیاسی جماعت کرسکتی ہے۔ ایسا اس لئے کہ کانگریس آسام میں بنگالی نژاد مسلمانوں کی کھلے عا م حمایت کرکے آسامی ہندوؤں کی ناراضگی مول لینے کا خطرہ نہیں لے گی۔ہیمنت بسواشرماانتخابی نتائج کے بعد یہ تاثر دینےمیں مصروف ہیں کہ کانگریس مسلمانوں کی سیاسی جماعت ہے۔اس کی جیت صرف مسلم اکثریتی اضلاع میں ہوئی ہے۔گرچہ حقائق اس کے خلاف ہیں کیوں کہ گورو گگوئی نے راجرہاٹ سیٹ سے جیت حاصل کی ۔ ہیمنت بسوا شرما کا بھی یہی علاقہ ہے اور انہوں نے گورو گگوئی کو شکست دینے کیلئے ہفتوں کیمپ لگایا تھا مگر گگوئی جیتنے میں کامیاب رہے۔یہ سوال بھی کافی اہم ہے کہ کانگریس سی پی آئی ایم اور دیگر علاقائی جماعتوں سے اتحاد کرتی ہے مگر اےآئی یو ڈی ایف کے ساتھ کھڑے ہونے سے گریز کیوں کررہی ہے؟۔
دھوبری لوک سبھا حلقہ مسلم اکثریتی حلقہ ہے اور یہاں سے 2009سے ہی مولانا بدرالدین اجمل کامیاب ہوتے رہے ہیں ۔اس مرتبہ بھی ان کی جیت یقینی مانی جارہی تھی۔کانگریس نے یہاں سے ایک ایسے لیڈر کو امیدوار بنایا جو اس حلقے کیلئے نیا تھا۔ان کا آبائی علاقہ تین سو کلومیٹر دور ہے تاہم رقیب الحسن آسام کی سیاست میں غیر معروف نہیں تھے۔اس کے باوجود کانگریس کے رقیب الحسن نے اجمل کو دس لاکھ ووٹوں سے شکست سےدو چار کردیا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اجمل اپنے انتخابی حلقے میں بہت ہی غیر مقبول ہوگئے تھے۔یہ دعویٰ کرنا کہ اجمل کے خلاف سازش رچی گئی تھی، حقائق سے فرار کےمترادف ہے۔ اس لئے اس کا تجزیہ کیا جانا ضروری ہے کہ آسام کے بنگالی مسلمانوں نے اجمل کو اس طرح رد کیوں کیا جب کہ اجمل کی سیاست بنگالی مسلمانو ں پرہی منحصر ہے ۔
80کی دہائی کے شروع میں آسام میں بڑے پیمانے پر بنگالیوں کے خلاف تحریک چلائی گئی ۔اسی دوران نیلی قتل عام کا واقعہ پیش آیا جہاں چشم زدن میں ہزاروں مسلمانوں کو دردناک انداز میں قتل کردیا گیا۔اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیوگاندھی نےآل آسام اسٹوڈننس یونین جو اس مہم کی قیادت کررہی تھی کے ساتھ آسام معاہدہ کیا جس میں این آر سی کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا اور اس کے بعد حالات پرامن ہوئے۔اس کے بعد ہی 1985میں غلام عثمانی کی قیادت میں یونائیٹڈمائناریٹی فرنٹ (یوایم ایف )کی تشکیل ہوئی اور پہلے انتخاب میں ہی اس نے 17, ممبران اسمبلی اور ایک لوک سبھا حلقے میں کامیابی حاصل کرکے سب کو حیران کردیا۔مگر محض دو دہائیوں میں یونائیٹڈمائناریٹی فرنٹ زوال کا شکار ہوگئی اور معنویت سے محروم ہوگئی ۔ 2005میں اےآئی یو ڈی ایف کی تشکیل ہوئی اور یو ایم ایف اس پارٹی ضم ہوگئی۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ 20سال بعد اےآئی یو ڈی ایف بھی زوال کے قریب پہنچ چکی ہے،گرچہ اےآئی یو ڈی ایف کےختم ہونے کی پیشین گوئی قبل از وقت ہوگی۔
اےآئی یو ڈی ایف 2005میں مسلمانوں کی شہریت کو مشکوک کردینے کے حکومت کے طرز کے عمل کے احتجاج میں وجود میں آئی تھی ۔جب اس پارٹی کی تشکیل کی جارہی تھی اس وقت جمعیۃ علمائے ہندکے علاوہ آسام کی ایک درجن مسلم تنظیمیں اور اہم شخصیات شامل تھیں ۔مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اجمل کے پرانے ساتھی جس میں ایڈوکیٹ عبد الصمداور ایڈوکیٹ حافظ رشید احمد چودھری جنہوں نے اےآئی یو ڈی ایف کے آئین کو مرتب کیا تھا الگ ہوتے چلے گئے ۔ اے یو ڈ ی ایف پراجمل کی شخصیت حاوی ہوتی چلی گئی اور پھر یہ خاندانی سیاسی جماعت بن گئی ۔اےآئی یو ڈی ایف کی تشکیل پانچ اہم ایشوز کی بنیاد پر ہوئی تھی جس میں مسلمانوں کو ووٹ سے محروم کرنے کی کوششوں کے خلاف جدو جہد، این آر سی کے دوران مسلمانوں کی مدد ، قانونی امداد پہنچانا ،مسلمانوں کی زمین کی حفاظت کرنااور دیگر ایشوز شامل تھے۔آسام سے تعلق رکھنے والے ایک مسلم ریٹائرڈ آئی اے ایس آفیسرنے نام درج نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ مولانا اجمل بہتر ین سماجی کارکن، بہترین انسان، بہترین شخصیت کے حامل ہیں مگر سیاسی حکمت عملی اورسیاسی ویژن سے خالی ہیں ۔اجمل کے بیانات غیر سنجیدہ اور بے احتیاطی پر مبنی ہوتے ہیں ۔ان کے بیانات سے فرقہ پرست قوتوں کو فائدہ پہنچتا ہے ۔ان کےمطابق اہم مواقع پر اجمل کی غیر موجودگی نےبھی مسلمانوں کو مایوس کیا ۔وہ پارٹ ٹائم سیاست داں ہیں۔ اجمل آسامی اور بنگالی مسلمانوں کے درمیان فاصلے بھی ختم نہیں کراسکے اور وہ صرف بنگالی مسلمانوں کے نمائندہ بن کر رہ گئے ۔
صحافی حافظ پرویز معروف اےآئی یو ڈی ایف کے مستقبل کے امکانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اجمل کی شکست سے آسام کی مسلم سیاست یقینا متاثر ہوگی اور اےآئی یو ڈی ایف کا مستقبل کیا ہوگا یہ کہنا قبل از وقت ہے مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ بدرالدین اجمل کی شکست سے اےآئی یو ڈی ایف کی مقبولیت متاثر ہوئی ہے اور اس کیلئے کسی حدتک خود اجمل اور ان کے بھائی سراج الدین اجمل ذمہ دار ہیں۔سراج الدین اجمل نےایک سال قبل آسام کے وزیر ہیمنت بسواشرما کی تعریف کرتے ہوئے کہاتھا کہ وہ آسام کے سب سے بہترین وزیر اعلیٰ ہیں ۔ان کے اس بیان کی اےآئی یو ڈی ایف نے تردید نہیں کی۔ جب کہ ہیمنت بسوا شرما تسلسل کے ساتھ مسلمانوں کی دل آزاری کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ہیں ۔ان حالات میں کوئی شرما کو بہترین وزیر اعلی ٰ قرار دیتے ہیں توشک و شبہ پیدا ہونا لازمی ہے۔سراج الدین اجمل دبئی میں رہتے ہیں سال میں ایک دو مرتبہ آتے ہیں مگر وہ رکن اسمبلی ہیں ۔چناں چہ کانگریس بنگالی مسلمانوں میں یہ بات ثابت کرنے میں کامیاب رہی کہ اجمل اینڈفیملی کیلئے سیاست سے کہیں زیادہ خاندانی کارروبار کو بچانا ترجیحات میں شامل ہے اور وہ ایسا کوئی بھی کا م نہیں کریں گے جس سے ان کے تجاراتی مفادات متاثر ہوں۔
دھوبری کو مغربی آسام کا گیٹ وےسمجھا جاتا ہے۔ اس کا شاندار ماضی رہا ہے۔ قدیم ترین قصبوں میں سے ایک یہ علاقہ تقسیم تک برطانوی راج کے تحت ایک اہم انتظامی مرکز تھا۔ دریائے برہم پترا دھوبری سے بہتا ہے۔یہ 1983 میں سات اسمبلی حلقوں کے ساتھ ایک ضلع بن گیا، جن میں سے چار ہندوستان-بنگلہ دیش سرحد کے ساتھ واقع تھے۔ نئی حد بندی کے بعد، تین اسمبلی حلقے گولک گنج، دھوبری اور مانکاچار اب بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد کا اشتراک کرتے ہیں۔حد بندی کی مشق کے بعد، سیاسی ماہرین کا اندازہ ہے کہ دھوبری میں تقریباً 26 لاکھ ووٹرز ہیں، جن میں سے 13 لاکھ مشرقی بنگال کے ہیں، اور دیگر 8 لاکھ دیشی مسلمان ہیں (جنہیں مقامی سمجھا جاتا ہے)۔ تقریباً 4.8 لاکھ ہندو ووٹر بھی ہیں۔آسام سے تعلق رکھنے والے ایک اسکالر سبھرانگشو پرتیم سرما نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس علاقے میں ترقیاتی کام بالکل نہیں ہوئے ہیں۔کئی علاقوں میں آمدو رفت کیلئے آج بھی سڑک نہیں ہے۔ کانگریسی لیڈران اس بات کو گھرگھر پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں کہ صرف کانگریس ہی ریاست میں بنگالی بولنے والے عوام کی حقیقی نمائندہ ہو سکتی ہے۔ مہم کے دوران پارٹی یہ بھی بتانے میں کامیاب رہی کہ ریاست میں بی جے پی اور اے آئی یو ڈی ایف کی قیادت کے درمیان خفیہ سمجھوتہ ہے۔
دراصل اجمل نے اپنے فلاحی اور تعلیمی خدمات کو اپنی سب سے بڑی طاقت سمجھ لیا تھا۔وہ یہ سمجھتےتھے کہ اجمل فاؤنڈیشن کے ذریعہ شروع کئے گئے فلاحی اور تعلیمی کاموں کی بنیاد پر عوام ان کے ساتھ کھڑی رہے گی۔چناں چہ اپنی کے شکست کے بعد انہوں نے جو وجوہات بیان کی ہے کہ اس میں انہوں نے اجمل فاؤنڈیشن کے خدمات پر ہی زور دیا اور کہا کہ اجمل فاؤنڈیشن کے تحت اجمل سپر 40 کوچنگ سینٹر کے 500 سے زیادہ طلبہ نے اس سال NEET امتحان میں کوالیفائی کیا ہے جن میں سے 60 کا تعلق دھوبری سے ہے۔ اجمل کا سپر 40 پروجیکٹ معاشرے کے پسماندہ طبقوں کے طلبہ کو میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے تیار کرتا ہے۔مگر وہ اس حقیقت کو فراموش کرگئے کہ جس حلقے سے گزشتہ 15سالوں سے وہ نمائندگی کررہے ہیں وہاں خواندگی کی شرح انتہائی مایوس کن ہے یعنی صرف 58.25 فیصد جب کہ آسام میں مجموعی طور پر خواندگی کی شرح 72.19 فیصد ہے ۔
کوئی بھی سیاسی جماعت محض فلاحی کاموں کے بنیاد پر انتخابی معرکہ سر نہیں کرسکتی ہے۔عوامی خدمت اور سیاست میں گرچہ تضادنہیں ہے تاہم سیاست وقت طلب کام ہے ۔ لیڈر کا موقع پر موجودرہنا اور وقت و حالات کے مطابق اقدامات کرنے کانام سیاست ہے۔ آج تک کوئی بھی صنعت کار کامیاب سیاست دان نہیں ہوسکا ہے۔کاروبار اور تجارت کا تقاضا ہے کہ صاحب اقتدار سے ٹکراؤ کی راہ اختیار نہ کی جائے۔مصلحت اور گفت و شنید کے ذریعہ حکومت سے بہترین رشتہ بنائے رکھا جائے۔اجمل ملک کے معروف عطر ساز ہیں اور آسام کے جنگلوں کی لکڑیاں ان کے کاروبار کیلئے کافی اہم ہیں۔ چناں چہ اجمل پر یہی الزام ہے کہ انہوں نے کاروباری فائدے کیلئے بی جے پی سے سودے بازی کررکھی ہے۔اجمل کے مقابلے میں انتخاب میں جیت حاصل کرنے والے رقیب الحسن مودی اور بی جے پی کے بڑے نقاد ابھر کرسامنے آئے تھے۔اجمل پارلیمنٹ میں 15برسوں تک ممبر پارلیمنٹ رہے ہیں مگر اویسی کی طرح وہ مسلم مسائل پر بات کرنے میں ناکام رہے بلکہ کئی مواقع انہوں نے انتہائی بے وقوفانہ بلکہ بچکانہ بیان دے کر مسلمانوں کو شرمندہ بھی کیا ہے۔لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ مولانا اجمل بحیثیت سیاست نہ اپنی چھاپ چھوڑ سکے اور نہ ہی بحیثیت ممبر پارلیمنٹ اپنی کوئی شناخت قائم کرسکے۔یہ وہ عوامل تھے جس نے اجمل اور ان کی پارٹی شکست کے دہانے پر پہنچادیا۔
مگر سوال یہ ہے کہ اے آئی یوڈی ایف کا مستقبل کیا ہے؟ اس کا جواب واضح ہے کہ ان نتائج نے پارٹی اور اجمل دونوں کیلئے خوداحتسابی کا موقع فراہم کیا ہے ۔اگر وہ معروضیت کے ساتھ انتخاب میں شکست کا تجزیہ اور اپنی ناکامی اور کوتاہیوں کا احتساب کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور خاندانی سیاسی جماعت کے بجائے اےآئی یو ڈی ایف کو بنگالی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت بنانے کے لئے اپنے پرانے ساتھیوں کی واپسی اور عوامی مسائل سے جوڑنے کے لئے حکمت عملی تیار کرتے ہیں تو اےآئی یو ڈی ایف کی واپسی ناممکن نہیں ہے۔ تاہم اس کے لئے اجمل کو فل ٹائم سیاست داں بننا ہوگا اور خاندانی کاروبار اپنے بچوں کوسونپ کر علاحدگی اختیار کرنی ہوگی۔اےآئی یو ڈی ایف کا مستقبل اجمل کے اقدامات پر ہی منحصر ہے۔

•••

نور اللہ جاوید