یوپی میں دلت مسلم اتحاد – حقیقت یا مفروضہ

مشتاق عامر
اکتوبر 2024

یو پی میں دلت مسلم اتحاد کا خواب دیکھنے والے مسلمانوں کو یہاں کی زمینی سیاسی حقیقت کا ادراک ابھی تک نہیں ہو پایا ہے۔مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ آج بھی یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ وہ دلتوں کے ساتھ مل کر یہاں کی سیاست میں کوئی انقلاب لا سکتا ہے ۔ دلتوں کے ساتھ اتحاد کی کوششیں بارہا ناکام ہو چکی ہیں ۔ اس کے نتیجے میں سوائے تلخ تجربات کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا ہے ۔اس سے مسلمانوں کو سیاسی فائدہ تو درکنار ، الٹااس کا خمیازہ عام مسلمانوں اور ان کی قیادت کو بھگتنا پڑا ۔مسلم لیڈروں نے عوام میں رہی سہی اپنی ساکھ بھی گنوا دی۔ در اصل دلت طبقے کی نفسیات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔مذہبی اورسیاسی خود سپردگی ان کی نفسیات کا اہم عنصر ہے ۔دلت اعلیٰ ذات سے مرعوب رہتے ہیں لیکن جب ان کے معاملات مسلمانوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ وہی رویہ اپناتے ہیں جو صدیوں سے اعلیٰ ذات طبقے نے خود ان کے ساتھ روا رکھا ہے۔یعنی مسلمانوں کو اپنے سے کمتر سمجھنا۔

دلت مسلم اتحاد کی یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کا ہم اب تک انکار کرتے آئے ہیں ۔مسلمان تو شروع سے ہی دلتوں کے ساتھ اتحاد کرنا چاہتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ دلت لیڈر شپ مسلمانوں کو صرف ایک ووٹ بینک سے زیادہ ا ہمیت دینے کو تیار نہیں اور وہ بھی اپنی شرطوں پر ۔  اس کی کئی عبرت ناک مثالیں موجود ہیں ۔یو پی میں دلتوں کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایا وتی کا جو طرز عمل مسلمانوں کے تعلق سے رہا ہے وہ جگ ظاہر ہے ۔مایا وتی نے پچھلے لوک سبھا کے چناؤ میں پارٹی کی کراری شکست کا ٹھیکرامسلمانوں کے سر پھوڑا تھا ۔بی ایس پی لوک سبھا چناؤ میں ایک بھی سیٹ پرکامیابی حاصل نہیں کر پائی۔اس شکست کی تمام تر ذمہ داری مایا وتی نے مسلمانوں کے سر ڈال دی ۔ چناؤ نتائج کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ مناسب نمائندگی دینے کے باوجود مسلمان بہوجن سماج پارٹی کو سمجھنے میں ناکام رہا ۔لہٰذا مستقبل میں ہونے والے چناؤ میں بی ایس پی مسلمانوں کو بہت سوچ سمجھ کر ٹکٹ دے گی ۔لیکن مایا وتی نے اپنے اسی بیان میں اپنی جاتی کی طرف سے حمایت کرنے اور  ووٹ دینے پردلتوں خاص طور سے جاٹؤ سماج کا شکریہ ادا کیا ۔ایسا نہیں ہے کہ مایا وتی نے پہلی بار مسلمانوں کے تعلق سے اس طرح کا رویہ اختیا رکیا  ہو۔اس سے پہلے بھی وہ مسلمانوں پر دھوکہ دینے اور فرقہ پرست ہونے کا الزام لگا چکی ہیں ۔ 2006کے بلدیاتی چناؤ کے بعد انہوں نے مسلمانوں پر ’ کٹر پنتھی ‘ہونے اکا لزام لگایا تھا۔ مایا وتی نے پریس کانفریس میں اس بات کا برملا اظہار کیا تھا کہ چناؤ میں کٹر پنتھی مسلمان نہ جیت جائیں ، اس کے لیے انہوں نے پارٹی حامیوں سے کہا تھا کہ وہ اپنے ووٹ بی جے پی کو ٹرانسفر کر دیں ۔ لیکن اس تذلیل کے بعد بھی مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ بی ایس پی سے جڑا رہا ہے ۔یہ وہی طبقہ ہے جو چناؤ کے موقع پر بھاری رقم خرچ کرکے پارٹی سے ٹکٹ خریدتا ہے ،پھر چناؤ ہار جانے کے بعد پارٹی قیادت سے گالیاں کھاتا ہے ۔ ڈاکٹر مسعود ، ارشد خاں اور تسلیم الدین کو جس طرح سے پارٹی سے نکالا گیا وہ سیاسی عبرت کی بدترین مثال ہے ۔مسلمانوں نے بی ایس پی کو یک مشت ووٹ دے کر کئی بار اقتدار کی کرسی تک پہنچایا ہے ۔آج بھی مسلمانوں کا ایک طبقہ بی ایس پی کا روایتی ووٹر ہے ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بی ایس پی کے مسلم امیدواروں کو دلت ووٹ اس طرح سے نہیں ملتا جیسا کہ دلت برادری کے امیدواروں کو ملتا ہے ۔جبکہ مسلمان دلت امیدواروں کو بلا امتیاز دل کھول کر ووٹ دیتے ہیں۔

یو پی میں دلت مسلم اتحاد کی پہل مسلمانوں نے کی تھی ۔ ساٹھ کی دہائی میں ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی نے دلت ، پسماندہ طبقات اور مسلمانوں کو ملاکر سیاسی حقوق کی جد وجہد کا فارمولا پیش کیا تھا ۔ 1968میںمسلم مجلس کے قیام کے بعد ڈاکٹر فریدی کی کوشش دلت اور پسماندہ طبقات کو ساتھ لیکر چلنے کی تھی۔لیکن دلت طبقہ روایتی طور سے کانگریس اور جن سنگھ کے ساتھ جڑا رہا  ۔ 80؍ کی دہائی میں بہوجن سماج پارٹی  بننے کے بعد مسلمانوں کا بڑا طبقہ بلا جھجھک ’ بہوجن تحریک ‘ سے وابستہ ہو گیا۔خود کانشی رام دلت موومنٹ کی کامیابی کے لیے مسلمانوں کی شمولیت کو ضروری سمجھتے تھے ۔مسلمانوں نے بھی کانشی رام کو کبھی مایوس نہیں کیا ۔ انہوں نے اپنے پیسے اور وسائل سے پارٹی کو کھڑا کرنے میں جو کردار ادا کیا ، اس کے گواہ آج بھی مل جائیں گے ۔لیکن مسلمانوں کو دھکا اس وقت لگا جب جون 1995میں مایا وتی نے ملائم سنگھ سے ناطہ توڑ کر بی جے پی کے ساتھ یو پی میں اپنی سرکاری بنالی ۔مایا وتی کے اس قدم کی مخالفت کرنے والے ڈاکٹر مسعود اور ارشد خان کو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔کوئی بھی سیاسی اتحا د قوت کے توازن اور مفادکی بنیاد پر قائم ہوتاہے۔یو پی کے مسلمان سیاسی قوت سے عاری ہیں۔دیگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی طرح دلت لیڈران بھی مسلمانوں پر سیاسی بالا دستی قائم رکھناچاہتے ہیں ۔بہ الفاظ دیگر یہ بھی مسلمانوں کو اپنا سیاسی غلام بنائے رکھنا چاہتےہیں ۔مسلمانوں کے ساتھ دلت لیڈروں کا طرز عمل وہی ہوتا ہے جو دلتوں کے ساتھ اعلیٰ ذات کی سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں۔یہ وہی سوچ ہے جس کو دلت ’ منوواد ‘ کا نام دیتے ہیں ۔دلت مسلم اتحاد میں سب سے بڑی پیچیدگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب عام دلت آر ایس ایس کے ہرا ول دستے کے روپ میں سامنے آجاتے ہیں ۔ یہ تکلیف دہ صورت حال مسلم کش فسادات کے دوران دیکھنے میں آتی ہے ۔ مسلم کش فسادات کے دوران سڑکوں پر مسلمانوں کے خلاف دلتوں کو اتارا جاتا ہے ۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کا انکار خود دلت لیڈ ربھی نہیں کر سکتے ۔اس کے علاوہ دلت لیڈروں کا طر ز عمل کب مسلم مخالف ہو جائے ،اس کا اندازہ لگاپانا بھی مشکل ہوتا ہے ۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں جس میں دلت لیڈر اور دانشور آر ایس ایس کے آلہ کار بن گئے ۔ ادت راج ،رام ولاس پاسوان ، جیتن رام مانجھی، رام داس اٹھاولے،پر کاش امیڈکر اور دلیپ منڈل چند ایسے نام ہیں جو اس ضمن میں پیش کئے جا سکتے ہیں۔دلتوں کے ساتھ مسلمانوں کا سیاسی اتحاد کا تجربہ اب تک نہ صرف ناکام رہا ہے بلکہ اس کے نتائج بھی نقصاندہ رہے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ یو پی کے مسلمان اپنی سیاسی حیثیت کھو چکے ہیں ۔ دیگرسیکولر پارٹیوں میں ان کی جو حالت ہے اس کا مشاہدہ دلت لیڈر کو بھی ہے ۔یو پی کا مسلمان دلتوں کے ساتھ اتحاد چاہتا ہے اور دل کے ساتھ چاہتا ہے۔مسلمان انسانی مساوات کے اصول پر آج بھی قائم ہیں۔مسلمانوں نے دلتوں کوہمیشہ برابری کا درجہ دیا ہے۔ ان کو گلے سے لگایا ، اپنے کھانے پینے میں شریک کیا، اپنے گھروں کے دروازے ان کے لیے کھول دئے ،ان کے ساتھ ایسا اخلاق پیش کیا جس کا تصور دلت طبقہ کبھی کر ہی نہیں سکتا تھا ۔لیکن دلت طبقہ ہزاروں سال کی غلامی کی نفسیات سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکاہے۔یہ طبقہ آج بھی اپنی نجات اعلیٰ ذات کی خوشنودی میں دیکھتا ہے ۔ان سے اس قدر مرعوب ہے کہ اس کے اندر سے عزت نفس تقریباََ معدوم ہوچکی ہے۔اس کواگر فکر ہے تو صرف اپناریزرویشن بچانے کی ۔ یہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈر کی مورتی کی پوجا تو کر لیتا ہےلیکن ان کی تعلیمات پر چلنے کو تیار نہیں ۔دوسری جانب مسلمان نفرت اور فسطائی سیاست کے خلاف آج بھی ڈٹ کر کھڑا ہوا ہے۔آئین اور جمہوری بنیادوں پر اپنے        حقو ق کا حصول چاہتا ہے ۔ دلتوں کے پاس جومعاشی اور سیاسی قوت نظر آتی ہے ،وہ اعلیٰ ذات کا عطیہ ہے ۔دلتوں کی سیاسی قوت کا سرچشمہ یہاں کی اعلیٰ ذاتیں ہیں ، جن کی غلامی میں یہ صدیوں سے رہتے آئے ہیں ۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.