جنوری میں ہندوستان کے خارجہ سکریٹری وکرم مسری اور افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کی دبئی میں ملاقات کے بعد دونوں ممالک میں مزید قربت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سال 2021 میں امریکہ اور ناٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد نئی دہلی کی افغانستان کے نئے حکمرانوں سے رشتے بنانے میں سردمہری میں اب کچھ کمی آرہی ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان میں موجود طالبان حکومت کو ساڑھے تین سال گذرجانے کے بعد بھی دنیا کے کسی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے اور ہندوستان بھی اسی صف میں شامل ہے۔ لیکن دسمبر 2023میں چین میں افغان سفارت خانہ میں طالبان کے تعینات کردہ سفیر نے چارج سنبھال لیا ۔ اور اس کے بعد یہ سلسلہ چل پڑا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ستمبر2024 تک پوری دنیا میں طالبان کے پاس افغانستان کے 39 سفارت خانوں اور قونصلیٹ کا کنٹرول تھا۔ اہم ممالک میں چین کے علاوہ روس، ایران، ترکی، قطر، ازبیکستان اور یو اے ای شامل ہیں۔ خبروں کے مطابق ایسا ہی کچھ ہندوستان میں بھی ہونے جارہا ہے۔ یعنی افغانستان کے نئے سفیر کی نئی دہلی میں تعیناتی جس کاتقرر طالبان کریں گے۔ بین الاقوامی خبررساں ادارہ بلومبرگ کی خبر کے مطابق ہندوستان نے نئے سفیر کی تعیناتی کے لیے ہامی بھر لی ہے لیکن نئی دہلی میں واقع افغانستان کے سفارت خانہ پر افغانستان کا پرانا جھنڈا ہی لگا رہے گا اور اس کاسرکاری نام بھی وہی باقی رہے گا۔ واضح رہے کہ طالبان نے حکومت کا سرکاری نام امارت اسلامیہ افغانستان کردیا ہے۔
نئی دہلی میں واقع افغان سفارت خانہ گزشتہ ایک سال کے زائد عرصہ سے غیر فعال ہے کیوں کہ سابق سفیرفرید ماموندزی ہندوستان چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلے گئے۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ سفارت خانہ چلانے کے لیے ہندوستان کی وزارت خارجہ تعاون نہیں کررہی ہے اور فنڈ کی بھی قلت ہے۔ سفارت کاری کے تھوڑے بہت کام ممبئی اور حیدرآباد میں واقع قونصلیٹ سے ہور ہے تھے۔ ممبئی قونصلیٹ میں بھی نومبر 2024 میں طالبان کے ذریعہ منظور شدہ ڈاکٹر حافظ اکرام الدین کامل کو بحیثیت قونصل جنرل تعینات کیا گیا ہے۔اس سلسلہ کی تازہ کڑی دونوں ممالک کے تہران میں واقع سفراء کی ملاقات ہے، جس میں انہوں نے باہمی امور اور تعاون پر تفصیلی بات چیت کی۔
جنوری میں افغانستان کے وزیر خارجہ اور ہندوستان کے خارجہ سکریٹری کی دبئی میں ملاقات کو اس سلسلے کا اہم سنگ میل سمجھا جارہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اب تک کی یہ سب سے اہم اور قابل ذکر پیش رفت ہے۔ ہندوستان کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان صحت، افغان پناہ گزینوں پکی امداد اورکاروبار کو فروغ دینے کے سلسلے میں بات چیت ہوئی ہے۔ کئی ترقیاتی منصوبے جو پچھلے تین سالوں سے بند ہیں، ہندوستان ان کو دوبارہ شروع کرنے پر غور کررہا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کی وزارت خارجہ نے دبئی کی اس اعلیٰ سطحی ملاقات کے بارے میں کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ترقیاتی منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے، انسانی امداد فراہم کرنے اور ایران میں واقع چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعہ تجارت کو فروغ دینے کے بار میں بات چیت ہوئی ہے۔ اس سے قبل نومبر 2024میں وزارت خارجہ کے جوائنٹ سکریٹری جیتندر پال سنگھ کی قیادت میں ایک وفد کابل کا دورہ کرچکا ہے۔ اس دورہ میں وفد نے افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے علاوہ وزیر دفاع ملّا محمد یعقوب اور سابق صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی تھی۔ کابل میں واقع ہندوستانی سفارت خانہ بھی کچھ محدود اسٹاف کے ساتھ کام کررہاہے۔
کابل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد ہندوستان پھونک پھونک کرقدم رکھ رہا رہے۔ شروع میں ہندوستان کے سفارت کاروں اور پالیسی سازوں میں گومگوکی کیفیت بہت زیادہ تھی۔ ان کو آگے کنواں اور پیچھے کھائی دکھائی دیتی تھی۔ ایک خیال یہ تھا کہ طالبان سے کسی بھی قسم کا رشتہ رکھنا ان کو شہہ دینے کے مترادف ہے۔ ان کے ماضی کو دیکھتے ہوئے، ان سےکسی بھی قسم کی شراکت صحیح نہیں سمجھی جاتی تھی۔ واضح رہے کہ نوے کی دہائی میں طالبان کی حکومت کے مخالفین میں ہندوستان پیش پیش تھا اور 1999 میں ہندوستانی طیارہ کے اغوا ہونے کے بعد یہ مخالفت اور شدت اختیار کرگئی تھی۔ دوسرا خیال یہ تھا کہ ہندوستان کو دانشمندی اورعملیت پسندی کا ثبوت دینا چاہیے اور اپنے ملکی مفادکوسامنے رکھ کر فیصلے کرنے چاہیے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا بڑی شد ومد کے ساتھ یہ خیال تھا کہ افغانستان کے نئے حکمرانوں سے کوئی تعلق نہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کو پوری طرح پاکستان کے حوالے کردیں۔ پھر یہ ہوگا کہ ہندوستان کے بارے میں رائے قائم کرنے میں پاکستان ہی ان کا رہنما ہوگا۔ ظاہر ہے ہندوستان کے لیے یہ گھاٹے کا سودا تھا۔ لیکن اس وقت مشکل یہ تھی کہ پاکستان میں عمران خان کی حکومت تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان اور عمران خان میں کافی قربت تھی۔ لیکن یہ سلسلہ ایک سال بھی نہیں چل سکا ۔یعنی ایک سال کے اندر اند ر ہی عمران خان کی حکومت چلی گئی اوراس کے بعد سے ہی پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ پاکستان کا الزام ہے کہ پاکستان میں پے درپے ہورہے دہشت گردانہ حملوں میں تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ ہے،جسے افغانستان میں پناہ حاصل ہے۔ طالبان اس الزام کا انکار کرتے رہے ہیں۔ متعدد اعلیٰ سطحی ملاقاتوں اور دوروں کے بعد بھی یہ مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔ اس کےعلاوہ سرحد اور ڈیورانڈ لائن کا تنازعہ پھر سے زور پکڑنے لگا اور اب تک متعدد بار دونوں ممالک کی فوجوں میں جھڑپیں ہوچکی ہیں جس میں فوجیوں اور عوام کی ہلاکت کی بھی خبریں ہیں۔ پاکستان نے سخت سردی کے موسم میں لاکھوں افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کافرمان بھی جاری کردیا اور اس سے رشتوں میں اور تلخی آگئی۔ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے نام پر پاکستانی فوج نے افغان سرحد کے اندر آپریشن کیا، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ایسا ہی ایک آپریشن چند ماہ قبل جنوری میں ہوا جس کی ہندوستان نے بھی مذمت کی اور اس کے چند دن بعد افغان وزیر خارجہ کی ہندوستانی خارجہ سکریٹری سے دبئی میں ملاقات ہوئی۔
چین
حالیہ ہند-افغانستان تعلقات میں ایک دوسرا اہم عنصر چین ہے۔ چین پہلا ملک ہے جس نے 2021 کے بعد طالبان کے تقرر کردہ سفیر کو بیجنگ میں واقع افغانستان سفارت خانے میں قبول کیا۔ ہندوستان اور چین کے رشتے کئی دہائیوں سے مخاصمانہ ہیں ۔ ہندوستان اپنے پڑوسی ممالک میں چین کے بڑھتے عمل دخل کو شک وشبہے کی نظر سے دیکھتا رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ چین ایسا واحد ملک ہے جس سے فی الحال افغانستان کے تعلقات کافی مضبوط ہیں۔ چین اپنے عظیم ترقیاتی منصوبہ بیلٹ اینڈروڈ انیشیٹیو میں افغانستان کو شامل کرنا چاہ رہا ہے جس کی افغانستان نے بھی ہامی بھرلی ہے۔ افغانستان کی سرزمین معدنی ذخائر سے مالا مال ہے۔ چین کی خواہش ہے کہ ان ذخائر کو نکالنے اور ان کو قابل استعمال بنانے کا کام اسے مل جائے۔ گزشتہ دوسال میں اس بابت دونوں ممالک کے درمیان متعددسمجھوتے بھی ہوئے ہیں۔ چین اور افغانستان کی سرحدیں بھی ملتی ہیں۔ چین کے صوبہ شنچیانگ سے افغانستان کے صوبہ بدخشان تک زمینی راستہ بھی موجود ہے۔ شنچیانگ میں حکومت مخالف سرگرمیوں کے حوالے سے چینی حکومت کو کافی تشویش رہی ہے۔ حکومت مخالف گروپوں کے ماضی میں افغانستان میں پناہ اور تربیت لینے کے الزامات بھی سامنے آتے رہے ہیں ۔ افغانستان سے امریکہ اور ناٹو کے انخلاء کے بعد چین نے پوری کوشش کی کہ وہ افغانستان میں اپنا اثر ورسوخ قائم بڑھائے جو کہ اس کے لئےاقتصادی اور اسٹریجک تناظر میں بہت اہم ہے۔ لہذا چین پوری کوشش اور تندہی سے افغانستان میں اپنے پیر جمانے میں مصروف ہے اور یہ ہندوستان کے لیے ایک درد سر ہے۔
بھارت کی افغانستان میں سرمایہ کاری اور ترقیاتی پروجکٹ:
سال 2001 میں افغانستان پر امریکی حملہ اور طالبان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد سے ہندوستان افغانستان کے مختلف ترقیاتی منصوبوں میں شامل رہا ہے۔ بیس سال کے اس عرصہ میں ہندوستان نے امدادی اور ترقیاتی کاموں میں تین بلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے اور 500 سے زائد ترقیاتی پروجکٹ مکمل کیے ہیں۔ اہم ترقیاتی منصوبوں میں سلمیٰ ڈیم، افغان پارلیمنٹ بلڈنگ کے علاوہ توانائی، پانی کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیر، صحت، تعلیم، زراعت اور استعدادِ کار میں اضافے جیسے اہم شعبے شامل ہیں۔
افغانستان بھارت کا اہم تجارتی شراکت دار رہا ہے۔ طالبان کی حکومت بننےکے بعد اس میں کچھ رکاوٹ آئی ہے لیکن اب پھر تجارتی حجم بڑھ رہا ہے۔ سال 2023-24میں دونوں ممالک کے درمیان 650 ملین ڈالر کی تجارت ہوئی ہے جس میں ہندوستان نے افغانستا ن کو برآمد کی بہ نسبت زیادہ سامان درآمد کیا ہے۔ سال 2019-20 میں یہ تجارت تقریبا ایک بلین ڈالر تھی۔
اس کے علاوہ 15ہزارسے زائد افغانی ہندوستان میں بحیثیت پناہ گزیں مقیم ہیں۔ بیس سالوں میں ہزاروں افغانی طلبہ وطالبات حکومت ہند کی اسکالرشپ پر یہاں تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ 2021 سے قبل افغانی مریضوں کی ایک بڑی تعداد دہلی، ممبئی، بنگلور وغیرہ کا علاج کے لیے رخ کرتی رہی ہے، جو اب ویزا میں ہورہی دشواریوں کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے۔
دسمبر 2023 میں پارلیمنٹ میں ایک سوال کے تحریر ی جواب میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بتایا کہ کابل میں ہندوستانی سفارتخانے کے اہلکار طالبان کے قبضے کے بعد ہندوستان واپس آگئے تھے، تاہم جون 2022 سے ایک ہندوستانی تکنیکی ٹیم کابل کے سفارت خانے میں تعینات ہے، جو انسانی امداد اور دیگر امور میں سرگرم عمل ہے۔
ہندوستان نے انسانی بنیادوں پر افغانستان کو 50 ہزار میٹرک ٹن 250 ٹن طبی امداد اور 28 ٹن زلزلہ متاثرین کے لیے امدادی سامان بھیجا ہے۔ ہندوستان نے افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (UNODC) کے ساتھ شراکت داری کرکے، منشیات کے عادی افراد، خصوصاً خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے امداد فراہم کی ہے، جس میں 2022 سے اب تک گیارہ ہزار یونٹس پر مشتمل حفظانِ صحت کے کٹس، بچوں کی غذائی اشیا، کمبل، لباس، طبی امداد اور دیگر سامان کابل میں UNODC کو فراہم کیا ہے۔
وزیر موصوف نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ افغان طلبہ کے لیے انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز (ICCR) نے اسکالرشپ اسکیم جاری رکھی ہے۔ اگست 2021 کے بعد سے، ICCR نے 3000 سے زائد افغان طلبہ، بشمول 600 افغان طالبات، کو داخلہ دیا ہے۔ افغانستان میں مقیم طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کے مواقع کو مزید قابلِ رسائی بنانے کے لیے، ICCR نے اس تعلیمی سال میں ای-ودیا بھارتی پورٹل کے ذریعے 1000 افغان طلبہ کے لیے ہندوستانی یونیورسٹیوں میں آن لائن اسکالرشپ اسکیم بھی متعارف کرائی، جس کے تحت 30 فیصد داخلے طالبات کو دیے گئے۔ علاوہ ازیں، بھارت نے افغان نیشنل ایگریکلچرل سائنس اینڈ ٹیکنیکل یونیورسٹی (ANASTU) کے ساتھ اپنی شراکت کو برقرار رکھتے ہوئے زرعی تعلیم کے شعبے میں افغان طلبہ کے لیے آن لائن اسکالرشپ کی پیشکش جاری رکھی ہے۔ ہندوستان میں افغانستان کے سفارتی مشن اور ممبئی و حیدرآباد میں افغان قونصل خانے بدستور فعال ہیں۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران کچھ افغان سفارت کار تیسرے ممالک میں رہائشی اجازت نامہ حاصل کر کے ہندوستان سے جا چکے ہیں، تاہم ہندوستان میں مقیم افغان سفارت کار افغانستان کے سفارتی امور کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔
سیکورٹی سے متعلق خدشات:
افغانستان میں طالبان کی واپسی سے ہندوستان سمیت کئی ممالک کو ملکی سیکورٹی کے حوالے سے بھی خدشات لاحق ہیں۔ ان سالوں میں طالبان نے متعدد بار یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ اور ان چند سالوں میں بھی پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک نے افغانستان پر کوئی الزام عائد نہیں کیا ہے۔ سیکورٹی کے حوالہ سے ایک دوسرا چیلنج افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ کی موجودگی ہے۔ اسلامک اسٹیٹ کی خراسان شاخ نے گزشتہ چند سالوں میں افغانستان میں متعدد دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں کئی سینئر حکومتی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ افغانستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی نوعیت بہت نازک ہے۔ نازک اس لیے کہ ہندوستان گوناگوں وجوہات کی بنا پر کھل کر نہ تو اس سے مضبوط رشتہ استوار کر پارہا ہے اور نہ ہی خود کو اس سے الگ کرسکتا ہے۔ نئی دہلی میں بیٹھے پالیسی ساز اور سیاست داں اسی گومگو کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ البتہ دوسرے ممالک کی دیکھا دیکھی اور پاکستان سےا فغانستا ن کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے بھارت کی سرد مہری کچھ کم ضرور ہوئی ہے ۔ اب ہندوستان کو تعلقات کی استواری اور استحکام پر توجہ دینی چاہیے۔ اسی صورت میں وہ اپنے ملکی مفادات کا تحفظ بھی کرسکتا ہے اور یہ اپنے ملک اور افغان عوام دونوں کے لیے مفید بھی ہوسکتاہے۔