گزشتہ جولائی سے ہی ’’بنگلہ دیش ‘‘بھارتی میڈیا کی سرخیوں میں ہے۔اگست میں شیخ حسینہ کے زوال اور محمد یونس کے ذریعہ عبوری وزیر اعظم کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سے ہی ’’بنگلہ دیش میں ہندو خطرے میں ہے‘‘۔’بھارتی میڈیا ’بنگلہ دیش میں مندروں کو منہدم کیا جارہا ہے‘‘،جیسی سرخیوں سےچھایا ہوا ہے۔ہندتو قدامت پسند تنظیمیں ،میڈیا اور بی جے پی مخالف جماعتوں کی طرف سے بھی اس معاملے کو شدت سے اٹھایاجارہا ہے۔ممتا بنرجی گزشتہ دس دنوں میں تین مرتبہ مغربی بنگال اسمبلی میں’’ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کےتحفظ سے متعلق سخت بیانات دے چکی ہیں بلکہ انہوں نے مرکزی حکومت کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں امن فورس بھیجنے کے لیے پہل کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔کئی حلقوں سے بنگلہ دیش میں مداخلت کی آواز بلند ہورہی ہے۔اب تو ملک کی مسلم تنظیمیں اور مسلم شخصیات بھی بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے تحفظ اور سیکورٹی کے سوال پر’ میڈیائی پروپیگنڈے‘کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے پریس کانفرنس اوربیانات دے رہی ہیں ۔
بھارتی میڈیا کی ہنگامہ آرائی اور سیاسی جماعتوں کا شور و غل اپنی جگہ مگر کئی بنیادی سوالات ہیں جن کا جائزہ لیے بغیر اصل حقائق تک نہیں پہنچا جاسکتا ہے۔پہلا بنیادی سوال یہی ہے کہ بھارت کی میڈیا میں جس طریقے سے ہندوؤں پر حملے سے متعلق واویلا کیا جارہا ہے کیا وہ حقائق پر مبنی ہیں؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ حملے ، تشدد کی خبریں کن ذرائع سے آرہی ہیں ؟ تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی آبادی کا محض 8فیصدآبادی ہندوؤں پر مشتمل ہے۔اس کے باوجود حسینہ کے زوال کے محض تین دن بعد سے ہی بنگلہ دیش میں آباد اقلیتی جماعتیں اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج کا انعقاد کیوں کررہی ہے؟ آخری الذکر سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ شیخ حسینہ کے زوال کے بعد عوامی لیگ کے لیڈران ، حامی ، ورکرس اور حکومتی کارندوں کے خلاف عوامی ناراضگی بڑے پیمانے پر سامنے آئی ۔ چناں چہ لاقانونیت ، پولس انتظامیہ کی بے عملی کی وجہ سے شیخ مجیب الرحمن کےمجسمے ، وزیر اعظم ہاؤس ، عوامی لیگ کے حامی ، مرکزی وزرا اور حکومتی کارندوں کے مکانات پر پر توڑ پھوڑ ہورہی تھی مگر اچانک بھارتی میڈیا میں اقلیتوں پر حملے کی خبریں گردش کرنے لگی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس خبر میں شدت آتی چلی گئی۔جب کہ بی بی سی اور کئی بین الاقوامی میڈیا مندرروں اور دیگر اقلیتوں کے مذہبی مقامات کی حفاظت کرنے کی تصویریں بھی سامنے آئیں ۔مدرسوں کے طلبہ مندروں کی حفاظت کرتے ہوئے نظرآئے مگر یہ سب بھارت کی میڈیا سے غائب تھا۔
8ستمبر کو محمد یونس نے عبوری حکومت کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا اور 9ستمبرکو ہی شاہ باغ با اسکوائر میں ملک کے مختلف حصوں سے سڑکوں سے نکل پر ہندو بڑی تعداد میں جمع ہوگئے اور لاقانونیت ،ہندوؤں کے گھروں اور مندر وں پر حملہ کے خلاف احتجاج کرنے لگے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے گزشتہ چند برسوں میں شیخ حسینہ کے سیاسی مخالفین نےاس بیانیہ کومضبوط کیا تھا کہ حسینہ حکومت ہندوؤں کی منھ بھرائی کررہی ہے اور حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر غیر مسلموں کی تقرری نے ناراضگی پھیلائی اور عوامی لیگ خود کو اقلیتوں کے محافظ کے طور پر پیش کرتی تھی چناں چہ حسینہ کے حامی غیر مسلم لیڈران بھی زد میں آئے ۔
بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملے سے متعلق خبریں کن ذرائع سے آرہی ہے اس کا صحیح انداز ہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کسی بھی بھارتی میڈیا کاکوئی نمائندہ ڈھاکہ یا پھر بنگلہ دیش کے کسی بھی شہر میں موجودنہیں ہےاور نہ ہی بنگلہ دیش کے کسی بھی میڈیا کا کوئی نمائندہ دہلی اور کلکتہ میں موجود ہے اس لئے جو خبریں آرہی ہیں وہ کسی ایجنسی کے ذریعہ یا پھر وائرل ویڈیوکی بنیاد پر بنائی جارہی ہے ۔بھارتی میڈیا میں ہندوؤں پر حملے کی کئی ایسی ویڈیوز دیکھائی گئیں جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں ۔حال ہی میں کلکتہ کے دو صحافیوں مونو دیپا بنرجی (سابق سینئر صحافی این ڈی ٹی وی) اور آزد صحافی سنگھنندو بھٹا چاریہ (بنگال میں آر ایس ایس اور ہندتو تنظیموں کے عروج پپر کتاب کے مصنف )نے بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملے سے متعلق اہم اسٹوری لکھی ہے۔ان دونو ں نے بنگلہ دیش میں مابعد انقلاب دورہ بھی کیا ہے اور چوں کہ ان دونوں کی زبان بنگلہ ہے اس لئے انہوں نے گہرائی کے ساتھ صحیح صورت حال پیش کیا ہے۔ان دونوں صحافیو ں کی اسٹوریاں کافی اہم اورچشم کشا ہے۔
ان دونوں سینئر صحافی کی رپورٹ پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طرف غلط فہمی اور عدم اعتماد ہے اور عمل و رد عمل کا کھیل جاری ہے۔ دونوں طرف شدت پسندقوتیں ان حالات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہیں جب کہ شدت پسند جماعتوں کے رویے سے بھارت اور بنگلہ دیش دونوں کو اقتصادی نقصانات کا سامنا ہے۔دونوں ملکوں کے درمیا ن 4لاکھ بلین ڈالر کی سالانہ تجارت ہوتی ہے۔بنگلہ دیش کے مقابلے بھارت کے لیے بنگلہ دیش بڑی مارکیٹ ہے۔کلکتہ ، بنگلوراور اگرتلہ کے بڑے بڑے اسپتال اس وقت بحرانی دور سے گزررہے ہیں کیوں کہ بنگلہ دیش سے ہیلتھ ٹورازم کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔بیرون ممالک سے آنے والے ہیلتھ ٹورازم میں سے 50سے 60فیصد بنگلہ دیشی ہوتے ہیں ۔کلکتہ شہر کے اسپتالوں میں 30سے 40فیصد مریض بنگلہ دیشی ہوتے ہیں ۔تاہم جولائی کے بعد سے ہی مریضوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔اس کی وجہ سے نہ صرف اسپتال متاثر ہوئے ہیں بلکہ ہوٹل ، ریسٹورنٹ مقامی دوکاندار متاثر ہیں۔چوں کہ ہرایک سوال کو نیشنل ازم سے جوڑ دیا جاتاہے۔ اس لئے بھارت بالخصوص کلکتہ اور تری پوری میں کئی ہندو تنظیمیں تحریک چلارہے ہیں کہ ڈاکٹرس اور اسپتال علاج کرنے سے منع کریں ۔کچھ ڈاکٹرس اور اسپتال اور ہوٹل انتظامیہ نے دباؤ میں آکر اعلان بھی کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیشیوں کا علاج نہیں کریں گے۔ ہوٹلوں نے بھی اس طرح کا اعلان کیا ۔تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا یہ میڈیکل اخلاقیات ہے۔ڈاکٹروں کو پہلا سبق پڑھایا جاتا ہے کہ وہ بغیرکسی تفریق کے علاج کریں گے ۔مگر بنگلہ دیش کی اندرو نی سیاست کی بنیاد پرکسی بھی ضرورت مند کا علاج کرنے سے انکار انسانیت کو شرمندہ کردینے والی بات ہے۔
کلکتہ میں مقیم آزاد صحافی سنگھنندو بھٹاچاریہ نے انگریزی میں مختلف عناوین سے دو مضامین لکھے ہیں مگر دونوں مضامین کا بنیادی مقصد بنگلہ دیش میں ہندتو تنظیموں کی سرگرمیوں کا جائزہ لینا ہے۔بھٹاچاریہ کے مضمون کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ انہوں نے بہت ہی قریب سے بنگال اور شمال مشرقی ریاستوں میں ہندتو کے علمبرداروں کا تجزیہ کیا ہے اور اس موضوع پر کام بھی کیا ہے۔۔ان کی مشہور کتاب Mission Bengal A saffron Experimentاس موضوع پر کافی اہم ہے۔ سنگھنندو بھٹاچاریہ نے حسینہ کے زوال کے بعد بنگلہ دیش کا دورہ کرنے کے بعد ہندوؤں پر حملے کی خبر اور اس کی وجوہات کا جائزہ لیا ہے۔ شروع میں جو دو بنیادی سوال اٹھائے گئے ہیں کہ آخر حسینہ کے زوا ل کے بعد جب لاقانونیت کا ماحول تھا اور کوئی بھی حکومت نہیں تھی اس وقت منظم انداز میں ہندو تنظیمیں اچانک متحدہوکر ’’شاہ باغ میں کیوں جمع ہوئی ، یہی وہ سوال ہے جس نے بنگلہ دیش میں اس شک و شبہ کو مضبوط کردیا کہ حسینہ ان کی آڑ میں سیاست کررہی ہے اور چوں کہ حسینہ کو بھارت نے پناہ دی ہے وہ ان تنظیموں کی سرپرستی کررہی ہے۔
بھٹاچاریہ لکھتے ہیں کہ ’’بنگلہ دیش کی روایتی اقلیتی حقوق کی تنظیموں جیسے بنگلہ دیش ہندو بدھسٹ کرسچن یونٹی کونسل اور بنگلہ دیش پوجا اُدجاپن پریشد کےاپیلوں پر ہزاروں لوگ سڑکوں پر جمع ہوئے۔مظاہرین حقوق اور انصاف کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ ’’جے شری رام ‘‘ کے نعرے بھی لگارہے تھے۔جے شری رام کا نعرہ بھارت کی ہندو قوم پرست قوتوں سے وابستہ ایک متنازع نعرہ ہے۔بھٹاچاریہ اپنے دوسرے مضمون میں لکھا ہے کہ اسکان تنظیم دنیا بھر میں کھانے کی تقسیم کے لیے جانی جاتی ہے ،مگر بنگلہ دیش میں اس کی شناخت کچھ اور ہے۔حالیہ برسوں میں اسکان نے بنگلہ دیش میں اپنے دائرے کو تیزی سے وسیع کیا ہے اور مندروں کو بڑی تعداد میں اپنے زیر انتظام کیا ہے۔دوسرے یہ کہ اس سے وابستہ افراد پوری دنیا میں ہرے کرشنا اور ہرے رام کے نعرے لگاتے ہیں مگر بنگلہ دیش میں یہی لوگ ’’جے شری رام ‘‘ کے نعرے لگاتےہیں۔جس سے خفیہ پیغام جاتا ہے کہ وہ بھارت کے متنازع اور سیاسی نعرہ جے شری رام کے نعرے کے ذریعہ بھارت کی ہندو دائیں بازو کی جماعتوں کے نظریات کو آگے بڑھا رہی ہیں۔اس صورت حال نے بنگلہ دیش کے مسلمانوں میں رد عمل پیدا کیا ہے۔
’’ہندو ثقافتی قوم پرستی‘‘ ایک سیاسی نظریہ ہے ۔اس نظریہ کے پرچارک آر ایس ایس کی سوچ کا محور ’’اکھنڈ بھارت ‘ کا قیام ہے۔ غیر منقسم ہندوستان کی بحالی جو افغانستان سے بنگلہ دیش اور میانمار تک، نیپال اور تبت سے سری لنکا تک پھیلا ہوا ہے۔بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں پر الزامات لگتے رہے ہیں کہ وہ بھارت کے آر ایس ایس کے اشارے پر کام کررہی ہیں ۔اس طرح کی سوچ کوئی نئی نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ پروپیگنڈہے یا پھر اس کے پیچھے کچھ حقیقت بھی ہے۔ بی جے ایچ ایم (بنگلہ دیش ہندو چھاترا مہاجوٹ یاہندو جوبو مہاجوٹ )ایک ہندو حقوق کی تنظیم ہے جس کی بنیاد ڈھاکہ میں 2006 میں رکھی گئی تھی۔ اسی تنظیم کی وجہ سے بنگلہ دیش میں بہت سے لوگ بنگلہ دیش میں ہندوتوا کی جڑیں تلاش کرتے ہیں۔ان تنظیموں پر الزام ہے کہ ان کے تعلقات آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈران ہیں ۔بی جے ایچ ایم کے رہنما اس سے قبل اکھنڈ بھارت تجویز کی وجہ سے متنازع بن چکے ہیں ۔اس کے رہنماؤں کے بھارت دورے اور اس دوران ان کے بیانات نے بنگلہ دیش میں کافی تنازع کھڑا کیا ہے۔
نہار ہلدار اور اسکان کے سابق پنڈت چن موئے داس جو اس وقت جیل میں ہیں،اس پورے تنازع کا اہم کردار ہیں ۔نہار ہلدار ستمبر کے وسط میں بھارت کے دورے پر آئے۔ انہوں نے اپنے ایک فیس بک اکاؤنٹ سے تریپورہ اور مغربی بنگال میں بی جے پی رہنماؤں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی تصاویر شیئر کیں، جو بعد میں انہوں نے ڈیلیٹ کردی ۔تصاویر میں ہلدار 21 ستمبر کو بی جے پی تریپورہ کی رکن پارلیمنٹ پرتیما بھومک کے ساتھ، 27 ستمبر کو کلکتہ میں تریپورہ اور میگھالیہ کے سابق گورنر تتھاگتا رائے، یکم اکتوبر کو بنگال بی جے پی کے کلچرل سیل کے کنوینر رودرنیل گھوش، بنگال بی جے پی کے ممبر اسمبلی اسیم سرکار کلکتہ کے بی جے پی پارٹی دفتر میں ملاقات کی۔ 28 اکتوبرکو انہوں نے بی جے پی بنگال یونٹ کے سابق صدر دلیپ گھوش سے ملاقات کی۔نہار ہلدار نے بنگلہ دیش پہنچنے سے پہلے 9 نومبر کو بھومک کے ساتھ دوبارہ ملاقات کی۔چوں کہ نہار ہلدار بنگلہ یش میں ہندوؤں پر حملے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے قائدین میں شامل تھے ۔ہلدار کے بھارت دورے اور بی جے پی لیڈروں سے ملاقات و متنازع بیان نے اس شبہ کو مزید تقویت پہنچایا چناں چہ بی ایچ جے ایم نے یکم اکتوبر کو ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ ہلدار کو ملک واپس آنے تک تمام ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے اور تنظیم نےان کے بیرون ملک قیام کے دوران کیے گئے تبصروں سے بھی خود کو الگ کرلیا۔مگر ہلدار نے جلد ہی ایک اور تنظیم بنگلہ دیش سناتن جاگرن منچ (BSJM) بنالی اور ہلدار اس جے کوآرڈینیٹر اور چنموئے داس کوترجمان بنانے کا اعلان کیا گیا۔اکتوبر میں بی ایچ جے ایم اور بی ایس جے ایم دونوں نے ہندوؤں کے حقوق کو لے کر احتجاج کیا ۔نومبر کے دوسرے ہفتے میں ہلدار بنگلہ دیش واپس آئے اور چنموئے داس کے ساتھ سرگرم عمل ہوگئے۔نومبر میں ہی تمام ہندو تنظیموں نے مشترکہ پلیٹ فارم کی تشکیل کی۔اس کا نام بنگلہ دیش سمیلیٹو سناتنی جاگرن جوٹے رکھا گیا اور چنموئے کرشنا داس اس کے ترجمان بن کر سامنے آئے۔ان تنظیموں کے احتجاج کے دوران حقوق کے مطالبات کے ساتھ ’’جے شری رام کے نعرے کی بھی گونج دور تک سنی جانے لگی۔سوال یہ ہے کہ چنموئے کرشنا داس جس کی گرفتاری کو لے کر خوب واویلا مچایا جارہا ہے وہ ایک متنازع کردار ہے۔اس پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات ماضی میں لگ چکے ہیں اور خود اسکان نے بھی اس سے دوری قائم کرلی تھی۔نہار ہلدار بھی ایک سیاسی کردار ہے۔
نہار ہلدار اور چنوموئے کرشنا داس جیسے متنازع کردار کی قیادت ، جے شری رام کے نعروں کی گونج اور بھارت میں میڈیائی پروپیگنڈے نے بھی رد عمل پیدا کیا۔اس لئے بنگلہ دیش میں حسینہ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کی قیادت نے بھی جئے شری رام کا نعرہ بلند کرنے والے مظاہرین پر اعتراض کرنا شروع کر دیا تھا۔طلبہ قیادت کا دعویٰ تھا کہ بھارت میں مسلم مخالف حملوں کو بھڑکانے میں اس نعرے کا اہم کردار رہا ہے۔بنگلہ دیش میں بھی وہی حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔چنموئے کرشنا داس نے گرفتاری سے قبل اس پر صفائی پیش کی کہ اگر دہشت گرد گروپوں کے ذریعہ نعرہ لگانے کے باوجود اللہ ہو اکبر دہشت گردی کا نعرہ نہیں ہے تو جے شری رام کا نعرہ بی جے پی اور آر ایس ایس کا نعرہ کیسے ہوسکتا ہے۔سنگھنندو بھٹاچاریہ نے لکھا ہے کہ سیاسی تجزیہ نگار بنگلہ دیش میں ہندتو تحریکوں کے آغاز کو 2006سے جوڑتے ہیں۔ جب ہندو مہاجوٹ کا قیام عمل میں آیاتھا۔اسی دور میں رام نومی کے جلوس کے انعقاد اور اس میں ہتھیاروں کی نمائش کی شروعات ہوئی ۔ہندو مہاجوٹ نے بیرون ملک شاخیں کھولیں اور آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ساتھ تنظیمی روابط برقرار رکھے۔اس تنظیم نے اس دوران شیخ حسینہ کے ساتھ اپنی سیاسی وابستگی باقی رکھی ہے اور حسینہ کی ہر ایک پالیسی کی حمایت کرتی رہی ۔تاہم 2021میں یہ تنظیم اختلافات کی شکار ہوگئی ۔ہندو مہاجوٹ کے سیکریٹری جنرل گوبندا پرمانک نے عوامی لیگ کی حمایت کی شدید مخالف کی اور وہ بنگلہ دیش کی دیگر سیاسی طاقتوں سے تعلقات استوار کیا ہے۔ بھٹاچاریہ نےبی جے ایچ ایم کے ایک رکن جنہوں نے نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط رکھی ہے کے حوالے سے لکھا ہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ صورت حال کی وجہ بھارت کی ہندتوا علامتوں کا استعمال جیسے نعرہ جئے شری رام، ہنومان کی تصویر، رام نومی کے موقع پر ہتھیاروں کی نمائش اور حسینہ کے ساتھ غیر مشروط حمایت اس کے علاوہ بنگلہ دیش میں بھی مسلمانوں پر لو جہاد کے الزامات لگاکر مہم چلانا بھی شامل تھا۔بھٹا چاریہ نے تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھا نے کی کوشش کی ہےجس میں انہوں نے کئی ہندتو تنظیموں کے لیڈروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ حسینہ کے دوراقتدار کے آخری برسوں میں ہندوؤں پر حملے کے واقعات نے ہندوؤں کومزید شدت پسند بنادیا ہے۔ان کی مایوسی نے انہیں بھارتی سیاست دانوں سے مدد لینے پر مجبور کردیا ۔اس لئے ان سالوں میں ہندوؤں کی کئی ایسی تنظیموں کا قیام میں آیا جو بھارت کے ہندو تنظیموں کے نام سے مماثل ہے۔جیسے بنگلہ دیش ہندو جاگرن منچ جو بھارت میں ہندو جاگرن منچ کے مماثل ہے۔رونی راجبونگشی نے 2023 میں مہاکال سویم سیوک فاؤنڈیشن (MSF) کی بنیاد رکھی۔ سویم سیوک آر ایس ایس سے وابستہ اصطلاح ہے۔ آر ایس ایس اپنے اراکین کو ’’سویم سیوک‘‘کہتا ہے، جو رضاکار کے لیے سنسکرت کا لفظ ہے۔ صرف آر ایس ایس سے وابستہ افراد بھارت میں خود کے لیے اس اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں، MSF بھی اپنے رضاکاروں کو سویم سیوک کہتی ہے۔گرچہ اس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ ان کا تعلق آر ایس ایس اور ہندو تنظیموں سے نہیں ہے۔تاہم مماثلت شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں یہ بات خوش آئند ہے کہ پی این بی اور جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈران میں اقلیتوں کے خلاف اس قدر زہر افشانی نہیں ہے جو یہاں بی جے پی کے سینئر لیڈروں کے زبان میں سننے میں آتی ہے۔یونس سے لے کر پی این بی اور جماعت اسلامی تک ہرایک اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور سیکورٹی کو یقینی بنانے کی بات کرتے ہیں ۔میڈیا میں بھی وہ نفرت نہیں پائی جاتی ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کے دیہی علاقوں میں کئی مذہبی رہنماؤں کی تقریر وںمیں ہندوؤں کے خلاف نفرت انگیز بیانات میں اضافہ ہوا ہے۔ان مذہبی رہنماؤں کی تقریر میں بھارت میں اقلیتوں کے حالات کے حوالے ہوتے ہیں اور بنگلہ دیش میں ہندوجماعتوں کے آر ایس ایس کے تعلقات پر بھی اعتراض ہوتا ہے۔حسینہ کے زوال کے بعد بنگلہ دیش میں ہندو جماعتوں کی سرگرمیوں میں اضافہ نے غلط فہمی کو مزید بڑھادیا ۔بھارتی میڈیا کی لگاتار نفرت انگیز مہم نے بنگلہ دیش میں مقیم ہندوؤں کے جان کی حفاظت کرنے کے بجائے مزید خطرے میں ڈال دیا ہے۔
بھارت اور بنگلہ دیش دنوں آزادملک ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کی آزادی ، خودمختاری کو قبول کرنے کے ساتھ بہترین پڑوسی بھیر ہےہیں۔دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت محض ایک پڑوسی کی بنیادی پر نہیں بلکہ تزیویراتی اعتبار سے بھی ہے۔ایک طرف جہاں بنگلہ دیش کو کپاس ، الیکٹرانک سازو سامان ، کھانے پینے کی اشیا ،ادویات ، میڈیکل سازو سامان اور دیگراشیاکے لیے بھارت سے برآمدات کی ضرورت ہے۔دوسری طرف بھارت کے لیے بنگلہ دیش کوئی غیرا ہم نہیں ہے۔4ہزار طویل کلو میٹر سرحد بھارت سے جڑتی ہے۔شمال مشرقی ریاستوں تک جلد سے جلد پہنچنے کے لیے بنگلہ دیش کی سرزمین کا استعمال ضروری ہے وہیں مشرقی ممالک تک پہنچنے کے لیے بنگلہ دیش کافی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ایسے میں سوا ل یہ ہے کہ کیا دونوں ممالک اپنے ایسے پڑوسی سے دور رہ کر ترقی کے منازل طے کرسکتے ہیں۔ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ نئے معاہدہ کے باوجود ہندوستان کی چین سے قربت نہیں ہوسکی ہے۔ پاکستان سے تعلقات کشیدہ کئی دہائیوں سے ہے، نیپال اور سری لنکا بھی بھارت سے دور ہوتے جارہے ہیں۔میانمار میں غیر یقینی صورت حال ہے۔فوجی جنتا اور باغیوں کے درمیان مقابلہ آرائی جاری ہے۔منی پور میں حالات کشیدہ ہونے کی وجہ سے میزو اور کوکی قبائل میں ناراضگی ہے ۔ایسے میں کیا بھارت محض نظریاتی برتری اور بنگلہ دیش اپنی چند بڑبولی اور تنگ نظر جماعتوں کی وجہ سے ایک بہترین اور پرامن پڑوسی سے دور رہ سکتا ہے اور یہ کیا دونوں ملکوں کے مفادمیں ہے۔اس لئے ضرورت ہے کہ دونوں ممالک میڈیا کےپروپیگنڈے اور نظریاتی برتری جیسی سوچ سے اوپر اٹھ کر اپنے ملک اور اپنی عوام کے مفادات میں کام کریں اور اسی سے دونوں ممالک میں امن و امان رہے گا۔