عبدالباری مسعود
اظہار رائے اور اختلاف رائے کی آزادی کسی بھی جمہوری نظام حکومت کی اصل روح ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک میں مئی 2014 میں جب سے نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بر سر اقتدار آئی ہے تب سے حکومت کی پالیسوں سے اختلاف کرنا ، اس پر تنقید کرنا ایک’ سنگین جرم‘ بن گیا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی جمہوری ملک نہیں بلکہ ایک پولیس اسٹیٹ ہے ۔ ایک طرف اختلاف رائے کرنے والوں کو فوراً ’’ ملک دشمن‘‘،’’ قوم دشمن‘‘ اور’’ پاکستان حامی‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے تو دوسری طرف تعزیرات ہند کی دفعہ 124(A) ( بغاوت) کے تحت اور انسداد دہشت گردی کے ترمیم شدہ سخت قانون یو اے پی اےکے تحت تھوک کے حساب سے مقدمے دائر کئے جاتے ہیں۔ جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ان تعزیری دفعات کا مخالفین بالخصوص ملک کے دوسرے بڑے مذہبی طبقہ کے افراد کے خلاف اس بیدردی اور ظالمانہ طریقہ سے اطلاق کیا جارہا ہے جیسے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ختم ہوچکی ہے۔
ایک مثال کرناٹک کے تاریخی شہر بیدر میں شاہین پرائمری اسکول کی ہے، جہاں متنازع اور امتیازی شہریت ترمیم قانون یا سی اے اے Citizenship Amendment Act اور این آرسی اور این پی آر کے خلاف ایک ڈرامہ پیش کیا گیا تھا، جسے بچوں نے پیش کیا تھا اور اس ڈرامہ میں وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں مبینہ طور پر بعض اہانت آمیز مکالمے تھے۔ بس کیا تھا کہ کرناٹک کی پولیس جہاں بی جے پی بر سر اقتدار ہے، فوراً حرکت میں آئی یہاں تک کہ معصوم بچوں کو جو اس ڈرامہ کے کردار تھے ‘ کی بھی بار بار باز پرس کی گئی۔ صدر معلمہ فریدہ بیگم ، طالبہ کی والدہ اور ٹیچر نجیب النساء اور اسکول انتظامیہ پر غداری کامقدمہ دائر کردیا ۔ ان دونوں معلمات کو بیدر پولیس نے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ۔ یہ دونوں خواتین دوہفتہ جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوئیں ۔
اس سے پہلے جواہر لعل نہرویونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر شرجیل امام پر بھی غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا ۔ ان کا قصور یہ ہے کہ سی اے اے کے خلاف تقریروں میں انہوں نے آسام میں مسلمانوں کی حالت زار کا معاملہ اٹھایا اور اسے حل کرنے کی جہت میں یہ مشورہ دیا کہ آسام اور پورے شمال مشرقی ہند کا راستہ روک کر بقیہ ملک سے کاٹ دیا جائے، جب ہی حکومت کے کان پر جوں رینگے گی۔ یہ اتنا بڑا ’جرم‘ بن گیا کہ نہ صرف دہلی میں بلکہ آسام ، ارونا چل پردیش اور یوپی میں بھی ان کے خلاف دفعہ 124(A) کےتحت مقدمہ دائر کردیا گیا ۔ اس پر ہی بس نہیں کیا گیا۔شرجیل پر انسداد دہشت گردی کا سخت ترین قانون یو اے پی اے لگا دیا گیا۔ اب اسے آسانی سے ضمانت بھی نہیں ملے گی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ شرجیل کی حمایت میں کوئی بھی سامنے نہیں آیا ۔ روشن خیال سے لے کر قدامت پسند تمام مسلمان اور حقوق انسانی کے کارکن خاموش ہیں ۔ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال بھی بہ و جوہ الیکشن شرجیل کو پس زنداں دیکھنا چاہتے تھے۔ بمبئی میں ٹرانس جینڈروں ( تیسری جنس ) نے ایک احتجاجی جلوس نکالا جس میںٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسیز کے طالب علم اروشی چوڑاوالا ( ٹرانس جینڈر) نے ہمت کرکے شرجیل کے حق میں نعرے لگائے ۔ یہ ان کے لئے آفت کا سبب بن گیا ۔ انہیں بھی دفعہ 124(A) کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ لیکن بامبے ہائی کورٹ نے اسے بچالیا اور نچلی عدالت کے فیصلہ کو رد کردیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نچلی عدالتیں کس طر ح اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اب دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اپنی زیادتیوں اور پرتشدد کارروائیوں پر پردہ ڈالنے کی غرض سے شرجیل کو ’’ ماسٹر مائنڈ‘‘ بنایا ہے۔
ممتاز دانشور ، پروفیسر اپوروا نند نے انڈین ایکپریس میں اپنے ایک مضمون میں شرجیل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اگر شرجیل تشدد پر اکسانے کی بات نہیں کرتا ہے تو ہم اس کے بیانات سے اتفاق و عدم اتفاق کرسکتے ہیں۔ اس نے اپنی تقریروں میں ہندوستان کے ٹکڑے کرنے کی بات نہیں کی ہے۔ وہ سڑک بندکرنے کی بات کررہا تھا۔ ہندوستان میں کب سے روڈبلاک کرنے کا معاملہ غداری کا معاملہ بن گیا ہے ۔ کیا شرجیل کا یہ کہنا غلط ہے کہ اس کی تقریر کا مواد نہیں بلکہ اس کا نام اس کے خلاف جاتا ہے ؟ یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں کہ اگر ریاست ( حکومت ) اس کی تقریر سے اختلاف رکھتی ہے تو وہ بغاوت کے الزامات عائد کرنےکی بنیاد کسی بھی حال میں نہیں ہونا چاہیے۔ ‘‘
مرکزی وزراء گری راج سنگھ، انوراگ ٹھاکر، کرشن ریڈی وغیرہ کی روز مرہ کی اشتعال انگیزی بالخصوص کو ’ گولی مارو ان غداروںکو! ‘ جیسا تشدد پر اکسانے والی نعرےبازی کے باوجود ان پر کوئی کارروائی نہ ہونے کاذکر کرتے ہوئے ، پروفیسر آنند نے کہا کہ ــ’’ ہندوستان میں جہاں مسلمانوں کے خلاف تشدد کرنے کی کھلے عام دعوت دینے والے ‘جن میں وزراء اور سیاسی لیڈران بھی شامل ہیں اور مسلمانوں کے خلاف کھلے عام پروپیگنڈا کرنے والوں کو جذبات و احساسات کے اظہار کا فطری ردعمل سمجھا جاتا ہے‘ وہاں شرجیل جیسے افراد کو دبانے اور کچلنے پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 2015سے 2018کے درمیان چار سالوں میں 291 بغاوت کے مقدمات دائر کئے گئے ۔ اس کے علاوہ شمال مشرقی ریاست آسام میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے 251 افراد پر اس دفعہ کے تحت مقدمات قائم کئے گئے ۔ ان میں سماجی کارکن اکھل گوگوئی، دانشور پروفیسر گوہین بھی شامل ہیں۔
ملک میں اظہار رائے کی آزادی پر جس طرح کے پہرے لگائے جارہے ہیں، اس پر سپریم کورٹ کے بر سرکار جج جسٹس دھننجئے وائی چندر چوڑ نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ گوہاٹی ہائی کورٹ میں جسٹس پی ڈی میموریل لیکچر دیتے ہوئے جسٹس چندر چوڑ نے خبردار کیا کہ ملک کی تکثیریت ( مذہبی و تہذیبی بوقلمونی) کو بڑا خطرہ اختلافی اور مخالف آوازوں کو دبانے اور خاموش کرنے سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ دانشوری کو دبانا قوم کے ضمیر کو دبانے کے مترادف ہے۔ ان کے مطابق ہندوستان صدیوں سے مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے ۔ اختلاف رائے کرنے والوں کو ’قوم دشمن‘ ، یا جمہوریت دشمن‘ قرار دینا دراصل ہمارے آئینی اقداروں کے تحفظ اور جمہوری بحث ومباحثہ کو فروغ دینے کے لئے ہم نے جو ایفائے عہد کیا ہے یہ اس پر راست حملہ ہے ۔
بغاوت کا یہ قانون انگریزوں کی استعماری حکومت نے اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے وضع کیا تھا۔ اس ازکار رفتہ قانون کی ایک جمہوری حکومت میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ کیدار ناتھ سنگھ بنام ریاست بہار مقدمہ میں سپریم کورٹ نے یہ واضح طور پر کہہ دیا کہ اس دفعہ کا اطلاق اسی صورت میں ہوگا جب کوئی ملک کو توڑنے کے لئے لوگوں کو تشدد پراکسائے گا۔ اسی طرح اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں متعدد عدالتی فیصلے ہیں جس میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اختلاف رائے کی آزادی کسی بھی جمہوریت کے لئے ناگزیر اور بنیادی عنصر ہے ۔ مگر بی جے پی کی مرکزی اور صوبائی حکومتیں ان کو بری طرح پامال کر رہی ہیں۔ اور اپنے مخالفین پر اس دفعہ کا بے دریغ استعمال کر رہی ہیں۔
چنانچہ بیدر کے کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک پیٹیشن دائر کی گئی ہے کہ معلمات کے خلاف درج ایف آئی آر کو خارج کیا جائے ۔سپریم کورٹ میں اس معاملہ کی پوری تفصیل پیش کرتے ہوئے بتایا گیا کہ نجیب النساء پر یہ الزام ہے کہ اس کی گیارہ سالہ بیٹی نے ڈرامہ میں وہ مکالمے ادا کئے جو وزیراعظم کے لئے اہانت آمیز تھے‘ جسے اس نے سکھائے تھے ، فریدہ بیگم کو اس لئے ملزم بنایا گیا کہ ان کی نگرانی میں یہ ڈرامہ پیش کیا گیا۔ پیٹشین میں یہ دلیل پیش کی گئی کہ ایک آزاد ملک میں کرناٹک پولیس ایک علمی گفتگو اور بغاوت کے درمیان فرق کرنے میں ناکام رہی۔ جب کہ سپریم کورٹ نے اپنے متعدد فیصلوں کے ذ ریعہ یہ اصول طے کردیا کہ کسی بھی شکل میں پرامن طریقہ سے اظہار رائے کی آزادی کو بغاوت سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کیس نہ صرف پورے ملک بلکہ دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بنا ہےاور کرناٹک کی بی جے پی حکومت اس کے لئے ہر طرف سے ملامت کا ہدف بنی ۔
بی جے پی کے ایک کارکن کی شکایت پر بیدر پولیس نے ایک مسلم اسکول کے خلاف اتنا سخت قدم اٹھایا اس کے برعکس اسی ریاست کے آر ایس ایس کے زیر انتظام کلکڑا شہر میں واقع Kalladka Prabhakar Bhat’s school بابری مسجد کے انہدام کے ڈرامہ رچنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جبکہ اس کی باضابطہ شکایت بھی کی گئی۔ مارکسی کمیونسٹ پارٹی کی رہنما اور سابق رکن پارلیمان برندا کرات نے کہا کہ ایک بچہ اپنی معصومیت میں ایک ڈرامہ کے دوران کچھ بیان کرتا ہے جس کے نتیجہ میں ان کی ماں اور معلمہ کو گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔ ان پر غداری کا الزام عائد کیا جاتا ہے جو یہ انتہائی مضحکہ خیزقدم ہے۔ کرات ان خواتین کو ملنے گئی تھیں انہیں ڈھارس دلائی تھی۔ موقر روزنامہ’ ہندو‘ کی سابق مدیر مالنی پارتھاساتھی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ آ رایس ایس کا ’’ راشٹر واد کے بارے میں جو خوفناک تخیل ہے اس سے ملک کی جمہوریت کو خطرہ لا حق ہے۔
٭٭٭
ملک میں اظہار رائے کی آزادی پر جس طرح کے پہرے لگائے جارہے ہیں، اس پر سپریم کورٹ کے بر سرکار جج جسٹس دھننجئے وائی چندر چوڑ نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ گوہاٹی ہائی کورٹ میں جسٹس پی ڈی میموریل لیکچر دیتے ہوئے جسٹس چندر چوڑ نے خبردار کیا کہ ملک کی تکثیریت ( مذہبی و تہذیبی بوقلمونی) کو بڑا خطرہ اختلافی اور مخالف آوازوں کو دبانے اور خاموش کرنے سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ دانشوری کو دبانا قوم کے ضمیر کو دبانے کے مترادف ہے۔ ان کے مطابق ہندوستان صدیوں سے مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے ۔ اختلاف رائے کرنے والوں کو ’قوم دشمن‘ ، یا جمہوریت دشمن‘ قرار دینا دراصل ہمارے آئینی اقداروں کے تحفظ اور جمہوری بحث ومباحثہ کو فروغ دینے کے لئے ہم نے جو ایفائے عہد کیا ہے یہ اس پر راست حملہ ہے ۔