ہریانہ- کانگریس بازی کیوں ہاری ؟

قاسم سید
اکتوبر 2024
haryana

ہریانہ میں کانگریس کی غیر متوقع شکست اور بی جے پی کی ناقابل یقین فتح نے سیاسی پنڈتوں کو بھی ناقابل اعتبار بنادیا ،جنھوں نے کانگریس کے گلے میں کامیابی کا ہار بہت پہلے ڈال دیا تھا۔اس بحث نے تین ماہ پہلے کی ان یادوں کو تازہ کردیا جب  لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کے چارسوپار نعرے کی ہوانکلنے کے بعد میڈیا سے لے کر گلی کوچوں تک مودی میجک کے پھیکے پڑنے ،ان کی چمک دمک،ہنک ختم ہونے کی باتوں کے ساتھ شروع ہوئی تھی اور راہل کا غبارہ ہوا میں اڑنے لگا تھا ۔اس وقت مودی کی چال ڈھال گفتگو میں تبدیلی محسوس کی جارہی تھی ۔ان کے زوال کی پیشن گوئیاں ہونے لگی تھیں ۔سنگھ سے ٹکراؤ کی خبروں نے  مرے ہر سو درے  والا کام کیا  مگر  ہریانہ الیکشن میں سنگھ کی ان تھک محنت نے اتنا تو صاف کردیا کہ اسے مودی سےتو الرجی ہوسکتی ہے مگر بی جے پی سے نہیں۔ اس نے سولہ ہزار میٹنگیں کیں ۔گھر گھر ابھیان چلایا ہندو ایکتا کی اہمیت کو سمجھایا اور بی جے پی  کوالیکشن  جتوادیا۔

کانگریس کیوں ہاری ،یہ راکٹ سائنس نہیں کہ سمجھ میں نہ آئے ۔اگر مودی کے معاملہ میں اوپینین پول اور ایکزٹ پول غلط ہوسکتے ہیں توراہل کے بارے میں کیوں نہیں ؟کانگریس لیڈر اسی کے سہارے سوال کھڑے کررہے ہیں ،یہی نہیں ایک بار پھر ای وی ایم کی آوٹ میں جا چھپے ہیں اور اپنی فاش غلطیوں سے آنکھیں چرانے کی کوشش  کررہے ہیں ۔دیوار پر صاف لکھا تھا کہ کانگریس ہائی کمان جاٹ لابی کے نرغہ میں پھنس گئی ہے جو ہریانہ کی کل آبادی کا 27فیصد ہے ۔اس کے ساتھ دلت اوبی سی  آنا پسند نہیں کرتاے۔ہڈا کے دس سالہ دور اقتدار  میں انہوں نے جاٹوں کی دبنگئی خوب دیکھی  تھی۔اس وقت پرچی ،خرچی ہڈا سرکار کی شناخت بن گئی تھی ۔کانگریس نے دلت چہرے کماری شیلجا کو نظر انداز کیا۔ ہڈا کی مرضی سے نوے (90)سیٹوں میں سے بہتر)72) ٹکٹ طے کئے گئے۔اعلان کے بغیر یہ طے ہوگیا کہ ہڈا سی ایم بنیں گے۔ اس سے اوبی سی اور دلت بدک گیا ۔جو کل ملاکر سینتالیس (47)فیصد ہے ۔

بی جے پی نے غیرجاٹ ووٹوں کو اکٹھا کیا ۔دلتوں پر محنت کی۔ حتی کہ اس نے جاٹ بیلٹ میں بھی سیندھ لگالی اور کئی سیٹیں کانگریس سے چھین لیں ۔راہل کہتےہیں کہ مقامی لیڈروں نے پارٹی سے زیادہ ذاتی مفاد کو ترجیح دی تو کیا وہ ان کے خلاف کارروائی کریں گے؟ بی جے پی لیڈرشپ والی ہمت دکھائیں گے؟ نہیں ۔کیونکہ کانگریس اعلیٰ کمان خود ایسے ناسور پالتی ہے ۔ان کو کھادپانی دیتی ہے ۔مثلا ہڈا کی آمریت کے آگے سب بے بس تھے۔کماری شیلجا گھر بیٹھ گئیں ۔راہل نے آخری دنوں میں ہاتھ ملوایا مگر دل نہیں ملوا سکے۔ سورجے والا الگ سی ایم کی خواہش پالے بیٹھے تھے۔تینوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کا کھیل کھیل رہے تھے اور یہ سب ہائی کمان کے منظور نظرتھے۔اور ہوا یہ کہ ہریانہ کانگریس لیڈروں کی آپسی سرپھٹول نے اسے زمین پر پٹخ دیا ۔

راہل گاندھی نے کہا ہے کہ پارٹی شکست کی وجوہات پر غور کرے گی انہوں نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنانے کا بھی اعلان کیا۔ یہ بڑی معصومانہ بات ہے۔ کیا کانگریس ہائی کمان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ہریانہ میں کانگریس کا گزشتہ 12 سالوں سے اضلاع اور بلاک میں کوئی صدر نہیں ہے۔ بوتھ سطحی کمیٹی نہیں۔ ضلعی سطح کی کمیٹی نہیں ہے ۔لڑائی کیا خاک لڑتے جب زمیں پر آپ کی تنظیم کا وجود ہی نہیں۔ اس کا کون ذمہ دار ہے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے وینو گوپال ۔ وہ  کانگریس میں آرگنائزنگ جنرل سکریٹری ہیں۔سی وینوگوپال،راہل گاندھی کی ناک کا بال ہیں۔ان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ راہل کی پونچھ بنے پھرتے ہیں۔ایک ہیں اجے ماکن۔ وہ جہاں کے انچارج بنے، پارٹی ہار گئی ۔راجستھان میں کیا کھیل کھیلا ۔مدھیہ ہردیش میں کیا ہوا ۔چھتیس گڑھ میں کیا کارگزاری تھی ،سب جانتے ہیں۔،اور اب ہریانہ گنوایا ۔آخری وقت میں انہوں نےاپنے داماد اشوک تنور کو بی جے پی سے کانگریس میں لاکر کون سا تیر مارلیا؟وہ بتائیں گے ؟نہیں، اور نہ ہی راہل پوچھیں پائیں گے۔

اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہریانہ کی 90 سیٹوں میں سے 14 ایسی سیٹیں ہیں جہاں آزاد امیدواروں کو کانگریس کی جیت اور شکست کے فرق سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ ان میں سے 9 کانگریس کے باغی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ کانگریس کی شکست کی ایک بڑی وجہ اس کے اپنے باغی ہیں۔جن کو منانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔کچھ کا خیال ہے کہ کانگریس کو عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے ساتھ اتحاد کرنا چاہئے تھا، لیکن اگر آپ اعداد و شمار کو صحیح طریقے سے دیکھیں، تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کانگریس کو عام آدمی پارٹی (اے اے پی) نے نہیں، بلکہ اس کے اپنے لوگوں نے شکست دی ہے۔ پورے ہریانہ کی 90 سیٹوں میں سے صرف 4 سیٹیں ایسی ہیں جہاں عام آدمی پارٹی کو کانگریس سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ یہ نشستیں ڈبوالی، انچکالاں، اسند اور رانیہ ہیں۔

جہاں تک مسلم ووٹرز  کا تعلق ہے انہوں نے کانگریس کو مایوس نہیں کیا اس نے میوات علاقہ سے پانچ مسلمانوں کو ٹکٹ دیا اور پانچوں اچھے مار جن سے جیتے ان کا رزلٹ سو فیصد رہا۔ اس سے بہتر کسی کمیونٹی کا ریکارڈ نہیں ہے۔

راہل نے یہ الیکشن بھی پارلیمانی الیکشن کی طرح لڑا ۔وہی آئین لے کر لہرانا،ریزرویشن ختم ہونے کی بات کرنا،ذات پر مبنی مردم شماری کی بحث ۔انہوں  نے مقامی ایشو زکو ٹچ بھی نہیں کیا۔ یہاں ان کو بی جے پی سے سیکھنے کی ضرورت تھی  کہ انتخابات کے دوران بھی غلطیوں کو کس طرح درست کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہریانہ میں بی جے پی نے اپنے پوسٹر میں سابق وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کو غائب کر دیا ۔ ہریانہ انتخابات کو مکمل طور پر مقامی رکھا۔ مودی کی صرف دو ریلیاں ہوئیں جب ان کی ریلیوں میں لوگ نہیں آئے تو وہ کمپین سے الگ ہوگئے ،خود کو ظاہری طور پر دور رکھا اور اسے انا کا مسئلہ نہیں بنایا ۔سینی کو سی ایم کے طور پر آگے رکھا ۔باغیوں کو منایا ۔سوشل انجینئرنگ پر فوکس رکھا۔ جب کہ کانگریس  حد سے زیادہ خود اعتمادی اور میڈیا کی پیشین گوئیوں کے نشے میں کھو گئی زمینی سطح پر کوئی کام نہیں  کیا  تو یہ انجام ہوناہی تھا۔

ایک بات اور ہے اور وہ یہ کہ  کانگریس  کے پاس اس وقت کوئی احمد پٹیل نہیں جو سونیا گاندھی کے پولیٹیکل سکریٹری تھے اور کانگریس میں مختلف دھڑوں کو اکٹھا کرتے تھے۔ اس میں ان کو مہارت تھی ۔انہوں نے  سب کو ساتھ رکھا ہوا تھا۔ راہل کے پاس احمد پٹیل کے قد کا کوئی لیڈر نہیں ہے جو سب کی بات سنے اور سب کو ساتھ چلنے پر مجبور کرے۔

بہرحال شکست کا کوئی مائی باپ نہیں ہوتا اور جیت کے سو دعویدار ہوتے ہیں ۔ہریانہ کا نتیجہ آتے ہے بی جے پی جو لوک سبھا الیکشن کے بعد دفاعی پوزیشن میں آگئی تھی حملہ آور ہوگئی ہے ۔پی ایم نے نیا بیانیہ سیٹ کرنا شروع کردیا ہے کہ  کانگریس ہندوؤں کو بانٹنا چاہتی ہے۔ انہوں نے غیرملکی سازش کا بھی تذکرہ کیا۔وہیں میڈیا نے  اپنے پنجے باہر نکال لئے اور راہل کا زوال شروع ہونے کی کہانیاں گڑھنے لگا۔ وہ انڈیا گٹھ بندھن کے بکھرنے اور ٹوٹ پھوٹ  کا آغاز ہونے کی باتیں بھی کرنے لگا ہے ۔اکھلیش نے کانگریس سے تبادلہ خیال کئے بغیر ضمنی الیکشن میں امیدواروں کا اعلان کردیا ،مہاراشٹرا سے بھی آوازیں آنے لگی ہیں ۔کانگریس کو آنکھیں دکھانے کی شروعات ہوگئی ہے۔اگر مہاراشٹر میں کچھ گڑبڑہوگیا تو بی جے پی کو روکنے کی مہم کوشدید دھچکا لگے گا۔کانگریس قیادت کا اصل امتحان اب ہوگا ۔راہل اور کانگریس کو اپنے کام کا انداز بدلنا ہوگا ۔ورنہ ،اس ورنہ کا جواب آنے والے دن طے کریں گے۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.