فیصل فاروق
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں ادب کی کہکشاں ختم ہوتی جا رہی ہے۔ پھر چاہے وہ اُردو ادب ہو یا ہِندی ادب۔ اِسی کڑی میں گزشتہ برس ہندی ادب کا ایک درخشاں ستارہ جسے دنیا گوپال داس نیرج کے نام سے جانتی تھی، بادلوں کے درمیان کہیں چھپ گیا۔ گوپال داس نیرج طویل مدت سے بیمار چل رہے تھے اور ٩۴/سال کی عمر میں اِس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ معروف نغمہ نگار اور شاعر گوپال داس نیرج کا شمار یکساں طور پر ہندی ادب، بالی ووڈ اِنڈسٹری اور مشاعروں کے اِسٹیج کے نامور شاعروں میں ہوتا تھا۔ اُنھوں نے ہندی نظموں اور نغموں کے علاوہ بے شمار غزلیں بھی لِکھیں۔ نیرج نے ہندی فِلم اِنڈسٹری کو بھی کئی سُپر ہِٹ نغمے دیے جو آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں۔ اُن کی شاعری میں لفظوں کے تنوع اور تراکیب و تعبیرات کی جُگل بَندی کی بجاۓ معاشرے کے تلخ حقائق کو سیدھے سادے لفظوں میں بیان کرنے پر زور ہوتا تھا۔ انہوں نے پوری زندگی ادب کی خدمت میں گزاری۔ وہ بنیادی طور پر ہندی زبان کے شاعر تھے اور ہندی کے مشاعروں اور محفلوں کی جان تھے۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعہ سماج کو آئینہ دِکھانے کی کوشش کرتے تھے۔ نیرج کے منفرد انداز نے اُنہیں زندگی کے تمام تر شعبوں اور پیڑھیوں سے مربوط کیا۔ نیرج کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صرف ہندی کے ہی کَوی نہیں تھے بلکہ وہ اُردو اور ہندی کی ساجھی وراثت کے رہنما بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نیرج کو دیگر اعزازات کے علاوہ اُردو ادب والوں کی جانب سے عالمی اُردو کونسل اعزاز بھی حاصل ہوچکا ہے۔ نیرج ہندی کے وہ شاعر تھے جِنہیں اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ شہرت اور عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ گیت پڑھنے کا منفرد انداز اور دِلوں میں اُتر جانے والی آواز نے اُنہیں ہر دِل عزیز شاعر بنایا۔ خاص طور سے ہندی ادب کے میدان میں نیرج کی شراکت ہمیشہ ناقابلِ فراموش رہے گی۔
گیتوں کے راج کمار گوپال داس نیرج کی پیدائش جنوری 1925ء کو برٹش بھارت کے مشترکہ صوبے آگرہ اور اوَدھ جِسے اب اُترپردیش کے نام سے جانا جاتا ہے، میں اِٹاوہ ضلع کے پُراولی گاؤں میں بابو بِرج کِشور سَکسینہ کے یہاں ہوئی۔ صرف چھ سال کی عُمر میں سر سے والد کا سایا اُٹھ گیا۔ پھر اُنہیں پھوپھا کے یہاں بھیج دِیا گیا۔ بچپن بڑی جدوجہد میں گزرا۔ ایٹہ سے ہائی اِسکول کا اِمتحان نمایاں نمبرات سے پاس کیا اور پھر گھر کی ذمہ داری سنبھالنے کیلئے اِٹاوہ واپس چلے آئے۔ مَین پوری میں تمباکو کی دُکان پر نوکری کی اور ٹائپنگ کا کام سیکھا۔ جب نیرج روزی روٹی کی تلاش میں نِکلے تو شروعات میں اِٹاوہ کی کچہری میں کچھ وقت ٹائپسٹ کا کام کیا۔ اُس کے بعد سِنیما گھر کی ایک دُکان پر نوکری کی۔ نیرج بتاتے ہیں کہ مَیں نے پھر دہلی جاکر سَپلائی محکمہ میں ۶۷/روپے ماہوار تنخواہ پر ٹائپسٹ کی ملازمت کی۔ اُن دِنوں ایک ڈھابے میں پندرہ روپے ماہوار پر کھانا کھاتا اور تیس روپے ماں کو بھیجتا اور تنگی کے عالم میں بھی مَستی سے وقت گزارتا۔ کام کرتے ہوئے پڑھنے لِکھنے کا عمل جاری رہا اور اُسی دوران کولکتہ میں ایک شعری محفل میں شامل ہونے کا موقع مِلا۔ سَپلائی محکمہ سے ملازمت چھوٹ جانے پر کانپور کے ڈی اے وی کالج میں کلرک کی ملازمت کی۔ پھر ایک نِجی کمپنی میں پانچ سال تک ٹائپسٹ کی نوکری کرنے کے ساتھ بی اے کیا اور ہندی ادب سے فَرسٹ کلاس میں ایم اے کیا۔ میرَٹھ کالج میں ہندی ترجمان کے عہدے پر کچھ وقت تک تعلیمی کام بھی کیا۔ مگر کالج انتظامیہ سے کسی بات کو لیکر کہا سُنی ہو گئی جِس سے ناراض ہو کر نیرج نے خود ہی ملازمت سے اِستعفی دے دیا اور علی گڑھ میں واقع دھرم سماج کالج میں ہندی سیکشن میں بطور پروفیسر پڑھانے لگے۔ اُسی دوران اُنہوں نے علی گڑھ کو اپنا مستقل ٹھکانا بنایا اور یہیں جنک پوری میں آباد ہو گئے۔
مشاعروں میں شہرت کی وجہ سے اُنہوں نے فِلمی دنیا کا رخ کیا۔ جہاں اُنہیں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ مشہور اداکار دیوآنند اور نیرج میں گہری دوستی رہی۔ دیوآنند اور نیرج کی ملاقات ایک مشاعرہ میں ہوئی تھی۔ اداکار نے نیرج کی شاعری پسند کی اور یہ وعدہ کیا کہ اگر نیرج کبھی فِلموں کیلئے لکھنا چاہیں تو اُن سے رابطہ کریں۔ دس سال بعد، جب نیرج نے ایک فِلم مَیگزین میں ‘پریم پُجاری’ کیلئے چھپا اشتہار دیکھا، تو دیوآنند کو ایک خط لِکھ کر فِلموں کیلئے نغمہ لِکھنے کی اپنی خواہش ظاہر کی۔ دس دِن کے اندر اندر خط کا جواب بھی مِل گیا جِس میں دیوآنند نے نیرج کو بمبئ آنے کی دعوت دی۔ تب نیرج علی گڑھ کے دھرم سماج کالج میں پروفیسر تھے۔ اُنہوں نے بمبئ آنے کیلئے کالج سے چھ دِنوں کی چھٹی لی۔ دَراصل، اُس وقت زندگی کے ہر فلسفہ پر نغمہ لِکھنے میں ماہر معروف نغمہ نگار شیلندر کے اِنتقال سے پیدا کردہ خلا کو بھرنے کیلئے دیوآنند کسی اچھے شاعر کی تلاش میں تھے۔ لیکن اپنی دھن میں لِکھنا اور سِچویشن (صورتِ حال) کے مطابق لِکھنا دونوں مختلف باتیں ہیں۔ نیرج بتاتے ہیں کہ دیوآنند نے ممبئی کے سانتا کروز میں ایک شاندار ہوٹل میں ٹھہرنے کا اِنتظام کیا اور دستخط کرنے سے پہلے ہی مجھے ہزار روپے ادا کر دیے اور مجھ سے کہا آپ فِکر نہ کریں، اچھا سا گیت لِکھیں اور اگر آپ ناکام ہوتے ہیں تب بھی آپ چھ دِنوں تک ہمارے مہمان بن کر رہیں اور شہرِ بمبئ کا نظارہ کریں، لطف اندوز ہوں۔
اگلے دِن اُنہوں نے ایس ڈی برمن سے میری ملاقات کروائی، جو کہ شاعروں کی قابلیت کے بارے میں بخوبی سمجھتے تھے۔ ایس ڈی برمن نے مجھے دھن دی اور کہا کہ گیت کی شروعات ‘رنگیلا رے’ سے ہونی چاہئے۔ سِچویشن کچھ ایسی تھی کہ ہیروئن اپنے محبوب کو کِسی دوسری لڑکی کے ساتھ محفل میں آتے ہوئے دیکھتی ہے۔ ایسے میں اِس گیت میں حسد، تیکھا طنز اور محبت میں مایوسی کا عنصر ہونا چاہئے تھا۔ میں نے اِس پر پوری رات کام کیا اور ‘رنگیلا رے، تیرے رنگ میں یوں رنگا ہے میرا مَن، چھلیہ رے’ یہ گیت لِکھا۔ دوسرے دِن صبح نیرج دیوآنند کے آفس پہنچ گئے اور جو کچھ لِکھا تھا اُنہیں دِکھایا۔ غور سے پڑھنے کے بعد دیوآنند نے نیرج کو گلے سے لگا لِیا۔ دیوآنند یہ سوچ کر حیران رہ گئے کہ نیرج نے آخر ایک ہی رات میں مکمل گیت کیسے لِکھ لِیا۔ نیرج آگے بتاتے ہیں کہ وہ مجھے فوری طور پر برمن دا کے گھر لے گئے اور فخریہ لہجہ میں اُن سے کہا، ‘دیکھئے، میں نے کہا تھا، نیرج نے کر دِکھایا۔’ جب برمن دا نے موسیقی سُنی تو بولے ‘دیو، اب آپ جائیے ہم دونوں مِل کر بیٹھیں گے۔’ دیوآنند کے جانے کے بعد، ایس ڈی برمن نے تسلیم کیا کہ اُنہوں نے مجھے جان بوجھ کر یہ پیچیدہ صورتِ حال دی تھی تاکہ میں خود ہی ہار مان جاؤں۔ مگر پھر ہم تینوں کی جوڑی بَن گئی اور بالی ووڈ کو کئی بہترین نغمے دیئے۔ اداکار دیوآنند کی رخصتی کے بعد نیرج نے ایک مرتبہ اپنے خیالات کا اِظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ “مایانگری میں میری سب سے زیادہ جِس سے بَنی، وہ دیوآنند تھے۔ وجہ یہ کہ اچھا بُرا جیسا بھی تھا، مَیں تھا۔ مجھے یہ بَتانے میں دِقت نہیں ہوتی تھی کہ مجھے کیا چاہئے۔ دیوآنند بھی میرے ساتھ ویسے ہی تھے۔ جب اُنہوں نے اداکاری سے دوری اختیار کی تو میرا مَن بھی اُچٹنے لگا اور مَیں نے مایانگری سے علی گڑھ کی طرف رخ کر لیا۔ حالانکہ کئی بار دیوآنند نے مجھے واپس آنے کیلئے کہا مگر مَیں لَوٹ نہ سکا۔”
ہندوستانی سِنیما کو بہترین فِلمیں دینے والے پہلے شو مَین راج کپور کے ساتھ بھی نیرج کو کام کرنے کا موقع مِلا۔ نیرج نے راج کپور کے بارے میں کہا تھا کہ اُنہیں کام میں پَرفیکشن چاہیے تھا۔ سب کچھ شاندار ہونا چاہیے اور اِس بات کو ممکن بنانے کیلئے وہ ماحول فراہم کرتے تھے۔ راج کپور کی بہت بڑی فِلم ‘میرا نام جوکر’ کیلئے مَیں نے گیت لِکھا ‘اے بھائی ذرا دیکھ کے چلو’۔ اِس نغمہ کے لئے قریب سات دِنوں تک راج کپور کی رہائش گاہ پر بیٹھ کر نغمہ پر چرچا ہوتی رہی۔ پلاٹ مِلتا اور پھر پیمانہ کے ساتھ اُس پر چرچا کرنے میں ہی آدھی سے زیادہ رات گزر جاتی اور ہم خالی ہاتھ واپس دوسری رات کی ملاقات کا وقت طے کر کے واپس چلے آتے۔ ایسے میں ایک دِن مَیں نے مشورہ دیا کہ گانے میں کوئی تجربہ کرنا چاہیے۔ بات پسند تو آئی لیکن تجربہ کیا ہو، اب اِس پر سب معاملہ اَٹک گیا۔ اِتنے میں کوئی گزرا اور وہ پیمانہ سے نہ ٹکرائے اِس لئے منھ سے یکایک نِکلا، ‘اے بھائی ذرا دیکھ کے چلو’ راج کپور کو یہ لائن پسند آ گئی اور پھر نغمہ کو آگے بڑھایا گیا۔
لیکن شنکر جی سے اِس بے مُکھڑے اَنترے والی نثری نظم کی دھن نہیں بَن سکی۔ راج کپور بھی پریشان، بول سِچویشن کے مطابق بہت اچھے تھے۔ میوزک ڈائریکٹر کے ہار مان لینے کے بعد مَیں نے خود طرز بنائی اور اُسی طرح گا کر سُنایا جیسے مَنّا ڈے نے یہ گانا گایا ہے۔ راج کپور بہت خوش ہوئے۔ جب نغمہ مکمل ہو گیا تو مَنّا ڈے نے اپنی آواز سے اِس میں جان ڈال دی۔ اِس فِلم کی کامیابی راج کپور کا بہت بڑا خواب تھا۔ فِلم بھی اچھی بَنی لیکن باکس آفِس پر ناکام ہو گئی۔ راج کپور پر جو کچھ بیتی وہ ایک الگ تکلیف دہ کہانی ہے۔ خود میرا مَن بھی فِلمی گیت کاری سے اُچاٹ ہو گیا۔ اِس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پروڈیوسرز کی بدقِسمتی سے فِلمیں تو فلاپ ہو گئیں مگر سنگیت سُپر ہِٹ ہو گیا۔ کئ پروڈیوسر ڈائریکٹر لوگ مزاق اڑانے لگے کہ جِسے فِلم پِٹوانی ہو اور گانے ہِٹ کروانے ہوں وہ نیرج کو سائن کر لے۔ فِلمی دنیا کو ہاتھ جوڑ کر نَمسکار کِیا اور علی گڑھ واپس آکر اپنے کالج میں پڑھانے لگا۔
اِس گیت کے دور سے نیرج باہر نِکلے تو اُنہیں اپنے وقت کے لوگوں کی دریا دِلی بھی یاد آ گئی۔ اُنہوں نے بتایا کی ‘کنیادان’ فِلم کے پروڈیوسر راجیندر بھاٹیہ مجھ سے مِلنے آئے۔ اُنہوں نے کہا مجھے آپ سے ایک گیت لِکھوانا ہے۔ مَیں نے مصروفیت کی وجہ سے منع کر دیا، تو اُنہوں نے فوراً کہا ‘یہ گانا شَشی کپور پر فِلمایا جانا ہے۔’ مجھے شَشی کپور بہت پسند تھے، اِس لئے اِنکار نہیں کر سکا۔ مَیں نے پلاٹ سُنا اور اُس وقت محض چھ منٹ میں ہی گیت لِکھا۔ وہ گیت تھا ‘لِکھے جو خط تجھے، وہ تیری یاد میں، ہزاروں رنگ کے نظارے بَن گئے۔’ اِس گیت کو زبردست مقبولیت مِلی اور اِس گیت کی بدولت فِلم ہِٹ ہو گئی۔ فِلم پروڈیوسر کو میرا لِکھا یہ گیت اِتنا پسند آیا کہ اُنہوں نے خوش ہو کر اِس گانے میں استعمال ہونے والی کار ہی مجھے تحفے میں دے دی۔
نیرج کانگریس کے سیکولر جمہوری نظریے کے قائل رہے لیکن اُنہوں نے ایمرجنسی کے دوران اُس وقت کی وزیراعظم اِندرا گاندھی خلاف آواز اُٹھائی تھی اور ایک گیت لِکھا تھا، سَنسد جانے والے راہی، کہنا اِندرا گاندھی سے، بَچ نہ سکے گی اب دِلّی، جے پرکاش کی آندھی سے۔ جو بہت مشہور ہوا تھا۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ مُلائم سِنگھ یادو کے ساتھ نیرج کے بیحد خوشگوار تعلقات رہے۔ اِسی سبب اُن پر سیاسی ہونے کا الزام بھی لگا۔ نیرج نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ مَیں سیاسی آدمی کبھی نہیں رہا، لیکن میں اِٹاوہ کا باشندہ ہوں، اِٹاوہ ہی مُلائم سِنگھ جی کا وطن ہے۔ وہ بہت نیچے سے جدوجہد کرتے ہوئے بلندی تک پہنچے۔ ہم دونوں کے درمیان ایک خاص رشتہ رہا۔ جب وہ یوپی کے وزیراعلیٰ بنے تو مجھے اُتر پردیش راج بھاشا سَنستھان کا کارگزار چیرمین بنا دیا۔ کابینی درجہ، لال بتّی کی گاڑی، لکھنؤ میں سرکاری رہائش۔ اُس وقت اودھی، بھوجپوری، ہندی اور اُردو کی ترقی کیلئے بہت سے منصوبے میرے دِل میں تھے لیکن وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وِزراء اور خود وزیراعلیٰ بھی نوکرشاہی کے دفتری نظام میں وہ سب کچھ نہیں کر سکتے جو وہ دِل سے کرنا چاہتے ہیں۔ مَیں سال بھر سے زیادہ اُس کرسی پر ٹِک نہیں سکا۔ مگر ہاں! اُس عہدے پر رہتے ہوئے لوگوں کی خدمت کا موقع مِلا، کئیوں کے بِگڑے کام بَن گئے۔ جِسے سچائی اور ایمانداری پر دیکھا اُس کی سِفارش کی اور غلط لوگوں کو ہمیشہ کی طرح قریب نہیں آنے دیا۔
نیرج وہ پہلے شخص تھے جِنہیں تعلیم اور ادب کے میدان میں ہندوستانی حکومت نے دو مرتبہ اعزازات سے نوازا، پہلے پدم شری سے اور اُس کے بعد پدم بھوشن سے۔ اُنہیں ریاست اتر پردیش کے سب سے زیادہ مشہور اعزاز ‘یش بھارتی’ سے بھی نوازا گیا۔ نیرج کو 2012ء میں علی گڑھ میں واقع منگلا یاتن یونیورسٹی کے چانسلر کا عہدہ تفویض کیا گیا تھا اور اُنہوں نے اپنی یہ ذمہ داری بخوبی نِبھائی تھی۔ نیرج نے کئی کتابیں لکھیں جسے ہندی ادب کا بیش قیمتی خزانہ تصور کیا جا سکتا ہے۔ نیرج سے قبل ہندی گیت اور کویتا کے میدان میں ممتاز شاعر ڈاکٹر ہری ونش رائے بچن اور گوپال سنگھ نیپالی کو شہرت حاصِل تھی لیکن آہستہ آہستہ نیرج عام لوگوں کے چہیتے شاعر بَن گئے۔ ساٹھ اور ستّر کی دَہائی میں نیرج نے فِلمی دنیا کے گیتوں کو نئے معنی دیے۔ فِلموں میں بہترین گیت لِکھنے کیلئے اُنہیں مسلسل تین بار فِلم فیئر ایوارڈ بھی مِلا۔ پانچ برس فِلمی دنیا میں کام کیا اِس دوران تقریباً سَوا سو نغمے لِکھے۔ نیرج نے کوشش کی کہ فِلمی گیتوں میں ادبی وقار قائم رہے، سستاپن نہ ہو۔ اُن کی رخصتی سے ہندی ادب کا ایک بھرا بھرا سا کونہ خالی ہوگیا۔ نیرج نے ایک اِنٹرویو کے دوران کہا تھا، “اگر دنیا سے رخصتی کے وقت آپ کے لِکھے گیت، نغمے اور نظمیں لوگوں کی زبان اور دِل میں ہوں تو یہ آپ کی سب سے بڑی شناخت ہوگی۔ اِس کی خواہش ہر فنکار کو ہوتی ہے۔”
نیرج کی شاعری کی خاص خوبی برجستگی و بے ساختگی ہے۔ ظلم و ستم، نہ اِنصافی اور عدم مساوات، فرقہ واریت اور تعصب کے خلاف نیرج ہمیشہ آوازیں بلند کرتے رہے۔ بِلاشبہ وہ قومی یکجہتی کے علمبردار، صاف شفاف زہن کے مالک ایک سیکولر شاعر تھے جِنہوں نے ہمیشہ محبت اور خیرسگالی کے نغمے گائے۔ اُن کی سب سے بڑی شناخت اُن کے وہ گیت اور نغمے ہیں جِس میں اُنہوں نے محبت اور اِنسانیت کی بقاء اور سربلندی کی گفتگو کی ہے۔ نیرج اُردو کو ہندی سے مِلاکر آسان لہجے میں اپنی بات کہتے تھے۔ نیرج مانتے تھے کہ اُردو زبان اور غزل میں جو بات خوبصورتی سے کہی جا سکتی ہے وہ روایتی ہندی یا ملک کی کِسی اور زبان میں نہیں کہی جا سکتی۔
گوپال داس نیرج کے مشہور فِلمی نغمے
لِکھے جو خط تجھے، وہ تیری یاد میں،
ہزاروں رنگ کے نظارے بَن گئے… (فِلم: کنیادان)
.
کھلتے ہیں گُل یہاں، کھل کے بِکھرنے کو… (فِلم: شرمیلی)
.
او میری او میری او میری شرمیلی… (فِلم: شرمیلی)
.
آج مدہوش ہوا جائے رے مَن… (فِلم: شرمیلی)
.
شوخیوں میں گھولا جائے پھولوں کا شباب،
اُس میں پھر ملائی جائے تھوڑی سی شراب… (فِلم: پریم پُجاری)
.
رنگیلا رے، تیرے رنگ میں یوں رنگا ہے میرا
من، چھلیہ رے نہ بجھے ہے کِسی جَل سے یہ جلن… (فِلم: پریم پُجاری)
.
پھولوں کے رنگ سے، دِل کی قلم سے… (فِلم: پریم پُجاری)
.
دِل آج شاعر ہے، غم آج نغمہ ہے، شب یہ غزل ہے صنم…. (فِلم: گیمبلر)
.
چوڑی نہیں یہ میرا دِل ہے، دیکھو دیکھو ٹوٹے نہ… (فِلم: گیمبلر)
.
اے بھی! ذرا دیکھ کے چلو، آگے ہی نہیں پیچھے بھی… (فِلم: میرا نام جوکر)
.
بَس یہی اَپرادھ میں ہر بار کرتا ہوں،
آدمی ہوں آدمی سے پیار کرتا ہوں… (فِلم: پہچان)
.
کال کا پہیہ گھومے رے بھیا… (فِلم: چندا اور بِجلی)
.
اور ہم کھڑے کھڑے بَہار دیکھتے رہے،
کارواں گزر گیا غُبار دیکھتے رہے… (فِلم: نئی عُمر کی نئی فصل)
راقم کی ڈائری سے نیرج کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلایا جائے
جِس میں اِنسان کو اِنسان بنایا جائے
.
جِس کی خوشبو سے مہک جائے پڑوسی کا بھی گھر
پھول اِس قسم کا ہر سمت کھلایا جائے
.
جِتنا کم سامان رہے گا اُتنا سفر آسان رہے گا
جِتنی بھاری گٹھری ہوگی اُتنا تو حیران رہے گا
.
خوشبو سی آ رہی ہے اِدھر زعفران کی
کھڑکی کھلی ہے غالباً اُن کے مکان کی
.
اب کے ساون میں شرارت یہ مِرے ساتھ ہوئی
میرا گھر چھوڑ کے کُل شہر میں برسات ہوئی
.
جب بھی اِس شہر میں کمرے سے میں باہر نِکلا
میرے سواگت کو ہر اِک جیب سے خنجر نِکلا
.
دور سے دور تلک ایک بھی درخت نہ تھا
تمہارے گھر کا سفر اِس قدر سخت نہ تھا
.
تمام عُمر مَیں اِک اجنبی کے گھر میں رہا
سفر نہ کرتے ہوئے بھی کِسی سفر میں رہا
.
اِتنے بدنام ہوئے ہم تو اِس زمانے میں
لگیں گی آپ کو صدیاں ہمیں بھلانے میں
.
نہ پینے کا سلیقہ نہ پِلانے کا شعور
ایسے بھی لوگ چلے آئے ہیں میخانے میں