اس وقت سیاسی و صحافتی حلقوں میں اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ کیا ہندوستان کی خارجہ پالیسی ناکام ہو گئی ہے۔ یہ کہاجارہا ہے کہ آپریشن سندور کے دوران اور اس کے بعد ہندوستان تنہا پڑ گیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کو 32 ملکوں میں پارلیمانی وفود بھیجنے پڑ رہے ہیں تاکہ ان ملکوں کو پہلگام حملے کی تفصیلات بتائی جائیں اور یہ بھی واضح کیا جائے کہ اس کے بعد ہندوستان کی جانب سے آپریشن سندور نام کی کارروائی کیوں کرنی پڑی۔ کانگریس سمیت کئی اپوزیشن پارٹیاں کہہ رہی ہیں کہ اس وقت ہندوستان عالمی سطح پر تنہا ہو گیا ہے۔ آپریشن سندور کے دوران یا اس کے بعد کوئی بھی ملک یہاں تک کہ دوست ملک بھی اس کے ساتھ کھڑا نظر نہیں آرہا ہے۔ اس موقع پر 2014 سے لے کر اب تک کے وزیر اعظم نریندر مودی کے غیر ملکی دوروں پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور پوچھا جا رہا ہے کہ اتنے دورے کرنے کے باوجود کوئی بھی ملک ہندوستان کے ساتھ کیوں نہیں ہے۔ پہلے سے ہی یہ بات کہی جا رہی تھی کہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کی وجہ سے کسی بھی پڑوسی ملک سے ہندوستان کے تعلقات اچھے نہیں رہ گئے۔ یہاں تک کہ نیپال جیسے ملک کے ساتھ بھی تنازعات پیدا ہوئے۔ مالدیپ جیسے ایک بہت ہی چھوٹے ملک کے ساتھ اختلافات ہوئے اور وہاں ’’ہندوستان باہر جاؤ‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔ بنگلہ دیش ایک واحد دوست ملک بچا تھا لیکن شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد وہ بھی دوست نہیں رہا۔
دراصل جب 22 اپریل کو پہلگام میں دہشت گردوں نے سیاحوں پر حملہ کیا جس میں 26 افراد کی جانیں گئیں تو دنیا بھر سے ا س واردات کی مذمت کی گئی۔ بیشتر ملکوں کے سربراہوں نے ہندوستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ وزیر اعظم مودی نے متعدد سربراہان مملکت کو اس کی تفصیلات بتائیں۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کئی ملکوں کے اپنے ہم منصبوں کو بریف کیا۔ متعدد ملکوں کے وزرائے اعظم اور صدور نے وزیر اعظم مودی کو فون کرکے پہلگام حملے کی مذمت کی اور دہشت گردی کے قلع قمع کی بات کہی۔ اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ دنیا کے بیشتر ممالک ہندوستان کے ساتھ ہیں اور اگر اس نے پاکستان کے اندر کوئی کارروائی کی تو یہ ملک اس کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہو جائیں گے۔ ہندوستان نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف آپریشن سندور کے تحت کارروائی کی جس میں میڈیا کے مطابق ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت دہشت گردوں کی رہی۔
اس کارروائی کے بعد پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کی اور سات مئی سے دس مئی تک دونوں کے درمیان ہتھیاروں کا استعمال ہوتا رہا۔ اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ یہ اقدامات مکمل جنگ میں تبدیل ہو جائیں گے۔ امن پسند طبقات کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ اگر جنگ ہوئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ جوہری ہتھیار استعمال کر لیے جائیں۔ اگر استعمال کیے گئے تو آن واحد میں کروڑوں افراد لقمہ اجل بن جائیں گے۔ لیکن اسی درمیان اچانک دس مئی کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کر دیا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی ہو گئی ہے۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہوں نے دونوں کے درمیان ثالثی کی اور اب دونوں ملک کسی تیسرے غیر جانبدار ملک میں بیٹھ کر باہمی مذاکرات کریں گے۔ اس اعلان پر اندرون ملک جہاں اطمینان کا اظہار کیا گیا وہیں جنگ حامی طبقات میں مایوسی پیدا ہو گئی۔ یہ سوال بھی کیا جانے لگا کہ اگر جنگ بندی کرنی تھی تو پھر یہ کارروائی کیوں کی گئی۔ دوسرے یہ کہ ہندوستان اور پاکستان کے باہمی تنازعات کو آپسی مذاکرات سے حل کرنے کے معاہدے موجود ہیں تو پھر تیسرے ملک میں بات چیت کا کیا مطلب ہے۔ کیا اب ہندوستان کی جانب سے تیسرے ملک کی عدم مداخلت کا موقف ختم کر دیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ جنگ بندی کا اعلان کرنا تھا تو ان دونوں ملکوں کو کرنا تھا امریکہ نے کیوں اعلان کیا۔ بہت سے سوالات اٹھائے جانے لگے جس پر حکومت خاموش رہی۔ ادھر ٹرمپ کی جانب سے بیان پر بیان داغا جانے لگا۔ جس کی وجہ سے کنفیوژن کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ بالآخر حکومت کی جانب سے اپنے موقف کا اعلان کیا گیا۔
بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ وزیر اعظم مودی نے 2014 کے بعد سے اب تک 89 غیر ملکی دورے کیے جن میں وہ ایک سو سے زائد ملک میں گئے اور ہزاروں کروڑ روپیوں کا خرچ ہوا۔ تقریباً ہر ملک میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے یہ پروپیگنڈہ کیا جانے لگا کہ مودی کی کوششوں سے ہندوستان وشو گرو بن گیا ہے۔ پوری دنیا میں ڈنکا بج رہا ہے۔ لیکن اب جب کہ ایک نازک موقع آیا تو کوئی بھی ملک ہندوستان کے ساتھ دوستانہ جذبہ دکھانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ یہاں تک کہ روس جیسا روایتی دوست ملک بھی کھل کر اس کے ساتھ نہیں آیا۔ وزیر اعظم مودی نے عالم اسلام کے خوب دورے کیے۔ کئی اسلامی ملکوں نے ان کو اپنے یہاں کے اعلیٰ سول اعزاز سے بھی نوازا۔ لیکن اس موقع پر ان میں سے کوئی بھی ہندوستان کے ساتھ نہیں آیا۔ واضح رہے کہ پہلگام حملے کے وقت مودی سعودی عرب کے دورے پر تھے جسے مختصر کرکے وہ درمیان میں ہی واپس آگئے تھے۔ لیکن اس نے بھی ہندوستان کا ساتھ دینے کا اعلان نہیں کیا۔
اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دنیا کی کوئی بڑی طاقت ہندوستان کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آرہی ہے۔ ٹرمپ کا رویہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے جس طرح بیان پر بیان دیا ہے اس سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ انہوں نے نریندر مودی کی دوستی کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ وہ تو مودی کے سامنے ہی یہ کہتے رہے ہیں کہ ہندوستان امریکی مصنوعات پر سو فیصد درآمدی ٹیکس لگاتا ہے اور ہم بھی اتنا ہی لگائیں گے۔ انہوں نے جب بھی پہلگام حملے اور آپریشن سندور کے تعلق سے کوئی بیان دیا تو ہندوستان کے ساتھ پاکستان کا بھی نام لیا۔ جس طرح حالیہ برسوں میں امریکہ سے ہندوستان کے رشتے نئی بلندیوں پر پہنچے ہیں اور پاکستان سے اس کے تعلقات خراب ہوئے ہیں اس کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صدر ٹرمپ یکطرفہ طور پر ہندوستان کا ساتھ دیتے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور اب بھی نہیں کر رہے ہیں۔ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ چار ملکوں کے گروپ کواڈ میں جس میں ہندوستان اور امریکہ کے علاوہ جاپان اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں، ہندوستان ایک طاقتورپوزیشن میں ہے۔ لیکن کواڈ کا ایک بھی رکن ہندوستان کے ساتھ نہیں آیا۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم اینتھونی البانیز نے پہلگام حملے کے بعد مودی کو فون کرکے دہشت گردی کی مذمت کی لیکن جب ایکشن ہوا تو کچھ نہیں کہا۔ جاپان کے وزیر اعظم شیگیرو اِشیبا نے بھی پہلگام حملے کی مذمت کی۔ لیکن بعد میں جاپان نے ہندوستان کے خلاف پاکستانی کارروائی کی مذمت نہیں کی۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے دہشت گردانہ حملے کے بعد وزیر اعظم مودی کو فون کیا اور دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کی بات کہی۔ لیکن پاکستان کے ساتھ فوجی کشیدگی کے موقع پر ہندوستان کی حمایت میں کوئی بیان نہیں دیا۔
ادھر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کی بھرپور حمایت کی ہے۔ ترکیہ اور آذر بائیجان نے تو کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوگان نے ایک بیان میں کہا کہ وہ ہر اچھے برے وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے شہباز شریف کو اپنا پیارا بھائی بتایا۔ ان دونوں ملکوں کی جانب سے پاکستان کی حمایت کرنے کی وجہ سے ہندوستان میں ان کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ خاص طور پر ترکیہ کے خلاف متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ کئی یونیورسٹیوں نے وہاں کی یونیورسٹیوں کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے ختم کر دیے ہیں۔ لیکن دوسری طرف کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جو کھل کر ہندوستان کی حمایت میں بیان دے۔
لہٰذا اب جب کہ حکومت نے 32 ملکوں میں 59 ارکان پارلیمنٹ پرمشتمل وفودبھیجنے کا اعلان کیا ہے تو اپوزیشن کی جانب سے ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر ہندوستان وشو گرو بن گیا ہے تو پھر کوئی ملک اس کے ساتھ کیوں نہیں آیا اور اب حکومت کو ان ملکوں میں وفود بھیجنے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو ممبران پارلیمنٹ اسلامی ملکوں میں جا رہے ہیں وہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے بارے میں کیا جواب دیں گے۔ واضح رہے کہ ان وفود کے جانے سے قبل ہی مدھیہ پردیش کے ایک وزیر وجے شاہ کی جانب سے کرنل صوفیہ قریشی کی توہین و تذلیل کی گئی جس پر عدالتوں نے بہت سخت رخ اختیار کیا ہے۔ تاہم ابھی تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ جب کہ ایک بے ضرر بیان پر اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کو گرفتار کر لیا گیا جنھیں اب سپریم کورٹ نے عبوری ضمانت دے دی ہے۔ علی خان محمود آباد کا معاملہ عالمی میڈیا میں چھایا ہوا ہے۔ مبصرین کہتے ہیں اسلامی ملکوں میں جانے والے ارکان مسلمانوں کے سلسلے میں کیے جانے والے سوالوں کا کیا جواب دیں گے۔ بہرحال ہم یہاں کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر رہے ہیں کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کامیاب ہے یا ناکام۔ ہم نے تمام حقائق قارئین کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ وہ خود فیصلہ کریں کہ خارجہ پالیسی کہاں کھڑی ہے۔