جب الیکشن کمیشن نے 16 اگست کو جموں و کشمیر اور ہریانہ اسمبلیوں کے لیے انتخابی تاریخوں کا اعلان کیا تو سوال اٹھایا گیا کہ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ اسمبلیوں کے لیے انتخابی پروگرام کا اعلان کیوں نہیں کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ کمیشن نے حکومت کے اشارے پر ایسا کیا ہے تاکہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے دیگر بڑے رہنماؤں کو ان دونوں ریاستوں میں پرزور طریقے سے انتخابی مہم چلانے کا موقع مل سکے۔ آخر الذکر دونوں ریاستوں میں بعد میں اس لیے انتخابات کرائے جائیں گے تاکہ وہاں بھی بی جے پی کو بھرپور موقع ملے۔ لیکن جب مبصرین اور تجزیہ کاروں کی جانب سے یہ پیشین گوئی کی جانے لگی کہ بی جے پی ہریانہ گنوا رہی ہے تو ریاستی حکومت کو اور بی جے پی رہنماؤں کو خیال آیا کہ ہریانہ میں یکم اکتوبر کو پولنگ ہوگی لیکن اسی دوران کئی روز کی تعطیلات پڑ رہی ہیں۔ لہٰذا یہ قیاس آرائی کی جانے لگی کہ ہریانہ میں انتخابی پروگرام تبدیل کیا جائے گا۔ لہٰذا جہاں پہلے یکم اکتوبر کو پولنگ ختم کرکے چار اکتوبر کو ووٹوں کی گنتی کا اعلان کیا گیا تھا وہیں ہریانہ میں پولنگ کی تاریخ پانچ اکتوبر اور ووٹوں کی گنتی کی تاریخ آٹھ اکتوبر کر دی گئی۔ اس طرح جموں و کشمیر میں بھی ووٹوں کی گنتی آٹھ اکتوبر کو کی جائے گی۔ لیکن بی جے پی چار دنوں میں کون سا تیر مار لے گی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ لیکن ایک بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ انتخابی تاریخوں میں تبدیلی کی وجہ بی جے پی کی ممکنہ شکست ہے۔ اس شکست کا اندازہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج سے ہی لگایا جا رہا تھا۔ 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے تمام دس نشستیں جیت لی تھیں۔ لیکن 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں اس نے پانچ سیٹیں گنوا دیں۔ پانچ اس نے جیتیں اور پانچ کانگریس نے۔
اگر 2019 کے اسمبلی انتخابات کے نتائج پر نظر ڈالیں تو پائیں گے کہ 90 رکنی اسمبلی میں این ڈی اے کے پاس 42 سیٹیں تھیں جن میں بی جے پی کی سیٹیں 40 تھیں۔ کانگریس کے پاس 28 سیٹیں تھیں۔ اور اگر انڈیا اتحاد کی بات کریں تو اس کی سیٹیں 30 تھیں۔ اسی طرح دشینت چوٹالہ کی جن نائک جنتا پارٹی یعنی جے جے پی نے دس نشستیں جیتی تھیں۔ بی جے پی اور جے جے پی نے ریاست میں مخلوط حکومت بنائی تھی۔ لیکن اب وہاں کا سیاسی منظرنامہ بڑی حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ جے جے پی کے سات ارکان کانگریس اور بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں۔ ریاست میں اس وقت سب سے مضبوط پوزیشن کانگریس کی ہے۔ عام آدمی پارٹی بھی قسمت آزمائی کر رہی ہے۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی میں اتحاد کی کوششیں چل رہی ہیں۔ توقع ہے کہ دونوں میں انتخابی اتحاد ہو جائے گا۔ کانگریس رہنما راہل گاندھی انڈیا اتحاد کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کی خواہش ہے کہ کسی بھی طرح دونوں پارٹیاں مل کر لڑیں۔ اگر بہ فرض محال اتحاد نہیں بھی ہوتا ہے تو بھی کانگریس کو کوئی بہت زیادہ نقصان نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہریانہ کی سیاست پر جن خاندانوں کی بالادستی رہی ہے ان میں اب صرف کانگریس کے بھوپیندر سنگھ ہڈا ہی ایسے سیاست داں ہیں جن کی گرفت اب بھی بہت مضبوط ہے۔ ورنہ باقی جتنے بھی سیاسی خاندان تھے سب کے اثرات زائل ہو چکے ہیں۔
اس وقت وہاں بی جے پی ایک ایسی پارٹی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی پارٹی اتحاد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ جبکہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے اتحاد کے علاوہ جے جے پی نے چندر شیکھر آزاد کی پارٹی ’آج سماج پارٹی‘ (اے ایس پی) سے اتحاد کیا ہے۔ لیکن اس اتحاد کو کوئی خاص کامیابی ملنے کا امکان نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چندر شیکھر آزاد کا وہاں کوئی اثر نہیں ہے اور جے جے پی کے دشینت چوٹالہ کی پوزیشن بہت خراب ہو گئی ہے۔ کسان تحریک اور خاتون پہلوانوں کی تحریک کے دوران انھوں نے جو خاموشی اختیار کی اس کی وجہ سے عوام ان سے ناراض ہیں۔ انڈین نیشنل لوک دل (آئی این ایل ڈی) کی بھی پوزیشن اچھی نہیں ہے۔ 2019 کے اسمبلی الیکشن میں اسے صرف ایک سیٹ ملی تھی۔ صرف ابھے چوٹالہ کامیاب ہوئے تھے۔ اس بار آئی این ایل ڈی نے بی ایس پی کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا ہے۔ اس کا مقصد دلت ووٹ حاصل کرنا ہے۔ لیکن بی ایس پی کی جو سیاست اترپردیش میں رہی ہے اور جس طرح مایاوتی نے بی جے پی کی درپردہ مدد کی اس کی وجہ سے ہریانہ میں بھی بی ایس پی کی کوئی امیج نہیں رہ گئی ہے۔ دشینت چوٹالہ بھی بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل رہنے کی وجہ سے اپنی سیاسی زمین کھو چکے ہیں۔
ہریانہ، پنجاب اور مغربی اترپردیش جاٹوں اور کسانوں کے علاقے ہیں۔ پارلیمانی انتخابات میں ان تینوں جگہوں پر بی جے پی کوزبردست نقصان ہوا ہے۔ قارئین اس حقیقت سے واقف ہیں کہ مرکزی حکومت نے کارپوریٹ کے دباؤ میں تین ایسے زرعی قوانین پارلیمنٹ سے منظور کرائے تھے جن کی ضرب کسانوں پر پڑ رہی تھی اور ان قوانین کا فائدہ بڑے تجارتی گھرانوں کو ہو رہا تھا۔ کسانوں نے ان قوانین کے مضر اثرات کا اندازہ لگا کر ان کی واپسی کے مطالبہ کی تحریک شروع کی۔ ایک سال سے زائد عرصے تک یہ تحریک چلی۔ جس کے دوران تقریباً ساڑھے سات سو کسانوں کی موت ہوئی۔ حکومت کی جانب سے کسانوں کی تحریک کو کچلنے کی بہت ظالمانہ کوشش کی گئی۔ ان کو خالصتانی اور دہشت گرد قرار دے کر بدنام کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ ان پر غیر ملکوں سے اور ملک دشمن طاقتوں سے فنڈ حاصل کرنے کا الزام لگایا گیا۔ لیکن بہرحال کسان اپنی جگہ پر ڈٹے رہے۔ انھوں نے حکومت کی تمام تر سختیاں برداشت کیں لیکن قدم پیچھے نہیں ہٹائے۔ جس کے نتیجے میں بالآخر حکومت کو جھکنا پڑا اور تینوں قوانین واپس لینے پڑے۔ اس تحریک نے ہریانہ اور پنجاب میں بی جے پی کی پوزیشن خراب کر دی۔ اس کا احساس وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور دوسرے رہنماؤں کو بھی ہے۔ اسی لیے حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے کھوئی ہوئی زمین واپس مل سکے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس الیکشن میں بی جے پی کی کامیابی تقریباً ناممکن ہے۔
صرف کسانوں کی تحریک سے ہی بی جے پی کو نقصان نہیں پہنچا بلکہ خاتون پہلوانوں کی تحریک سے بھی پہنچا ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ پر خاتون پہلوانوں کے جنسی استحصال کا الزام لگایا گیا۔ ان کے خلاف کارروائی کے مطالبے کے ساتھ جنتر منتر پر دھرنا دیا گیا جو کافی دنوں تک چلا۔ اس معاملے میں حکومت اور اس کے اشارے پر پولیس کا جو رویہ رہا وہ پہلوانوں کے خلاف رہا۔ اس رویے سے یہ بھی واضح ہوا کہ حکومت خواتین کی عزت کی محض باتیں ہی باتیں کرتی ہے۔ حقیقت میں اس کے نزدیک خواتین کے عزت و احترام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس نے پوری تحریک کے دوران برج بھوشن شرن سنگھ کی پشت پناہی کی۔ جب حکومت کی زیادہ بدنامی ہونے لگی تب کہیں جا کر ان سے کشتی فیڈریشن کے صدر کے عہدے سے استعفیٰ لیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود فیڈریشن پر ان کے بقول ان کا دبدبہ قائم رہا۔ پارلیمانی انتخابات کے دوران بھی بی جے پی نے ان کے ساتھ رعایت کا معاملہ کیا۔ وہ اس طرح کہ اگر چہ ان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا لیکن ان کے بیٹے کو ان کی نشست قیصر گنج سے ٹکٹ دیا گیا اور وہ کامیاب ہوئے۔ اس پوری تحریک کے دوران حکومت کا جو رویہ رہا اس نے کسانوں اور جاٹوں کی ناراضگی میں مزید اضافہ کر دیا۔
ادھر اولمپک میں جس طرح ونیش پھوگاٹ کے جسمانی وزن میں سو گرام کے اضافے کی وجہ سے ناہل قرار دے دیا گیا اس سلسلے میں بھی حکومت کا رویہ بہت مشکوک رہا۔ بلکہ بعض حلقوں کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں سازش کی گئی ہے اور کچھ لوگ شک کی سوئی حکومت کی جانب موڑ رہے تھے۔ بہرحال اس بارے میں ہمیں نہیں معلوم کہ حکومت کی کوئی سازش تھی یا اولمپک کھیلوں میں اس کا کوئی عمل دخل تھا یا نہیں لیکن جس طرح ونیش پھوگاٹ کے معاملے میں حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم مودی کا رویہ رہا اس نے بھی کسانوں اور جاٹوں کی ناراضگی کو بڑھایا۔ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک رہی ہو یا برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف پہلوانوں کی تحریک رہی ہو، کانگریس ان دونوں تحریکوں کے ساتھ رہی۔ راہل گاندھی، پرینکا گاندھی اور ملکارجن کھڑگے سمیت بیشتر کانگریسی رہنما مظاہرین کی حمایت اور حکومت کے رویے کی مخالفت کرتے رہے۔ جس کی وجہ سے کسانوں اور جاٹوں میں کانگریس کے تئیں نرم رویہ پیدا ہوا اور ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ان کی اکثریت کا جھکاؤ کانگریس پارٹی کی جانب ہو گیا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی لگایاجا سکتا ہے کہ ونیش پھوگاٹ اور پہلوان بجرنگ پونیہ نے چار ستمبر کو سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی سے ملاقات کی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دونوں میں سے کسی ایک کو کانگریس پارٹی الیکشن لڑوا سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ جس وقت یہ مضمون پڑھا جا رہا ہو اس معاملے میں کوئی فیصلہ ہو چکا ہو۔ اگر دونوں میں سے کسی کو الیکشن نہیں لڑایا گیا تب بھی دونوں کانگریس کے حق میں انتخابی مہم چلائیں گے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو اس سے کانگریس کو کافی فائدہ پہنچے گا۔ مجموعی طور پر اس وقت ہریانہ میں کانگریس کی پوزیشن سب سے اچھی ہے۔ اگر وہ اسمبلی میں آسانی سے اکثریت حاصل کر لے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔