قاسم سید
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) 2025 میں اپنے قیام کے 100 سال مکمل کرلے گا۔ ابھی تک اطلاع مل رہی تھی کہ آر ایس ایس اس موقع کو بڑے شاندار طریقے سے منانے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس کے تحت قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت بڑے پروگرام منعقد کرنے کا منصوبہ ہے۔ صد سالہ تقریبات کے موقع پر تنظیم کی ایک بڑی توسیع کا منصوبہ بھی تھا، جس میں اس کی شاخوں کی تعداد ایک لاکھ تک بڑھانےبڑھانا پیش نظرتھا ، لیکن اب اطلاعات مل رہی ہیں کہ سنگھ نے فی الحال بڑے اور عظیم الشان پروگرام ملتوی کر دیا ہے۔
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے خود ناگپور میں اس سے متعلق بیان دیا ہے۔ کیا اس نے یہ فیصلہ عام انتخابات میں ووٹروں کی سرد مہری اور مودی کی باڈی لنگویج پڑھ کر لیا ،جس میں ناامیدی، مایوسی اور بوکھلاہٹ کا عنصر نمایاں ہے ۔چار سو پار کے نعرے کا کھوکھلا پن سنگھ کے لیڈر نے محسوس کرلیا ہے ۔کیا یہ سوال بھاگوت کو بھی پریشان کررہا ہے کہ “وکاس پرش “کو منگل سوتر تک کی سیڑھیاں کیوں پھلانگنی پڑیں ؟یا پھر وہ مودی کے پارٹی سے بڑا ہوجانے اور ان کی گارنٹی والے ڈکٹیٹرانہ رویہ میں چھپی آندھیوں کی عبارت کو پڑھ رہے ہیں؟کیا انتخابات کے بعد مودی سنگھ سے بڑے ہوجائیں گے اور من مانی کرنے لگیں گے؟
اگر ایسا نہیں توشاید ان کو اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ مودی ہیٹرک نہیں لگا پائیں گے اس لئے وہ فاصلے کے اشارے دینے لگے ؟ ناگپور میں ہوئی ووٹنگ میں سنگھ کارکنوں کا گھر بیٹھ جانا اور اور کسی طرح کی گرم جوشی کا مظاہرہ نہ کرنا اس طرح کے خدشات اور قیاس آرائیوں کو تقویت دیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے اب نہ وہ گرمی ہے نہ دیوانگی۔ دریا کا پانی اترنے لگاہے۔ اب 2014اور2019 جیسے حالات نہیں ہیں ۔مودی میجک میں وہ کشش بھی نہیں رہی۔اچھے دن آئیں گے اور پلوامہ وبالاکوٹ جیسا کوئی طاقتور بیانیہ بھی لاکھ کوشش کے باوجود سامنے نہیں آسکا اور نہ ہی ملک میں کوئی لہر ہے۔الیکشن مودی بنام مودی ہوگیا ہے۔ مودی کوبھی تھک ہار کر ہندو مسلم پر آنا پڑا اور اس کے جنون میں وہ بغیر رائی کاپربت بنارہے ہیں۔ لیکن دوسرے مرحلہ کی پولنگ میں اس کا بھی اثر نہیں ہوا ۔کم ووٹنگ بی جے پی کی دھڑکنیں بڑھا رہی ہے۔ کمزور اپوزیشن لاچار ہونے کے باوجود اپنے وجود کا احساس دلارہی ہے۔میڈیا کی بیٹنگ بھی بی جے پی کو ہی نقصان پہنچارہی ہے کیونکہ وہ اپنا بھروسہ کھوچکا ہے۔اس بار بی جے پی کو سوشل میڈیا پر بھی سخت مقابلہ کا سامنا ہے۔پھر بھی بی جے پی کا ہارنا اتنا آسان نہیں ہےاس لئے کہ اس نے سب کچھ داؤ پر لگادیا ہے۔یقینا وہ پہلے سے کمزور ضرور ہوگی لیکن اقتدار میں نہیں آئے گی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اینٹیں ہلنے لگی ہیں یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بھاگوت کا بیان اسی کی طرف اشارہ کررہا ہے۔
اب صد سالہ تقریبات کے حوالے سے سنگھ کا کیا منصوبہ ہے؟ اگر صد سالہ جشن منایا جائے گاتو اس کی شکل کیا ہو گی؟ سنگھ نے اس پر بھی وضاحت کی ہے ۔دراصل 18 اپریل کو ایک پروگرام میں ناگپور میں موہن بھاگوت نے اپنے خطاب میں کہا تھاکہ “راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اپنی صد سالہ تقریب نہیں منائے گا۔ وہ اس موقع کو اپنی کچھ کامیابیوں پر فخر کرنے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہتا”۔
لوک سبھا انتخابات کے درمیان آر ایس ایس کایہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔17ویں لوک سبھا کی مدت 16 جون کو ختم ہو رہی ہے اور 18ویں لوک سبھا تشکیل پانے جارہی ہے۔ صد سالہ تقریبات نہ منانے کا سنگھ سربراہ کا فیصلہ کسی طرح ہضم نہیں ہورہا ہے ۔اوپر جو کچھ کہا گیا ہے وہ اگر مگر ،چونکہ، چنانچہ پر مشتمل سوالات و قیاس آرائیاں ہیں۔ خاص طور پر انتخابات کے درمیان اس فیصلے کو ممکنہ انتخابی نتائج سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔ اگر سنگھ نے میگا پلان کو ملتوی کر دیا ہے تو کیا وہ اپنی صد سالہ تقریب چھوٹے پیمانے پر منائے گا؟ اس پر ابھی بھی شکوک وشبہات ہیں۔
دراصل لوگوں کا ماننا ہے کہ سنگھ نے بطور ایک تنظیم اپنے قیام کے سو سال میں بہت بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس میں ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر سر فہرست ہے۔ اس کے علاوہ اس کی کامیابیوں میں اپنی سیاسی شاخ بی جے پی کی مدد کرکے اسے اقتدار تک پہنچانا، لوگوں میں سناتن دھرم کلچر کو فروغ دینا اور “ہندو راشٹر” کے تئیں لوگوں کے ذہنوں میں فخر کا جذبہ پیدا کرنا شامل ہے۔ سنگھ کا ایک اور مقصد اعلی اور نچلی ہزاروں ذاتوں میں بکھری ہندو کمیونٹی کو دھرم کی بنیاد پر متحد کرنا بھی ہے۔مگر کیا کیجئے کہ اتنی محنت اور قربانی کے باوجود 2024کے عام انتخابات میں دھرم کی جگہ ذات پات حاوی ہوگئی اور قومی ایشو کی عدم موجودگی کے سبب الیکشن بالکل مقامی سطح پر آگیا جس سے سنگھ کی امیدوں پربظاہر پانی پھرتا نظر آرہا ہے۔لیکن بہت زیادہ خوش فہمی میں بھی رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اب مزیدچند باتوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔بھاگوت نےعین الیکشن کےدوران یہ فیصلہ کیوں لیا؟کیا سنگھ کو انتہائی طاقتور مودی نہیں چاہئیے؟کیا بھاگوت کو لگاتار بونے ہونے اور کنگ ماسٹر کی پوزیشن کھونے کا خطرہ ہے اور اب وہ نیوٹرل رہنے کا ڈھونگ کرکے نئے سیاسی منظر نامہ کے لئے پوزیشن لےرہے ہیں؟
بھاگوت اور مودی کے رشتے
کیا بھاگوت اور مودی کے رشتے خراب ہورہے ہیں ؟ پران پرتشٹھا تقریب میں بھاگوت کی شمولیت کو پی ایم کی طرف سے سرسنگھ چالک کو یقین دلانے کا اشارہ دینے کی کوشش ہے کہ وہ اور سنگھ ان کے لئے بہت اہم ہیں۔ حالانکہ ان کے علاوہ مودی کے ساتھ آئینی عہدے کے اعتبار جو موجود تھے ان میں یوپی کے گورنر اور وزیر اعلی تھے اور تیسرے بھاگوت جن کے پاس کوئی آئینی عہدہ نہیں ہے۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے مودی نے بی جے پی میں آر ایس ایس کے ‘بگ برادر’ کردار کو بڑی حد تک کمزور کیا ہے۔ بھاگوت نے بھی اس ’تنزلی ‘ کومجبورا ہی قبول کیا کیونکہ مودی بھگوا برادری کی فکر کے تئیں وفادار ہیں ۔مزید یہ کہ مودی نے اس بات کو بھی یقینی بنایاکہ سنگھ سے وابستہ افراد یا اس کے ہمدردافراد کو اہم اداروں اور سرکاری عہدوں پر تعینات کیا جائے۔چوں کہ اس وقت بی جے پی اور سنگھ کے پاس مودی جیسی مقبولیت کے درجہ کا کوئی فرد نہیں ہے جو عوام کا اعتماد جیت سکے لہذاوقتی طور پر وہ مودی کو برداشت کررہا ہے۔اسی کے ساتھ یہ بات بھی صحیح ہے کہ سنگھ اور بی جے پی کے درمیان تعلقات اتنے کشیدہ نہیں ہیں جتنے کہ واجپائی کے دور میں تھے۔
تاہم مودی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بھاگوت کے ساتھ ان کی بدلی ہوئی پوزیشن ظاہر نہ ہو۔البتہ آر ایس ایس سربراہ کا ڈرائیونگ سیٹ چھوڑ کر سیکنڈ پوزیشن پر قانع ہوجانا ان کی مجبوری ،بے بسی اور جبریہ قناعت پسندی کو ظاہر کرتا ہےیا دور اندیشی اور حالات کے فہم کو اس پر کوئی حتمی رائے دینا مشکل ہے۔ جب کہ واجپئی بھی سنگھ کی باس والی پوزیشن کودل سے پسند نہیں کرتے تھے تو مودی جو فوٹو فریم میں اپنے علاوہ کسی اور کو برداشت نہیں کرسکتے، کیسے بھاگوت کی سپر باس والی حیثیت کو مان سکتے ہیں؟ ایک بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سنگھ اس بار یہ تجربہ بھی کرنا چاہ رہا ہو کہ کیا بی جے پی اس کے بغیر الیکشن جیت سکتی ہے ؟
کبھی کبھی ضرورت کے لحاظ سے اسکرپٹ، رول اور ڈائیلاگ تبدیل کیے جاتے ہیں۔ آر ایس ایس نے ہی مودی کو لانچ کیا ہےاور وہ جانتاہے کہ اس کا میزائل اپنے ٹارگٹ سے نہیں بھٹکا ہے اس لئے بھاگوت نے خود کو نمبر دو پر رکھ لیا ہے ۔اس تھیوری میں کوئی دم نہیں کہ مودی اور بھاگوت میں کوئی ٹکراؤ یا رشتوں میں کھٹاس ہے۔ حکمت علمی کے بطور ہی سنگھ ایک قدم پیچھے ہٹا ہے۔
وزیرِ اعظم مودی کی سوانح حیات لکھنے والے مصنف نلنجن مکھپادھیائے کا کہنا ہے کہ مودی 100 فی صد آر ایس ایس کے پروڈکٹ ہیں اور اسی کے مقاصد پورے کر رہے ہیں۔
سنگھ اور مودی کے رشتے
کیا کسی کو اس بات میں کوئی شک ہے کہ آرایس ایس کی خواہش و عزم کے مطابق ہی مودی نے ایک ارب 40 کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے ملک میں ہندو قوم پرستی کو نہ صرف قابلِ قبول اور مقبول بنایا ہے بلکہ اس کے استعمال سے اپنے اقتدار کو بھی طول دیا ہے۔وہ بھی ایک ایسے ملک میں جو صدیوں سے مختلف ثقافتوں اور مذاہب پر مشتمل اپنے متنوع معاشرے کو قابلِ فخر قرار دیتا ہے۔
یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ مودی نے ریاست اور مذہب کے درمیان حائل موٹی لکیر کو بہت ہلکا کردیا ہے۔ جب کہ آزادمیڈیا، سیاسی مخالفین اور عدالتوں کی آزادانہ حیثیت کو جو خطرات لاحق ہو گئے ہیں ملک کے دانشور، سیاسی مبصرین اور عالمی ادارے یہ محسوس کررہے ہیں کہ بھارت میں جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ملک میں جمہوریت ،میڈیا ،اقلیتوں کے حقوق کی پامالی پر عالمی اداروں کے ذریعہ کی گئی درجہ بندی میں گراوٹ کے باوجود مودی کے عزائم واقدامات پر کوئی فرق نہیں پڑا۔آج کل وہ جس طرح کھل کر مسلم مخالف بیانات دے رہے ہیں وہ گولوالکر کی تعلیمات کے عین مطابق ہے ۔
آرآیس ایس نے مودی کے ذریعہ کمیونسٹوں کو سیاسی میدان سے کھدیڑدیا ہے۔اب ان کا آخری قلعہ کیرلہ ہی بچا ہے باقی سب ڈھادئے گئے ۔ اب ان کے نشانے پر مسلمان ہیں۔ اس تعلق سے کشمیر سے لے کر سی اے اے تک جو فیصلے ہوئے اورریاستی سطح پریونیفارم سول کوڈ کا جواعلان ہوا اس سےیہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مودی آر ایس ایس کے سو فیصد وفادار اور گروگولوالکر کے سیاسی گرنتھ بنچ آف تھاٹ کے منصوبے پر عمل کررہے ہیں۔اس کے بعد آئین اور دلتوں کے ریزرویشن کا نمبر ہے جو سنگھ کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے ۔برہمنی نظام کے تسلط کے لئے انہیں ‘پسماندہ ذات ‘کے مودی سے اچھا مہرہ نہیں مل سکتا،جس نے ہندو راشٹرواد،ہندوتو، سناتن دھرم کا احیاء، بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر اور 80کروڑ لوگوں کو مفت اناج دے کر انہیں اپنے حقوق سے بیگانہ کردیاہے ۔
اگر کسی نے بنچ آف تھاٹ پڑھی ہو تو وہ بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مودی کی آرآیس ایس کیمپوں میں جو تربیت ہوئی وہ ان کے اقدامات سے جھلکتی ہے ا ور وہ جمہوریت کو فسطائیت میں بدلنے کی راہ پر گامزن ہیں۔انہوں نےہرآئینی ادارے کی گردن مروڑدی ۔آواز اٹھانے والوں اور سول سوسائٹی کا تیاپانچہ کردیا اور ان کے کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیا ۔سنگھ کی پسند ہٹلر اور مسولینی رہے ہیں ان کے ایک لیڈر نے مسولینی سے ملاقات بھی کی تھی ۔سنگھ جمہوریت مخالف ہے کیونکہ اس میں سب کو طاقت ملتی ہے جبکہ سنگھ صرف اشرافیہ (برہمنی سسٹم ) کو یہ حق دیتا ہے ۔مودی ملک کو صدارتی نظام کی طرف لے جارہے ہیں ۔ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے مودی کے بھلے ہی سنگھ سے رشتے بظاہر کھٹے میٹھے دکھائی دیتے ہوں مگر نظریاتی اور عملی طور پروہ سنگھ کے وفادار اور سچے کمانڈر ہیں ۔وہ سنگھ کے سربراہ کو کمزور دیکھنا تو پسند کریں گے البتہ یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ سنگھ کمزور ہو کیونکہ وہی ان کی طاقت،آتما اور پروجیکٹر ہے ۔بلا شبہ مودی کے عروج نے آر ایس ایس کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ مودی رفتہ رفتہ مطلق العنان بن گئے۔ انہوں نے پولیس اور قانونی نظام پر سارا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا لیکن اس سے سنگھ کوکوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ وہ بھی یہی چاہتا ہے۔مودی کو کریڈٹ دینا چاہیے کہ ہندو قوم پرستی یا ہندوتوا کا نظریہ ایک زمانے میں ایک خاص طبقے تک ہی محدود تھا لیکن آج یہ ملکی سیاست کا محور بن چکا ہے۔
اب اس سوال پر واپس آتے ہیں کہ بھاگوت نے آخر عام انتخابات کے گرم ماحول میں یہ بم کیوں پھوڑا ۔کیا سنگھ متحرک نظر نہیں آنا چاہتا ،یا یہ اس کی دوررس حکمت عملی کا حصہ ہے کہ خود کو آزمائشوں سے محفوظ رکھے۔جس کے لیے وہ بوقت ضرورت کینچلی بدلتا رہا ہے۔ بی جے پی کے چارسو پار کے نعرے پر سنگھ تو کیا اب بی جے پی کو بھی یقین نہیں ہے۔ جو سروے سامنے آرہے ہیں( خواہ بی جے پی کے داخلی سروے ہوں یا نجی اداروں کے) انہوں مودی اورامت شاہ سمیت سنگھ کی بھی نیند حرام کردی ہے۔ کروٹ بدلنے اورحالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی جومہارت آرایس ایس کے پاس ہے دراصل بھاگوت کابیان اسی کا عکاس ہے۔ شاید وہ ہواؤں کے رخ کی تبدیلی کو محسوس کررہے ہیں۔ اگر انڈیا شائننگ کی تاریخ دہرائی جاتی ہے تو وہ کہاں کھڑی ہوگی اور آنے والی حکومت کے ساتھ دشمنی کا رویہ کس حد تک جھیل سکے گی ۔
آر ایس ایس آکٹوپس کی طرح ہے ،اس کے ہاتھ پیر گننا مشکل ہے ۔1975میں اس نے اندرا گاندھی کےذریعہ ایمرجنسی لگانے کی حمایت کی ،اور جب اندرا کا مقابلہ کرنے کے لئے جے پرکاش میدان میں آئے تو سنگھ نے ان کا ساتھ دیا اور جب جنتا پارٹی بنی توجن سنگھ اس میں ضم ہوگئی۔ جنتا پارٹی کے زوال کے بعد پھر ہیولا بدل کر بھارتیہ جنتا پارٹی وجود میں آگئی۔جب وی پی سنگھ نے کانگریس سے بغاوت کی تو بی جے پی نے ان کی حمایت کی ۔جنتادل کے ساتھ بی جے پی نے انتخابی مفاہمت کی اورمل کر الیکشن لڑا جب کہ اس محاذ میں لالو اور ملائم بھی تھے ۔تاریخ نے پہلی بار دیکھا کہ وی پی سنگھ سرکار کو لیفٹ اور رائٹ دونوں کی حمایت حاصل تھی ۔جب وی پی سنگھ نے منڈل رپورٹ لاگو کی تو بی جے پی تلما گئی اور منڈل کے خلاف پورے ملک میں تحریک چلائی۔ منڈل کا مقابلہ کرنے کے لئےلال کرشن اڈوانی نے رتھ یاترا نکالی ۔لالو نے جب اس یاترا کو بہار میں روکا تو بی جے پی نے وی پی سنگھ سرکار سے حمایت واپس لے لی۔آخر میں منموہن سرکار کے خلاف کرپشن کا بیانیہ بنایا گیا اور جھاڑپونچھ کر انا ہزارے کو مہاراشٹر کے ایک گاؤں سے نیا گاندھی بناکر لایا گیا جو آج دس آدمی اکھٹے نہیں کرسکتے ۔اس آندولن سے کیجریوال نکلے اور منموہن سرکار کرپشن کے بوجھ سے گر گئی اور مودی ہندو ہردے سمراٹ بن کر ابھری ۔
معروف صحافی سعید نقوی نے اپنی کتاب “وطن میں غیر “ میں آر ایس ایس کے سیاسی کردار اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ مودی سرکار سے اچھے رشتوں کی حالیہ دلیل یہ ہے کہ جب بی جے پی سرکار کو راہل نے آئین بدلنے اور ریزرویشن ختم کرنے کے مبینہ منصوبہ پر گھیرا تو بھاگوت نے پینترا سنبھالا اور اور اعلان کیا کہ ریزرویشن کبھی ختم نہیں کیا جائے گا ۔ صدی تقریبات نہ منانے کا اعلان حفظ ماتقدم کے تحت لیا گیا ہے ۔سنگھ نہیں چاہے گا کہ دہائیوں کی محنت کی کمائی کسی ٹکراؤ کی نذر ہوجائے ۔اسے مودی توآئندہ بھی کئی مل جائیں گے لیکن وہ ہندو راشٹر کی ‘پری میچیور ڈیلیوری ‘نہیں چاہتا ۔وہ انتظار کرنے کے حق میں ہے باوجود اس کے کہ گزشتہ دس سالوں میں ہر چھوٹے بڑے مورچہ کی کمان انہیں کے ہاتھ میں ہےلیکن کسی نئی سرکار کے لئے مقابلہ آسان نہیں ہوگا ۔پھر بھی بھاگوت تجربہ کار کمانڈر انچیف کی طرح اپنے سپاہیوں کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے ۔یہ بالواسطہ دوستی کا ہاتھ ہے ۔کیا بھاگوت کا یہ داؤ چل جائے گا اور وہ سنگھ کو متوقع خطرے سے بچا پائیں گے ؟ اس کا پتہ چار جون کے بعد ہی چل پائے گا۔ شاید بھاگوت نوشتہ دیوار پڑھ رہے ہیں؟