مہاراشٹر میں حالیہ اسمبلی انتخاب میں بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کو بھاری کامیابی ملی ہے اور پانچ دسمبر کو آزاد میدان میں وزیر اعلیٰ اور دو نائب وزیر اعلیٰ کے حلف لینے کی رسم بھی پوری ہو چکی ہے ۔ لوک سبھا الیکشن سے قبل صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کی متفقہ رائے تھی کہ بی جے پی کو نقصان ہوگا اور ریزلٹ بھی ان رایوں کے مطابق ہی آئے ۔ لیکن اسمبلی الیکشن کے اعلان سے قبل تک تو کچھ کی رائے تھی کہ بی جے پی یہاں بھی نقصان اٹھائے گی لیکن جیسے جیسے الیکشن مہم آگے بڑھتی رہی تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کے بی جے پی کے نقصان اٹھانے والے بیانیے میں کمزوری آتی گئی یعنی الیکشن سے قبل اس زور و شور میں کمی آئی کہ انڈیا اتحاد کو برتری ملنے والی ہے۔ انتخابی نتائج نے اس پر مہر ثبت کردی ہے۔
اب الیکشن کے نتائج پرسنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک جیت یا ہار کے بعد جوش و خروش یا مایوسی سی چھا جاتی ہے۔ حالانکہ سیاسی طور سے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ جیت کی صورت میں پورے جوش و خروش کے ساتھ جشن منائیں یا شکست کی صورت میں مایوسی میں غرق ہوجائیں ۔ بی جے پی اس وقت بھی مایوس نہیں ہوئی تھی جب اس کے صرف دو ارکان پارلیمنٹ ہوا کرتے تھے اور اندرا گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس کو چارسو سے زیادہ سیٹیں ملی تھیں ۔ اس نے اپنے کام اور مشن کو ہمیشہ جاری رکھا ، وہ ایک الیکشن کے بعد سکون سے نہیں بیٹھ جاتے تھے بلکہ اگلے الیکشن کی تیاری میں جُٹ جاتے ہیں ۔ لوک سبھا میں نقصان کے بعد بھی بی جے پی اور اس کے حلیفوں نے ایسا ہی کیا۔ انہوں نے تجزیہ کیا کہ اسمبلی میں شاندار فتح کے لئے کیا کیا جاسکتا ہے ؟ ہندوتوا والا فارمولہ تو ان کا بہت پرانا نسخہ ہے ساتھ میں وہ اس میں ترقی کا تڑکا لگا دیتے ہیں جس میں تھوڑا کام اور پرچار زیادہ کرتے ہیں۔ لاڈلی بہن منصوبہ وغیرہ اسی کا ثبوت ہے۔لیکن صرف منصوبہ نہیں اس کی ہیئت اور جثہ کو قوی ہیکل بنا کر پیش کرنا ان کا کمال ہے ۔ ہندوتوا میں بھی ان کی اسی سوچ کا دخل ہے کہ جو نظریہ ملک کی اسی فیصد سے زائد آبادی کے لئے نقصان دہ اور ان کے وجود پر سوالیہ نشان لگانے والا ہو اسے ایسا بنا کر پیش کیا جو اس کی چکی میں پِسنے والا طبقہ ہے وہ بھی اسی نظریہ سے جڑتا جارہا ہے ۔
انتخابی نتائج کے بعد مسلمانوں کے درمیان الزام اور جوابی الزام کا دور چل پڑا ہے۔ ایک طبقہ نے ہمیشہ کی طرح اویسی اور ان کی پارٹی کو اس کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جیسا کہ ہمیشہ ہوتا رہاہے ۔ مسلمانوں میں موجود ایک قلیل گروہ جو آزادی کے بعد سے کانگریس کو ہی مسلمانوں کا مسیحا یا نجات دہندہ سمجھ کر اس کی حمایت کرتا آیا ہے وہ اول روز سے ہی اویسی یا مجلس اتحا دالمسلمین سے خطرہ محسوس کرتا ہے۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ اس سے ہندو ووٹ متحد ہوتا ہے جس کا فائدہ راست طور سے بی جے پی کو ملتا ہے۔پتہ نہیں ان لوگوں کی یہ سمجھ کیسے بنی؟ ایسا لگتا ہے کہ ان کی کوئی ذاتی سوچ ہی نہیں ہے بس جو کسی نے کہہ دیا اسی پر چل پڑتے ہیں۔ کسی غور و فکر اور تدبر کی ضرورت نہیں ہے ۔ کئی ایسی سیٹوں کا تجزیہ ہمارے سامنے ہے جہاں سے مجلس کا امیدوار بھی تھا لیکن ایسا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا جہاں مجلس کی وجہ سے نام نہاد سیکولر امیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہو ۔اس بار الیکشن میں تو کئی جگہوں پر انڈیا اتحاد نے مجلس کو ہی نقصان پہنچایا ۔ ہاں ایک درجن سے زائد سیٹوں پر ونچت بہوجن اگھاڑی نے انڈیا اتحاد کو نقصان پہنچایا۔ دوسری بحث مولانا سجاد نعمانی کی جانب سے امیدواروں کی حمایت کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ہندو ووٹ متحد ہوا ۔ مولانا کی ایک تقریر کے مختصر سے حصہ کو استعمال کرکے فڑنویس نے اپنے الیکشن مہم میں ووٹوں کو متحد کرنے کا کام کیا ۔ فڑنویس نے اسے قبول بھی کیا کہ ہندو ووٹوں کے ارتکاز نے انہیں فتح سے ہمکنار کیا ۔
مہاراشٹر الیکشن میں انڈیا اتحاد کی ہار کیلئے اویسی یا سجاد نعمانی میں سے کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ انڈیا اتحاد خو د ہی اس کا ذمہ دار ہے۔ اول تو کئی جگہ باغی امیدواروں نے بھی انہیں نقصان پہنچایا، دوسرے، آخرآخر وقت تک کئی جگہ ان کے امیدوار کا اعلان ہی نہیں ہوا تھا یا یہ کہ اتحادیوں میں سے یہ سیٹ کس کے حصہ میں آئے گی اس کا فیصلہ نہیں ہوپایا تھا ۔ کئی جگہوں پر ایسا بھی ہوا کہ انڈیا اتحاد ہی آمنے سامنے رہا ۔ ان سب وجوہات سے عوام میں تذبذب پیدا ہوا اور زوردار تشہیر سے بی جے پی نے جو امیج بنائی تھی اس کی وجہ سے انہیں فائدہ ہوا اور انڈیا اتحاد کو نقصان ہوا ۔
انڈیا اتحاد کو اس کی متکبرانہ سوچ نے بھی نقصان پہنچایا ۔ مثال کے طور پر انہوں وی بی اے یعنی ونچت بہوجن اگھاڑی اور مجلس اتحا دالمسلمین جیسی تنظیموں سے دوری بنائی جب کہ ان کو اتحاد میں شامل کرنے سے فائدہ ہوتا اور اگر اقتدار تک نہیں پہنچ پاتے تو کم از کم ذلت آمیز شکست کا تو سامنا نہیں ہوتا ۔ جس کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی کے لیڈروں نے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ دینے سے ہی منع کردیا ہے ۔ جیسا کہ پارلیمنٹ 2014 سے 2019 تک اپوزیشن لیڈر سے محروم رہی ۔ سو بات کی ایک بات یہ ہے کہ بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کی فتح کی وجہ صرف ہندوتوا ایجنڈا نہیں ہے ۔ انہوں نے درپردہ اسے گرم رکھنے کی کوشش تو ضرور کی مگر زمینی سطح پر ترقیاتی منصوبوں کو عوام کے سامنے کامیابی سے پیش کیا جس میں اول لاڈلی بہن منصوبہ ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی خامی یہ رہی کہ وہ کئی پروجیکٹ کے مہاراشٹر سے گجرات منتقل ہونے کے معاملے کوزور وشور سے نہیں اٹھا سکے اور نا ہی اس سے ہونے والی بیروزگاری اور معاشی نقصان کو پیش کرسکے ۔
بہرحال یہ مسلمانوں کی ہار جیت کا معاملہ نہیں ہے کہ وہ آپس میں ہی دست گریباں ہوجائیں ۔ سیاسی پارٹیوں کی ہار جیت میں انہیں قطعی جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ، جن مسلم تنظیموں نے بی جے پی اتحاد کے خلاف مہم چلائی وہ درست نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اس میں صرف مسلمانوں کو ہی نصیحت کی جاتی ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے ۔ بلکہ اکثریت کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے تئیں نفرت کی وجہ سے ملک کس رخ پر جارہا ہے اور دنیا میں اس کے وقار کو کس طرح دھچکا لگ رہا ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کے بجائے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ کیا کریں۔ مسلمانوں کے پاس اتنی سیاسی سوجھ بوجھ ہے اور وہ خود سے بہتر فیصلہ کرسکیں۔ 2014سے برابر یہ کوشش ہورہی ہے کہ بی جے پی کو ہرانا ہے مگر نتیجہ اس کے برخلاف آتاہے ۔ اس لئے کسی کو ہرانے اور کسی کو جتانے کا کھیل کھیلنے کی بجائے مسلم لیڈر شپ کی طرف توجہ دی جائے ۔ بھول جائیں کہ مولانا آزاد نے لکھنو کانفرنس میں کیا کہا تھا اور بی جے پی اور کانگریس میں سے آپ کو کس کے ساتھ جانا چاہئے ۔