سہیل انجم
مرکز کی نریند رمودی حکومت عوامی فلاح و بہبود کے بڑے بڑے دعوے کرتی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ آزاد ہندوستان میں عوام کی ایسی فکر کرنے والی کوئی دوسری حکومت پہلے کبھی نہیں آئی ۔ وہ یہ پرو پیگنڈہ کرتی رہتی ہے کہ اس نے خود کو عوام کی بھلائی کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی بار بار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ملک و قوم کی خدمت کے لیے گھر بار تج دیا، اہل خانہ کو چھوڑ دیااورصرف اور صرف ملک و قوم کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ اگر کوئی پروگرام یا پروجکٹ لانچ کرتے ہیں تو سابقہ حکومتوں میں کیڑے ضرور نکالتے ہیں اور یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اب تک کی حکومتوں نے ملک کو لوٹا ہے اور اوپر والے نے اس لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کی ذمہ داری کے لیے ان کو چن لیا ہے۔
اسی طرح جب ملک میں کرونا کی بھیانک وبا آئی اور ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے، جب شمشان گھاٹ چتاؤں کی روشنی سے روشن ہو گئے، جب قبرستانوں میں مردے دفن کرنے کی جگہ نہیں بچی تو اس وقت بھی حکومت نے بلند بانگ دعوے کیے تھے۔ اسپتالوں کا نظام بری طرح لڑکھڑا گیا تھا۔ خاص طور پر کسی بھی سرکاری اسپتال میں نہ ڈاکٹر تھے، نہ دوائیں اور نہ ہی دوسری سہولتیں۔ لوگ آکسیجن کی قلت کی وجہ سے دم توڑتے رہے لیکن حکومت اپنا پرو پیگنڈہ کرتی رہی۔ حکومت حامیوں اور بی جے پی کارکنوں اور ہمدردوں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ مودی جی نے لاکھوں لوگوں کی زندگی بچا لی۔ اگر وہ نہیں ہوتے تو ملک کی بہت بڑی آبادی صاف ہو گئی ہوتی۔ کیوں کہ انہوں نے بروقت ویکسین تیار کروا کر لوگوں کی جانیں بچا لیں۔ صرف اپنے ملک کے باشندوں کی ہی نہیں بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی ویکسین سپلائی کرکے انسانی خدمت کی مثال قائم کی۔ لیکن اب جو حقائق سامنے آرہے ہیں ان سے مودی حکومت کے تمام تر دعوؤں کی پول کھل گئی ہے۔ حالانکہ اس وقت بھی بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ ویکسی نیشن کا عمل مکمل طور پر فراڈ ہے لیکن اس کے باوجود عوام نے حکومت پر اعتبار کیا۔ ادھر حکومت نے بھی عوام کو ویکسین لگوانے پر مجبور کیا۔ بہت سی حکومتی اسکیموں کو ویکسی نیشن سے مشروط کر دیا گیا۔ سفری دستاویزات میں ویکسین سرٹی فکیٹ کو لازمی قرار دے دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود عوام کے بہت بڑے طبقے نے حکومت پر بھروسہ نہیں کیا اور اس نے ویکسین کی ڈوز نہیں لی۔ اب جو انکشافات ہوئے ہیں ان سے یہ ثابت ہوا کہ واقعی یہ عمل فراڈ تھا۔
ہندوستان میں دو کمپنیوں کی ویکسین لگائی جا رہی تھی۔ ایک سیرم انسٹی ٹیوٹ کی تیار کردہ کووی شیلڈ اور دوسری بھارت بائیو ٹیک کی تیار کردہ کوویکسین۔ لیکن حکومت کا زیادہ زور کووی شیلڈ پر تھا اور اسی کو ترجیح دی جاتی رہی۔ کوویکسین کو زیادہ ترجیح نہیں دی گئی۔ حکومت کے اداروں کی جانب سے بھی کووی شیلڈ کو ہی اچھی ویکسین بتایا جاتا رہا اور اسی کو بڑی مقدار میں فراہم کیا جاتا رہا۔ اکثر اسپتالوں اور ویکسی نیشن کے مراکز پر کووی شیلڈ کی کمی نہیں ہونے دی گئی جبکہ کوویکسین کی کمی ہوئی تو اس کی سپلائی میں کوئی دلچسپی نہیں لی گئی۔ ویکسین سرٹی فکٹ پر وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر آویزاں کی گئی اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں جگہ جگہ ’’تھینک یو مودی جی‘‘ کی بڑی بڑی ہورڈنگس لگائی گئیں اور یہ جتانے کی کوشش کی گئی کہ اگر مودی جی نے ویکسی نیشن میں اتنی دلچسپی نہ لی ہوتی تو کروڑوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ لیکن اب جبکہ ایک بہت اہم انکشاف ہوا ہے بلکہ ایک بہت بڑے گھوٹالے کا انکشاف ہوا ہے تو اب وہ اس کا کریڈٹ لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ اس وقت بھی بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ جب ویکسین سرٹی فکیٹ پر اپنی تصویرلگوا کر مودی جی کریڈٹ لے رہے ہیں تو کورونا سے مرنے والوں کے سرٹی فکیٹ پر وہ اپنی تصویر کیوں نہیں لگواتے۔
خیال رہے کہ کووی شیلڈ ویکسین کو برطانیہ کی کمپنی ’’آسترا زینیکا‘‘ نے تیار کیا تھا جسے ہندوستان میں پونہ کے سیرم انسٹی ٹیوٹ نے بنایا۔ آسترازینیکا نے برطانیہ کی عدالت میں اس کا اعتراف کیا ہے کہ اس کی تیار کردہ ویکسین کووی شیلڈ سے سائڈ ایفکٹ یعنی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کمپنی کے مطابق جن لوگوں نے یہ ویکسین لی ہے ان میں بلڈ کلاٹنگ یعنی خون کے تھکے جمنے، پلیٹ لیٹ کم ہونے اور برین ہیمریج کی شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔ برطانوی میڈیا کے مطابق مذکورہ کمپنی نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس ویکسین کی وجہ سے ٹی ٹی ایس کی شکایت ملی ہے۔ ٹی ٹی ایس کی وجہ سے ہی بلڈ کلاٹنگ، پلیٹ لیٹ کی کمی اور برین ہیمریج کی شکایت پیدا ہوتی ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق برطانیہ کی مختلف عدالتوں میں اس کمپنی کے خلاف پچاس سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ شکایت کنندگان نے کروڑوں روپے کے معاوضے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے عزیزوں اور رشتے داروں کی موت اس ویکسین کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ہندوستان میں کورونا وائرس کے بعد مختلف عمر کے لوگوں اور خاص طور پر نوجوانوں میں حرکت قلب بند ہونے سے موت کے واقعات بہت زیادہ ہو رہے ہیں۔ ایسا دیکھا گیا ہے کہ لوگ چلتے چلتے گرتے ہیں اورختم ہو جاتے ہیں۔ یا کہیں بیٹھے ہوئے ہیں کہ اچانک گر گئے اور آن واحد میں ان کی روح نکل گئی۔ لہٰذا یہاں بھی متاثرین کے اہل خانہ کی جانب سے کمپنی کے خلاف مقدمات کی تیاری چل رہی ہے۔
دراصل ہندوستان کا معاملہ زیادہ سنگین ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیرم کمپنی نے الیکٹورل بانڈز خرید کر مودی حکومت کو 52 کروڑ روپے کا چندہ دیا اس کے بعد ہی کووی شیلڈ کو منظوری ملی۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو وائرل ہے جس کے مطابق یکم ، دو اور 17 اگست کو سیرم انسٹی ٹیوٹ نے الیکٹورل بانڈز کے ذریعے بی جے پی کو پچاس کروڑ روپے سے زیادہ کا چندہ دیا۔ اس کے بعد 23 اگست کو سیرم انسٹی ٹیوٹ کے مالک ادار پونہ والا مودی سے ملاقات کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہی کووی شیلڈ لگانے کا اعلان ہوتا ہے اور اس طرح سیرم انسٹی ٹیوٹ کی تیار کردہ ویکسین کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں اس سے قبل کبھی بھی کوئی ویکسین فروخت نہیں کی گئی بلکہ ہر ویکسین حکومت کی جانب سے مفت لگائی گئی۔ لیکن پہلی بار ایسا ہوا کہ ملک میں ویکسین کو پیسوں کے عوض فروخت کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ کووی شیلڈ کی قیمت ڈیڑھ سو روپے بھی نہیں تھی لیکن اسے چھ سو اور سات سو روپے میں فروخت کیا گیا۔ اس طرح پونہ والا ویکسین فروخت کرکے اربوں روپے کما کر ملک کا پانچواں امیر شخص بن جاتا ہے۔ ادھر مودی حکومت کو کروڑوں روپے کا چندہ ملتا ہے اور عوام کو اپنے لوگوں کی لاشیں ملتی ہیں۔
اس انکشاف کے بعد اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے مودی حکومت پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور اس سے اس کا حساب مانگا جا رہا ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جس طرح بہت سے معاملات پر حکومت خاموشی اختیار کرلیتی ہے اسی طرح اس معاملے پربھی خاموشی اختیار کرلے گی۔ کیوں کہ ان کے بقول وہ صرف دعوے کرنا جانتی ہے ذمہ داری قبول کرنا نہیں۔
قارئین کو یہ بات معلوم ہوگی کہ الیکٹورل بانڈز اسکیم ہندوستان کی سب سے بڑی دھوکہ دھڑی تھی۔ وہ دنیا کا سب سے بڑا گھوٹالہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اسے غیر قانونی قرار دے کر اسے منسوخ کر دیا اور اس کے توسط سے ملنے والے چندے کی تفصیل عام کرنے کی ہدایت دی۔ جس طرح الیکٹورل بانڈز اسکیم ایک بہت بڑا گھوٹالہ تھا بالکل اسی طرح ویکسین کا عمل بھی بہت بڑا گھوٹالہ تھا۔ خاص طور پر کووی شیلڈ ویکسین ۔ اگر سیرم انسٹی ٹیوٹ نے بی جے پی کو 52 کروڑ روپے کا چندہ نہ دیا ہوتا تو ممکن ہے کہ اسے منظوری نہیں ملتی۔ الیکٹورل بانڈز سے کیسے کیسے بدعنوان لوگ ایماندار بن گئے۔ پہلے ان پر چھاپے مارے گئے، ان کی گرفتاری ہوئی اور پھر جب انھوں نے بی جے پی کو بانڈز کے ذریعے کروڑوں کا چندہ دیا تو نہ صرف یہ کہ انھیں جیل سے
رہائی مل گئی بلکہ ان کے خلاف جانچ بھی روک دی گئی۔
دراصل یہ حکومت عوام کی جیبوں سے پیسے نکالنے کا ہنر جانتی ہے۔ مختلف بہانوں سے عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں۔ انہی میں الیکٹورل بانڈز اسکیم بھی شامل ہے۔ لیکن کیا کسی نے یہ سوچا تھا کہ حکومت پیسوں کے لیے عوامی صحت سے بھی کھلواڑ کرے گی۔ لیکن بظاہر ایسا ہی ہوا ہے۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ نے چندہ دے کر اپنی ویکسین کا دھندہ کیا۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ جنھوں نے چندہ دیا انھوں نے دھندہ لیا۔ ایسا لگتا ہے کہ سیرم انسٹی ٹیوٹ نے بھی یہی کیا ہے۔ لیکن کیا یہاں بھی برطانیہ کے مانند مقدمات قائم ہوں گے اورمعاوضے طلب کیے جائیں گے۔ اور اگر ایساہوا تو کیا متاثرین کو کوئی معاوضہ مل پائے گا۔ جو حکومت یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی کہ آکسیجن کی قلت سے لوگوں کی موتیں ہوئیں وہ بھلا یہ کیسے تسلیم کرے گی کہ کووی شیلڈ سے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اورمتاثرین کو معاوضہ ملنا چاہیے۔