عبدالباری مسعود
ایک دفعہ کسی صحافی نے ازراہ مذاق بی جے پی کے رہنما آنجہانی اٹل بہاری باجپئی سے پوچھا تھا کہ اگر مسلمان نہیں ہوں گے تو آپ کی پارٹی کیا ہوگا؟ انہوں نے اسی لہجہ میں جواب دیا کہ ہم انہیں ( مسلمانوں کو) باہر سے امپورٹ ( درآمد) کریں گے ۔ گو کہ یہ ایک لطیفہ ہے مگر یہ بی جے پی کی حقیقت کو بیان کرتا ہے ۔ جس طرح شاعرانہ تخیل میں کائنات کے رنگ کے لئے وجود زن کی ضرورت ہے۔ ٹھیک اسی طرح بی جے پی کا وجود بھی مسلمانوں کے وجود کا مرہون منت بن گیاہے۔
اسی تناظر میں موجودہ 18ویں پارلیمانی انتخابات کے سات مرحلوں کے پہلے مرحلہ کی رائے دہی کے بعد وزیراعظم نریندر مودی، ان کےخصوصی مصاحب امت شاہ، آسام و یوپی کے وزرائے اعلی ہمنت بسوا سرما و یوگی آدتیہ ناتھ، وزیراطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکراور پارٹی کے دیگر لیڈروں کی طرف سے ملک کی دوسری بڑی مذہبی اکثریت کے خلاف جو زبردست ہرزہ سرائی اور طوفان بدتمیزی جاری ہے وہ مذکورہ لطیفہ کی حقیقت کو بیان کرتی ہے ۔ مزیدستم ظریفی یہ ہے کہ حکمراں جماعت نے ایک تشہیری ویڈیو بھی جاری کیا ہے جس کا محوربھی یہی منافرت انگیز اور صریح دروغ پر مبنی تقریریں ہیں۔ یہ تقریر یں جہاں مودی اور پارٹی کی شکست کے ڈر سے بدحواسی کی آئینہ دار ہیں وہیں اس کے ہندتو نظریہ کی بودہ پن کو بھی آشکار کر رہی ہے۔ انہیں ڈوبتے کو تنکہ کا سہارا کے مصداق مسلمان ہی اب واحد سہارا نظر آنے لگے ہیں۔ دس سالہ رپورٹ میں کچھ ایسا نہیں کہ مودی اس کی بنیاد پر لوگوں سے ووٹ مانگ سکیں۔
تاہم سب زیادہ تشویش کی بات یہ کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 اور انتخابی ضابطہ اخلاق کی اس برہنہ خلاف ورزی اور زبردست پامالی پر انتخابات کا نگراں ادارہ حسب معمول مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ جب کہ پورا حزب اختلاف اور انصاف پسند حلقے سر اپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ نیز پوری دنیا نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے ۔ نامور بین الاقوامی اخبارات اور چینلوں میں انتہائی سفلہ درجہ کے یہ نفرت انگیز بیانات شہ سرخیاں بن رہے ہیں اورا نہیں منافرت انگیز تقاریر ( Hate Speech) سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ مگر الیکشن کمیشن کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔
آئیے سب سے پہلے وزیراعظم مودی کی راجستھان کے بانسواڑا کے 21اپریل کےانتخابی جلسہ کی تقریر کاجائزہ لیتے ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ وہ اپنے منصب و آئین کا کوئی لحاظ نہیں رکھتے اور یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ پورے ملک کے وزیراعظم ہیں نہ کہ صرف ان 36 فی صد رائے دہندگان کے جنہوں نے انہیں منتخب کیا ہے ۔
مودی نے اس جلسہ میں کہا : “پہلے جب ان کی ( کانگریس)سرکار تھی، انہوں نے کہا تھا کی دیش کی سمپتی پر پہلا ادھیکار مسلمانوں کا ہے۔ اس کا مطلب ، یہ سمپتی ( دولت) اکٹھی کرکے کس کو بانٹیں گے ؟ جن کے زیادہ بچے ہیں ، ان کو بانٹیں گے ، گھس پیٹیوں کو بانٹیں گے۔ کیا آپ کی محنت کی کمائی کا پیسہ گھس پیٹیوں کو دیا جائے ؟ آپ کو یہ منظور ہے ؟ یہ کانگریس کا مینی فیسٹو کہہ رہا ہے کہ وہ ماتائوں اور بہنوں کے سونے کا حساب کریں گے اس کی جھڑتی کریں گے ، جان کاری لیں گے اور پھر وہ سمپتی کو بانٹ دیں گے ۔ اور ان کو بانٹ دیں گے جن کو من موہن سنگھ کی سرکار نے کہا تھا کہ سمپتی پر پہلا ادھیکار مسلمانوں کا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، یہ اربن نکسل کی سوچ ہے ۔ میری ماتاوں بہنوں آپ کا منگل ستر بھی بچے گا نہیں ۔ وہ چھین کر مسلمانوں کو دے دیں گے۔ ”
اس تقریر کے دو دن بعد پھر وزیراعظم نے ٹونک شہر میں جہاں مسلمانو ں کی اکثریت ہے ، کانگریس کی آڑ میں یہی باتیں دوہراتے ہوئے مسلمانوں کا نشانہ بنایا اور ان کے ریزرویشن کے حوالے صریح جھوٹ بولا۔
یہ تقریریں ہر اعتبار سے نہ صرف جھوٹ کا پلندہ ہیں بلکہ اس سے ایک مذہبی فرقہ کے تئیں گہری نفرت اور تعصب کا کھلا اظہار بھی ہوتا ہے۔
بطور مثال 2019 میں جھارکھنڈ اسمبلی کے انتخابات کے دوران دمکا میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے سی اے اے کے خلاف احتجاج کر نے والوں کے بارے میں کہا تھا ” آگ لگانے والے کون ہیں وہ ان کے کپڑوں سے پتہ چل جاتا ہے، ٹی وی پر ان کے درشے ( تصویریں) آر ہی ہیں جو لوگ آگ لگا رہے ہیں۔ ” ٗ
اسی سال 6 اپریل کو ناندیڑ میں ایک جلسہ میں مودی نے پھر مسلم کارڈ کھیلا کہ کانگریس کے نامدار( راہول گاندھی) نے مائکرو اسکوپ لے کر بھارت میں ایک ایسی سیٹ کھوجی ہے جہاں پر وہ مقابلہ کرنے کی طاقت کی رکھ سکے۔
جب وہ گجرات کے وزیر اعلی تھے انہوں نے گجرات کے مسلم کش فسادات کے چند ماہ بعد مسلم پناہ گزینوں کے کیمپوں کو بچہ پیدا کرنے والی فیکٹریوں (baby-making factories) سے تشبیہ دی تھی۔ مہسانہ ضلع میں گورو یاترا کے دوران 9 ستمبر کو مودی نے کہا کہ بھائیوں کیا ہمیں ریلیف کیمپ چلانا چاہیے ۔ کیا میں مجھے بچہ پیدا کرنے والے کارخانے قائم کرنا چاہیے ؟ ہم خاندانی منصوبہ بندی پر سختی سے عمل کرکے ترقی کرنے کی امید کرتے ہیں ۔لیکن یہاں تو ہم پانچ اور ہمارے پچیس والا معاملہ ہے ۔ اگر کچھ لوگ بچے زیادہ پیدا کرنے لگیں گے تو وہ بچے سائیکل پنکچر جوڑنے کے سوا کیا کام کریں گے ؟
مودی کی ان تقریروں کا وسیع تناظر میں جائزہ لیا جائے تو یہ نکتہ عیاں ہوتا ہے کہ یہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے منافرانہ ایجنڈا سے بالکل مطابقت رکھتی ہیں کہ مسلمانوں سے ملک کے ہندوؤں کو خطرہ ہے اور یہ کہ ملک پر مغل راج دوبارہ آ جائے گا ۔
اسی طرح امت شاہ اور پارٹی کے دیگر لیڈران تو اس معاملہ میں مودی سے بھی کئی قدم آگے ہیں۔ مسلمانوں کے تعلق سے ایسی ایسی بے سر و پا باتیں کرتے ہیں کہ ان کا حقائق سے ذرا برابر علاقہ نہیں ہوتا اور ان پر بے ساختہ ہنسی آ تی ہے ۔ امت شاہ نے ایک جلسہ میں کہا کہ کانگریس اس ملک میں شریعت نافذ کرنا چاہتی ہے۔ انورا گ ٹھاکر نے دہلی اسمبلی انتخابات کے موقع پر کہا تھا “گولی مارو سالوں( مسلمانوں ) کو “۔ اب انہوں نے مودی کے بیان کو ہماچل پردیش کے ہمیر پور میں منعقدہ جلسہ میں دہرایا۔ یوگی آدیتہ ناتھ حسب معمول اپنی فطرت کا اظہار کر رہے ہیں ۔
گزشتہ دس بارہ سالوں سے ہندتوا کی ٹرول آرمی اور پروپیگنڈا مشنیری سوشل میڈیا پر نیز بی جے پی کے سیاسی رہنما سیاسی پلیٹ فارموں اور اپنے ٹی وی چینلوں پر اسی طرح کابے بنیاد پر و پیگنڈاکررہے کہ جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہر مسلمان سے ہندو کو خطرہ ہے۔ تقریبا 35 سال قبل کانگریس کے ایک ترجمان وی این گاڈگل نے آر ایس ایس کو افواہ پھیلانے والی انجمن (Rumours Spreading Society) قرار دیا تھا ۔ گاڈگل کا تعلق پونا سے تھا جو آر ایس ایس کا ایک گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔
جہاں تک ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا نعرہ ہے اس بارے میں آر ایس ایس نے اب تک کوئی خاکہ یا منشور پیش نہیں کیا ہے۔ لیکن ا س کے لٹر یچر اور اولین قائدین کے افکار و نظریات سے یہ واضح ہے کہ یہ برہمنی نظام یا نسلی تفوق کا غلبہ چاہتا ہے ۔
نیپال اب سے کچھ عرصہ قبل تک ایک ہندو راشٹر تھا جس کے 1959 کے دستور میں لکھا تھا کہ بادشاہ چھتریہ ذات سے ہونا چاہیے جو آریائی تہذیب کا پیروکار اور ہندو ہو جیسا کہ منو سمرتی میں ہے۔ اسی طرح 1962 کے دستور میں اسی کے ساتھ مزید لکھا ہے کہ راج سبھا یا وزارت کا سربراہ برہمن ( بڑا گروجویو ) ہونا چاہیے۔ یہی سب کچھ یہاں پر ہوگا۔
جہاں تک زیادہ بچے پیدا کرنے کا طنز ہے اس کا آر جی ڈی کے رہنما تیجسوی یادو نےاچھا جواب دیا ہے۔ انہوں نے زیادہ بچوں والے سیاستدانوں کی ایک طویل فہرست پیش کی ۔ جس کے مطابق امت شاہ کی چھ بہنیں، مودی کے دو بھائی اور بہنیں ، اور ان کے والد دامودر مودی کے سات بھائی بہنیں، روی شنکر پرساد کی سات بھائی اور بہنیں ، اٹل بہاری باجپئی کے سات بھائی اور بہنیں ، سابق صدر جمہوریہ وی وی گری کے چودہ بچے ، سبھاش چندر بوس کے چودہ بھائی اور بہنیں تھیں ۔
وہیں مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے مودی کی تقریر پر طنز کرتے ہوئے اپنے ایکس ہینڈل پر لکھا کہ سال 2002 سے آج تک مودی کی واحد گیارنٹی مسلمانوں کو برا بھلا کہکر ووٹ حاصل کرنے کی رہی ہے۔
معنی خیز بات یہ ہے کہ خود مودی حکومت نے منافرت کے انسداد کے لیے راجیہ سبھا میں دوسال قبل ایک بل پیش کیا تھا۔ مجوزہ بل Hate Crime and Hate Speech (Combat, Prevention, and Punishment) Bill, 2022, میں منافرت کی جامع تعریف پیش کی گئی ہے ۔ اگر اس بل کے مشمولات کی روشنی میں مودی اور دیگر بی جے پی لیڈرورں کی تقریریں کو دیکھا جائے تو یہ ہیٹ اسپیچ کی کتابی مثالیں کہلائیں گی ۔
دنیا میں ان چیزوں کا نوٹس لیا جارہا ہے۔ واشنگٹن میں واقع ایک تنظیم انڈیا ہیٹ لیب(India Hate Lab ) نے اپنی تازہ رپورٹ بعنوان Hate Speech Events in India میں کہا ہے کہ گزشتہ سال 2023 میں مسلمانوں کے خلاف منافرانہ بیانات کے 668 معاملے ریکارڈ کیے گئے۔ سال کے پہلے نصف میں 255 واقعات رونما ہوئے اور دوسرے نصف میں ان میں 62 فیصد کا اضافہ ہوا جو 413 ہیں۔ ان میں سے 75 فی صد واقعات بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں رونما ہوئے۔ ان میں سے 36 فی صد یا 239 معاملے مسلمانوں کے خلاف تشدد اور حملوں کی کھلے عام دعوت دینے کے ہیں ۔ جبکہ 63 فی صد یا 420 معاملے سازشی تھیوریوں کے ہیں جن میں لو جہاد، لینڈ جہاد ، حلال جہاد اور آبادی جہاد وغیرہ شامل ہیں ۔ بقیہ معاملے مسلمانو ں کی عباد ت گاہوں کو نشانہ بنانے سے متعلق ہیں۔
تاہم مختلف سیاسی جماعتوں اور ہزاروں شہریوں کی طرف سے وزیر اعظم کے خلاف تحریری شکایات درج کرنے کے باوجود الیکشن کمیشن نے محض رسمی خانہ پوری کے تحت وزیراعظم کو براہ راست نہ کوئی شو کاز نوٹس ، نہ عام نوٹس بھیجا بلکہ پارٹی کے صدر کو مشاورتی نوعیت کا نوٹس بھیجا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محض توازن کی غرض سے راہول گاندھی کے خلاف بھی پارٹی کے صدر کے توسط سے نوٹس بھیجا۔
جب کہ خود چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے 16 مارچ کو انتخابات کی تاریخوں کاا علان کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں واضح طور پر کہا تھا کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی جو کوئی بھی کرے گا چاہے وہ کتنے ہی بڑے منصب پر فائز ہو، کمیشن اسے برداشت نہیں کرے گا۔ ان کے الفاظ میں”جہاں پر بھی خلاف وزری کا معاملہ ثابت ہوگا ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ جو بھی شخص اس میں ملوث ہوگا چاہے وہ بھی کتنے بھی بڑے عہدے پر فائز ہو ، ہم اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔”
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم کی تقریر کے آڈیو اور ویڈیو ریکارڈز طلب کیے تھے اور بی جے پی سے 29 اپریل تک شکایات کا جواب دینے کی ہدایت دی تھی۔ حالانکہ کمیشن کی طرف سے ہر حلقے میں ‘مبصرین’ کی فوج تعینات ہے ان کا کام خلاف ورز ی کے معاملہ کی اطلاع اسی دن کمیشن کو دینا ہے ۔ لیکن نہ وہ وزیر اعظم نہ کسی دوسرے بی جے پی لیڈر یا امیدوار کی شکایت کا ثبوت الیکشن کمیشن کو ویڈیو کی شکل میں بھیج رہے ہیں جب کہ بی جے پی کے امیدوار کھلے عام مذہب کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔
وزیراعظم کی تقریر کا معاملہ لیں۔ یہ نہ صرف انتہائی درجہ کی نفرت انگیز تقریر ہے بلکہ وہ عوامی نمائندگی قانون Representation of the People Act (RPA), 1951. کی دفعات 123(3)، 123(3A) اور 125 کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ لیکن کمیشن کی طرف سے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہونا کس چیز کی غمازی کرتا ہے۔ خیال رہے 2019 کے عام انتخابات کے دوران بھی وزیراعظم اور امت شاہ کے خلاف متعدد شکایتیں درج ہوئی تھیں لیکن ایک پر بھی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اس وقت کے اشوک لواسا تین نفری کمیشن کے واحد رکن تھے جنہوں نے مودی اور امت شاہ کو کلین چٹ دینے سے صاف انکار کردیا تھا۔
اب بھی کمیشن کو اکیلے کانگریس کی طرف سے بی جے پی لیڈروں اور امیدواروں کے خلاف یومیہ اوسطا 18شکایتیں مل رہی ہیں ۔ لیکن کمیشن ان پر کوئی کارروائی کرنے کے بجائے اپوزیشن لیڈروں کے خلاف معمولی شکایت پر حرکت میں آجاتا ہے۔ اس کی بہت ساری مثالیں ہیں۔ کمیشن نے کانگریس کی ترجمان سپریا شری نیت کی بی جے پی امیدوار کنگنا رناوت کے بارے میں ایک غیر معروف سوشل میڈیا پوسٹ کے لیے سرزنش کی۔ دوسرے کانگریس لیڈر رندیپ سنگھ سرجے والا پر بی جے پی کی موجودہ رکن پارلیمنٹ ہیما مالنی پر ’تضحیک آمیز‘ تبصرہ کرنے پر 48 گھنٹوں کے لیے انتخابی مہم چلانے پر پابندی لگا دی۔ڈی ایم کے لیڈر انیتھا آر رادھا کرشنن کے مودی پر ایک تبصرہ کے لییے ایف آئی آر درج کرا دی ۔
کمیشن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ 16 مارچ سے 16 اپریل کے درمیان شہریوں کی جانب سے ای ویجل مائیکرو سائٹ پر ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزیوں کی کل دو لاکھ 68 ہزار سے زائد شکایات درج کی گئیں۔ اور اس نے د ولاکھ 67 ہزار سے زائد معاملوں میں کارروائی کی لیکن اس کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ۔