ڈونالڈ ٹرمپ -ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

قاسم سید      
نومبر 2024
d

ٹرمپ کی فتح نے عالمی سطح پر بیک وقت  خدشات، اندیشوں،امکانات اور توقعات  کو جنم دیاہے۔ ـ ماضی کے ان کے اقدامات اس کا اصل سبب ہیں۔ـ  بائیڈن کے دور کو کئی اعتبار سے ناکام ومایوس کن دور ہی کہا جائے گا۔ وہ موجودہ دور کے دو انسانی المیوں یوکرین اورغزہ کی لڑائی کو ختم کرانے میں پوری طرح  ناکام رہے۔ ـٹرمپ کی امریکی تاریخ کی بڑی کامیابی نے اسی مایوسی کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔  وہ بے روزگار نوجوانوں اور جنگ کے خلاف رائے عامہ کو اپنے

حق میں موڑنے میں کامیاب رہے۔ البتہ اب  یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ ان کے انتخاب سے بین اقوامی جیو پولیٹیکل  حالات کس حد تک متاثر ہوں گےـ۔ کیا وہ اپنے پہلے دور کی پالیسیوں میں نیا رنگ بھرسکیں گے، کیا وہ  نئے دشمن اور نئے دوست بنا پائیں گے اور کیا وہ ان وحشتناک جنگوں کا خاتمہ کرسکیں گے۔ چین، بھارت ،ایران اور ترکی کے تئیں ان کا کیا رخ ہوگاـ ؟ حالانکہ امریکہ یا کسی بھی ملک میں اقتدار کے بدلنے سے کلیدی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں آتی، البتہ  لیڈر کی  اپروچ اور مزاج کی وجہ سے طریقہ کار ضرور بدل جاتا ہے۔  ـٹرمپ سے بہت زیادہ انقلابی فیصلوں کی امید کرنا قبل از وقت ہوگا ـیہ وہی ٹرمپ ہیں جو اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے اٹھاکر یروشلم لے گئے تھے، انہوں نے ہی کئی عرب ملکوں کے اسرائیل سے تعلقات استوار کروائے اور اس کو تسلیم کروایا تھا۔  ابراہم معاہدہ کو بھی نافذ کروایا۔ (بائیڈن کی حسرت رہ گئی کہ وہ جانے سے پہلے سعودی ،اسرائیل کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کرادیتے )اور یہی وہ ٹرمپ ہیں، جنھوں نے افغانستان سے امریکی افواج واپس بلالیں، وہ ایسے امریکی صدر رہے جو جانی دشمن شمالی کوریا سے بھی ہاتھ ملا آئے۔  وہ چونکانے والے فیصلوں کے لئے جانے جاتے ہیں ـ

ـوہ دنیا پر چودھراہٹ کے بجائے امریکہ فرسٹ پر یقین رکھتے ہیں ایک سرمایہ کار  سیاستداں کی طرح پائی پائی گنتے ہیں اور جنگوں میں پھنسنا نہیں چاہتےہیں۔ اس لئے ان کے انتخاب پر  دنیا میں ملے جلے جذبات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ ان کا تعلق سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ  وہ یہ ایک ایسا شخص ہے جو ڈپلومیسی کی زبان میں بات نہیں کرتا، اسے سیاسی منافقت نہیں آتی، ایک عیاش طبع، کاروباری سیاست داں، امریکی عدالتوں سے سزا یافتہ ،مسلمانوں کے خلاف سخت فیصلوں کے لئے بدنام ،امریکی مسلم ووٹروں کے لئے ایک بالجبر  چوائس بن گیا تھا۔

مسلم اور عرب ووٹروں کا رول

آگے بڑھنے سے پہلے یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ ٹرمپ کی جیت میں عربوں اور مسلم ووٹروں کا کلیدی رول رہا ہے۔ چار  نومبر کو یعنی ووٹنگ سے ایک دن پہلے، ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا تھا کہ ’ہم امریکی سیاست کی تاریخ کا سب سے بڑا اتحاد بنا رہے ہیں۔ مشیگن کے عرب اورمسلم ووٹرز ہمارے ساتھ ہیں کیونکہ وہ امن چاہتے ہیں۔‘ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ’مُسلم کمیونٹی یہ بات جانتی ہے کہ کملا ہیرس اور اُن کی جنگ پسند کابینہ مشرق وسطیٰ پر حملہ کر کے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کر دے گی اور تیسری عالمی جنگ کا آغاز کر دے گی۔‘آخر میں انھوں نے اپیل کی ’ٹرمپ کو ووٹ دیں اور امن کو بحال کریں۔‘ انہوں نے مسلمانوں کی دکھتی نس پر ہاتھ رکھ دیا تھا، جسے بائیڈن اینڈ کمپنی نے زخمی کردیا تھا۔ ـمشیگن ایک ایسی ریاست ہے جہاں عرب اور مسلم ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ اگرچہ 15 الیکٹورل ووٹ رکھنے والی اس بڑی ریاست میں مقابلہ سخت تھا لیکن یہاں سے فتح ٹرمپ کی ہوئی جو ظاہر کرتی ہے کہ اپنے بیانات اور وعدوں کی مدد سے ٹرمپ یہاں کے ووٹرز کو قائل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

صدارتی انتخاب سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیئربورن نامی علاقے میں ایک حلال کیفے کا دورہ بھی کیا تھا۔ اِس علاقے کو امریکہ کا ’عرب دارالحکومت‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ عرب کمیونٹی کا مضبوط گڑھ ہے۔ جارجیا اور پنسلوانیا جیسی سوئنگ ریاستوں بہت اہم رول رہا جہاں مسلم ووٹروں کی بڑی تعداد نے ٹرمپ کے حق میں ووٹ دیا،  یہ جانتے ہوئے بھی کہ ماضی میں ان کا اسرائیل کے تئیں پیار چھپا نہیں تھا۔  وجہ یہ رہی کہ غزہ اور لبنان پر اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں امریکہ میں بسنے والی مسلم کمیونٹی ڈیموکریٹک پارٹی سے ناراض تھی۔ امریکہ کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک امریکہ اسرائیل کو تقریباً 18 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کر چکا ہے۔

مبصرین کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز کے بعد امریکہ جس طرح اسرائیل کی مسلسل مدد کر رہا ہے، اس کی وجہ سے امریکہ میں رہنے والے مسلمان ووٹرز میں ناراضگی پائی جاتی تھی، جسے ٹرمپ نے اپنے حق میں استعمال کیا۔ دیکھنا ہوگا اب وہ ان سے وابستہ توقعات کو پورا کریں گے یا نہیں ؟

سوال یہ بھی ہے کہ وہ سفارتی محاذ پر کیا گل کھلائیں گے؟۔  چین، روس، یوکرین غزہ ،ایران اور بھارت جیسے ملکوں  کے ساتھ ان کا  کیا رویہ ہوگا، مشرق وسطی میں وہ کونسی بساط بچھائیں گے اس لئے بھی کہ وہ گریٹر اسرائیل منصوبہ کے حامی رہے ہیں۔ ـنیٹو میں رہیں گے یا نہیں، یورپ کے ساتھ کیا سلوک کریں گے وغیرہ۔

انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی اور پرانی جنگیں ختم کرنے کے اعلان نے یورپ میں یوکرین کی جنگ کے حوالے سے تشویش پیدا کردی ہے۔اس حوالے سے یورپی میڈیا میں شائع مختلف رہنماؤں کے بیانات کی روشنی میں میڈیا نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت جو بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ یوکرین جنگ کے حوالے سے کلین بریک کی نشاندہی کرتی ہے، جبکہ بائیڈن 2022 میں روسی حملے کے بعد سے یوکرین کی حمایت میں اٹل رہے ہیں۔

یورپی میڈیا کے مطابق نیٹو کے کئی یورپی ممالک نے ٹرمپ کے امریکا کا اگلا صدر بننے کے نتائج پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وہ یورپی براعظم کی سلامتی کے لیے امریکی کمٹمنٹ اور یوکرین کےلیے امریکی فوجی حمایت کے خاتمے سے خوفزدہ ہیں۔وہ صاف کہہ چکے ہیں کہ یورپ برابر کا حصہ ڈالے امریکہ مزید بے وقوف بننے کوتیار نہیں ہے۔ ٹرمپ نے تو نیٹو سے نکلنے کی بھی دھمکی دی ہے وہ پوٹن کے گہرے دوست ہیں مگر کیا پوٹن جنگ بندی میں گھاٹے کا سودا کریں گے۔ کمزور ملک شرطیں رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا جبکہ یوکرین کا سارا انحصار ہی امریکہ پر ہے۔ یہ خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیانات میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور انہیں اربوں ڈالر کی امریکی فوجی امداد حاصل کرنے کےلیے “دنیا کا سب سے بڑا سیلز مین” قرار دیا تھا۔ اسی بیان کی روشنی میں خدشہ ہے کہ ٹرمپ اس فنڈنگ کو کم کرنے یا روکنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں، جس سے یوکرین پہلے سے کہیں زیادہ مشکل صورتحال میں پڑجائے گا۔روس اس کے کئی علاقوں پر قابض ہے وہ انہیں چھوڑے گا نہیں اس لئے جنگ بندی کرانا یا جنگ کا خاتمہ اتنا آسان نہیں ہے۔ یہ ٹرمپ کے لئے  سخت مشکل  پرچہ ہے۔

جہاں تک چین سے تعلقات کا معاملہ ہے پانی کافی بہہ چکا ہے،  اس کے کئی منصوبے ایشیائی ممالک میں چل رہے ہیں، سارک ممالک پر سوائے بھارت کے اس کا دبدبہ ہے۔ اب چین روس کا تزویراتی پارٹنر ہے ،یوکرین جنگ کا ساتھی، وہیں مشرق وسطی میں اس کے نئے دوست بنے ہیں۔ وہ طالبان سرکار کا سب سے مضبوط اتحادی ہے، ہاں اکنامی مورچہ پر امریکہ اس کے لئے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے ایکسپورٹ پر ٹیکس ڈیوٹی میں یقیناً اضافہ ہوگا ـتاکہ اس کی مارکیٹ تک پہنچ کو مشکل کیا جاسکے۔ روس کو گھیرنے کے لئے بائیڈن نے چین کے تئیں رویہ میں نرمی پیدا کی تھی، ٹرمپ اس پر یوٹرن لے سکتے ہیں۔

اسی طرح ایران کو سخت حالات کے لئے تیار رہنا چاہیے۔  ٹرمپ اس کے جانی دشمن ہیں، حال ہی میں انہوں نے اسرائیل کو اکسایا تھا کہ وہ جہاں چاہے ایران پر حملہ کرے، اس کی جوہری تنصیبات ہوں یا تیل کے ذخا ہر ، سب کچھ  ملیامیٹ کردے۔ـٹرمپ  مڈل ایسٹ میں ایران کے رنگ آف فائر یعنی حماس ،حزب اللہ ،حوثی ،عراقی ملیشیا اور شام میں بشار کی حکومت کے سخت خلاف ہیں جبکہ یہ حقیقت ہے کہ روس اور چین حماس کے نمائندوں اور رہنماؤں کو اپنے یہاں بات چیت کے لئے بلاتے ہیں اور اان مزاحمتی  گروپوں کو ایران کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ ان مزاحمتی گروہوں نے اسرائیل سمیت امریکہ، یورپ اور عرب حکمرانوں کی سانسیں پھلادی ہیں ۔ ـیہ بھی ممکن ہے کہ اس بار ایران پر ہر ممکنہ اسرائیلی حملہ میں امریکہ بھی نظر آئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایران نے کہا ہے کہ امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی سے  اسرائیل کےے حملہ نہیں رکیں گے اور ہم ہر اقدام کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن  یاد رہنا چاہیے کہ ایران ہتھیاروں کے معاملہ میں بڑی حدتک خودکفیل ہے اور عرب حکومتوں کی خواہش کے باوجود اسرائیل ایران کو خوفزدہ کرنے میں ناکام رہاہے۔

تجزیہ کار ابھینو گوئل  بی بی سی کے لئے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ” ٹرمپ کے دوسرے دورِ اقتدار میں شاید اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نتن یاہو کو حماس، حزب اللہ اور ایران کے خلاف کارروائیاں کرنے میں زیادہ چھوٹ حاصل ہو گی۔ ایسے میں ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملہ بھی خارج ازامکان نہیں قرار دیا جا سکتا۔‘ٹرمپ کے دورِ حکومت میں امریکہ نے خود کو ایران سے متعلق جوہری معاہدے سے الگ کر لیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ معاہدہ سنہ 2015 میں یعنی براک اوباما کے دور میں ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران پر سے جوہری پروگرام کو روکنے کے بدلے میں سخت پابندیاں ہٹا دی گئی تھیں۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے سابقہ دورِ حکومت میں یہ معاہدہ ختم کر کے ایران پر ایک مرتبہ پھر بڑے پیمانے پر پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں”سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ روس اور چین کے ساتھ ایران کے اسٹریٹجک تعلقات کو نظر انداز کردے گا۔ انتخاب کے دوران ٹرمپ پر قاتلانہ حملے اور  ان کو ہرانے کے لئے ہیکنگ کا الزام ایران پرلگایاگیا تھا، ـٹرمپ انتقامی مزاج رکھتے ہیں اور ایران ان کے نشانے پر رہ سکتا ہے۔

اب آتے ہیں بھارت کی طرف جہاں کوئی ٹرمپ کے لئے ہون کررہا تھا تو کوئی کاملا ہیرس کے لئے یگیہ کرارہا تھا۔ مودی کے ‘جگری’ دوست کی کامیابی پر الیکٹرانک میڈیا نے جس طرح جشن منایا اور ان کی جیت کا کریڈٹ مودی کو دیا وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ سنجیدہ دانشوروں کا کہنا ہے کہ چین کے معاملہ پر دہشت گردی، دراندازی،آرمس ڈیل، ٹیکنالوجی ٹرانسفراور کینیڈا وخالصتان پر امریکہ سے شراکت ہوسکتی ہے مگرایچ آئی بی ویزا،غیرمقیم بھارتیوں کی سیکورٹی اور امریکی پروڈکٹس پر لگنے والے ٹیرف پر ٹکراؤ کے پورے آثار ہیں۔

کیا مشرق وسطی میں جنگ رکے گی؟

سوملین ڈالر کا  سوال یہی ہے کہ جنگ ختم کرانے کے وعدے کو ٹرمپ کس طرح نبھائیں گے ؟ اپنے لاڈلے کوکن شرطوں پر راضی کریں گے اور دوسرے فریقوں کو کیا مراعات دلاسکیں گے؟ جبکہ اس کے سب سے بڑے حلیف سعودی عرب نے جو پوری لڑائی میں کھوکھلے بیانات کے علاؤہ تماشائی رہا ہے اپنی عزت بچانے اور فیس سیونگ کے لئے ہی سہی  ایک پوزیشن لے چکا ہے کہ دوریاستی حل کے بغیر  اسرائیل سے امن معاہدہ نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ سات اکتوبر کے حملے نے امریکہ اور سعودی کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا تھا اس لئے عرب، اسرائیل،امریکہ حماس کا خاتمہ چاہتے ہیں سب نے  اسرائیل کو فری ہینڈ دے رکھا ہے۔ـ

1967 میں پہلی فوجی کامیابی کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع موشے دایان نے نہایت غرور کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ ”اب ہم ایک سلطنت ہیں“ مگر 57 سال بعد بھی اسرائیل امن حاصل کرنے میں ناکام رہا کیونکہ اس نے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے سے بارہا انکار کیا۔پچھلے 12 مہینوں میں اسرائیلی فوج نے جن 42,000 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا، اُن میں 17,000 سے زیادہ خواتین و بچے، 287 امدادی کارکنان، 138 صحافی اور میڈیا ورکرز بھی شامل ہیں، اموات میں اُن لوگوں کا شمار نہیں کیا گیا، جو غزہ کی اُن دو تہائی عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جنہیں فضائی حملوں سے تباہ کر دیا گیا۔ انسانی المیوں کا یہ صرف ایک ورق ہے،لبنان میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیل یہی اسٹریٹجی اپنارہا ہے۔   بمباری اس کا کارگر ہتھیار ہے

اکثریتی ممالک کا ماننا ہے کہ امن معاہدہ ہی مستقبل کا واحد راستہ ہے۔ یہ ایک ایسا خیال ہے جس کی حمایت ہیو لوواٹ بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’اگر کوئی حماس کو پسماندہ اور کمزور کرنا چاہتا ہے تو ایسا کرنے کا واحد راستہ ایک اہم سیاسی حل پر پہنچنا ہے۔‘

تاہم اسرائیل کی موجودہ حکومت فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کے لیے پرعزم نظر آتی ہے اور کسی بھی ایسے راستے کو مسترد کرتی ہے جو حماس کے خاتمے کی جانب نہ  جا رہا ہو۔

اسرائیل حماس کو ختم کرنے کے اپنے ارادے کو چھپا کر نہیں رکھتا۔ لیکن ماضی کے تجربات یہ دکھاتے ہیں کہ ایسا کرنا اس کے لئے مشکل ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حماس ’صرف ایک فوجی تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی یہ صرف ایک سیاسی تحریک ہے۔ یہ ایک نظریہ ہے اور اس نظریے کا خاتمہ مشکل ہے، خاص طور پر اسرائیلی ہتھیاروں کے زور سے۔‘

ٹرمپ کے سیاسی مشیر رہ چکے جان بولٹن کا امریکی قیادت کو مشورہ ہے کہ حماس کے خاتمہ کے بعد غزہ کے لوگوں کا انسانی مستقبل یہ ہوگا کہ انہیں ایسے ملکوں میں آباد کیاجائے جہاں ان کے بچوں کو معمول کا مستقبل مل سکے۔ اس کایہ بھی کہنا  کہ”خلیجی عرب ریاستوں اور دیگر ممالک کو غور کرنا ہوگا کہ لبنان اور غزہ کے لئے حزب اللہ اور حماس کے بغیر مستقبل کیا ہوگا ؟جو ناقابل تصور تھا وہ اب ممکن نظر آرہا ہے”کیا جنگ روکنے کے لئے یہ بساط بچھائی جارہی ہے ؟حالیہ تنازع میں امریکہ  کا  کردار سب سے گھناؤنا اور مجرمانہ ہے۔ وہ اسرائیل کے علاؤہ دیگر فریقوں کو تحمل کا مشورہ دیتا ہے، جس کا مقصد اسرائیل کا تحفظ اور نیتن  یاہو کوفلسطینیوں اور مشرق وسطی  کے دیگر پڑوسیوں کے خلاف تمام میدانوں میں من مانی کرنے کے لئے مزید مہلت اور مواقع فراہم کرنا ہے۔ وہ اسے ہتھیار،  گولہ بارود اور ان ٹیلیجنس معلومات فراہم کرتا ہے۔ اس کے لئےنسل کشی قابل قبول عمل ہے۔  سیاسی قتل کو  امریکہ نےسفارتی سند دے رکھی ہے۔ ـمعروف صحافی تھامس فریڈمین نے لکھا ہے کہ امریکہ اس خطہ میں اپنی ساکھ کھوچکا ہے۔

امن کا نیا سورج حماس اور حزب اللہ  کی کرنوں کے بغیر طلوع کرنے  کا ماحول بنایا جارہا ہے۔ اسرائیل وامریکہ اس پر ہم خیال ہیں کہ ایران کو مزاحمتی محوروں  کی مدد سے نہ روکا گیا تو یہ “خطرات “سر اٹھاتے رہیں گےـ۔ اسرائیل ایسا ملک ہے جس کے لئے بین اقوامی قانون معاہدے، عدالتیں ،اخلاقی حدودوقیود، اقوام متحدہ سب بے معنی ہیں، یہودی لابی اور میڈیا کی پشت پناہی سونے پہ سہاگہ۔   تو سوال یہی ہے کہ کیا ٹرمپ اپنی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جاسکتے ہیں ؟کیا طاقتور یہودی لابی سے ٹکرانے کی ہمت دکھائیں گے

مشرق وسطیٰ کی جدید تاریخ بنیادی طور پر امن کی ناکام کوششوں کی تاریخ بن چکی ہے۔اکتوبر سنہ 2023 کے بعد اسرائیل غزہ جنگ نے مشرق وسطیٰ کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے اور اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ وہ کام کر پائیں گے جس کی بہت سے لوگ اور ان کے ووٹرز اُن سے توقع لگائے بیٹھے ہیں۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.