اگرچہ یہ بات عجیب لگتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ ملک جو اپنے آپ کو قانون کا محافظ کہتا ہے اور قانون کی بنیاد پر اپنے نظم زندگی کو سنوارتا ہے اسی کے عوام نے ایک ایسے قانون شکن کو قانون کا محافظ مقرر کردیا جس کو امریکی عدالت نے مجرم قرار دیا ہے۔ یعنی ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے 47 ویں صدر منتخب ہو گئے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی ریپبلکن پارٹی کو سینٹ میں اکثریت حاصل بھی ہوگئی اور ہاؤس میں ان کے ممبران کی تعداد ڈیموکریٹک پارٹی سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ سب کچھ توقع سے بہت زیادہ ہے۔ گرچہ دعوی یہی کیا جا رہا تھا کہ ٹرمپ اس الیکشن کو باآسانی جیت لیں گے لیکن حقیقت یہ تھی کہ آخری چند دنوں تک یہ بات بالکل واضح نہیں تھی کہ کون اس انتخابی مہم میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر امریکی عوام کے اعتماد کو حاصل کر سکے گا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کو یقین تھا کہ اس کو اکثریت ملے گی اور الیکٹرول کالج کی اہمیت والی ریاستوں میں وہ کامیاب ہوگی۔ اس کو یقین تھا کہ جارجیا، ایریزونا، نیواڈا، پنسلوانیا، مشی گن، وسکونسن اور شمالی کیرولینا میں اس کو یقینا کامیابی حاصل ہوگی لیکن انہی ریاستوں میں بازی پلٹ گئی اور جب بازی پلٹی تو ایسی پلٹی کی ڈیموکریٹ پارٹی کو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اب ظاہر بات ہے کہ ٹرمپ جس انداز سے اپنی حکومت چلائیں گے اور معیشت اور سماجی ایجنڈے کو لے کر چلیں گے اس کے اثرات صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک پر بھی پڑیں گے- سماجی اور اخلاقی مسائل پر بھی امریکہ ایک ‘نئے انقلاب’ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگلے چار سال امریکہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے سنسنی خیز ثابت ہوں گے۔
جن امور و مسائل پر ریپبلکن پارٹی نے یہ انتخاب لڑا اور اپنے ووٹروں کو منظم کیا اس میں معیشت، بیرون ملک سے آنے والے مہاجرین، تعلیم اور اخلاقیات پر خاصہ زور تھا۔ انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے اس ایجنڈے کو چیلنج کیا جس نے بہت سے ایسے مسائل پیدا کر دیے جو امریکی قدامت پرست اور امریکی روایت کو ماننے والوں نے مسترد کردیا۔
معیشت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ مہنگائی نے نہ معلوم کتنے خاندانوں کو تباہ کر دیا تھا اور حالات سنبھل نہیں رہے تھے۔ باوجود اس کے کہ کوشش بہت کی گئی کہ شرح سود میں کچھ کمی بیشی کرکےمعیشت کو بہتر کیا جائے لیکن اس میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور یقینی طور سے ریپبلکن پارٹی نے اس کو ایک اہم مسئلہ بنایا اور یہ یقین دلایا کہ صدر ٹرمپ کے دور میں مہنگائی پر نہ صرف قابو پایا جائے گا بلکہ امریکہ کو اقتصادی طور سے آگے بڑھانے کے سلسلے میں بھی اقدامات کیے جائیں گے۔
لیکن وہ مسئلہ جس نے عوام کی اکثریت کو صدر ٹرمپ کے ساتھ جوڑا وہ غیر قانونی طور سے ملک میں موجود مہاجرین کا مسئلہ ہے۔ امریکی معاشرے میں رہنے والے تقریبا 11 ملین ایسے افراد ہیں جو غیر قانونی طور پر اس ملک میں داخل ہوئے ہیں۔ یقینا وہ امریکہ کی اقتصادیات اور معیشت پہ خاصہ اثر ڈالتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ ملک میں اس قسم کے غیر قانونی داخلہ پر خاصہ غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔ ٹرمپ نے اس کو ایک بنیادی مسئلہ بنا کرپیش کیا اور عوام کی اکثریت نے اسی کی تائید میں اپنا ووٹ ڈالا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں جتنے بھی سنگین ترین اقدامات کر سکتے ہیں، کریں۔
اس انتخابی مہم میں خارجہ پالیسی کوئی اہم ایشو نہیں بن سکی۔ اگرچہ یوکرین اور غزہ کا مسئلہ خاصا اہم تھا لیکن صرف چار فیصد افراد نے ان مسائل پر اپنی دلچسپی دکھائی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکی سیاست میں پہلی مرتبہ فلسطین کے مسئلے پر ایک متبادل نظریہ سامنے آیا۔ صیہونی قوتیں اپنے اثرات کی بنیاد پر امریکہ کی خارجہ پالیسی پر خاصہ اثر ڈالتی ہیں ۔اسرائیل کو ملنے والی امداد کا دارومدار اس لابی کی کوششوں پر مبنی ہے۔ لیکن پہلی مرتبہ امریکی عوام کو یہ متبادل نظریہ بھی سننے کو ملا کہ امریکی ٹیکس انسانی حقوق کی پامالی کے لیے استعمال نہ کیے جائیں۔ دیگر ریاستوں میں ووٹروں کی خاصی تعداد جن میں مسلمان بڑی تعداد میں شامل تھے نے نہ ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیا نہ ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ انہوں نے تیسرے امیدوار یا تیسری پارٹی کو اپنا امیدوار چنا ۔ کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ غزہ میں جاری نسل کشی میں امریکہ کو ساتھ نہیں دینا چاہیے اور اسرائیل کو مشرق وسطی کو نیست و نابود کرنے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔ اگرچہ ایسے افراد کی تعداد کم تھی لیکن بہرحال یہ آواز اٹھی اور اس کے اثرات خاص طور سے ان جگہوں پر پڑے جہاں دونوں پارٹیوں میں سخت مقابلہ تھا۔
ٹرمپ نے مشرق وسطی میں جنگوں کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے ایک نئی امید بندھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جنگ نہیں چاہتے بلکہ وہ ان جنگوں کو رکوائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ امن کی بات کریں گے۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے مشی گن کے مسلمانوں سے ملاقات کی۔ یہ واحد صدارتی امیدوار تھے جنہوں نے مسلمانوں اور ان کے ووٹوں کی اہمیت کو سمجھا اور ان پر توجہ دی۔ انہوں نے مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی اور اپنی عوامی تقریر میں اس بات کا اظہار کیا کہ مسلمان اس ملک کے اتنے ہی وفادار ہیں جس طرح سے دوسرے شہری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان اسی طرح امن چاہتے ہیں جس طرح دوسرے شہری چاہتے ہیں ۔ مسلمانوں کو اس ملک کی معیشت کو بہتر بنانے سے دلچسپی ہے ۔ یہ ایک بہت اہم پیغام تھا جس نے مسلمانوں کے تعلق سے ایک نئی تصویر پیش کی۔
اس کے بر خلاف جب کچھ مسلمانوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے عوامی سطح پہ ان سے ملنے سے انکار کر دیا ۔انہوں نے خفیہ ملاقاتوں کے ذریعے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ اس مسئلے پر توجہ دیں گی اور مسلمانوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوتی ہیں، اس کے سلسلے میں وہ انصاف کریں گی۔ لیکن عوامی سطح پر جب مسلمان ان کی مجلسوں میں جانے لگے تو ان کو ان مجلسوں سے نکال دیا گیا ۔ یہی وجہ تھی کہ مشی گن میں خاصی تعداد مسلمانوں کی جو مشی گن میں تھی، جو وسکونسن میں تھی، پنسلوانیا میں تھی اس نے ڈیموکریٹ پارٹی کو چھوڑ دیا۔
ٹرمپ اب کس طرح سے اپنی پالیسیوں پر عمل کرتے ہیں یہ واضح نہیں ہے ۔ لیکن یقینی طور سے وہ جو بھی بات کریں گے وہ متنازع بات ہوگی۔ ڈیموکریٹک پارٹی اپنی اس شرمناک شکست کو آسانی سے قبول نہیں کرے گی۔ وہ چار سالوں میں یقینی طور سے ان مسائل کو اٹھانے کی کوشش کرے گی جس کی بنیاد پر وہ اپنے وجود کو برقرار رکھ سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دفعہ ڈیموکریٹک پارٹی کو یہ احساس ہوا ہے کہ اس کا جو دعوی تھا کہ وہ غریبوں اور مہاجرین کی پارٹی ہے، وہ انصاف پسندوں کا ساتھ دیتی ہے اور انسانی حقوق کی پامالی کرنے والوں کے خلاف کھڑی ہوتی ہے، یہ سارے دعوے بے معنی اور بے بنیاد ثابت ہوئے اور اسی پر عوام نے اس کو اگلے چار سال تک طاقت کے ہر محاذ سے بے دخل کر دیا ہے۔