عادل فراز
چابہارریل معاہدے سے ہندوستان کا اخراج ہماری خارجہ پالیسی کی بڑی ناکامی ہے۔ ایران نے کہاہے کہ ہندوستان کی جانب سے طے شدہ فنڈ مہیا نہ کرائے جانے کی صورت میں یہ فیصلہ لیا گیاہے مگر اس کے علاوہ بھی اس فیصلے کی بہت سی وجوہات ہیں جن پر غور کرنا نہایت ضرورتی ہے۔ چابہار معاہدے کو ہندوستان اور ایران کے دیرینہ تعلقات کے تناظر میں بہت اہم مانا جارہا تھا مگر موجودہ سرکار کی امریکہ و اسرائیل نوازی نے اس معاہدے کو سرسبز نہیں ہونے دیا۔ تجزیہ نگاروں کا مانناہے کہ ایران نے یہ قدم چین کے کہنے پر اٹھایاہے جبکہ ایران چین کی مداخلت سے صاف انکار کررہاہے۔ ایران اور چین کے مابین جیسے ہی 25 سالوں کے لئے اسٹریجٹک،مواصلاتی اور تجارتی معاہدہ عمل میں آیا،اس کے فوراََ بعد ایران نے چابہار معاہدے سے ہندوستان کو باہر کرکے اپنےعزائم ظاہر کردئے۔کچھ بھی ہو لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ ہندوستان اور چین کا موجودہ سرحدی تنازعہ اور ہندوستان کی ایران سے تجارتی دوری نے چابہار معاہدے کو متاثر کیاہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہندوستان تجارتی تعلقات کی بہتری میں سردمہری کا مظاہرہ کرتا رہے اور ایران اس کے ساتھ خوش آئند تعلقات کے لئے اپنے داخلی اور علاقائی مفادات کو نظر انداز کردے۔
اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ ایران نے چین کے دبائو میں ہندوستان کو اس معاہدے سے باہر کیاہے تو سوال یہ پیدا ہوگا کہ آخر ایران نے اپنے دیرینہ دوست ہندوستان کے ساتھ یہ رویہ کیوں اختیار کیا؟ نریندر مودی کےاقتدار میں آنے سے پہلے ہندوستان مشر ق وسطیٰ کے تقریباََ تمام اہم ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی بحالی کے لئے ہر ممکن تعاون دے رہا تھا۔ روس، ایران، افغانستان، سعودی عرب اور دیگر اہم ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات بہتر تھے۔ مشرق وسطیٰ میں ہندوستان سب سے زیادہ روس کے ساتھ تجارت کررہا تھا بلکہ عالمی سطح پرہندوستان کے سب سے اچھے دوستوں میں روس کا شمار ہوتا تھا۔ مگر نریندر مودی کی سرکار آنے کے بعد جس تیزی کے ساتھ ہماری خارجہ پالیسی میں تبدیلی رونما ہوئی، اسی تیزی کے ساتھ ہمارے دیرینہ دوستوں کے ساتھ تعلقات بدتر ہوتے گئے۔ ہندوستان اپنے نئے نویلے دوست امریکہ اور اسرائیل کی دوستی میں اپنے تمام تر دیرینہ دوستوں کو بھلا بیٹھا۔ چین سے سرحدی تنازعہ نئی بات نہیں ہے۔ کانگریس کے دور اقتدار میں بھی یہ تنازعات رونما ہوتے رہے ہیں مگر کانگریس نے اپنی دوراندیشی سے ان تمام مسائل کو حل کیا۔مگر موجودہ صورتحال یہ ہے کہ آئے دن نئے نئے سرحدی مسائل پیدا ہورہے ہیں اور سرکار انہیں حل کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ چین پر دبائو ڈالنے کے لئے وزیر خارجہ راج ناتھ سنگھ روس کے دورے پر گئے تاکہ روس کے ساتھ دوستی کی تجدید کی جائے۔ چین اور روس ایران کے اچھے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں لہذا جب چین نے یہ دیکھاکہ ہندوستان روس کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی فکر میں ہے تو اس نے ایران اور پاکستان کے ساتھ مزید تعلقات کو فروغ دینے کا عزم کرلیا۔پاکستان میں چین مختلف شعبہ ہائے زندگی میں سرمایہ کاری کررہاہے۔پاکستان میں گوادربندر گاہ کی تعمیر و تشکیل میں چین نے بڑا سرمایہ صرف کیا ہے۔
ہندوستان ایران کے ساتھ چابہار ریلوے پروجیکٹ کی تعمیر میں شامل تھا مگر فنڈمہیا نہ کرانے اور دوستانہ تعلقات میں سردمہری نے اس معاہدے کو ختم کردیا۔چونکہ ہندوستان نے امریکی دبائو میں ایران سے تیل اور دیگر اشیاء کی تجارت تقریباََ ختم کردی تھی لہذا ایران نے بھی اس کے ساتھ تعلقات میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔ نتیجہ یہ ہواکہ ہندوستان جو چابہار ریلوے لائن کے ذریعہ اپنی تجارت کے فروغ کے خواب بُن رہا تھا وہ چکنا چور ہوگئے۔ اس کا براہ راست اثر ہماری معیشت پر ہوگا۔ امریکہ اور اسرائیل کی دوستی میں ہم نے اپنے بہترین دوست تو گنوادیے ہیں، ساتھ ہی ان کی دوستی کا ہمیں ظاہری طورپر کوئی فائدہ بھی نظر نہیں آرہاہے۔ مہنگائی دن بہ دن بڑھ رہی ہے اوراقتصادیات کا ڈھانچہ روز بروز رتباہی کی طرف جارہاہے۔ اس کے باوجود ہماری سرکار کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے یہ حیرت ناک ہے۔
سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی کے دور حکومت میں ہندوستان و ایران کے درمیان چابہار بندرگاہ کی تعمیر وتشکیل کے لئے معاہدہ عمل میں آیا تھا۔ چار سال قبل ایران اور ہندوستان کے درمیان افغانستان کی سرحد پر چابہار سے زاہدان تک ریلوے لائن بچھانے کا معاہدہ ہوا تھا۔ اب ایران نے ہندوستان کے بغیر اس منصوبے کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر کام بھی شروع کر دیا ہے۔اس بندر گاہ سے تجارتی معاملات کے آغاز کے ساتھ پوری دنیا پر اس کے اثرات مرتب ہوتے۔ مگر اب صورتحال بالکل بدل گئی ہے۔ چین نے ایران میںسرمایہ کاری کے لئے مختلف معاہدے کئے ہیں جن کا اثرعالمی سطح پر مرتب ہوگا۔ اس کا فائدہ ایران کے مقابلے میں چین کو زیادہ ہوگا۔ چین ایران سے سستے نرخ پرتیل اور گیس حاصل کرسکے گے۔ حاصل معلومات کے مطابق ایران کی تیل و گیس کی صنعت میں چین 280 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔چینی فریق ایران میں پیداواری اور نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے بھی 120 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ایران آئندہ 25 سالوں تک چین کو باقاعدہ طور پر انتہائی سستی قیمتوں پر خام تیل اور گیس فراہم کرے گا۔ایران میں 5 جی ٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں چین مدد کرے گا۔چین بڑے پیمانے پر بینکاری، ٹیلی مواصلات، بندرگاہوں، ریلوے اور دیگر درجنوں ایرانی منصوبوں میں اپنی شراکت میں اضافہ کرے گا۔دونوں ممالک باہمی تعاون کے تحت مشترکہ فوجی مشقیں اور ریسرچ کریں گے۔چین اور ایران دفاعی معاملات میں بھی مشترکہ طورپر کام کریں گے اور اینٹلی جنس معلومات بھی ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کی جائیں گی۔ قابل غور اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ایرانی عوام چین کے ساتھ ہورہے اس معاہدےسے ناخوش ہے کیونکہ وہ چین کو مشرق وسطیٰ کا بڑا ’استعمار‘ تصور کرتی ہے۔ عوام کے مطابق اس معاہدے کے بعد ایران میں ’چینی استعماریت‘ کا آغاز ہوجائے گا۔مگر سیاسی و اقتصادی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ چین کے ساتھ اس معاہدے کے بعد مغربی ممالک کا رویہ ایران کے ساتھ نرم ہوگا۔ ایرانی وزارت خارجہ نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیاہے کہ چین اور ایران کے درمیان اس معاہدے کے بعد عالمی طاقتوں کی بالادستی اور دبائو ختم ہوجائے گا۔
چابہار معاہدے سے ہندوستان کا اخراج ہماری خارجہ پالیسی کی واضح ناکامی ہے۔ ہمیں امریکہ اور اسرائیل کی دوستی میں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہماری معیشت کادارومدار مشرق وسطیٰ کے دوست ممالک پر ہے۔ اگر ہم اس دوستی کو امریکہ و اسرائیل نوازی میں قربان کردیں گے تو اس کا خمیازہ ہمارے ملک کو بھگتنا پڑے گا۔ استعمار کبھی کسی کا سچا دوست نہیں رہاہے۔ وہ ہمیشہ اپنے فائدے کو پیش نظر رکھتاہے۔ آج ایران پر اقتصادی دبائو ڈالنے کے لئے وہ ہندوستان کا استعمال کررہاہے مگر کل جب ایران کے اقتصادی حالات بہتر ہوجائیں گے تو استعمار بھی ہندوستان سے نظریں پھیر لے گا۔ اس وقت ہندوستان کے لئےایران سے نظریں ملانا آسان نہیں ہوگا۔ہندوستان کو چاہئے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرے اور اپنے دیرینہ دوستوں کے ساتھ تجدید تعلقات کرے۔